دفتر ششم: حکایت: 137
باز آمدن بقصّۂ شہزادہ و ملازمتِ او بخدمتِ شاہ
شہزادہ کے قصہ کی طرف رجوع اور اس کا بادشاہ کی خدمت میں ملازم ہو جانا
1
شہزادہ پیشِ شہ حیرانِ ایں
ہفت گردوں دیدہ در یک مشتِ طیں
ترجمہ: شہزادہ بادشاہ کے سامنے اس امر میں حیران تھا۔ (کہ) اسنے (وہاں بادشاہ کے وجود کی) ایک مشتِ خاک میں (روحانیت کے) سات آسمان (سمائے ہوئے )دیکھے۔
2
ہیچ ممکن نے بہ بحثے لب کشُود
لیک جاں با جاں دمے خامُش نبود
ترجمہ: (اس مشاہدۂِ عجب سے جو سوالات اس کے دل میں پیدا ہوتے تھے، ان کے متعلق) بحث کے لیے لب کشائی کرنا بالکل ممکن نہ تھا۔ لیکن (شہزادہ کی) جان (بادشاہ کی) جان سے(اس قسم کے سوال کرنے سے) ایک لمحہ کے لیے خاموش (بھی) نہ تھی۔
مطلب: شہزادہ کے دل میں ایک سوال پیدا ہوتا تھا جس پر بادشاہ مطلع ہو جاتا تھا۔ یہ معنٰی ہیں شہزادہ کے خاموش نہ ہونے کے۔ پھر خواہ بادشاہ نے اپنے تصرف سے کوئی جواب شہزادہ کے قلب پر القاء کیا ہو۔ مثلًا وہی جواب جو مولانا آگے نقل کریں گے، تو اس صورت میں ”جان با جان دمے خامش نبود“ دونوں طرف سے ہو جائے گا۔ یا نہ کیا ہو، اور ظاہر یہی ہے بقرنیۂ عدمِ نقل، تو اس صورت میں”جان با جان دمے خامش نبود“ ایک جانب سے ہو گا۔ اور مولانا کا جواب دینا باقتضائے مقام ہو جائے گا۔(کلید) آگے شہزادہ کے اس قلبی سوال کا ذکر ہے:
3
آمدہ در خاطرش کیں بس خفی ست
ایں ہمہ معنے ست پس صورت ز چیست؟
ترجمہ: اس کے جی میں آئی کہ یہ بات تو بڑی مخفی (اور ناقابلِ فہم) ہے۔ کہ یہ بادشاہ سراپائے روحانیت ہے پھر (اس کا) ظاہری وجود کس غرض سے ہے؟ (جب کہ روحانیت کی صفت میں صورت کو کوئی دخل نہیں، یہ سوال تھا۔ آگے مولانا جواب دیتے ہیں:)
4
صورتے از صورتت بیزار کن
خفتۂ مر خفتہ را بیدار کُن
ترجمہ: (اے شہزادے! یہ) ایک صورت ہے کہ تم کو صورت سے بیزار کرنے والی۔ (گویا) ایک سونے والا دوسرے سونے والے کو بیدار کرنے والا ہے۔
مطلب: ظاہری وجود کو اس کی جمادیت کی وجہ سے ”خفتہ“کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ کیونکہ اس کی حِس و حرکت ذاتی نہیں، بلکہ بواسطۂِ روح ہے۔ یہاں اس وجودِ عنصری کا فائدہ بیان کیا ہے۔ یعنی روحِ کامل سے جو فیض عوام کو پہنچتا ہے وہ بواسطہ جسم ہی پہنچ سکتا ہے۔ اگر روح مجرّد ہوتی، تو بوجہ عدمِ مناسبت کسی کو یہ فیض نہ پہنچ سکتا۔
5
آں کلامت مے رہاند از کلام
واں سقامت مے جہاند از سقام
ترجمہ: وہ کلام (جو اس کی صورت سے بغرضِ ارشاد صادر ہوتا ہے) تجھ کو (لا یعنی) کلام سے بچاتا ہے۔ (ورنہ روح کا کلام کہاں سنا جاتا) اور وہ مرضِ (عشق جو اس کے جسم کو لاحق ہوتا ہے) تجھ کو مرضِ (روحانی) سے نجات دلاتا ہے۔
مطلب: جس عشق سے دوسرا شخص متاثر ہوتا ہے، وہی ہے جس کے آثار کا دوسرے کو بھی ادراک ہو۔ مثل غلبہ مواجید و احوال اور اس میں بوجہ ان کے صفاتِ نفس ہونے کے جسم کی بھی شرکت ہوتی ہے۔ بخلاف روحِ محض کے کہ اس کا عشق اور اس کے آثار از بس لطیف ہیں۔ چنانچہ کاملین پر جب اس کا غلبہ ہوتا ہے تو عوام اس حالت میں ان کے کمال کو نہیں پہچان سکتے۔ پس اگر ہمیشہ یہی حالت ہوتی تو لوگ مستفید بھی نہ ہوتے۔ (کلید) یہاں تک شہزادے کے سوال کا جواب ہے۔ آگے اس شبہ کو دفع فرماتے ہیں کہ کیا عشق کوئی بیماری ہے جیسے کہ آپ نے فرمایا ہے؟ اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ گو ظاہرًا وہ بیماری ہے جیسے کہ اطباء کہتے ہیں لیکن وہ بڑی بڑی روحانی بیماریوں کے لیے نویدِ شفا ہے:
6
پس سقامِ عشق جانِ صحّت ست
رنجہایش حسرتِ ہر راحت ست
ترجمہ: بس عشق کی بیماری (اپنے اس اثر کے اعتبار سے) تندرستی کی جان ہے۔ (کیونکہ تندرستی سے اصلی غرض راحت ہے اور) اس (مرض) کے دکھ (بھی) ہر راحت کے لیے (باعثِ) رشک ہیں۔
مطلب: چنانچہ مشاہدہ بھی ہے کہ جس قدر تعلق مع اللہ بڑھتا جاتا ہے راحت میسر ہوتی ہے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ؎
مبین بچشمِ ترحم بحالم اے خواجہ
کہ رنج و محنتِ عُشّاق راحت آمیزست
پس اس غایت کے اعتبار سے وہ مرض صحت سے افضل ہوا۔ پس اگر کسی فن کی اصطلاح پر اس کو مرض کہا جائے تو مُضر کیا ہے؟ آگے بطور تفریع جسمِ محجوب کو خطاب ہے:
7
اے تن اکنوں دستِ خود از جاں بشو
ور نمے شوئی جز ایں جانے بجو
ترجمہ: اے جسم! اب اپنا ہاتھ روح سے دھو لے۔ (اور اس کو اپنا مت سمجھ) اور اگر نہیں دھوتا تو اس کے سوا اور جان تلاش کر۔
مطلب: یہ وہی مضمون ہے، جسے سرخی سے آٹھ شعر قبل کہا تھا:
ایں چنیں جانے چہ در خوردِ تن ست
ہیں بشو اے تن ازیں جاں ہر دو دست
یہاں مطلب یہ ہے کہ جو جسم اس روحِ عالی کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا وہ اس کی معیّت کے لائق نہیں، اور اگر روح کی معیّت پر اس کو اصرار ہی ہے، تو وہ کسی ایسی روح کو اپنے لیے تلاش کرے جو اس کے ساتھ مناسبت رکھتی ہو۔ آگے پھر قصہ چلتا ہے: