دفتر 6 حکایت 139: اس حدیث کے بیان میںکہ دوزخ کہے گی اے مومن! (پل صراط سے جلدی)گزر جا کیونکہ تیرے نور نے میری آگ بجھا دی

دفتر ششم: حکایت: 139



دربیانِ حدیث”جُزْ یَا مُؤْمِنُ فَاِنَّ نُوْرَکَ اَطْفَأَ نَارِیْ

اس حدیث کے بیان میںکہ دوزخ کہے گی اے مومن! (پل صراط سے جلدی)گزر جا کیونکہ تیرے نور نے میری آگ بجھا دی

انتباہ: مقاصدِ حسنہ میں یہ حدیث بایں الفاظ سے منقول ہے: تَقُوْلُ النَّارُ لِلْمُؤْمِنِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ جُزْ یَا مُؤْمِنُ فَقَدْ اَطْفَأَ نُوْرُکَ لَهَبِیْ یہ روایت طبرانی کبیر اور کامل ابن عدی اور نوادر الاصول حکیم ترمذی میں ہے۔ اس کا ایک راوی منصور بن عمار ہے جس کے بارہ میں بعض محدثین نے کہا کہ لَیْْسَ بِالْقَوِِیِِّّ اور بعض نے کہا ہے وہ منکر الحدیثہے۔ بعض نے اس حدیث کے بارہ میں کہا ہے کہ مجھے اس کے صحیح ہونے کی امید ہے۔(کلید)

1

ز آتشِ مومن ازیں رُو اے صفی

مے شود دوزخ ضعیف و مُنطفی

ترجمہ: اسی سبب سے اے برگزیدہ! مومن کی آتش (عشق) سے۔ دوزخ بھی کمزور اور بجھنے کے قریب ہو جائے گی (جب کہ وہ پل صراط پر سے گزر رہا ہو گا۔)

2

گویدش بگذر سبک اے محتشم

ورنہ ز آتش ہائے تو مُرد آتشم

ترجمہ: (دوزخ) اس سے کہنے گی اے معزز آدمی! جلدی سے گزر جا۔ ورنہ تیرے (عشق کے) شعلوں سے میری آگ بجھ جائے گی۔

3

کفر کہ کبریتِ دوزخ اوست بس

بیں چہ مے پخساند او را ایں نفس

ترجمہ: (اور کیوں نہ ہو، دنیا میں بھی دیکھ لو کہ) کفر جو دوزخ کی دیا سلائی ہی ہے۔ بس دیکھ لو کہ اس کو اس وقت کونسی چیز بجھاتی ہے؟ (یہی مومن کا نور۔)

مطلب: جس طرح آگ کی محرک دیا سلائی ہے۔ اسی طرح دوزخ کا یہ اشتعال کفر ہے، اور ایک کافر جو مظہرِ کفر ہونے کے لحاظ سے گویا مجسم دوزخ ہے، جب کسی مومنِ کامل کی صحبت سے مستفید اور اس کی نصائح سے متاثر ہوتا ہے، تو اس کی آتشِ کفر بجھ جاتی ہے۔ پس جب دنیا میں ایمان کے نور کا آتشِ کفر پر یہ اثر ہے، تو آخرت میں کیوں نہ ہو گا۔ آگے بھی یہی ارشاد ہے:

4

کفر کاں کبریتِ نارِ دوزخ ست

بیں کہ چوں میرد ازو اے خود پرست

ترجمہ: اے خود پرست دیکھ لے! کہ مومن کے (اس نور) سے کفر جو دوزخ کی آگ کے لیے (بمنزلہ) کبریت ہے، کس طرح بجھ جاتا ہے (آگے اس سے ایک فائدہ اخذ کر کے اس پر متفرّع فرماتے ہیں:)

5

زود کبرینت بدیں سُو وا سپار

تا نہ دوزخ بر تو تازد نے شرار

ترجمہ: (اے مخاطب!) تم فورًا اپنے (سُوئے اعتقادات کے) آتشین مادے کو اس طرف (جہاں اہلِ معرفت و اہلِ عشق تشریف فرما ہیں) سپرد کر دو ۔ تاکہ دوزخ تم پر تعدّی نہ کرے نہ (کوئی اس کی) چنگاری۔ (یعنی ان حضرات کے فیضِ صحبت سے تمہارے کفریہ خیالات کی اصلاح ہو جائے، اور تم کو دوزخ سے نجات مل جائے۔)

6

گویدش جنّت گزر کن ہمچو باد

ورنہ گردد ہر چہ دارم من کساد

ترجمہ: (اور نہ صرف دوزخ بلکہ) جنت (بھی) اس کو بزبانِ حال کہے گی۔ (کہ) تو (مجھ سے) ہوا کی طرح گزر جا، ورنہ میں جو کچھ رکھتی ہوں وہ سب بے رونق ہو جائے گا۔

مطلب: دوزخ مومن سے اس لیے ضرر محسوس کرتی ہے کہ اس کی نار میں اور مومن کی نور میں ضدّیت ہے، اور ان دونوں ضدّوں کے مقابل سے نار نابود ہو جاتی ہے۔ جس کی مثال آگ اور پانی کی ضدّیت ہے۔ اور جنّت میں مومن کے نور میں ضدّیت نہیں بلکہ جنسیّت ہے، مگر جنّت کے انوار مومن کے نور کے مقابلہ میں ضعیف ہیں۔ جس کی مثال کواکب اور آفتاب کی سی ہے کہ منوّر ہونے میں دونوں ہم جنس ہیں، مگر آفتاب کی درخشانی کواکب کی تابانی سے بڑھ کر اور اس کو مغلوب کرنے والی ہے۔ پس دوزخ کا تضرّر اس کی نار کے نابود ہونے سے ہے، اور جنّت کا تضرّر اس کے انوار کے مغلوب ہونے سے ہے۔ چنانچہ آگے نورِ مومن اور انوارِ جنت کی جنسیت اور انوارِ جنت کے ضعف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔

7

کہ تو صاحبِ خرمنی من خوشہ چیں

من بُتے ام تو ولایتہائے چیں

ترجمہ: (تیرے سامنے میرے موجودات کے بے روشن ہو جانے کی وجہ یہ ہے کہ) تو کھلیان والا ہے میں خوشہ چین ہوں۔ (اور) میں ایک بُت ہوں تو ممالک چین کی (مانند) ہے۔ (جس میں بتوں کا حد و شمار نہیں۔)

مطلب: ظاہر ہے کہ خرمن اور خوشہ کی جنسیت ایک ہے، مگر خوشہ چین کا سرمایہ ایک خرمن کے آگے کیا حقیقت رکھتا ہے۔ اسی طرح بت اور بت کدہ متجانس ہیں۔ مگر جو اقلیم اس سرے سے اس سرے تک ساری بت کدہ ہو وہاں ایک بت کو کون پوچھتا ہے۔ پہلے مصرعہ میں جو کہا کہ مومن کی مثال صاحبِ خرمن کی سی ہے، اور بہشت گویا اس کی خوشہ چین ہے۔ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ جس طرح خوشہ چین کا سارا انتفاع کسی خرمن کی بدولت ہوتا ہے۔ اسی طرح بہشت کے تمام اشجار و انہار اور حور و قصور مومنوں کے اعمالِ حسنہ کے نتائج ہیں۔ اخلاقِ جلالی میں لکھا ہے۔و چوں نزدِ عظماں حکماء و اساطین اولیاء مقرر ست کہ امورِ اخروی کہ بآں مخبرِ صادق وعدہ وعید فرمودہ تمامًا صور اخلاق و اعمال ست کہ در موطن معاد بحکم مرتبہ بآں صور بر انسان ظاہر خواہد شد چنانچہ فرمودہ اَلنَّاسُ نِیَامٌ فَاِِذَا مَاتُوْا انْْتَبَھُُوْْا بیداراں ازاں معنی آگاہی میدہد ایں معنی در مواضع متعددہ از کتاب و سنت بتصریح و تلویح مؤدّی شدہ است و مادہ آں صور خواہ از غائب باشد و خواہ از مکارہ اعمال و اخلاق سب کہ دریں نشاء اندوختہ باشد۔ چنانچہ آیۃ کریمہ:﴿وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيْطَةٌ بِالْكَافِرِيْنَ(العنکبوت: 54) و حدیث نبوی کہ فرمودہ: اَلَّذِیْ یَشْرَبُ فِیْ اٰنِیَۃِ الذَّھَبِ وَ الْفِضّۃِ اِنَّمَا یُجَرْجِرُ فِیْ بَطْنِہٖ نَارَ جَھَنَّمَ(مسلم شریف) وَ اَنَّ اَرْضَ الْجَنَّۃِ قِیْعَانٌ وَ غِرَاسُھَا سُبْحَانَ اللہِ(ترمذی) افصاح ظاہر ازان مے نماید (انتہٰی)۔

8

ہست لرزاں ذو جحیم و ہم جناں

نے مر ایں را نے مر او را زو اماں

ترجمہ: (غرض) اس (مومن) سے دوزخ بھی لرزاں ہے اور بہشت بھی۔ اس لیے اس سے نہ اُس کو امان ہے نہ اِس کو۔ (دوزخ و بہشت کے مذکور قول سے مراد اپنے عجز اور مومن کی عظمت کا اظہار ہے۔ آگے پھر قصہ چلتا ہے:)