دفتر ششم: حکایت: 138
دَر بیانِ نوازش و احترامِ شاہِ چین شہزادۂ غریب را
شاہِ چین کا پردیسی شہزادہ کی خاطر داری اور عزت افزائی کرنا
1
حاصل آں شہ نیک او را مے نواخت
او ازاں خورشید چوں مہ میگداخت
ترجمہ: غرض وہ بادشاہ اس (شہزادہ) کی بڑی خاطر کرتا تھا۔ وہ اس آفتاب (عشق کی آتش) سے (جس کو نہ ظاہر کر سکتا ہے نہ برداشت کر سکتا تھا، روز بروز) چاند کی طرح گھٹتا جاتا تھا۔ (جس طرح چاند آفتاب کے طلوع سے بے نور ہو جاتا ہے۔)
2
آں گدازِ عاشقاں باشد نمُو
ہمچو ماہ اندر گدازش تازہ رُو
ترجمہ: (مولانا عشقِ حقیقی کے خواص بیان فرماتے ہیں! کہ) عاشقوں کا وہ (ظاہرًا) گھٹنا (باطنًا) بڑھنا ہے۔ وہ چاند کی طرح گھٹنے میں بھی تازہ رُو ہیں۔ (جس طرح چاند زوالِ نور سے گھبراتا نہیں۔ حتیٰ کہ پھر بدر ہو جاتا ہے۔)
3
جملہ رنجُوراں دوا دارند امید
نالہ ایں رنجور کم افزوں کنید
ترجمہ: تمام بیمار (مرض کے ازالہ کے لیے) علاج کی امید رکھتے ہیں۔ (مگر) یہ بیمار (عشق) روتا ہے، کہ مجھے زیادہ (مرض میں مبتلا) کرو۔
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
کند خلقے دعائے صبرِ عاشق
ولیکن عاشقاں آمیں نگویند
4
جملہ رنجُوراں دوا جویند و ایں
رنج افزوں جوید و رنج و حنین
ترجمہ: سب مریض (مرض سے شفایاب ہونے کے لیے) دوا کرانا چاہتے ہیں۔ اور یہ (عاشق! اور بھی) زیادہ دُکھ اور تکلیف اور کراہنا چاہتا ہے۔
جامی رحمۃ اللہ علیہ؎
یادِ مرهم بر دلِ من بخت مے آید چو تیر
تا ازاں ابرو و کماں با زخمِ پیکاں خو گرفت
5
خوبتر زیں سَم ندیدم شربتے
زیں مرض خوشتر نباشد صحّتے
ترجمہ: میں نے اس زہر (عشق) سے بہتر کوئی شربت نہیں دیکھا۔ (اور) اس بیماری سے زیادہ اچھی کوئی تندرستی نہیں دیکھی۔
6
زیں گنہ بہتر نباشد طاعتے
سالہا نسبت بدیں دم ساعتے
ترجمہ: (منکر کی نظر میں اگر عشق گناہ ہے، تو چلو گناہ سہی مگر) اس گناہ سے بہتر کوئی طاعت نہ ہو گی۔ (زندگی کے) بہت سے سال اس سانسِ (عشق) کی نسبت ایک ساعت (کے برابر ہیں۔)
مطلب: ”دم“ سے مراد سخنِ عشق یا افسونِ عشق ہے۔ اور اس لفظ میں اِیہامِ تناسب ہے، بایں وجہ کہ ”دم“ بمعنی وقتِ قلیل بھی آتا ہے، جو سالہا کے ساتھ مناسب ہے، یعنی اگر عشق میں برسوں بھی گزر جائیں تو وہ عدمِ سیری کی وجہ سے ایک ساعت معلوم ہوتے ہیں۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ؎
یک قصہ بیش نیست غمِ عشق و ایں عجب
کز ہر کسے کہ مے شنوم نا مکررست
7
مدتے بُد پیش آں شہ زیں نسق
دل کباب و جاں نہادہ بر طبق
ترجمہ: غرض وہ (شہزادہ اسی حال میں) مدت تک بادشاہ کے پاس رہا۔ (اس کا) دل کباب (تھا) اور وہ جان دینے پر آمادہ تھا۔
8
گفت شاہ از ہر کسے یک سر برید
من ز شہ ہر لحظہ قربانم جدید
ترجمہ: اس نے (اپنے دل میں) کہا کہ بادشاہ نے ہر شخص کا (جو اس کی بیٹی کا خواستگار ہوا صرف) ایک (مرتبہ) سر کاٹا۔ مگر میں بادشاہ (کے ہاتھ) سے ہر لحظہ از سر نو ذبح ہوتا ہوں۔ (یعنی حسرت و ناکامی میں میرا ہر لحظہ گزرنا بمنزلۂ موت ہے، تو یوں میں ہر لحظہ از سرِ نو ذبح ہوتا ہوں۔ آگے شہزادہ کی زبان سے عاشق حقیقی کا مقولہ ہے:)
9
من فقیرم از زر و از سر غنی
صد ہزاراں سر خلف داد آں سنی
ترجمہ: میں زر (و سیم) سے تہی دست ہوں، اور سر دینے میں غنی ہوں۔ (اور اس کے لیے اپنا سر قربان کیوں نہ کروں کہ) اس صاحبِ نور نے مجھ کو (اس قربانی کے) عوض میں لاکھوں سر عطا فرمائے ہیں۔ (عاشق کے سر دینے سے مجاہدہ و فنا مراد ہے۔ اور محبوبِ حقیقی کے عوض بخشنے سے مشاہدہ و بقا مقصود ہے۔)
10
با دو پا در عشق نتواں تاختن
با یکے سر عشق نتواں باختن
ترجمہ: (ہاں عشق میں لاکھوں سر و پا کی ہی ضرورت ہے، کیونکہ صرف) دو پاؤں کے ساتھ عشق کے رستہ میں نہیں دوڑ سکتے۔ (اور صرف) ایک سر کے ساتھ عشق بازی نہیں کر سکتے۔
11
ہر کسے را خود دو پا و یک سرست
با ہزاراں پاؤ سر تن نادر ست
ترجمہ: (عام طور پر) ہر شخص کے دو پاؤں اور ایک سر ہے۔ (اور) ہزاروں پاؤں اور سر کے ساتھ کوئی بدن (شاذ و نادر) ہے۔ (مصداق عاشق ہی ہے۔ آگے اس پر تصریح ہے کہ:)
12
زیں سبب ہنگامہا شد کُل ہَدَر
ہست ایں ہنگامہ ہر دم گرم تر
ترجمہ: اسی (فرقِ مذکور کے) سبب سے تمام ھنگامے بے رونق ہو گئے۔ مگر یہ ہنگامہ (عشق) ہر وقت زیادہ پُر رونق ہے۔
مطلب: اوپر کے شعر میں ”دو پا و یک سر“ سے جسم و جسمانیت مراد تھی۔ اب فرماتے ہیں! کہ عشقِ مجازی کے ہنگامے جن کا تعلق جسمانیت سے ہے، جسم کے مضمحل اور جسمانی قویٰ کے بیکار ہونے اور حُسن کے رُو بزوال ہو جانے سے سرد پڑ جاتے ہیں۔ مگر وہ عشق جو خاص روح سے متعلق ہے اور روح بمقابلہ جسم کے گویا ہزار پاؤں رکھتی ہے، اور اس کو عشقِ حقیقی کہتے ہیں، اس کو زوال نہیں وہ ہر دم تزاید رہتا ہے۔ آگے بتاتے ہیں کہ اس کے ہر دم گرم تر اور تزاید رہنے کی کیا وجہ ہے؟
13
معدنِ گرمی ست اندر لامکاں
ہفت دوزخ از شرارش یک دُخان
ترجمہ: (اس) گرمی کا معدن، لامکان ہے۔ (اور وہ گرمیِ عشق ایسی ہے کہ) ساتوں دوزخ اس کے شرارہ کا ایک دھواں ہیں۔
مطلب: اس گرمیِ عشق کا تعلق حضرتِ حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ ہے۔ جس کا جمال غیر فانی ہے، اور روح اس کا ادراک کرتی ہے، جس میں ذہول نہیں، یا یہ کہ وہ گرمی لامکان اور عالمِ غیب سے بلا اِنقطاع عطا ہوتی ہے۔ اس لیے وہ تزاید ہے اور اس کی شدّت کا یہ عالم ہے کہ نار و دوزخ بھی اس کے آگے ماند ہے۔ چنانچہ آگے حدیث سے یہ بات ثابت فرماتے ہیں: