دفتر ششم: حکایت: 141
آمدنِ برادرِ میانہ بجنازہ ایں برادر کہ کوچک رنجور بود، و نواختنِ بادشاہ او را، و صد ہزار غنائم غیبی و عینی بدو رسیدن از نظرِ شاہ
منجھلے بھائی کا اس بھائی کے جنازہ پر آنا کیونکہ چھوٹا (بھائی) بیمار تھا (اس لیے نہ آ سکا) اور بادشاہ کا اس کی عزت افزائی کرنا اور اس کو بادشاہ کی نظر (فیضِ اثر) سے لاکھوں غیبی اور ظاہری غنیمتیں میسر ہونا
1
کوچکیں رنجور بود و آں وَسَط
بر جنازۂ آں بزرگ آمد فقط
ترجمہ: چھوٹا (بھائی) بیمار تھا۔ (اس لیے بھائی کے جنازہ پر نہ آ سکا) اور فقط وہ منجھلا بھائی) اس بڑے (بھائی) کے جنازے پر حاضر ہوا۔
2
شاہ دیدش گفت قاصد کیں کیست
کہ ازاں بحر است و ایں ہم ماہی ست
ترجمہ: بادشاہ نے اس کو دیکھا، (اور باوجودیکہ از راہِ کشف جانتا تھا، تاہم) قصدًا (اور مصلحتًا) پوچھا کہ یہ کون ہے؟ (یعنی) کہ کیا یہ (بھی) اسی دریا سے ہے؟ (جیسے یہ مرنے والا تھا) اور یہ بھی (دریائے عشق کی) مچھلی ہے؟
مطلب: بادشاہ کے اس تجاہلِ عارفانہ میں مصلحت یہ تھی کہ اس کے کشف کا راز ظاہر نہ ہو، اور اس سوال کے جواب میں وہ یہ سننا چاہتا تھا کہ یہ بھی اپنے بڑے بھائی کی طرح آپ کا عاشق و محبّ ہے، تاکہ یہ بات اس کی نظرِ عنایت کی تمہید بن جائے۔
3
پس معرِّف گفت پُور آں پدر
ایں برادر زاں برادر خُرد تر
ترجمہ: تو تعارف کرانے والے نے کہا (یہ بھی) اس باپ کا بیٹا (ہے۔) یہ بھائی اس بھائی سے چھوٹا (ہے۔)
4
شہ نوازیدش کہ ہستی یادگار
کرد او را ہم بداں پرسش شکار
ترجمہ: بادشاہ نے اس پر نوازش فرمائی کہ تو (اپنے مرحوم بھائی کی) یادگار ہے۔ (اور بڑے بھائی کی طرح اس کو بھی) اس شفقت آمیز دریافتِ احوال سے (اپنا) گرویدہ بنا لیا۔
5
از نوازِشہائے آں شاہِ وحید
در تنِ خود غیرِ جاں جانے بدید
ترجمہ: اس نے اس بادشاہِ یکتا کی عنایات سے۔ اپنے جسم میں (موجودہ) جان کے علاوہ ایک اور جان (یعنی حیاتِ قلب بھی) دیکھی۔
6
در دلِ خود دید عالی غلغلہ
کہ نیابد صوفی آں در صد چلہ
ترجمہ: اس نے اپنے دل میں ایک عالی شان غلغلہ دیکھا۔ جس کو صوفی سو چِلّہ میں (بھی) نہ پائے۔ (جیسے کہ بعض اہلِ تصرف کی صحبت سے ہوتا ہے، گو ایسے انعکاس کو استقرار نہیں ہوتا، جب تک کہ خود مجاہدہ سے رسوخ حاصل نہ کرے، لیکن اسے آثار کا مشاہدہ بطورِ انعکاس ضرور ہوتا ہے۔ (کلید) )
7
در دلِ خود یافت عالی عالمے
کاں نیابد کس بصد خلوت ہمے
ترجمہ: اس نے اپنے دل میں (احوال و برکات کا) ایک عالی شان عالم دیکھا۔ جس کو کوئی سو خلوت میں (بھی) نہیں پا سکتا۔
8
عرصہ و دیوار و کوہ و سنگ تافت
پیش او چوں نارِ خنداں مے شگافت
ترجمہ: (ان انوارِ انعکاسیہ سے) میدان اور دیوار اور پہاڑ اور پتھر اس کے سامنے چمک اٹھے۔ اور یہ سب ایک کھلنے والے انار کی طرح پھٹے پڑتے تھے (یعنی ہر چیز حق کے صفات و کمالات کا مظہر نظر آتی تھی، اور اس سے واردات و معارف منکشف ہوتے تھے۔)
9
ذرّہ ذرّہ پیشِ او چوں آفتاب
دمبدم میکرد صد گُوں فتحیاب
ترجمہ: ایک ایک ذرہ اس کے سامنے آفتاب کی مانند ہوگیا۔ جو دم بدم سو طرح سے اس پر (علوم) کا دروازہ کھولتا تھا۔
10
باب گہ روزن شدے گاہے شعاع
خاک گہ گندم شدے و گاہ صاع
ترجمہ: (اور وہ علم کا) دروازہ کبھی (وہ) روشن دان بن جاتا (جس سے شعاع آتی ہے) اور (کبھی خود) شعاع (بن جاتا۔) خاک کبھی گیہوں ہو جاتی تھی (جو مقصود ہے،) اور کبھی صاع (یعنی پیمانہ جو مقصود کا ظرف ہے۔)
مطلب: پہلے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ کبھی تو وہ علم خود مشہود رہتا تھا، اور کبھی دوسرے علم کا مبدأِ انکشاف اور واسطۂ ظہور ہوجاتا، جس طرح ”روزن“ شعاع کے لیے واسطہ ہے۔ دوسرا مصرعہ پہلے مصرعہ کے مضمون کی مثال ہے، جس میں ”شعاع“ کے لیے گیہوں کی مثال اور ”روزن“ کے لیے صاع کی مثال پیش کی ہے۔
11
در نظرہا چرخ بس کہنہ و قدید
پیشِ چشمش ہر دمے خلقِ جدید
ترجمہ: (اس شہزادہ کی) نظروں میں (یہ ظاہری) آسمان بالکل پرانے اور خشک گوشت (معلوم ہوتے تھے۔) اس کی آنکھ کے سامنے ہر وقت ایک نئی مخلوق رہتی تھی۔ (یعنی وہ عجائباتِ ملکوت کی سیر میں کائناتِ ناسوتیہ کو بے قدر پاتا تھا۔)
12
روحِ زیبا چونکہ وا رست از جسد
از قضا بے شک چنیں چشمش رسد
ترجمہ: (اور یہ قاعدہ ہے کہ) روحِ لطیف جب مقتضیاتِ جسم سے چھوٹ جاتی ہے۔ تو حکمِ حق سے بے شک اس کو ایسی آنکھ مل جاتی ہے۔ (یعنی مجاہدہ و ریاضت سے جب خواہشاتِ جسمانیہ مغلوب ہو جاتی ہیں، تو کشف کی آنکھ روشن ہو جاتی ہے۔)
13
صد ہزاراں غیبت پیشش شد پدید
آنچہ چشمِ محرماں بیند بدید
ترجمہ: (اسی طرح) لاکھوں امورِ غیبیہ اس (شہزادہ) پر نمایاں ہو گئے۔ اور جو کچھ واقفانِ (اسرار) کی آنکھ دیکھتی ہے، اس نے دیکھا۔
14
آنچہ او اندر کتب بر خواندہ بود
چشم را در صورتِ آں برکشود
ترجمہ: اس (شہزادہ) نے جو کچھ کتابوں میں پڑھا تھا۔ آنکھ کو اس کی صورت (کے مشاہدہ) میں کشادہ کر دیا۔ (یعنی جو باتیں پہلے دلائل سے معلوم کی تھیں، وہ آنکھوں سے دیکھ لیں۔)
15
از غُبارِ موکبِ آں شاہِ نر
یافت او کل عزیزی در بصر
ترجمہ: (چین کے) اس سلطانِ اعظم کے لشکر کے غبار سے۔ اس نے (اپنی) آنکھ میں سرمۂِ عزیزی پایا۔
مطلب: شہزادہ کو بادشاہ کے ساتھ یہاں تک حسنِ عقیدت ہوگئی کہ خود بادشاہ کے ہی نہیں بلکہ اس کے لشکر کے قدموں کے غبار کو بھی اپنا سرمہ سمجھا۔ پھر ”ہر كہ خدمت کرد او مخدوم شد“ یہ حسنِ ارادت اس کے کمالاتِ باطن کا ذریعہ بن گیا۔ ”عزیزی“ کے لفظ میں یائے مصدری ہے یعنی ”عزیز شدن“ اور ”عزیز“ سے مراد صاحبِ باطن ہے۔
16
بر چنیں گلزار دامن مے کشید
جزو جزوش نعرہ زن ھَلْ مِنْ مَّزِیْد
ترجمہ: (وہ شہزادہ علومِ باطن کے )ایسے گلزار پر ناز سے چل رہا تھا۔ اس (کے بدن) کی بوٹی بوٹی (شدتِ اشتیاق سے)﴿ھَلْ مِنْ مَّزِیْد﴾ کا نعرہ لگاتی تھی۔
مطلب: ”دامن بر زمین کشیدن“ کے معنی ہیں ”بغرور رفتن“ (کذا فی الغیاث) پس مطلب یہ ہوا کہ شہزادہ ان احوال و مواجید پر پھولا نہیں سماتا تھا، اور بہت مست و مسرور تھا۔ صاحبِ کلید فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ”دامن کشیدن“ کنایہ ہو نشان محو کرنے سے کہ عادت ہے جب قدم کا نشان محو کرنا چاہتے ہیں، تو دامن کو نیچا چھوڑ دیتے ہیں کہ اس سے وہ نشاں مٹتا چلا جائے۔ تو ”گلزار“ سے مراد گلزارِ حسّی ہوگا یعنی باغ و بہارِ دنیا پر وہ جھاڑو پھیرتا چلا جاتا تھا، اور گلزارِ معنوی کے اشتیاق میں ترقی ہوتی جاتی تھی۔(انتہٰی) آگے اس گلشنِ معنوی کی فضیلت بیان فرماتے ہیں:
17
گلشنے کز بقل روید یک دم ست
گلشنے کز عقل روید خُرّم ست
ترجمہ: جو گلشن سبزہ سے پیدا ہو وہ (اپنی ناپائیداری میں گویا) دم بھر کے لیے ہے۔ (اور) جو گلشن (علوم و احوال کی) عقل (عالی) سے پیدا ہو وہ سدا بہار ہے۔
18
گلشنے کز گل دمد گردد تباہ
گلشنے کز دل دمد وَا فَرْحَتَاہ
ترجمہ: جو گلشن مٹی سے پیدا ہو وہ (جلدی) تباہ (ویران) ہو جاتا ہے۔ (اور) جو گلشن دل سے پیدا ہو۔ آہا! (اس کے کیا کہنے۔ ان دو شعروں کا لفظی جوڑ توڑ نہایت پُر لطف ہے۔)
19
علمہائے با مزہ دانستہ ماں
زاں گلستاں یک دوسہ گلدستہ داں
ترجمہ: (وہ احوال و علوم کا گلزار ایسا ہے) ہمارے ان سیکھے ہوئے مزه دار (رسمی) علوم کو۔ ان (معنوی) گلزاروں سے ایک دو گلدستے سمجھو۔
20
زاں زبونِ یک دوسہ گلدستہ ایم
کاں درِ گلزار بر خود بستہ ایم
ترجمہ: ہم اسی لیے (علمِ قلیل کے) چند گلدستوں پر مر رہے ہیں۔ کہ اس گلزار (معنوی) کا دروازہ اپنے اوپر بند کر رکھا ہے۔ (یعنی بوجہ ان علوم و احوال سے بے بہرہ ہونے کے ان علومِ رسمیہ کو بڑا مایۂ افتخار سمجھے ہیں۔ آگے اس دروازہ کے بند ہونے کی وجہ بتاتے ہیں:)
21
آں چناں مفتاحہا ہر دم بناں
مے فتد اے جاں دریغا از بُناں
ترجمہ: اے جان! افسوس کہ ایسی کنجیاں، (جن سے علوم و احوال کے دروازے کھولے جا سکتے ہیں) ہر وقت روٹی (کی حرص) میں سرِ انگشت سے گر رہی ہیں۔ (یعنی لذتِ دہن و شہوتِ بطن میں مشغول ہو کر ان علوم و احوال کو ضائع کر دیا۔)
22
در دمے ہم فارغ آرندت زناں
گرد چادر گردی و عشقِ زناں
ترجمہ: اور اگر کسی وقت تجھ کو روٹی سے بے فکر کر دیا جاتا ہے۔ تو پھر تو (عورتوں کی) چادر اور عورتوں کے عشق کا لٹّو ہو جاتا ہے۔ (اوپر کے شعر میں ”بنان“ کی اور یہاں ”زنان“ کی صنعتِ تجنیس خوب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شہوتِ بطن سے اطمینان ہوا تو شہوتِ فرج بَلائے جان ہوئی، اور ان شہوتوں میں کسی خاص حد تک صبر نہیں۔ بلکہ:)
23
باز استسقات چوں شد موجزن
ملک و شہرت بایدت پُر نان و زن
ترجمہ: پھر جب ان شہوتوں میں تیری طلب و خواہش موجزن ہوئی۔ تو تجھ کو ایک الگ ملک اور شہر چاہیے جو مطعومات و مستورات سے پُر ہو۔
24
مار بودی اژدہا گشتی مگر
یک سرت بُود ایں زمانے ہفت سر
ترجمہ: (اس شہوی خواہش سے پہلے) تو سانپ تھا (اب) اژدہا بن گیا۔ (پہلے) تیرا ایک سر تھا اس وقت سات سر ہو گئے۔
25
اژدہائے ہفت سر دوزخ بود
حرصِ تو دانہ است دوزخ فخ بود
ترجمہ: (اور) سات سر والا اژدہا (کیا ہے؟) دوزخ ہے۔ (پس تو ہفت سر ہو کر دوزخ کے مشابہ ہو گیا۔ اور) تیری یہ حرص دانہ ہے، اور دوزخ جال ہے۔
مطلب: مصرعۂ اولٰی کا مضمون اس آیت سے ماخوذ ہے: ﴿لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ - لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُومٌ﴾ (الحجر: 44) ”اس کے (یعنی جہنم کے) سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے (میں داخل ہونے) کے لیے دوزخیوں کی الگ ٹولیاں ہوں گی۔“ دوسرے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح دانہ جال میں گرفتار ہونے کا سبب ہوتا ہے، اسی طرح یہ حرص و شہوت دخولِ دوزخ کی باعث ہے۔
26
دام را بدرّاں بسوزاں دانہ را
باز کن درہائے نو ایں خانہ را
ترجمہ: (اب) دوزخ (میں لے جانے والے معاصی) کے جال پھاڑ ڈال۔ اور (شہوتِ موجبۂ معاصی) کے دانہ کو آگ لگا دے۔ پھر اس (عدم و احوال کے) گھر کے نئے دروازوں کو کھول لے۔
27
چوں تو عاشق نیستی اے نر گدا
ہمچو کوہے بے خبر داری صدا
ترجمہ: اے ہٹے کٹے بھکاری چونکہ تو (حق تعالٰی کا) عاشق (و طالب) نہیں ہے۔ (جو دولتِ مذکور سے مشرف ہوتا ہے، پس اپنے علومِ حاصلہ میں جو تو بحث و تکرار کرتا ہے تو گویا) ایک پہاڑ کی طرح بے خبری میں گونج رہا ہے (تیرے دل پر ان علوم کا کوئی اثر نہیں۔)
28
کوہ را گفتار کے باشد ز خود
عکسِ غیر ست آں صدا اے معتمد
ترجمہ: (چنانچہ) پہاڑ کی آواز خود (اس کی) اپنی طرف سے کب ہوتی ہے۔ وہ تو اے معتمد آدمی! غیر کی آواز کی گونج ہے۔
مطلب: پہاڑ میں کوئی بلند آواز سے بولے تو وہاں اس آواز کی گونج سنائی دیتی ہے جیسے پہاڑ بول رہا ہو۔ چونکہ یہ آواز پہاڑ کی خود اپنی نہیں ہوتی، بلکہ بولنے والے کی آواز کی گونج ہوتی ہے۔ اس لیے اس کو پہاڑ کی آواز نہیں کہہ سکتے۔ نہ پہاڑ کو اس کا علم ہے۔ یہی حال تیرے علوم کا ہے۔ جن کو دوسروں سے نقل کر لیا ہے، اور اپنا حال نہیں بتایا، وہ علوم تیرے اپنے نہیں ہوسکتے نہ ان کا تیرے اپنے دل پر کچھ اثر ہے۔ جیسے مولانا پیچھے ایک جگہ فرما چکے ہیں۔
حرفِ درویشاں بدزدد مرد دوں
تا بخواند بر سلیمے زاں فسوں
آگے اس مضمون میں تعمیم کرتے ہیں: کہ جس طرح تیرے اقوال غیروں سے ماخوذ ہیں، اسی طرح تیرے احوال بھی غیر کا عکس ہیں، اور تیرا ان کو اپنے احوال سمجھنا غلطی ہے۔
29
گفتِ تو زاں رُو کہ عکسِ دیگرے ست
جملہ احوالت بغیرِ عکس نِیست
ترجمہ: جس طرح سے کہ تیری گفتار دوسرے کا عکس ہے۔ اسی طرح تیرے تمام احوال بغیر عکس کے نہیں ہیں۔
30
خشم و ذَوقت ہر دو عکسِ دیگراں
شادیِ قوّادہ و خشمِ عواں
ترجمہ: (چنانچہ) تیرا غصہ اور خوشنودی دونوں دوسرے لوگوں کے عکس ہیں۔ جیسے دلّالہ کی خوشی اور پولیس مین کا غصہ (دوسروں کے عکس ہوتے ہیں۔)
31
آں عواں را آں ضعیف آخر چہ کرد
کہ دہد او را بکینہ زجر و درد
ترجمہ: (دیکھو) اس غریب آدمی نے آخر اس سپاہی کا کیا بگاڑا ہے؟ جس کو وہ غضب کے ساتھ دھمکا رہا اور دکھ دے رہا ہے۔
مطلب: جو غریب کسی ملازم پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، اس سے وہ محض ظلمًا کچھ مال طلب کرتا ہے، جس پر اس غریب کو غصہ آتا ہے، اور اس کا یہ غصہ بر بنائے مظلومیت اصلی اور حق بجانب ہوتا ہے۔ مگر پولیس مین جو اس کو مرغوب و مغلوب کرنے کے لیے لال پیلی آنکھیں دکھاتا ہے، تو اس کا یہ غصہ اصلی نہیں ہوتا، اور اصلی کیوں ہو! جب کہ اس غریب نے اس پر کوئی تعدّی نہیں کی جو باعثِ غصہ ہوتی، بلکہ وہ اس غریب کے غصہ کا عکس ہے، اسی طرح ”قوّادہ“ کو اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ کوئی فاسق جال میں پھنسے گا تو مجھے دلّالی کا روپیہ ملے گا، اور اس کی یہ خوشی، عکس ہے فاسق کی شہوانی خوشی کا، جس کی خوشی اصل ہے، اور وہ اس کے فاسقانہ فعل کی توقّع پر مبنی ہے۔ ”ہٰذَا مَا یُسْتَفَادُ مِنَ الْکَلِیْدِ“ مگر بحرُ العلوم سے اس کے برعکس مطلب نکلتا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے: ”چنانچہ شادیِ غیر عاشق عکس دلّالہ برد خشمِ مرد ضعیف کہ عوان او را رنجانیدہ باشد عکسِ خشمِ عوام ست، ہمچنیں گفتار جمیع احوال مقلد عکس گفتار و احوال محقق ست۔“ (انتہٰی) مُدّعا یہ ہے کہ ایسے عارضی و مستعار علوم و احوال پر مغرور و قانع نہ ہونا چاہیے، بلکہ کوشش کرنی چاہیے، کہ وہ تم میں راسخ و مستحکم ہو کر تمہارے جوہرِ ذات بن جائیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
32
تا بکے عکسِ خیالِ لامِعَہ
جہد کُن تا گرددت ایں واقعہ
ترجمہ: کب تک یہ عکس جو (جھوٹی) چمک والا خیال ہی (تیرے مدِّ نظر رہے گا) تو کوشش کر کہ یہ (حال) تیرے لیے اصلی بن جائے۔
33
تاکہ گفتارت ز حالِ تو بود
سیرِ تو با پرّ و بالِ تو بود
ترجمہ: تاکه (پھر) تیرا قال تیرے حال سے ناشی ہو۔ (اور) تیری سیر تیرے (اپنے) پر و بازو سے ہو۔(یعنی تیرا کلام خود تیرے اپنے حال اور بصیرت پر مبنی ہو، نہ یہ کہ دوسروں کی نقل ہو، جیسے کوئی دوسرے کے بازو سے اڑے۔ آگے اس کی توضیح ایک مثال سے فرماتے۔)
34
صید گیرد تیر ہم با پرِّ غیر
لاجَرَم بے بہرہ است از لَحْمِ طَیْر
ترجمہ: (دیکھو) شکار (پکڑنے) کو تو تیر (بھی) غیر کے پر لگا کر پکڑ لیتا ہے۔ (مگر چونکہ اس کو اپنے ذاتی پر نصیب نہیں، بلکہ وہ غیر کے پروں کے ساتھ اڑتا ہے) اس لیے وہ (بطورِ انعام) پرندوں کے گوشت (کے ساتھ لذت گیر ہونے سے) بے بہرہ ہے۔
مطلب: تیر و کمان زمانۂِ قدیم کے اسلحۂِ جنگ سے تھے، اب تو شاید ان کا نمونہ کسی عجائب خانہ ہی میں ہو تو ہو۔ ”تیر“ کسی مضبوط و سیدھی لکڑی کا ایک سیدھا پتلا دو ڈیڑھ بالشت لمبا قلم سمجھنا چاہیے، جس کے ایک سرے پر اس قسم کا آہنی خار نصب ہوتا تھا، جیسے مچھلی پکڑنے کا کانٹا، اس کانٹے کی نوک کے تو صرف ایک پہلو پر تار اور الٹا رخ ابھرا ہوا خار ہوتا ہے۔ ”تیر“ کی نوک کے دونوں پہلوؤں پر دو الٹے رخ ابھرے ہوئے خار ہوتے ہیں، تاکہ تیر جب دشمن کے جسم میں گڑ جائے تو کھینچنے سے نکل نہ سکے۔ تیر کے ان تین نوکوں والے خار کو ”پیکان“ کہتے ہیں، دوسرے سرے پر چند پر جمائے ہوتے ہیں۔ ان سے یہ فائدہ متصوّر تھا کہ یہ پر، تیر کی پرواز کے مانع ہونے کے سبب سے، اس سرے کو پیچھے رکھیں، اور پیکان والا سِرا سیدھا زور کے ساتھ جا کر لگے۔ ورنہ احتمال تھا کہ تیر اپنی پرواز میں آڑا ہوجاتا، اور پیکان اپنا کام نہ کر سکتا۔ اس شعر میں ان پروں کا معاملہ سمجھانے کے لیے، تیر کی ماہیت سپردِ قلم کرنی پڑی۔ غرض یہ تو تیر کا حال ہے، جو مانگے تانگے پروں کے ساتھ اڑتا ہے۔ بخلاف اس کے:
35
باز صید آرد بخود از کوہسار
لاجَرم شاہش خوراند کبک و سار
ترجمہ: باز پہاڑ میں سے خود شکار (پکڑ) لاتا ہے۔ اس لیے بادشاہ اس کو (انعامًا) چکور اور سارک (کا گوشت) کھلاتا ہے۔
36
باز با پرِّ خود آرد صیدِ شبک
لاجرم شاہش خوراند لحمِ کبک
ترجمہ: باز اپنے پر کے ساتھ (اڑ کر) جال کے شکار کو (پکڑ) لاتا ہے۔ اس لیے بادشاہ اس کو چکور کا گوشت کھلاتا ہے۔
مطلب: یعنی جو شکار جال کے بدوں نہ پکڑا جا سکے، باز اس کو ایک ہی پرواز میں پکڑ لاتا ہے، اور ایک بمشکل قابو میں آنے والے جانور کو پکڑ لانا باز کا اچھا کارنامہ ہے، پس ”نقّال“ تیر کی مانند ہے۔ انعام سے محروم، اور ”صاحبِ بصیرت“ باز کی مثل ہے مستحقِ انعام۔ اسی طرح آگے علومِ بے بصیرت اور احوالِ بے حقیقت کا نقص بیان فرماتے ہیں:
37
منطقے کز وحی نبود از ہواست
ہمچُو خاکے در ہوا و در ہباست
ترجمہ: جو کلام وحی (کے فیض) سے نہ ہو، وہ خواہشِ نفسانی سے ہے۔ اس لیے وہ مٹی کی طرح، ہوا اور غبار میں ہے۔ (یعنی اس میں ثبوت اور قوّت نہیں، اور ادلّۂِ شرعیہ یعنی قرآن، حدیث، اجماع، قیاس، سب وحی کے مدلول میں داخل ہیں)
38
گر نماید خواجہ را ایں دم غلط
ز اوّل وَالنَّجْمِ برخوان چند خَط
ترجمہ: اگر میاں صاحب کو یہ دعوٰی غلط معلوم ہو۔ تو (سورة) وَالنَّجْمِ کے شروع سے چند آیات کی تحریر میں پڑھ لے۔
39
تاکہ مَا یَنْطِقُ مُحَمَّدٌ عَنْ ھَوٰی
اِنْ ھُوَ اِلَّا بِوَحْیٍ احْتَوٰی
ترجمہ: (شروع سے لے کر) یہاں تک (پڑھ لے) کہ: ﴿وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى - اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى﴾(النجم: 3،4) ”اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے۔ یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔“
مطلب: حاصل اِستدلال یہ ہے کہ اس آیت میں حق تعالٰی نے وحی کے مقابل، ہوٰی کو فرمایا ہے، پس اس سے ثابت ہوا کہ جو نُطق وحی سے نہ ہوگا، وہ اس کے مقابل یعنی ہوٰی سے ہوگا۔ ہُو المطلُوب۔ مصرعہ اولٰی میں ”نامِ مبارک“ اور مصرعۂِ ثانیہ میں لفظ ”اِحْتَوٰی“ وزنِ شعر کے لیے بڑھایا ہے۔اِحْتَوٰی بمعنی اَحَاطَ ہے، اور یہ صفت ہے وحی کی، اور اس میں عائِد اِلَی الْوحی، احتوٰی کا مفعول مقدر ہے، یعنی احتوٰی، اور فاعلِ احتوٰی کی ضمیر راجع ہے، لفظ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف۔ (کلید) شعر کا ترجمہ لفظی یوں ہے۔ ”حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے، یہ تو وحی ہی ہے جس پر وہ حاوی ہیں۔“ چونکہ اس پر ظاہرًا شبہ ہوتا تھا کہ اس سے تو اجتہاد و قیاسِ شرعی کا بھی داخلِ ہوٰی ہونا لازم آتا ہے، کیونکہ وہ وحی نہیں ہے۔ آگے اشارۃً اس کا جواب دیتے ہیں:
40
اَحمدا چوں نیست از وحی یاس
جسمیاں را دہ تحرّی و قیاس
ترجمہ: (گویا حق تعالٰی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب فرماتا ہے کہ) اے احمد! صلی اللہ علیہ وسلم جب آپ کو وحی (کے نزول) سے نا امیدی نہیں ہے۔ (اور اس لیے قیاس کی آپ کو ضرورت بھی نہیں!) تو جسموں (یعنی ظاہر بین، لوگوں کو) اجتہاد اور قیاس ہی عطا فرما دیجیے۔
مطلب: اس شعر کے مضمون سے اجتہاد و قیاس کا حکم، وحی میں داخل ہونا دو طرح ثابت ہوتا ہے۔ اول یہ ہے کہ یہ جو فرمایا ہے: ”کہ نیست از وحی یاس“ یعنی آپ وحی سے مایوس اور قیاس کے محتاج نہیں، ان کے لیے وہ وحی کا بدل ہے۔ وَالْبَدْلُ لَہ‘ حُکْمُ الْمُبَدَّلِ، اس میں قیاس مِنْ جانبِ اللہ حجّت ہوا، اور ہوٰی میں داخل نہ ہوا، کیونکہ ہوٰی مِنْ جانب النَّفس ہوتا ہے، یعنی محض ذاتی رائے اور اٹکل پچو۔ اور خیال جس کو وحی کے ساتھ کچھ بھی استناد نہیں ہوتا، اور قیاس تو محض حکم کو ظاہر کرنے والا ہے، اور اس حکمِ قیاسی کا اثبات کرنے والی وحی ہی ہوتی ہے، خود قیاس مثبتِ حکم نہیں، پس قیاس ہوٰی میں داخل نہیں۔ دوسرے یہ جو فرمایا: ”جسمیاں را دہ تحری و قیاس“ اس سے ثابت ہوا کہ یہ اجتہاد و قیاس مجتہد لوگوں کی ایجاد نہیں، بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا ہے۔ جس کا ثبوت احادیثِ کثیرہ سے ملتا ہے: ”عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ بَعَثَہٗ اِلَی الْیَمَنِ قَالَ لَہٗ: كَيْفَ تَقْضِى إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ؟ قَالَ أَقْضِى بِكِتَابِ الله! قَالَ فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِى كِتَابِ اللهِ؟ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ! قَالَ فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِى سُنَّةِ رَسُولِ الله صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلاَ فِى كِتَابِ الله؟ قَالَ أَجْتَهِدُ برَأْيِى! وَلاَ آلُو فَضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ وَقَالَ الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِىْ وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ الله لِمَا يُرْضِى رَسُولَ الله“ (السنن لأبي داؤد ج2ص149باب الاجتہاد الرأي في القضاء) ”یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ بن جبل کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا، تو فرمایا اے معاذ! تم کس چیز سے فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا کہ کتاب اللہ سے! فرمایا اگر اس میں سے حکم نہ ملے؟ عرض کیا تو پھر سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے! فرمایا اگر میں سے بھی حکم نہ ملے؟ عرض کیا تو پھر میں اپنی رائے سے فیصلہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قول کو صواب ٹھہرایا، اور فرمایا شکر ہے اس اللہ کا، جس نے اپنے رسول کے رسول کو، یہ توفیق دی کہ وہ اس کی پسند اور مرضی کے مطابق کام کرے“ اور جب اجتہاد و قیاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا ہے، تو بحکم: ﴿وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ﴾(الحشر: 7) وہ واجب العمل ہوا۔ مولانا کے اس کلام سے یہ بھی مستنبط ہو سکتا ہے، کہ ضرورت کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قیاس کی اجازت ہے، کیونکہ یہاں قیاس کے جواز کو وحی سے نا امید ہونے کے ساتھ مُحَلَّلْ کیا ہے، تو جب بوقتِ ضرورت وحی نہ آئی اور علّت پائی گئی، تو جوازِ قیاس کا حکم بھی پایا گیا۔ وَعَلَیْہِ اَکْثَرُ الْعُلَمَاءِ۔ ”جسمیاں“ سے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا باقی سب لوگ مراد ہیں، اس لیے کہ وہ مجسّمات کو ہی دیکھ سکتے ہیں، وحی لانے والے ملائکہ کو بطریقِ قطعی مشاہدہ نہیں کرسکتے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشاہدہ فرماتے ہیں، اور ان میں علماء و مجتہدین اور اولیائے مُکاشفین سب اکابرِ دین داخل ہیں۔ آگے اس شعر کے مضمون کی مثال ہے:
41
بید را گر میوہ نے باشد ظِلال
کز ضرورت ہست مُردارے حلال
ترجمہ: درختِ بید میں اگر میوہ نہیں تو سایہ تو ہوتا ہے۔ کیونکہ ضرورت کے وقت مُردار حلال ہوتا ہے۔
مطلب: جس طرح درختِ بید میوہ سے محروم ہونے کی صورت میں سایہ سے محظوظ ہوتا ہے۔ اسی طرح غیر نبی وحی سے سرفراز نہیں ہوتا، تو اجتہاد و قیاس سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ جو اس کے لیے جائز بلکہ واجب العمل ہے۔ اور جس طرح حلال غذا کے میسر نہ آنے اور بھوک سے جان پر بن جانے کے وقت، مُردار حلال بلکہ اس کا کھانا فرض ہو جاتا ہے۔ اس طرح قیاس ہر چند عقل و رائے پر مبنی ہونے کے لحاظ سے مطلقًا قابلِ ستائش نہ ہو، مگر قرآن و حدیث کا صریح حکم نہ ہونے کی صورت میں وہ جائز بلکہ واجب العمل ہے۔ آگے ایک مسئلۂ جزئیہ سے بھی اس کی تائید فرماتے ہیں:
42
گر تحرّی نیست در کعبہ وصال
لیک ہست اندر بیایانِ ضلال
ترجمہ: اگر کعبہ کے (نظر سے) متّصل ہونے (کی صورت میں، جہتِ قبلہ کو اپنا قبلہ، اپنے) قیاس سے قائم کرنا (جائز) نہیں۔ لیکن ایسے جنگل میں تو (جائز) ہے، جہاں سمتِ قبلہ معلوم نہ ہو۔
مطلب: یعنی دیکھو! ضرورت کے وقت اس تحرّی کی اجازت دی گئی، جو کعبہ کے دیکھتے ہوئے جائز نہ تھی۔ سو تحرّی و اجتہاد کی دو قسمیں ہوئیں، ایک بضرورت جس کی شریعت نے خاص شرائط کی ساتھ اجازت دی ہے۔ اس کو اگلے شعر کے مضمون کے لحاظ سے، ہدٰی سے ملقّب کرنا مناسب ہے، اور ایک وہ جو بلاضرورت ہو، یعنی نص کی موجودگی میں وہ اجتہاد غیر ہدٰی یا اجتہادِ ہوٰی ہے، جیسے کہ آج کل مُبتدعۂِ اہل ہوٰی کا شیوہ ہے۔ اوپر قسم اوّل کا جواز بیان فرما چکے ہیں۔ آگے دوسری قسم کا اِبْطال کرتے ہیں:
43
بے تحرّی و اجتہاداتِ ہُدٰی
ہر کہ بدعت پیشہ گیرد از ہوٰی
ترجمہ: ہدایتِ (شرعیہ کے مطابق کام کرنے والے) اجتہاد و قیاس کے بغیر۔ جو شخص ہوائے (نفسانی) سے بدعت کا پیشہ اختیار کرے۔
44
ہمچو عادش بربرد باد و کُشد
نے سلیمانست تا تختش کشد
ترجمہ: تو اس شخص کو ہوا (قومِ) عاد کی طرح برباد کر دے گی اور قتل کر دے گی۔ وہ سلیمانؑ نہیں ہے كہ وہ (ہوا) اس کے تخت کو اٹھائے پھرے۔
مطلب: یہاں ہوائے نفسانی کو ہوائے عنصری سے تشبیہ دے کر، اس کی طرف ”کشد“ کی اِسناد بطور ”اِسناد اِلَی السّبب“ کے کی ہے، یعنی وہ اتباعِ ہوا کے سبب سے ہلاک ہو جائے گا۔ دوسرے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اتباعِ تحرّی میں منقادِ حق ہوتا۔ جیسے تحرّیِ ہدٰی کے اختیار کرنے والے ہیں، تو وہ سبب ہو جاتا اس کے ارتفاعِ رتبہ عند اللہ کا، تو تحرّی مرتبۂِ کلّی میں ایک چیز ہے جس کے دو اثر ہیں۔ ایک اثر اس کی ایک قسم کا، دوسرا اثر اس کی دوسری قسم کا، مثل ہوا کے کہ عاد کے ساتھ اس کا اور فعل ہے، اور سلیمان علیہ السلام کے ساتھ اور فعل ہے۔ (کلید) آگے تشبیہ ہوائے عاد کی مزید توضیح ہے کہ:
45
عاد را بادست حمّالِ خذول
ہمچو برّہ در کفِ مردِ اکُول
ترجمہ: ہوا (قومِ عاد کو بھی) اٹھائے لیے پھرتی ہے، (مگر وہ ان کے) مخالف (ہے۔) جیسے بکری کا بچہ (اس کا گوشت) کھانے کا (قصد رکھنے) والے آدمی کے ہاتھ میں (ہو۔) کما قال السعدی ما غر؎
کہ از چنگالِ گرگم در ربودی
چو دیدم عاقبت خود گرگ بودی
46
ہمچو فرزندش نہادہ بر کنار
مے برد تا بکشدش قصّاب وار
ترجمہ: وہ اس کو فرزند کی طرح آغوش میں لیے جا رہا ہے۔ تاکہ اس کو قصائی کی طرح ذبح کرے۔ (اور کھا جائے، اسی طرح قومِ عاد کو ہوا، اس لیے اٹھاتی تھی کہ ان کو زمین پر پٹخ دے۔)
47
عادیاں را باد ز استکبار بود
یارِ خود پنداشتند اغیار بود
ترجمہ: عادیوں کے لیے (یہ) ہوا (کی سزا) تکبر کی وجہ سے تھی۔ (اس ہوا کو) انہوں نے اپنا یار (اور موافق سمجھا، لیکن وہ بمنزلہ) اغیار تھی۔
مطلب: یہاں چار باتیں مذکور ہوئی ہیں (1) عاد کا تکبّر و غرور میں مبتلا ہونا۔ (2) اس جرم کی پاداش میں ان پر ہوا کا عذاب نازل ہونا۔ (3) ان کا اس ہوا کو اپنے لیے مفید سمجھنا۔ (4) مگر اس کا ان کے خلافِ مراد عذاب شدید ہونا۔ ان باتوں کا ذکر قرآن مجید میں یوں ہے:
(1)﴿فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةًؕ﴾(حم السجدہ:15) ”پھر عاد کا قصہ تو یہ ہوا کہ انہوں نے زمین میں ناحق تکبر کا رویّہ اختیار کیا، اور کہا کہ: کون ہے جو طاقت میں ہم سے زیادہ ہو۔“
(2)﴿فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا صَرۡصَرًا فِیۡۤ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیۡقَہُمۡ عَذَابَ الۡخِزۡیِ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا﴾ (حم السجدہ: 16) ”چنانچہ ہم نے کچھ منحوس دنوں میں ان پر آندھی کی شکل میں ہوا بھیجی، تاکہ انہیں دنیوی زندگی میں رسوائی کے عذاب کا مزہ چکھائیں“
(3)﴿فَلَمَّا رَاَوۡہُ عَارِضًا مُّسۡتَقۡبِلَ اَوۡدِیَتِہِمۡ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا عَارِضٌ مُّمۡطِرُنَا ؕ﴾(الأحقاف: 24) ”پھر ہوا یہ کہ جب انہوں نے اس (عذاب) کو ایک بادل کی شکل میں آتا دیکھا جو ان کی وادیوں کا رخ کر رہا تھا تو انہوں نے کہا کہ: یہ بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا۔“
(4)﴿بَلۡ ہُوَ مَا اسۡتَعۡجَلۡتُمۡ بِہٖ ؕ رِیۡحٌ فِیۡہَا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴾(الأحقاف: 24) ”نہیں! بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کی تم نے جلدی مچائی تھی۔ ایک آندھی جس میں دردناک عذاب ہے۔“ ”باد“ کے معنی نخوت و تکبر کے بھی ہیں (کما فی الغیاث)؎ پس عادیاں را باد ز استکبار بود۔۔ (الخ) کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں، کہ عادیوں کے لیے یہ ہوا کا عذاب، ان کی ہوا کے تکبر سے، مگر یہ تکلّف سے خالی نہیں۔
48
چوں بگردانید ناگہ پوستیں
خُردشاں بشکست آں بِئْسَ الْقَرِیْن
ترجمہ: جب اس ہوا نے اصلی حالت کا پوستین الٹ (کر نمایاں کر) دیا۔ تو اس برے ساتھی نے ان کو ریزہ ریزہ کرکے توڑ ڈالا۔ (اسی طرح تحرّی ہوٰی والا، اوّل تو دنیا میں، ورنہ آخرت میں ضرور اپنے اس اتباعِ ہوٰی کی پاداش میں تباہ و برباد ہوگا۔ تکبر سے بچنے کی ہدایت فرماتے ہیں:)
49
باد را بشکن کہ بس فتنہ است باد
پیش ازاں کِت بشکند او ہمچو عاد
ترجمہ: تکبر (و غرور) کو (جو مشابہ باد ہے) شکستہ کردو کہ (یہ) باد سخت فتنہ ہے۔ قبل اس کے کہ وہ تم کو عاد کی طرح شکستہ کردے۔
مطلب: یعنی وقتِ عذاب سے پہلے، دارُ العمل ہی میں اس کی اصلاح کر لو۔ جس کے لیے انقیادِ وحی لازم ہے۔ آگے ہوائے نفسانی کے مشبّہ یعنی ریحِ عاد کی طرف عود ہے۔ جس سے، یہ اس کے اور فائدے، مستنبط کریں گے، کہ اجزائے عالم سب مسخّرِ قدرت ہیں۔ جس کو جس کے لیے، جب تک چاہے وہ مفید بنا دے یا مضر بنا دے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
50
ہودؑ دادے بند کاے پُر کبر خیل
برکند از دست تاں ایں باد ذیل
ترجمہ: حضرت ہود علیہ السلام (قومِ عاد) کو نصیحت کرتے تھے کہ اے پُر تکبر جماعت! یہ ہوا تمہارے ہاتھ سے (اپنا) دامن چھڑالے گی (یعنی تم سے قطع تعلق کرکے دشمن ہوجائے گی۔)
51
لشکرِ حق ست باد و از نفاق
چند روزے با شما کرد اِعتناق
(کیونکہ یہ) ہوا خدائی فوج ہے، اور نفاق کے طریق سے۔ اس نے چند روز کے لیے تمہارے ساتھ (دوستانہ) معانقہ کر رکھا ہے۔
52
او بسِرّ با خالقِ خود راست ست
چوں اجل آید برآرد باد دست
ترجمہ: (مگر) وہ باطن میں اپنے خالق کے ساتھ متفق ہے۔ جب (تمہاری ہلاکت کی) میعاد آئے گی، تو (پھر یہ) ہوا ہاتھ (پاؤں) نکالے گی۔
53
ایں ہماں بادست کایمن میگذشت
بود ہمچوں جاں و ہمچوں مرگ گشت
ترجمہ: یہ وہی ہوا ہے جو امن (چَین) سے گزرا کرتی تھی۔ (پہلے یہ) مثل جان کے (مرغوب و محبوب) تھی، اور اب مثل موت کے (تلخ و ناگوار) ہوگئی۔
54
دستِ آنکس کو بکردت دست بوس
وقتِ خشم آں دست میگردد دبوس
ترجمہ: (اس کی مثال ایسی ہے،کہ) جس شخص کے ہاتھ نے تجھ سے (مصافحہ کرکے) دست بوسی (کا موقع پیدا) کیا تھا۔ غصہ کے وقت وہی ہاتھ گُرز بن جاتا ہے۔
55
باد را اندر دہن بیں رہگذر
ہر نفس آیاں رواں در کرّ و فر
ترجمہ: (دور کیوں جاتے ہو ہر جاندار کے) منہ کے اندر ہوا کا گزر (ہوتا) دیکھ لو۔ جو ہر وقت (ایک) کرّ و فر سے آتی جاتی ہے۔
56
حلق و دندان ہا ازو ایمن بود
حق چو فرماید بدنداں در رود
ترجمہ: (اور اس آمدورفت میں) حلق اور دانت اس سے بے خطر ہوتے ہیں۔ (ان کو کوئی اذیت نہیں پہنچاتی) مگر جب حق تعالیٰ حکم دیتا ہے تو وہ دانت کے اندر گھس (کر باعثِ درد) ہوجاتی ہے۔
57
کوہ گردد ذرۂ باد و ثقیل
دردِ دنداں داردش زار و علیل
ترجمہ: ایک ذرہ بھر ہوا، پہاڑ (کی سی گراں) اور ثقیل ہوجاتی ہے۔ (جس سے) اس (شخص) کو دانت کا درد ضعیف و بیمار کردیتا ہے۔
مطلب: کلیدِ مثنوی میں دردِ دندان کی وجہ، کسی حکیم سے یوں منقول ہے، کہ مسوڑھوں میں کوئی مرطوب مادہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس سے بخارات اٹھ کر مستحیل برِیاح ہوتے، اور اعصاب میں تمدِید پیدا کرتے ہیں۔ اس سے درد پیدا ہوجاتا ہے۔ (انتہٰی)
58
یا رب و یا رب برآرد او ز جاں
کہ ببر ایں باد را اے مستعاں
ترجمہ: وہ اس وقت (دل و) جان سے یَا رب! یَا رب! (کی فریاد) بلند کرنے لگتا ہے۔ کہ اے وہ جس سے مدد طلب کی جاتی ہے! اس درد کو دور کر دے۔ (آگے ایک اور مضمون کی طرف انتقال ہے۔ یعنی جب سب کائنات مسخّرِحق ہے، تو حق تعالٰی کی طرف رجوع کرنا چاہیے:)
59
اے دَہاں غافل بدی زیں باد رو
از بنِ دنداں در استغفار شو
ترجمہ: اے منہ! تو اس ہوا سے غافل تھا۔ (جو امرِ حق کی مطیع ہے،) جا (اور) تہہِ دل سے استغفار میں (مشغول) ہو۔ (آگے تکلیف کا ایک نفع بیان کرتے ہیں کہ یہ ایسی چیز ہے کہ:)
60
چشمِ سختش اشکہا باراں کند
منکراں را درد اللہ خواں کند
ترجمہ: اس (درد والے) کی سخت آنکھ آنسوؤں کو جاری کردیتی ہے۔ اور منکروں کو درد اللہ کا نام لینے والا بنا دیتا ہے۔ (آگے فرماتے ہیں کہ تم کو درد سے فائدہ اٹھانا، اور سابقہ غفلت سے پرہیز کرنا چاہیے:)
61
چوں دمِ یزداں پذرفتی ز مرد
وحیِ حق را ہیں پذیرا شو ز درد
ترجمہ: جب تم نے کلامِ حق کو (مردِ) حق سے قبول نہ کیا۔ تو وحیِ حق کو اس درد کی وجہ سے قبول کر لو۔ (آگے اوپر کے دونوں مضمونوں کا مجموعہ ہے یعنی اجزائے عالم کا مسخرِ حق ہونا اور اس کی اطاعت کا ضروری ہونا۔)
62
باد گوید پیکم از شاہِ بشر
گہ خبر خیر آورم گہ شور و شر
ترجمہ: ہوا کہتی ہے کہ میں مالکِ انس (و جن) کی طرف سے (مثلِ) قاصد ہوں۔ کبھی خیر (اور نفع) کی خبر لاتی ہوں، اور کبھی شور و شر کی۔
63
من چو تو غافل ز شاہِ خود کیم
زانکہ مامورم امیرِ خود نیم
ترجمہ: میں تیری طرح اپنے بادشاہ سے غافل کب ہوں؟ کیونکہ میں حکم کے ماتحت ہوں اپنی حاکم نہیں ہوں۔
64
گر سلیماںؑ وار بودے حالِ تو
چوں سلیماںؑ گشتمے حمّالِ تو
ترجمہ: اگر تیرا حال (انقیاد و اطاعت میں) سلیمان علیہ السلام کی طرح ہوتا۔ تو میں سلیمان کی طرح تجھے اٹھائے لیے پھرتی (یعنی میں تیرے لیے ہمیشہ مفید ہوتی۔)
65
عاریستم گشتمے مِلکِ کفت
کردمے بر رازِ خود من واقفت
ترجمہ: (اب تو) میں (دنیاوی ضروریات میں تیرے کام آنے کے لیے) عاریت ہوں۔ (پھر) میں تیری مِلک ہوجاتی (اور) تجھے اپنے راز پر واقف کردیتی ہوں۔
66
لیکن چوں تو باغیئی من مستعار
مے کنم خدمت تُرا روزے سہ چار
ترجمہ: لیکن چونکہ تو باغی ہے (اس لیے) میں مستعار طور پر۔ تیری خدمتِ (دنیوی) تین چار روز تک کرتی ہوں۔
67
پس چو عادت سرنگونیہا دہم
ز اسپہ تو باغیانہ بر جہم
ترجمہ: پھر (قومِ) عاد کی طرح تجھ کو سرنگونیاں دوں گی۔ تیری (خادموں کی) جماعت سے باغیوں کی طرح نکل جاؤں گی۔
68
تا بغیب ایمانِ تو محکم شود
آں زمان کایمانت مایۂ غم شود
ترجمہ: حتٰی کہ غیب پر تیرا ایمان پختہ ہوجائے گا۔ (مگر) اس وقت کہ تیرا ایمان لانا (مفید نہ ہوگا، اور اس کا مفید نہ ہونا) تیرے لیے باعثِ غم ہوگا۔
مطلب: یہ مضمون کئی آیاتِ قرآنیہ میں آیا ہے، منجملہ ان کے ایک آیت یہ ہے:﴿فَلَمۡ یَکُ یَنۡفَعُہُمۡ اِیۡمَانُہُمۡ لَمَّا رَاَوۡا بَاۡسَنَا﴾(المومن: 85) ”لیکن جب ہمارا عذاب انہوں نے دیکھ لیا تھا تو اس کے بعد ان کا ایمان لانا انہیں فائدہ نہیں پہنچا سکتا تھا“
69
آں زماں خود جُملگاں مومن شوند
آں زماں خود سرکشاں بر سر دوند
ترجمہ: اس وقت تو سب کافر و مشرک مومن ہوجاتے ہیں۔ اس وقت تو تمام سرکش سر کے بل دوڑنے لگتے ہیں۔
70
آں زماں زاری کنند و افتقار
ہمچو دزد و راہزن در زیرِ دار
ترجمہ: اس وقت وہ زاری اور اظہارِ مسکنت کریں گے۔ جیسے چور اور ڈاکو سُولی کے نیچے (سزائے موت کے وقت کِیا کرتے ہیں۔)
71
لیک گر در غیب گردی مستوی
مالکِ دارین و شحنه خود توئی
ترجمہ: لیکن اگر تو دنیا کے اندر غیب (کی حالت) میں (ایمان پر) ثابت قدم ہوجائے۔ تو تو مالکِ دارین (بھی) اور شحنہ (بھی) ہوجائے۔
مطلب: ”مالک“ سے مراد بادشاہ جس کے حق کے لیے مجرم سزا پاتے ہیں، اور ”شحنہ“ وہ جو مجرموں کو سزا دیتا ہے۔ یعنی اگر تو عیال دار ہے، تو پھر سزا پانے کی بجائے، دوسروں کی سزایابی کا حکم دینے، اور ان کو سزا دینے کا درجہ حاصل کرے۔
72
رو نماید بادشاہیِ مقیم
نے دو روزہ مستعارست و سقیم
ترجمہ: پھر بہشتی زندگی کی دائمی بادشاہی تیرے لیے رونما ہوگی۔ وہ (بادشاہی) دو روز کی مستعار اور ناقص نہیں ہے۔ (جیسے فرمایا:﴿وَ اِذَا رَاَیۡتَ ثَمَّ رَاَیۡتَ نَعِیۡمًا وَّ مُلۡکًا کَبِیۡرًا﴾ (الدھر: 20) ”اور (حقیقت تو یہ ہے کہ) جب تم وہ جگہ دیکھو گے تو تمہیں نعمتوں کا ایک جہان اور ایک بڑی سلطنت نظر آئے گی۔“)
73
رستی از بیگار وکارِ خود کنی
ہم تو شاہ و ہم تو طبلِ خود زنی
ترجمہ: تو (اس وقت) تو (دوسروں کی) بیگار سے چھوٹ جائے اور اپنا کام (خود) کرے۔ تو بادشاہ بھی ہو اور اپنا نقّارہ بھی بجائے۔ (یہ حالت تو ایمان بالغیب کی صورت میں ہے، اور اگر اس کے خلاف ہو اور مجرمانہ حیثیت میں پیشی ہوئی، تو مجرم اپنی سزا کے معاینہ کے وقت حسرت سے کہےگا:)
74
چوں گلو تنگ آورد بر ما جہاں
خاک خوردے کاشکے حلق و دہاں
ترجمہ: جب (ہمارا یہ) گلو (جس کے لیے لقمہ اندوزی کرتے کرتے ہم ایمان سے بھی محروم رہے) ہم پر عالم کو تنگ (و تاریک) کر رہا ہے۔ تو کاش (ہمارا یہ) حلق اور منہ (بجائے لذیذ و مرغوب غذا) کے خاک کھایا کرے (تاکہ ہم لذات میں منہمک ہو کر ایمان سے محروم نہ رہتے۔)
انتباہ: آگے انتقال ہے اس مضمون کی طرف کہ وہ باغی و مجرم جو حسرت کر رہا ہے کہ کاش میں دنیا میں خاک کھایا کرتا، سو واقع میں تو دنیا میں یہ لوگ خاک ہی کھاتے ہیں، مگر اس خاک کی صورت بدل گئی ہے۔ جس سے یہ لذّات معلوم ہوتی ہیں اور مقصود اس سے یہ ہے کہ لذاتِ دنیا قابلِ رغبت نہیں ہیں۔ ان کے آغاز و انجام کو زیرِ نظر رکھ کر، ان سے متنفّر رہنا چاہیے۔
75
ایں دہاں خود خاک خوارے آمدست
لیک خاکے را کہ آں رنگین شدہ است
ترجمہ: یہ منہ خود مٹی پھانکنے والا ہے۔ لیکن اس مٹی کو (کھاتا ہے) جو (گوناگوں مطعومات کے رنگ میں) رنگین ہوگئی ہے۔
76
ایں کباب و ایں شراب و ایں شکر
خاکِ رنگین ست و نقشیں اے پسر
ترجمہ: اے عزیز! یہ کباب اور یہ شراب اور شکر (سب) رنگین و نقش مٹی ہے۔
مطلب: تمام اشیائے عالم کی اصل خاک ہے، اور سب کا مرجع بھی خاک ہے۔ جس سے بقاعدہ ”کُلُّ شَیْءٍ یَرْجِعُ اِلٰۤی اَصْلِہٖ“ ان کی اصل خاک ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔گو اشیائے عالم کی ترکیب میں، دوسرے عناصر بھی داخل ہیں، مگر غالب عنصر خاک ہی ہے، ان کی رنگینی یہ ہے کہ کوئی چیز میوے کی شکل رکھتی ہے، کوئی طعام کی۔
77
چونکہ خوردی و شد آنہا لحم و پوست
رنگِ لحمش داد و ایں ہم خاک کوست
ترجمہ: (وہ رنگ تو کھانے سے پہلے تھا اور) جب تم نے (ان کو) کھا لیا اور وہ چیزیں گوشت اور چمڑا بن گئیں۔ تو اس وقت (ان کو گوشت) اور چمڑے کا رنگ دے دیا اور آخر یہ بھی کوچے کی مٹی (بن جانے والی) ہے۔
78
ہم ز خاکے بخیہ بر گِل بے زنند
جملہ را ہم باز خاکے مے کنند
ترجمہ: خاک ہی سے گارے پر بخیہ کرتے ہیں۔ پھر سب کو خاک ہی کر دیتے ہیں۔
مطلب: حیوانات و نباتات کے اجسام خاک سے بنے ہیں۔ پھر مختلف غذاؤں سے کہ ان کی اصل بھی خاک ہے۔ ان اجسام میں نشو و نما ہوتا ہے تو گویا ایک خاکی چیز دوسرے خاکی وجود کے ساتھ منقسم ہوگئی۔ یہی معنی ہیں، خاک سے گارے پر بخیہ کرنے کے۔ ”خاک“ سے غذا اور ”گارے“ سے جسم مراد ہے اور ”بخیه“ اس کا انضمام ہے۔
79
ہندو و قبچاق و رومی و حبش
جملہ یک رنگ اند اندر گور خوش
ترجمہ: (چنانچہ) ہندی اور قبچاق اور رومی اور حبشی۔ سب (کے سب) قبر میں (ٹھیک) ایک رنگ رکھتے ہیں۔
80
تا بدانی کاں ہمہ رنگ و نگار
جملہ روپوش است و مکر و مُستعار
ترجمہ: خبردار! یاد رکھ کہ وہ سب رنگ اور نقش۔ سراسر نظر بندی اور فریب اور عارضی چیز (ہیں۔)
81
زانکہ باقی صِبْغَۃُ اللہ ست و بس
غیرِ آں بربستہ واں ہمچوں جرس
ترجمہ: کیونکہ باقی (دائم رہنے والا صرف) اللہ ہی کا رنگ ہے اور بس۔ اس کے علاوہ جو رنگ ہے عارضی طور پر چڑھایا ہوا سمجھو جیسے گھڑیال۔ (جو اونٹ سے عارضی طور پر بندھا ہوتا ہے، وہ اس سے جداگانہ ہے، جزو جسم نہیں۔)
مطلب: اس میں اللہ تعالٰی کے اس قول کی طرف اشارہ ہے:﴿صِبۡغَةَ اللّٰهِ ۚ وَمَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبۡغَةً﴾ (البقرۃ: 138) ”(ہم تو) اللہ تعالٰی کے رنگ میں رنگ گئے، اور اللہ تعالٰی کے رنگ سے اور کس کا رنگ بہتر ہے۔“ ﴿صِبْغَۃَ اللہِ﴾ یعنی خدائی رنگ سے مراد اعمالِ صالحہ ہیں، جو گویا روحانی رنگ ہیں۔ دوسرے رنگوں سے مراد صباحت اور فربہی (مترجم) اور ظاہری خوشی سے مراد جس کا عارضی و ناپائیدار ہونا ظاہر ہے۔
82
رنگِ صدق رنگِ تقوٰی و یقیں
تا ابد باقی بود بر عابدیں
ترجمہ: (اور روحانی رنگوں کا زائل نہ ہونا ظاہر ہے، چنانچہ) صدق کا رنگ اور تقوٰی و یقین کا رنگ۔ عابدوں پر ابد تک باقی رہے گا۔
83
رنگِ شک و رنگِ کفراں و نفاق
تا ابد باقی بود بر جانِ عاق
ترجمہ: (اسی طرح) شک اور کفر اور نفاق کا رنگ بھی۔ نافرمان (بندے) کی روح پر ابد تک باقی رہے گا۔
84
چوں سیہ روئیِ فرعونِ دغا
رنگِ او باقی و جسمِ او فنا
ترجمہ: جیسے فرعون دغاباز کی سیاہ روئی۔ اس کا باقی رہنے والا رنگ ہے، اور اس کا جسم فانی ہے۔
85
برق و فرِّ روے خوبِ صادقین
تن فنا شد واں بجا تا یومِ دین
ترجمہ: صادقین کے اچھے چہرے کی چمک دمک (کے کیا ہی کہنے۔ ان کا) بدن فنا ہوگیا اور وہ (چمک دمک) قیامت تک قائم ہے۔ (بلکہ قیامت کے بعد بھی ابد الاباد تک)
86
زشت آں زشت ست و خوب آں خوب و بس
دائم آں ضحّاک و ایں اندر عبس
ترجمہ: (اصلی) بد صورت وہی بد صورت ہے (جس پر کفر و شرک وغیرہ رذائل کا برا رنگ چڑھا ہو) اور (اصلی) خوب صورت وہی خوب صورت ہے (جس پر فضائل کا خدائی رنگ چڑھا ہو) اور بس۔ وہ ہمیشہ (سرورِ دائم سے خنداں) رہے گا، اور یہ ہمیشہ (روحانی اذیّت سے) ترش روئی میں۔
87
خاک را رنگ و فن شنگے دہد
طفل خُوباں را بداں جنگے دہد
ترجمہ: (غرض حق تعالٰی) خاک کو رنگ اور فن اور شوخی دیتا ہے۔ طفل طبع لوگوں کو اس پر جھگڑا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
مطلب: بچوں کی عادت ہے کہ وہ ایک چیز کے لیے باہم لڑتے اور جھگڑتے ہیں۔ یہ روتا ہے کہ میں لوں گا، اسی طرح جو لوگ مال و زر اور جائیداد کے لیے باہم تنازعت و خصومت کرتے ہیں حتی کہ جو بادشاہ بلاد و ممالک کے لیے باہم جنگ و جدل کرتے ہیں۔ وہ گویا طفل طبع ہیں۔ وَ نِعْمَ مَا قَالَ اسمٰعیل میرٹھی مرحوم ؎
یہ قول کسی بزرگ کا سچا ہے
ڈالی سے جدا نہ ہو تو پھل کچا ہے
کھوئی نہیں جس نے حُبِّ دنیا دل سے
گو ریش سفید ہو مگر بچّا ہے
88
از خمیرے اُشتر و شیرے پژند
کودکاں از حرصِ آں کف مے مزند
ترجمہ: (جس طرح) آٹے کا اونٹ اور شیر (بنا کر گھی یا تیل میں) تلتے ہیں۔ تو لڑکے ان (کو کھانے) کی حرص سے ہاتھ تک چوستے ہیں۔ (یعنی ان کو اس طرح مزے لے لے کر کھاتے ہیں کہ اگر ان کے کچھ ریزے ہاتھ میں لگے ہوں، تو ان کو بھی چاٹ لیتے ہیں۔)
89
شیر و شتر ناں شود اندر دہاں
در نگیرد ایں سخن با کودکاں
ترجمہ: (حالانکہ وہ آٹے کے) شیر اور اونٹ منہ میں (جا کر) روٹی (کا لقمہ) بن جاتے ہیں۔ (لیکن) بات یہ لڑکوں پر اثر نہیں کرتی۔
مطلب: اگر لڑکوں سے کہا جائے کہ یہاں تم آٹے کے شیر و شتر کے ایسے دلدادہ کیوں ہو؟ یہ اسی آٹے سے تو بنتے ہیں۔ جس سے یہ شِیرمال، پراٹھے اور روغنی روٹیاں پکی ہیں، تم یہ کھاؤ جو ان سے زیادہ لذیذ ہیں، تو وہ اس بات کو کبھی ماننے والے نہیں۔ ان کو جو مزا شیر و شتر کھانے میں آتا ہے، اور کسی چیز میں نہیں آتا۔ یہی حال دنیاوی اشیاء پر لڑنے مرنے والوں کا ہے کہ اگر ان کو کہا جائے بھائی یہ سب چیزیں مٹی ہیں، یہ باغات و محل جتنے بنے سب کھلونے ہیں، یہ مٹی سے بنے ہیں، تم ان پر کیوں جھگڑتے ہو تو وہ ایک نہیں مانتے۔ غرض ہم اہلِ دنیا کا یہ حال ہے کہ:
90
دامنِ پُر خاکِ ما چُوں کودکاں
رفتہ از سرِجہد اسباب و دُکاں
ترجمہ: ہم لڑکوں کی طرح خاک سے جھولی بھرے ہوئے ہیں۔ (اور اپنے) دماغ سے اسباب (نجات) اور کسبِ اعمال کی دکان کا اہتمام جاتا رہا ہے۔
91
کودک اندر جہل و پندار و شکے ست
شکرِ باری قوتِ او اندکے ست
ترجمہ: (مانا کہ) لڑکا نادانی اور گمان اور شک میں ہے۔ (مگر) خیر شکر ہے کہ اس کی قوت (عملیہ) کم ہے۔
مطلب: قوتِ عملیہ کی کمی کے سبب سے اس کے نقصان علم و عقل کا کوئی اثرِ مضر ظاہر نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ کھلونوں پر لڑتے بھی ہیں، تو نہ ہتھیار ہے نہ زور ہے نہ تدبیر اور چالاکی ہے، یوں ہی معمولی تو تو، میں میں ہوئی اور جھگڑا ختم ہوا۔
92
وائے زاں طفلاں کہ پیری میکنند
لنگ مورانند و میری میکنند
ترجمہ: (زیادہ) افسوس تو ان (طبیعت کے) بچوں پر ہے جو بڑھاپے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لنگڑی چیونٹیاں ہیں اور سرداری کر رہے ہیں۔ (یہ پیرانِ نابالغ قابل افسوس ہیں، جن کی قوتِ عملیہ ناقص ہے، اور حرص و حسد اور فتنہ و فساد کی عادات سب سے بڑھ چڑھ کر۔)
93
طفل را استیزہ و صد آفت ست
شکر ایں کو بے فن و بے آلت ست
ترجمہ: (بے شبہ) لڑکے میں لڑائی (کی عادت) اور سو آفت ہے۔ (مگر) اس بات کا شکر ہے کہ وہ تدبیرِ (فتنہ) سے خالی اور سامانِ (فساد) سے عاری ہے۔
94
واے زیں پیرانِ طفلِ نا ادیب
گشتہ از قوت بلائے ہر لبیب
ترجمہ: افسوس ہے ان (کے استاد) پیران نابالغ بے ادب پر۔ جو اپنی قوّتِ (گویائی اور طاقتِ هنگامہ آرائی) سے ہر عاقل کے لیے بلائے (جان) بن رہے ہیں۔
95
چوں سلاح و جہل جمع آید بہم
گشت فرعونے جہاں سوز از ستم
ترجمہ: جب (قوّتِ عملیہ کے) ہتھیار اور جہالت (یعنی قوّتِ علمیہ کا نقص) جمع ہوجائیں۔ تو وہ (شخص) ایک فرعون بن گیا جو ظلم سے جہاں کو پھونک ڈالنے والا ہے۔
96
شکر کُن اے مردِ درویش از قصور
کہ ز فرعونی رہِیدی و ز کفور
ترجمہ: اے محتاج آدمی! تو (وقت و شوکت کے سامان کی) کوتاہی کے لیے شکر کر۔ کہ تو فرعونیت اور کفر سے چھوٹ گیا۔
97
شکر کہ مظلومی و ظالم نۂ
ایمن از فرعونی و ہر فتنۂ
ترجمہ: شکر ہے کہ تو مظلوم ہے اور ظالم نہیں ہے۔ فرعونیت سے اور ہر فتنہ سے امن میں ہے۔
98
اشکم تی لافِ اللّٰہی نزد
کاتشش را نیست از ہیزم مدد
ترجمہ: (دیکھو کبھی) کسی خالی پیٹ (والے غریب و محتاج) نے الوہیت کا دعوٰی نہیں کیا۔کیونکہ اس (کے تکبر کے ناپاک مادہ) کی آگ کو مال و جاہ کے ایندھن کی مدد نہیں پہنچی۔
99
اِشکمِ خالی بود زندانِ دیو
کش غمِ نان مانع ست از مکر و ریو
ترجمہ: خالی پیٹ شیطان کا قید خانہ ہے۔ (جس میں وہ مقیّد ہے اور بھوکے آدمی کو بہکا نہیں سکتا) کیونکہ اس شخص کو روٹی کا فکر، (شیطان کے سکھائے ہوئے) مکر و فریب (پر عمل کرنے) سے مانع ہے۔
100
اشکمِ پُرلوت داں بازارِ دیو
تاجرانِ دیو را در وے غریو
ترجمہ: (بخلاف اس کے) طعام سے بھرے ہوئے پیٹ کو شیطان کی منڈی سمجھو۔ جس میں شیطان کے تاجروں کا شور (برپا) ہے۔
مطلب: خوشحال و آسودہ اور متموّل و ذی جاہ لوگوں کا طبقہ، گویا طعام سے بھرا ہوا پیٹ ہے، یہ پیٹ شیطان کے کاروبار کا مرکز ہے۔ شیاطین الِانْس جو اس طبقہ کے خوشحال و فارغ البال لوگ ہیں، طرح طرح کے مکر و فریب و شیطانی داؤ، کھیل رہے ہیں۔ کوئی حکومت کی کرسی پر اپنی سیاسی چالوں سے مخلوقِ خدا کا گلا گھونٹ رہا ہے، کسی نے مسندِ تقدّس بچھا کر ولایت و نبوت کا جال پھیلایا ہے، کوئی اس سے بھی بلند اڑ کر خدائی کا مدّعِی ہے۔ آگے انہی انسان نما، شیطانوں کی مکّارانہ کارستانیوں کا ذکر ہے، اور چونکہ اوپر ان کو تاجرانِ شیطان کہا ہے، اس لیے ان کے کارناموں کا ذکر تجارت و سوداگری کے استعارہ میں ہوگا:
101
تاجرانِ ساحرِ لاشے فروش
عقلہا را تیرہ کردہ از خروش
ترجمہ: (ان) جادوگر تاجروں نے جو لاشے کو بیجنے والے ہیں۔ (اپنے) شور سے عقلوں کو پریشان کر رکھا ہے۔
مطلب: مولانا کا مقصود ”لاشے فروش“ سے یہ ہے کہ وہ مکار جس چیز کے سودے میں خریدار کو مونڈتے ہیں، وہ حقیقت میں کچھ بھی نہیں۔ اس کا کوئی وجود نہیں محض نام ہی نام ہے، مگر اس شعر کا مضمون ایک لحاظ سے سٹّہ بازی کے بازار کا، صحیح نقشہ پیش کر رہا ہے۔ جہاں پر ہزاروں لاکھوں مَن اجناس کا کاروبار ہوتا ہے، حالانکہ ان اجناس کے ایک دانے کا بھی کہیں وجود نہیں ہوتا، اور باوجود اس کے اس کاروبار کرنے والے سوداگروں، اور خریداروں، اور دلّالوں کا، وہ ہجوم ہے، اور وہ اس قدر شور و غل مچاتے ہیں، کہ الاَماں۔ مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے، تیرہ سو سال پیشتر اس آخری زمانہ کے تجارت نما قمار کا اشارہ فرما دیا، اور اس کی حرمت کا حکم دے دیا۔
”عَنْ حَکِیْمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ: نَھَانِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ أَبِیْعَ مَا لَیْسَ عِنْدِيْ (رواہ الترمذی و فی روایۃ لہ ولابی داؤد والنسائی) قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَأْتِیْنِی الرُّجُلُ فَیُرِیْدُ مِنِّی الْبَیْعَ وَلَیْسَ عِنْدِیْ فَابْتَاعُ لَہٗ مِنَ السُّوْقِ قَالَ: لَا تَبِعْ مَا لَیْسَ عِنْدَکْ“ ”حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کے فروخت کرنے سے منع فرمایا جو میرے پاس نہ ہو۔“ (اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، اور انہی کی ایک روایت اور ابوداؤد اور ترمذی کی روایت میں ہے) ”کہ وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی میرے پاس آتا ہے اور میرے پاس سودا کرنے کا قصد کرتا ہے اور مال میرے پاس ہوتا نہیں، تو کیا میں اس کے ساتھ بیع کر کے بازار سے اس کو وہ چیز خرید کر دوں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس چیز کا سودا نہ کرو جو تمہارے پاس موجود نہیں“ (مشکوٰۃ)
آگے ان شعبدہ باز تاجروں کی کارستانیوں کا ذکر ہے:
102
خم روا کردہ ز سحرے چوں فرس
کرد کِرباسے ز مہتاب و غَلَس
ترجمہ: (ان ساحر تاجروں نے) مٹکے کو گھوڑے کی طرح چلتا کر رکھا ہے۔ (چنانچہ خریدار اس کو گھوڑا سمجھ کر خرید لیتا ہے، اور) چاندنی اور اندھیرے سے سفید اور سیاہ کپڑا بنا رکھا ہے۔ (جس سے خریدار دھوکا کھا کر دام کھو بیٹھتا ہے۔)
103
چوں بریشم خاک را بر مے تنند
خاک در چشمِ ممیّز مے زنند
ترجمہ: ابریشم کی طرح خاک کو تن رہے ہیں (خریدار غریب اس کو ریشم سمجھ کر خرید لیتا ہے۔) وہ لوگ (ریشم اور مٹی میں) تمیز کرنے والے کی آنکھ میں (بھی) خاک جھونک رہے ہیں۔
104
جُندُلے را رنگِ عودی مے دہند
بر کلوخے ماں حسُودی مے دہند
ترجمہ: پتھر کو عود کے رنگ میں ظاہر کر رہے ہیں۔ مٹی کے ڈھیلے پر ہم کو رشک دے رہے ہیں۔ (آگے پھر عود ہے۔ اس مضمون کی طرف کہ تمام اشیا کی اصل خاک ہے:)
105
پاک آں کو خاک را رنگے دہد
ہمچو کودک ماں براں جنگے دہد
ترجمہ: پاک ہے وہ خدا جو خاک کو رنگ دیتا ہے۔ اور ہم کو اس کے لیے لڑکے کی طرح لڑائی (پر آمادہ) کر دیتا ہے۔
مطلب: اللہ تعالٰی کی اس صنعت کا ذکر، پاکی کے ساتھ کرنے میں، شاید ایک شبہ کے دفع کی طرف اشارہ ہو۔ وہ شبہ یہ ہے کہ اگر یہ شیطان سیرت لوگ اس قسم کے تصرّفات کرتے ہیں تو وہ مذموم کیوں ہیں۔ جب کہ حق تعالٰی بھی مٹی سے گوناگوں مخلوق بناتا ہے۔ وجہِ جواب یہ ہے کہ ان کا یہ فعل محض خدع و فریب اور نظر بندی ہے۔ اللہ تعالٰی خدع و فریب سے پاک ہے، اس کا مٹی سے مختلف مخلوق پیدا کرنا کوئی نظر بندی اور نمائشی فعل نہیں، بلکہ وہ فی الواقع تخلیق ہے، وہاں تو مٹکا مٹکا ہی رہتا ہے۔ محض بطور نمائش اس کو گھوڑا دکھایا جاتا ہے، یہاں مٹی مٹی نہیں رہتی، بلکہ ایک دوسری مخلوق بن جاتی ہے، آگے وہی مضمون ہے کہ لوگ ان اشیاء کے لیے جھگڑتے ہیں جن کی اصل خاک ہے:
106
دامنِ پُر خاک ما چوں طفلکاں
در نظرِ ما خاک ہمچوں زرِّ کاں
ترجمہ: ہم ننھے بچوں کی طرح جھولی خاک سے بھرے ہوئے ہیں۔ (اور وہ) خاک ہماری نظر میں (اپنی رنگ و نقش کی وجہ سے) معدن کے (کھرے) سونے کی طرح (قابلِ قدر )ہے۔
مطلب: ہم لوگ جو نقد و زر، مال و مواشی، سامان و اسباب وغیرہ جمع کر رہے ہیں۔ ان سب اشیاء کی اصل خاک ہے، ان کو جمع کرنا گویا خاک سے دامن پُر کرنا ہے۔ آگے ان ”فریفتگانِ رنگ“ اور ”شیفتگانِ جنگ“ کو بطور نصیحت فرماتے ہیں:
107
طفل را با بالغاں نبود جدال
طفل را حق کے نشاند با رجال
ترجمہ: (قاعدہ ہے کہ) بچے کو بڑوں کے ساتھ لڑنا (جائز) نہیں ہوتا۔ (کیونکہ) بچے کو حق تعالٰی مردوں کے برابر کب بٹھاتا ہے۔
مطلب: یعنی عوام الناس جو طفل طبع ہیں، اور خاصاںِ حق جو بمنزلہ بالغین ہیں، یکساں نہیں ہو سکتے، اللہ تعالٰی فرماتا ہے:﴿هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ﴾ (الزمر: 9) ”کہو کہ: کیا وہ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے سب برابر ہیں؟ پس عوام کو خاصاںِ حق کے ساتھ معارضہ کرنا، الجھنا اور جھگڑنا نہیں چاہیے، یہ مرتبہ قرب کے بالغ اور خاصانِ حقِ عوام کو حبِّ دنیا، جو منع کر رہے ہیں، تو ان کی نصیحت کو مان لینا چاہیے، اگر عوام الناس یہ کہیں کہ ہم بھی تو بالغ ہیں، تو اس کا جواب آگے ایک تشبیہ سے دیتے ہیں:
108
میوہ گر کہنہ شود تا ہست خام
پختہ نبود غورہ گویندش بنام
ترجمہ: میوہ اگرچہ پرانا ہوجائے (لیکن) جب تک کچا ہے (اور) پکنے نہ پائے۔ اس کا نام کچا میوہ (ہی) ٹھیرائیں گے۔
109
گر شود صد سالہ آں خام و ترش
طفل و غورہ است او بر ہر تیز ہُش
ترجمہ: اگر وہ کچا اور کھٹا میوہ سو برس کا بھی ہوجائے۔ تو وہ ہر تیز ہوش کے نزدیک بچہ اور کچا ہی ہے۔ (اسی طرح جس شخص میں عقل کی پختگی اور بالغ نظری پیدا نہیں ہوئی، تو وہ جسمی بلوغ کو پہنچ کر بھی، ابھی ایک طرح سے نابالغ ہے، اور سو برس کی عمر کو پہنچ کر وہی بچے کا بچہ ہے۔
110
گرچہ باشد موے و ریشِ او سپید
ہمدراں طفلی و خوف ست و امید
ترجمہ: اگرچہ اس (پیرِ نابالغ) کے سر کے بال اور ڈاڑھی سفید ہو۔ لیکن وہ اس بچپن (کی باتوں) اور اس بچوں کے سے خوف اور امید میں ہے۔
مطلب: بچوں کی عادت ہے کہ موہوم و معدوم اشیاء سے ڈرتے ہیں، اور بلا ضرورت و بلا استحقاق امیدوار بن جاتے ہیں۔ اسی طرح طفل طبع آدمی ادائے اعمال کی مشقت سے ڈرتا ہے، اور بلا عمل نجات و فلاح کا امیدوار ہو جاتا ہے۔ جیسے کہ اکثر غافل و کاہل لوگ، جو عبادات و طاعات کی بجا آوری کی ہمت نہیں رکھتے، کہا کرتے ہیں: ”میاں وہ بڑا غفور و رحیم ہے، بلا عمل بھی بیڑا پار کر دیتا ہے۔ اس کو ہمارے اعمال کی کیا ضرورت ہے۔ وہ بڑا بے نیاز ہے۔“ آگے اسی خوفِ باطل اور امیدِ خام کی تفسیر فرماتے ہیں:
111
ماند خواہم نا رسیدہ یا رسم
حق کند با من غضب یا خود کرم
ترجمہ: (وہ اس طفلانہ خوف و امید میں رہتا ہے، کہ معلوم نہیں) میں بے پہنچا رہ جاؤں گا یا پہنچ جاؤں گا۔ (اور معلوم نہیں کہ) حق تعالیٰ مجھ پر غضب کرے یا (شاید) کرم ہی کرے۔ (یہ تو خوفِ باطل کا مضمون تھا آگے امیدِ خام کا مفہوم ہے:)
112
گر رسم یا نا رسیدہ ماندہ ام
اے عجب با من کند لُطف و کرم
ترجمہ: (مگر وہ بڑا کریم و رحیم ہے، اس لیے) اگر میں رسیدہ ہو جاؤں (تو بھی یا) اگر نا رسیدہ جاؤں۔ (تو بھی،) اے (لوگو!) عجیب (بات یہ ہے کہ) وہ (دونوں صورتوں میں) میرے ساتھ لطف و کرم (ہی) کرے گا۔
113
با چنیں نا قابلی و دُورئیے
بخشد ایں غورہ مرا انگورئیے
ترجمہ: باوجود ایسی نا قابلیت (کے کہ مجھ سے کوئی عمل نہیں بن آتا) اور (باوجود ایسی) دوری کے (کہ میں ارتکابِ معاصی کے سبب اس سے دور ہوتا جا رہا ہوں) وہ میری اس خامی کو پختگی بخش دے گا۔
114
نیستم امیدوار از ہیچ سو
واں کرم میگوید لَا تَیْاَسُوْا
ترجمہ: میں (حق تعالٰی کے لطف و کرم پر اس قدر وثوق رکھتا ہوں، کہ اس کے سوا اور) کسی طرف سے میں امیدوار نہیں ہوں۔ اور (اس کا) وہ کرم مجھ کو کہہ رہا ہے کہ تم مایوس نہ ہو۔
115
دائما خاقانِ ما کردست طُو
گوشِ ما را مے کشد لَاتَقْنَطُوْا
ترجمہ: ہمارے بادشاہ (حقیقی تعالٰی شانہٗ) نے ہمیشہ (عفوِ عام کا) جشن کیا ہے۔ (اس سے ہم کو عفو و غفران کی پختہ امید ہے) اور ہمارے کان کو﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ﴾ (الزمر:53) (کا مژدہ امیدِ واثق کی طرف) کھینچ رہا ہے۔
مطلب: کلماتِ مقتبسہ قرآن مجید سے ہیں۔ جس کے معنی ہیں ”اللہ تعالٰی کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔“ ان پانچ شعروں میں طفل طبع لوگوں کے خوفِ باطل اور رجائے عاطل کا نقشہ کھینچا ہے۔ کہ وہ اپنی عاقبت کا خوف کرتے ہیں، تو بالکل نا امید ہو بیٹھتے ہیں۔ جیسے اوپر کے پہلے شعر کا مضمون ہے۔ ایسا خوف ایمان کے خلاف ہے۔ ﴿اِنَّہٗ لَا یَایۡـئَسُ مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡکٰفِرُوۡنَ﴾(یوسف: 87) ”خدا کی رحمت سے وہی لوگ نا امید ہوا کرتے ہیں جو کافر ہیں۔“ اور جب اپنی نجات و فلاح کی امید کرنے لگتے ہیں، تو خوف و خشیت کا کوئی شمہ، قلب میں باقی نہیں رکھتے (جیسے باقی چار شعروں کا مضمون ہے۔) ایسی امید بھی ایمان کے خلاف ہے۔﴿فَلَا یَاۡمَنُ مَکۡرَ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴾(الاعراف: 99) ”تو (یہ یاد رکھیں کہ) اللہ کی دی ہوئی ڈھیل سے وہی لوگ بے فکر ہو بیٹھتے ہیں جو آخر کار نقصان اٹھانے والے ہوتے ہیں۔“
آگے مولانا انتقال فرماتے ہیں رجاءِ حقیقی کی طرف، جس میں باوجود عمل کے اپنے عمل کو ہیچ سمجھنے سے، حق تعالٰی ہی کی رحمت پر نظر ہوتی ہے۔ جیسے کاشتکار باوجود تخم ریزی کے بارش کا امیدوار حق تعالٰی سے رہتا ہے۔
116
گرچہ ما زیں نا امیدی در گویم
چوں صلا زد دست اندازاں رویم
ترجمہ: اگرچہ ہم (اپنے اعمالِ بد کو دیکھتے ہوئے) اس نا امیدی سے (جو ہماری حالت سے پیدا ہوتی ہے، خوف و خطر کے) گڑھے میں (گِر پڑتے) ہیں۔ لیکن جب حق تعالٰی نے (سلامتی کے گھر کی طرف ہم کو) آواز دی ہے، تو ہم ہاتھ پھینکتے ہوئے (یعنی رقص کرتے)چل رہے ہیں۔
مطلب: حق تعالیٰ کے ”صلا“ کا ثبوت اس آیت سے ملتا ہے: ﴿وَاللّٰہُ یَدْعُوْا اِلٰی دَارِالسَّلاَمِ﴾ (یونس: 25) ”اور اللہ تعالٰی سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔“ جب آدمی کسی چیز کے اشتیاق میں تیزی سے لپک کر اس کی طرف جاتا ہے، تو ہاتھ بھی، ایک خاص انداز سے حرکت کرتے ہیں۔ اسی حرکت کے لحاظ سے ”دست اندازاں“ ہاتھ پھینکتے ہوئے کہا ہے۔ مطلب یہ کہ اگرچہ ہم اپنی کوتاہیِ عمل، اور قصورِ طاعات سے نا امید ہو جاتے ہیں، مگر چونکہ حق تعالٰی نے دعوت دی ہے، اور دعوت کے مقام کا راستہ عمل ہی ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے۔ ”اِعْمَلُوْا! فَکُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہُ“ (مسنداحمد) ”عمل کیے جاؤ کیونکہ ہر شخص کو اس کام کی آسانی دی گئی ہے جس کے لیے وہ پیدا ہوا ہے۔“ اس لیے ہم شوق و ذوق سے عمل کرنے، اور طاعات اور عبادات بجا لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
117
دست اندازیم چوں اسپاں سپس
در دویدن سوئے مرعائے انس
ترجمہ: (کس طرف چل رہے ہیں؟) ہم اس (صلا) کے بعد دوڑنے میں ہاتھ پھینک رہے ہیں (اپنے) ہم مشرب لوگوں کی چراگاہ کی طرف، جیسے گھوڑے (اپنی چراگاہ کی طرف شدّتِ اشتیاق سے) دوڑتے ہیں۔
مطلب: ہم کیا عمل کر رہے ہیں؟ وہی جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے! اور جس کو صُلحاء لوگ صدیوں سے بجا لا رہے ہیں۔ یعنی نماز اور زکوٰۃ، باستطاعتِ حج، بشرائطِ ترکِ محرّمات و مکروہات، ادائے حقوق العباد و رعایتِ حقوق النّفس وغیرہ۔ ہم ان اعمال کی بجا آوری میں انہی صلحاء کی معیّت کی کوشش کر رہے ہیں۔
118
گام اندازیم و آنجا گام نے
جام پردازیم و آنجا جام نے
ترجمہ: ہم (عمل کا) قدم رکھتے جاتے ہیں اور (اس مقام میں قدم رکھتے ہیں کہ) وہاں قدم (کا دخل) نہیں۔ ہم (اپنی دانست میں اِتْیان باعمال کے) جام کو خالی کر (کے) اس مے نوشی سے فارغ ہو رہے ہی، اور (واقعہ یہ ہے کہ) (ان اعمال کے) جام (و مئے کی کوئی حقیقت) نہیں۔
مطلب: ہم اعمالِ حسنہ کی بجا آوری کے لیے، ہر چند پوری کوشش کر رہے ہیں، مگر اس درگاہِ عالی پائے گاہ میں، ایسے اعمال کی کچھ وقعت نہیں، کیونکہ ان اعمال میں بتقاضائے بشریّت کچھ نہ کچھ غفلت، اور عدمِ صفائے توجہ، اور عجبِ دنیا وغیرہ خرابیوں کا اشتمال ہوتا رہتا ہے، جو ان کو اس درگاہِ عالی کے لائق نہیں رہنے دیتا۔
119
زانکہ آنجا جملہ اشیا جانی ست
معنے اندر معنے و ربّانی ست
ترجمہ: (یہ اعمال اس درگاہ کے لائق کیوں نہیں؟ اس کی) وجہ یہ ہے کہ وہاں (اسی قسم کی) تمام چیزیں (قابلِ قبول ہیں جو) روحانی ہیں۔ (یعنی خاصُ الخاص اور پروردگار کی شان کے لائق ہیں۔)
مطلب: وہاں وہی اعمال قابلِ قبول سمجھے جاتے ہیں، جو ہر قسم کے شوائبِ نقص سے پاک ہوں۔ اور ان کو محض حق تعالٰی کی رضا و خوشنودی کے لیے بجا لائیں، جس سے ان اعمال کو پروردگارِ عزّوجل کی طرف منسوب کرکے ربّانی کہنا صحیح ہو۔ پس ہمارے یہ اعمال مشوب بنقائص کیونکر قبول ہوں، اور باوجود اس کے جو یہ ناقص اعمال قبول ہو جاتے ہیں۔ جیسے کہ: ﴿جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴾ (السجدۃ: 17) ”یہ ان اعمال کا صلہ ہے جو وہ کرتے تھے“ اس پر شاہد ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں خاص رحمت مؤثر ہے۔ غرض حق تعالیٰ کی دعوت، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکید، عمل کے مطابق اعمال کی بجا آوری، اگر نجات کی امید دلا رہی ہے، تو اپنے اعمال کے نقص سے، عدم نجات کا خوف بھی عارض ہے۔ یہی بینَ الخوف والرّجاء ہونا، ایمان کی نشانی ہے۔ خوفِ محض ہے تو یاس ہے۔ اور رجاءِ محض، حق تعالٰی کی قہّاریت سے بے پروائی ہے۔ تو یہ دونوں صورتیں ایمان کے خلاف ہیں، ”وَالْیَیْئَسُ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی کُفْرٌ، وَ الْاَمْنُ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی کُفْرٌ“ (عقائد نسفی) ایمان کی اس نشانی، جو خوف و رجا دونوں کے بقدرِ مناسب ہونے میں ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتی ہے: ”کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جوان کے پاس تشریف لے گئے جب کہ وہ نزع کی حالت میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے اپنی حالت کیسی نظر آتی ہے، اس نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں اللہ تعالٰی سے امیدوار بھی ہوں اور اپنے گناہوں کی وجہ سے ڈرتا بھی ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسے وقت میں، جب کسی بندے کے دل میں یہ دو باتیں (یعنی خوف و رجا) جمع ہوں، تو اللہ تعالٰی اس کی امید پوری کرتا ہے، اور جس بات سے وہ ڈرتا ہے اس سے امن بخشتا ہے۔“ (مشکوٰۃ) یہ حدیث باصلِ الفاظ شرح ہذا کی جلد شانزدہم میں درج ہو چکی ہے۔ صاحب کلیدِ مثنوی فرماتے ہیں کہ چونکہ حاصل اعمال کا سلوک ہے، اور حاصل تاثيرِ رحمت کا، جذبِ حق ہے۔ تو اعمال کے عدمِ تاثیر کا حاصل، سلوک کا عدمِ تاثیر اور جذب کی تاثیر ہے۔ اس لیے آگے اس جذب کے بعض احکام و آثار، مثل فنا و بقاء اور ان کے خواص، اور ان کی مطلوبیّت بیان فرماتے ہیں:
120
ہست صورت سایہ معنے آفتاب
نور بے سایہ بود اندر خراب
ترجمہ: صورت (تو) سایہ ہے، (اور) معنی آفتاب ہے۔ نور سایہ کے بدون ویرانے میں ہوتا ہے۔
مطلب: صورت سے مراد احکامِ جسمانیہ کا غلبہ ہے، جو اعمال کے نقص کا باعث ہوتا ہے۔ اور معنٰی سے مقصود احکامِ روحانیہ کا غلبہ ہے، جس سے اعمال کا نقص مبدّل بکمال ہوتا ہے، اگرچہ وہ کمال حقوقِ خداوند تعالٰی کے شایانِ شان نہیں، بلکہ صرف بندے کے لیے مناسبِ حال ہو، اس سے وہ اعمال روحانی و ربانی بن جاتے ہیں، اور یہ غلبۂ روحانیت فنا کا اثر ہے، کہ فنا میں وہ اعمالِ عبد، منسوب بحق ہو جاتے ہیں۔ بفحوائے حدیث قدسی ”فَکُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِه۔۔۔ الخ“ دوسرے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ آبادی میں محلات و عمارات کا سایہ پڑنے سے خالص دھوپ نہیں ہوتی، بلکہ دھوپ کی روشنی مخلوط بہ سایہ ہوتی ہے۔ بخلاف اس کے، ایک لق و دق بیابان میں، خالص دھوپ ہی دھوپ ہوتی ہے۔ یہ تمثیل اس بات کی تائید کرتی ہے کہ جسمانیت نور کی مانع ہے۔ اسی طرح احکامِ جسمانیت کا غلبہ روحانیت کے غلبہ کا مانع، اور خالص اعمال کی بجا آوری کے لیے رکاوٹ ہے۔ آگے وہی اجاڑ میں خالص نور ہونے کی وجہ سے ارشاد ہے:
121
چونکہ آنجا خشت بر خشتے نماند
نُورِ مہ را سایۂ زشتے نماند
ترجمہ: جب وہاں (کوئی ایسی عمارت جو) اینٹ پر اینٹ (رکھ کر بنائی گئی ہو، نہ) رہی۔ تو چاند (سورج) کی روشنی کو روکنے والا کوئی مخالف سایہ نہ رہا۔
مطلب: اسی طرح اگر تم احکامِ روحانیہ کا غلبہ چاہتے ہو، جس کے آثار کا ذکر اوپر گزرچکا ہے، یعنی اعمال کا خالص ہونا، اور منسوب بحق ہونا، تو فنائے جسم کو اختیار کرو، کہ اس پر دولتِ بقاء مرتب ہو گی، جس سے تم متخلّق باَخلاقِ اللہ اور خالص الاعمال ہو جاؤ گے۔
122
خشت گر زرّیں بود برکندنی ست
چوں بہائے خشت وحی و روشنی ست
ترجمہ: (جو) اینٹ (چاند اور سورج کی مانع ہو) اگر (وہ) سونے کی بھی ہو تو اکھاڑ پھینکنے کے قابل ہے۔ (خصوصًا) جبکہ (اس) اینٹ (کو اکھاڑ پھینکنے) کا عوض الہام اور نور ہو۔
مطلب: دولتِ الہام و نور کے آگے، زر و سیم وغیرہ حطامِ دنیا کی کوئی وقعت نہیں۔ پس جو فوائدِ دنیویہ، اور حظوظِ نفسانیہ، ان فضائلِ روحانیہ کے حصول میں مانع ہوں، ان سے دست بردار ہو جانا چاہیے۔ تاکہ وہ فضائل حاصل ہو جائیں۔ وہ دست برداری فنا ہے، اور یہ حصول بقاء ہے، اور اس نور کے حصول کے لیے حظوظِ نفسانیہ و جسمانیہ کے فوت ہونے کی پروا نہ کرو، کیونکہ یہ نور وہ چیز ہے کہ:
123
کوہ بہرِ دفعِ سایہ مُندکے ست
پارہ گشتن بہرِ ایں نور اندکے ست
ترجمہ: کوہِ طور بھی اس نور کو حاصل کرنے اور سایہ (کی ظلمت) کو دور کرنے کے لیے ریزہ ریزہ ہوجانا( پسند) کرتا ہے۔ (اور) اس نور کے لیے پارہ (پارہ) ہوجانا تو (اس کے آگے) ایک معمولی بات ہے۔
مطلب: کوہِ طور پر جب تجلّی ہوئی، تو اس کی بیرونی سطح کا اس سے منور ہونا تو لازمی تھا، لیکن اس کے باطن میں ظلمت موجود تھی، جس کو یہاں سایہ سے تعبیر کیا ہے۔ کیونکہ پہاڑ جیسی ٹھوس اور ظلماتی چیز کے باطن میں بیرونی نور نہیں پہنچ سکتا، اس لیے پہاڑ نے پاش پاش ہوجانا پسند کیا، اگرچہ اس کا یہ پاش پاش ہوجانا اختیارًا نہیں اضطرارًا تھا، تاکہ باطن میں بھی اس کا ہر جز اس نور سے منوّر ہوجائے۔ آگے بھی یہی مضمون ہے:
124
بر برونِ کُہ چو زد نورِ صَمَدْ
پارہ شد تا در درونش ہم زند
ترجمہ: کوہِ (طور) کی بیرونی سطح پر، جب خداوندِ بے نیاز کے نور نے تجلّی کی۔ تو وہ پارہ (پارہ) ہوگیا تاکہ (نور) اس کے باطن میں بھی متجلّی ہوجائے۔
125
گرسنہ چوں بر کفش زد قرصِ ناں
وا شگافد از ہوس چشم و دہاں
ترجمہ: (جیسے) بھوکے کے ہاتھ پر روٹی آ پڑتی ہے۔ تو وہ ہوس سے آنکھ اور منہ بھی پھاڑ دیتا ہے (اسی طرح کوہِ طور پر جب تجلی ہوئی، تو اس نے اپنے باطن کو اس تجلّی سے بہرہ مند کرنے کے لیے، اپنے وجود کا جزو پھاڑ ڈالا۔ آگے اس فنا کی ترغیب کے لیے جسم کو خطاب کرتے ہیں:)
126
صد ہزاراں پارہ گشتن ارزد ایں
از میانِ چرخ برخیز اے زمیں
ترجمہ: اس نور کے لیے (جسم کے) لاکھوں ٹکڑے ہوجانا زیبا ہے۔ (پس) اے زمین تو آسمان کے بیچ میں سے اٹھ جا (یعنی اے جسم تو فنا ہوجا۔)
127
تاکہ نورِ چرخ گردد سایہ سوز
شب ز سایۂ تست اے باغیِ روز
ترجمہ: تاکہ آسمان (کے ستاروں) کا نور ظلمت کو مٹادے۔ (کیونکہ) اے (زمین) دن کی دشمن رات تیرے ہی سایہ سے ہے۔ (یعنی اے جسمِ مظلم جو انوارِ باطن کا حجاب ہے، یہ ظلمانیّت تیری وجہ سے ہے۔)
مطلب: یہ مضمون اہلِ ہیئت کی تحقیق کے مطابق ہے، جس کے نزدیک شب کی حقیقت یہ ہے کہ وہ زمین کا سایہ ہے، کیونکہ جس وقت آفتاب اس پہلو سے، جس میں ہمارا قیام ہے، دوسری طرف ہوتا ہے، تو ہماری طرف زمین کا سایہ جوّ میں پڑتا ہے، وہی شب ہے۔ مطلب یہ کہ جس طرح کہ زمین کے اٹھ جانے سے، ہر وقت جوّ میں نور ہی نور رہا کرے۔ اسی طرح اگر جسم فنا ہو جائے یعنی جسم کی مقتضیات کالعدم ہو جائیں، تو روح پر نورِ حق کی تجلّی رہے۔ پس جب فنا سے یہ گراں قدر فائدہ ہو، تو پھر اس کے حصول میں کیوں کوتاہی کی جاتی ہے۔ یہاں تک حصولِ فنا کے اس مانع کا ذکر تھا، جو مالک کے خود اپنے نفس سے ناشی ہوتا ہے، یعنی لذائذِ جسمانیہ کا ترک ناگوار ہوتا ہے۔ آگے ان موانع کا ذکر ہے، جو دوسرے مقیّدانِ احکامِ جسمانیہ، یعنی بنی نوع میں سے دنیادار و غفلت شعار لوگوں کی طرف سے پیش آتے ہیں:
128
ایں زمین چوں گاہوارۂ طفلکاں
بالغاں را تنگ میدارد مکاں
ترجمہ: یہ دنیا بچوں کے گہواروں کی مانند ہے۔ جس نے بالغوں کے لیے جگہ تنگ کر رکھی ہے۔
مطلب: چونکہ اکثر اہلِ دنیا طفل طبع و کودک مزاج ہیں، جس کا مفصّل ذکر اوپر گذر چکا ہے۔ اس لیے ساری دنیا گویا بچوں کا گہوارہ ہے۔ اگر کسی مکان میں اس مکان کی وسعت کے مطابق ایک بہت بڑا گہوارہ لٹک رہا ہے، تو ظاہر ہے کہ بڑے لوگوں کے لیے اس گھر میں چلنا پھرنا اور رہنا سہنا دشوار ہے، یا اگر کسی مکان میں بہت سے بچے ہوں، اور ہر بچے کے لیے ایک جداگانہ گہوارہ ہو، تو گھر کا گھر گویا ایک گہوارہ خانہ ہوگا۔ اس میں بڑے لوگوں کا گزر مشکل ہے۔ اسی طرح یہ دنیا غافل و بد اعمال لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ جنہوں نے اپنا اپنا خاص حلقۂ اثر، اور منفرد ماحول بنا رکھا ہے، جس سے اہلِ حق اور کاملین کو مزاحمتیں پیش آتی رہتی ہیں۔ آگے اس کی ایک تائیدِ نقلی پیش فرماتے ہیں:
129
بہرِ طفلاں حق زمین را مهد خواند
و اندرو زاں شِیر بر طفلاں فشاند
ترجمہ: (دیکھو ان) اطفالِ طبع لوگوں کے لیے حق تعالٰی نے زمین کو مہد کہا ہے۔ اور (پھر) مہد میں وہ دودھ (ان) بچوں پر بہا دیا (جس سے مراد لذّاتِ دنیویہ ہیں۔)
مطلب: یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی طرف اشارہ ہے ﴿اَلَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا﴾(طٰہ: 53) ”اسی نے تو تم لوگوں کے لیے زمین کا فرش بنایا“ گو اللہ تعالٰی کے قول میں ”مہد“ سے مراد مطلق فرش ہے، جو گہوارہ کو بھی مشتمل ہے، مگر چونکہ مقصود اس استدلال پر موقوف نہیں، اس لیے ”مہد“ کے معنٰی میں یہ احتمال، مقصود میں مضر نہیں۔
130
خانہ تنگ آمد ازیں گہوارہا
طفلکاں را زود بالغ کن شہا
ترجمہ: یہ گھر ان گہواروں سے تنگ ہوگیا ہے۔ اے بادشاہِ (حقیقی) ان بچوں کو جلدی بالغ کر دے۔
مطلب: یعنی ان کے بالغ ہونے سے گہوارے اٹھا دیے جائیں، تو بڑے لوگوں کے لیے چلنے پھرنے کی جگہ نکل آئے۔ مطلب یہ کہ طفل لوگوں میں کچھ بصیرت، اور عاقبت اندیشی پیدا ہوجائے، تو وہ اہل اللہ سے مزاحمت کرنا چھوڑ دیں۔ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تھی: ”اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَایَعْلَمُوْنَ“ ’’اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے دے‘ انہیں علم نہیں ہے‘‘ آگے خطابِ مجازی ہے گہوارہ سے:
131
ہاں مکن اے گاہوارہ خانہ تنگ
تا تواند رفت بالغ بیدرنگ
ترجمہ: ہاں اے گہوارہ تو (بھی) گھر کو تنگ مت کر۔ تاکہ بالغ آدمی بلا توقّف (گھر میں چل پھر سکے۔)
132
اے گوارہ خانہ را ضیق مدار
تا تواند کرد بالغ انتشار
ترجمہ: اے گہوارہ گھر کو تنگ نہ رکھ۔ تاکہ بالغ لوگ اِدھر اُدھر چل پھر سکیں۔ (آگے رجوع ہے قصہ کی طرف:)