دفتر 6 حکایت 140: ان شہزادوں کے بڑے بھائی کا وفات پا جانا

دفتر ششم: حکایت: 140


وفات یافتن برادرِ بزرگِ آں شہزادگاں

ان شہزادوں کے بڑے بھائی کا وفات پا جانا

1

رفت عمرش چارہ را فرصت نیافت

صبر بس سوزاں بدو جاں برنتافت

ترجمہ: اس کی عمر (جس قدر مقدر تھی) گزر گئی، اس نے (وصالِ محبوبہ کے ذریعہ اپنے عشق کا) علاج (کرنے) کا موقع نہ پایا۔ (فراق پر) صبر (کرنا) بہت جلانے والا تھا اور جان (اس کو) برداشت نہ کر سکی۔

2

مدتے دنداں کُناں ایں میکشید

نا رسیدہ عمرِ او آخر رسید

ترجمہ: ایک مدت (دراز) تک زاری کرتا ہوا، اس (مشقت) کو جھیلتا رہا۔ (مراد کو) پہنچے بغیر اس کی عمر خاتمہ کو پہنچ گئی۔

3

صورتِ معشوق زو شد در نہفت

رفت و شد با معنٰےِ معشوق جفت

ترجمہ: معشوقہ کی صورت (عاشق کی موت کی وجہ سے) اس سے (اس طرح) مخفی ہو گئی۔ (کہ دیدار کا جو امکان تھا، وہ بھی نہ رہا) وہ (عالم بالا کی طرف) چلا گیا اور معشوق کی حقیقت کا قرین ہو گیا۔

مطلب: یہ عاشق چونکہ صبر و سکون پر قائم رہا اور کوئی حرکت خلافِ غفلت اس سے سرزد نہیں ہوئی اس لیے بحوالۂ حدیث: مَنْ عَشَقَ فَعَفَّ فَکَتَمَ فَصَبَرَ فَمَاتَ فَھُوَ شَھِیْدٌ وہ شہید ہوا، اور شہید حق تعالٰی کا مقبول اور واصل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ اگرچہ معشوق کے دیدار سے محروم رہا، مگر مرنے کے بعد اس محبوبِ حقیقی کے قرب سے متمتع ہو گیا، جس کی شان معشوقانِ مجازی کے حسن و جمال میں جلوہ گر ہے۔ مولانا کا مقصود معنٰیِ معشوق سے یہی معلوم ہوتا ہے، کہ ان مظاہر سے اس کی شان ظاہر ہے۔ کما قال مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

نہ ذراتِ جہاں آئینہا ساخت

زادے خود بہر یک عکس انداخت

حدیثِ مذکور مَنْ عَشَقَ۔۔۔ الخ ترجمہ یہ ہے کہ جو شخص عاشق ہو گیا، پھر اس نے پرہیزگاری اختیار کی، پھر اپنے عشق کو چھپایا، پھر مر گیا تو وہ شہید ہے۔ اس حدیث کے متعلق تمییزُ الطّیب میں لکھا ہے کہ یہ سوید بن سعید کے طریق سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے۔ ابنِ معین نے اس کو منکر قرار دیا ہے۔ مگر وہ بعض دیگر طریق سے بھی مروی ہے، جن کی سند صحیح ہے۔ اور ابن حزم نے اس کو بطریقِ احتجاج مذکور کیا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں ؎

فَاِنْ اَھْلَکَ ھَوَیٰ اَھْلَکَ شَھِیْدًا

وَاِنْ تَمُنَّ بَقِیَتْ قَرَارُ عَیْنٍ

رَوٰی ھٰذَا لَنَا قَوْمٌ ثِقَاتٌ

فَبَرِئَ بِالصِّدْقِ عَنْ کِذْبٍ وَّ مِیْنٍ

یعنی ”اگر میں عشق میں مر گیا تو شہید ہو جاؤں گا۔ اور اگر تو مجھ پر احسان کرے، تو میں راحت کی زندگی بسر کروں گا۔ اس بات کو معتبر لوگوں نے ہم سے روایت کیا ہے۔ جو سچائی کی بدولت کذب و دروغ سے بری ہیں“ (انتہٰی) چنانچہ وہ شہزادہ متوفی کہتا ہے:

4

گفت لبسش گر ز شَعرِ شُسترست

اعتناقِ بے حجابش خوشترست

ترجمہ: اس (شہزادے) نے (اپنے جی میں) کہا کہ اگر چہ اس (معشوقِ حقیقی) کا لباس پشمینہ اور پارچہ ریشمی ہی ہو۔ مگر اس کا قرب بلا حجاب زیادہ اچھا ہے۔

مطلب: یہاں نفیس لباس سے مراد معشوقِ مجازی کی صورت ہے، جو محبوبِ حقیقی کے جمال کی مظہر ہے۔ اور پشمینہ و ریشم کے اعلٰی پارچات کے تشبیہ دینے سے مقصود یہ ہے کہ وہ صورت بہت ہی دلربا اور جاذبِ نظر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شہزادہ کو موت کے بعد جب قربِ حق حاصل ہوا، تو اس نے تسلیم کیا کہ وہ معشوقِ مجازی، جس کی صورت محبوبِ حقیقی کے جمال کی مظہر ہے، خواہ کیسی ہی دلپسند ہو، مگر محبوبِ حقیقی سے بلا واسطہ مظاہر واصل ہونا زیادہ اچھا ہے۔ یعنی بمقابلہ اس کے کہ جمال کا مشاہدہ معشوقِ مجازی کے حسن سے ہو، اس کا مشاہدہ بلا واسطہ ہونا زیادہ پُر لطف ہے۔

5

من شدم عریاں ز تن او از خیال

مے خرامم در نہایاتِ الوصال

ترجمہ: میں جسم سے مجرد ہو گیا اور وہ (محبوب میرے) خیال سے (نکل گیا۔ اور بفضلہٖ تعالٰی) میں (اب) اعلٰی مثال (یعنی وصالِ حق) میں خراماں چل رہا ہوں۔

مطلب: جسمانی زندگی میں عاشقِ مہجور کی یہ حالت تھی کہ معشوق کا تصور اس کے دماغ میں سمایا رہتا تھا۔ اب جو عاشق وفات پا کر واصل بحق ہو گیا، تو وہ لکھتا ہے کہ میری روح جسم سے مجرد ہو گئی، اور وہ معشوق بھی میرے خیال سے نکل گیا۔ کیونکہ جب جسم نہ رہا، اور دماغ کے ساتھ بھی، جو ایک جسمانی عضو اور محلِ خیال ہے، تعلق نہ رہا۔ تو اب خیال کہاں؟ اور میں محبوبِ مجازی کے خیالِ وصل کے بجائے محبوبِ حقیقی سے فی الواقع واصل ہو گیا۔ ”وصل“ کے ذکر سے مولانا کا ذہن وحدت کے مضمون کی طرف منتقل ہو گیا۔ آگے اس مضمون کے ناقابلِ بیان ہونے کے متعلق ارشاد ہے:

6

ایں مباحث تا بدینْجا گفتنی ست

ہر چہ آید زیں سپس بنہفتنی است

ترجمہ: یہ مباحث یہاں تک تو کہنے کے لائق ہیں۔ (کہ اہلِ ظاہر بھی سمجھتے ہیں۔ اس لیے کسی قسم کے فتنہ کا احتمال نہیں) اس کے بعد جو کچھ ذہن میں آتا ہے وہ قابلِ اِخفا ہے (کیونکہ اس کے اظہار سے فتنہ کا خوف ہے۔ علاوہ ازیں وہ اسرار ناقابل فہم بھی ہیں چنانچہ:)

7

گر بکوشی ور بگوئی صد ہزار

ہست بیکار و نگردد آشکار

ترجمہ: (اے سامع!) اگر تو (اس کے سمجھنے کی) لاکھ کوشش کرے اور (اے متکلم!) اگر (تو ) لاکھ کہے۔ تو (سامع کے فقدانِ ذوق کی وجہ سے) فضول ہے، اور وہ (مضمون کبھی بھی) ظاہر نہ ہوگا۔

8

تا بدریا سیرِ اسپ و زیں بود

بعد ازانت مرکبِ چوبیں بود

ترجمہ: (اور بیانِ اسرار کے لیے موقع و محل کا لحاظ مناسب ہے، چنانچہ) دریا (کے کنارے) تک گھوڑے اور زین کی سواری سے مسافت طے ہوتی ہے۔ اس کے بعد (دریا کے اندر) تیرے لئے لکڑی (یعنی کشتی)کی سواری ہوتی ہے۔ (اللہ تعالٰیکو خشکی سے اور تکلّمکو اسپ و زین سے تشبیہ دی ہے۔ اسی طرح مرتبۂ حالکو دریا سے اور ذوقکو کشتی سے تشبیہ دی ہے۔)

9

مرکبِ چوبیں بخشکی ابترست

خاص آں دریائیاں را رہبرست

ترجمہ: پس جس طرح لکڑی کا مرکب خشکی میں (لے جانے کی کوشش کرنا اس کو) خراب (کر دیتا) ہے۔ (کیونکہ) وہ خاص دریا کے اندر جانے والوں کو لے جایا کرتا ہے۔ (اسی طرح اسرارِ وحدت بے ذوق لوگوں سے بیان کرنا باعثِ خرابی ہے، کیونکہ وہ خاص اہلِ ذوق کا حصہ ہیں۔)

10

ایں خموشی مرکبِ چوبیں بود

بحریاں را خامُشی تلقیں بود

ترجمہ: یہ خاموشی (یعنی ذوق) لکڑی کا مرکب ہے۔ (جو مرتبۂِ قال کی خشکی والوں کے لیے بے کار ہے۔ البتہ مرتبۂِ حال کے) دریا والوں کے لیے یہ خاموشی (بمنزلہ) تعلیم ہوتی ہے۔

11

ہر خموشی کاں ملُولت مے کند

نعرہائے عشق زاں سُو مے زند

ترجمہ: اہلِ ذوق کی جو خاموشی تم کو ملول کرتی ہے۔ وہ ادھر (اہلِ ذوق کی طرف) سے عشق کے نعرے لگا رہی ہے۔ (یعنی یہ خاموشی اہلِ ذوق کو وہ فائدہ پہنچا رہی ہے، جو تعلیمِ قال میں ممکن نہ تھی ۔ ؎ خموشی معنی دارد کہ گفتن نمے آید)

12

تو ہمے گوئی عجب خامُش چراست

او ہمے گوید عجب گوشش کجاست

ترجمہ: تو کہہ رہا ہے، کہ تعجب کی بات ہے یہ خاموش کیوں ہے؟ (اور) وہ کہہ رہا ہے، تعجب کی بات ہے اس کا کان کہاں ہے؟ (کہ نعرہ ہائے عشق کو نہیں سن سکتا۔)

13

من ز نعرہ کر شدم او بے خبر

تیز گوشاں زیں سمر ہستند کر

ترجمہ: میں (تو) نعرہ (کی بلند آہنگی) سے بہرا ہو گیا (اور)وہ (اس سے) بے خبر ہے۔ (اسی طرح دوسرے لوگ جو دنیوی معاملات میں) تیز شنوائی والے (ہیں) اس تقریر سے بہرے ہیں۔ (دوسرے مصرعہ کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ میری طرح دوسرے تیز شنوائی والے لوگ بھی، اس ذوقی نعرہ کی بلند آہنگی کے اثر سے بہرے ہو رہے ہیں۔)

14

آں یکے در خواب نعرہ مے زند

صد ہزاراں بحث و تلقیں میکند

ترجمہ: (اس کی مثال وہی ہے کہ) وہ ایک شخص خواب میں چلّا رہا ہے۔ (اور) لاکھوں بحث و تلقین کر رہا ہے۔

15

ایں نشستہ پہلوے او بے خبر

خفتہ خود آنست کر زاں شور و شر

ترجمہ: (اور) یہ (دوسرا) شخص اس کے پہلو میں بے خبر بیٹھا ہے۔ (پس حقیقت میں) محوِ خواب خود وہ (پاس بیٹھنے والا) ہے، (جو اس سے بے خبر) اور اس شور و شر سے بے بہرا ہے۔ (یہاں تک اہلِ قال و اہلِ حال کا ذکر تھا۔ آگے اہلِ فن کا ذکر آتا ہے:)

16

واں کسے کش مرکبِ چوبیں شکست

غرقہ شد در آب او خود ماہی ست

ترجمہ: (یہ حال تو گھوڑے والوں اور کشتی والوں کا تھا جو مذکور ہوا) اور جس شخص کی کشتی (بھی) ٹوٹ گئی۔ وہ پانی میں غرق ہو گیا (اب) وہ (گویا پانی کی ایک) مچھلی ہی ہے۔

مطلب: ساحل تک پہنچ کر تو وہ گھوڑے کو ترک کر چکا تھا۔ اب جو کشتی میں سوار ہوا تو منجدھار میں پہنچ کر کشتی بھی ٹوٹ گئی، اور وہ غرق ہو گیا۔ یعنی تعبیر و تکلّم سے ترقی کر کے وہ ذوق و حال کے درجے پر فائز ہو گیا۔ وہ ذوق بھی قضا ہو گیا اور مشاہدہ میں غرق ہو گیا۔ جس طرح مچھلی پانی میں ڈوب جاتی ہے، اور اس کو کشتی کی ضرورت نہیں رہتی، اسی طرح اس شخص کو اب توجّہ الٰی المحبوب میں ذوق کے واسطہ کی ضرورت نہیں۔

17

نہ خموش ست و نہ گویا نادرے ست

حالِ او را در عبارت نام نیست

ترجمہ: نہ (وہ اہلِ ذوق کی طرح) خاموش ہے اور نہ (اہلِ صحو کی طرح قابلِ فہم) بات کرتا ہے، (غرض) ایک عجیب ہستی ہے۔ اس کی حالت کا الفاظ میں کوئی نام نہیں۔

18

نیست زیں دو ہر دو ہست آں بوالعجب

شرحِ ایں گفتن بُرون ست از ادب

ترجمہ: وہ عجیب آدمی (ایک طرح سے) ان (متکلم و خاموش) دونوں سے نہیں ہے، (اور ایک طرح سے ان) دونوں (سے) ہے۔ اس کی تفصیل بیان کرنا ادب کے خلاف ہے۔

مطلب: وہ خاموش اس لیے نہیں کہ اس کی خاموشی اہلِ ذوق کی سی نہیں، اور متکلم اس لیے نہیں کہ اس کا تکلّم جو ہے وہ بلا قصد و اختیار ہے۔ اور یوں اگر ذوق کا اعتبار اور قصد و اختیار کا لحاظ نہیں کیا جائے تو وہ خاموش بھی ہے اور متکلم بھی، اور چونکہ عوام الناس اس طرح کے سکوت و تکلم کی تفصیل کو سمجھ نہیں سکتے اس لیے اس کا بیان کرنا باعثِ فتنہ ہے، اور کسی فتنہ کی تحریک آدابِ شرح کے خلاف ہے۔

19

ایں مثال آمد رکیک و بے وُرُود

لیک در محسوس زیں بہتر نبود

ترجمہ: یہ مثال کمزور اور (اصل پر) صادق نہ آنے والی ہے۔ لیکن (عالمِ) محسوس میں اس سے بہتر (کوئی مثال) نہیں تھی (جو پیش کی جا سکتی۔)

مطلب: اوپر کا مضمون ذاتِ حقکو دریا کے ساتھ اور مستغرقِ مشاہدہکو مچھلی کے ساتھ تشبیہ دے کر سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مگر ذاتِ حقتمام تشبیہات سے منزّہ ہے۔ اور مستغرقِ مشاہدہکی حالت تشبیہ سے ظاہر نہیں ہو سکتی۔ اس لیے یہ مثال مقصود کے تمام پہلوؤں کو ظاہر کرنے سے قاصر ہے۔ مگر عوام کو سمجھانے کے لیے محسوسات کی مثال ہی مفید ہو سکتی ہے، اور محسوسات میں اس سے بہتر مثال اور مقصود پر زیادہ سے زیادہ روشنی ڈالنے والی تشبیہ کوئی نہ تھی، اس لیے اسی پر اکتفا کیا گیا۔ آگے اوپر کے قصہ کا حاصل ارشاد فرماتے ہیں:

20

حاصل آں شہزادہ از دنیا برفت

جانش پُر درد و جگر پر سوز و تفت

ترجمہ: الغرض وہ شہزادہ دنیا سے (ناکام) رخصت ہوا۔ (اس حالت میں کہ) اس کی جان پُردرد تھی اور (اس کا) جگر پُرسوز اور گرم تھا۔