دفتر ششم: حکایت: 136
باز آمدنِ زنِ جوحی سالِ دیگر نزدِ قاضی و شناختنِ او
جوحی کی عورت کا اگلے سال پھر قاضی کے پاس آنا اور (قاضی کا) اس کو پہچان لینا
1
بعد سالے باز جوحی از مِحَن
رُو بزن کرد و بگفت اے چست زن
ترجمہ: ایک سال کے بعد جوحی، پھر (افلاس کی) تکلیفوں سے (مجبور ہو کر) عورت کی طرف متوجہ ہوا، اور کہنے لگا اے چالاک عورت!
2
آں وظیفۂ پار را تجدیدِ کن
پیشِ قاضی از گلۂِ من گو سخن
ترجمہ:اس پچھلے سال والی کاروائی کو تازہ کر۔ اور قاضی کے پاس (جا کر) میری شکایت پر لب کشائی کر۔
3
زن بر قاضی درآمد با زناں
مر زنے را کرد آں زن ترجماں
ترجمہ: عورت (اپنے شوہر کے حکم کی تعمیل میں) عورتوں کے ہمراہ، قاضی کے پاس آئی۔ (اور) اس عورت نے ایک (خاص) عورت کو (اپنا حال عرض کرنے کے لیے) مقرر کیا۔
4
تا نہ بشناسد ز گفتن قاضیش
یاد ناید از بلائے ماضیش
ترجمہ: تاکہ قاضی (اس کی) گفتگو سے اس کو پہچان نہ لے۔ (اور) اسے (اپنی) سابقہ مصیبت، (جو قیدِ صندوق کی صورت میں اس کو پیش آئی تھی) یاد نہ آ جائے۔
5
ہست فتنہ غمزۂ غمّازِ زن
لیک آں صد تو شود ز آوازِ زن
ترجمہ: (گو) عورت کا ناز و انداز (بھی) ایک فتنہ ہے۔ لیکن اگر (اس کو گفتگو کا موقع ملے، تو وہ ) عورت کی آواز سے سو گنا ہو جاتا ہے۔
6
چوں نمے تانست آوازے فراشت
غمزۂ تنہائے زن سودے نداشت
ترجمہ: (مگر) چونکہ وہ (اپنی شناخت کے خوف سے) آواز نہیں نکال سکتی تھی۔ (اس لیے) عورت کا خالی ناز و انداز (جس کے تیر تکّے اس نے بہت چلائے) کچھ سود مند نہ ہوا۔ (عورت گئی تو تھی اس امید پر، کہ قاضی اس کے تیرِ غمزہ سے گھائل ہو کر، اس کے دامِ فریب میں گرفتار ہو جائے گا۔ مگر یہاں قاضی نے الٹا باقاعدہ کاروائی شروع کر دی۔ چنانچہ:)
7
گفت قاضی رو تو خصمت را بیار
تا دہم کارِ ترا با او قرار
ترجمہ: قاضی نے کہا جا تو اپنے فریق ثانی کو لے آ۔ تاکہ اس کے ساتھ تیرے معاملہ کو طے کروں۔
8
جوحی آمد قاضیش نشناخت زود
کہ بوقت لُقیہ در صندوق بود
ترجمہ: (غرض) جوحی حاضر (عدالت) ہوا، (تو) قاضی اس کو فی الفور پہچان نہ سکا۔ (کیونکہ قاضی جوحی سے پہلی) ملاقات کے وقت صندوق میں (بند) تھا۔ (اس کی صورت دیکھنے کا موقع اسے نہیں ملا تھا۔ اس لیے اب اسے پہچاننا ناممکن تھا۔)
9
زو شنیدہ بود آواز از بروں
در شرا و بیع و در نقص و فزوں
ترجمہ: (ہاں) باہر سے (صرف) اس کی آواز سنی تھی۔ (جو صندوق کی) خرید و فروخت میں، اور (اس کی قیمت کی) کمی و بیشی (کے تکرار) میں (نکلی تھی، مگر صرف آواز شناخت کے لیے کافی نہ تھی۔)
10
گفت نفقۂ زن چرا ندهی تمام
گفت از جاں شرع را هستم غلام
ترجمہ: (قاضی نے جوحی سے) کہا (کیوں بھائی) تو عورت کا پورا نان و نفقہ کیوں نہیں دیتا؟ (جو شرع میں واجب ہے۔) وہ کہنے لگا میں شرع کا تو دل و جان سے غلام ہوں۔(نفقہ دینے سے مجھے انکار نہیں۔)
11
لیک اگر میرم ندارم من کفن
در قمارم مفلس و شش پنج زن
ترجمہ: لیکن(عذر ہے، وہ یہ کہ میں نادار ہوں!) اگر میں مرجاوں تو کفن(کا خرچہ) بھی نہیں رکھتا۔ میں مفلسی میں مفلس ہوں، اور تدبیر و حیلہ کرتا رہتا ہوں۔
12
زیں سخن قاضی مگر بشناختش
یاد آورد آں دغل واں باختش
ترجمہ: (جوں ہی جوحی کے منہ سے مکر و فریب کا لفظ نکلا، تو) قاضی (چونک پڑا، جیسے کچھ یاد آ گیا ہو، اس) نے شاید اسی لفظ سے اس کو پہچان لیا۔ اور اسے اس کا وہ دجل و فریب یاد آ گیا۔
13
گفت آں شش پنج با من باختی
پار اندر ششدرم انداختی
ترجمہ: (اور جوحی سے مخاطب ہو کر) بولا وہ مکر و دغا تو نے میرے ساتھ ہی کیا تھا۔ گزشتہ سال تو نے مجھے حیرانی میں ڈالا تھا۔
14
نوبتِ من رفت امسال آں قمار
با دِگر کس باز و دست از من بدار
ترجمہ: میری باری گزر چکی، اس سال وہ جُوا کسی اور کے ساتھ کھیل، اور مجھ سے دست بردار ہو۔
انتباہ: آگے مولانا قاضی کے اس مرتبہ دھوکا نہ کھانے اور جوحی کے فریب سے بچ جانے کے ذکر سے، یہ ارشادی سبق دیتے ہیں کہ اسی طرح عارف لوگ علائقِ دنیویہ کے پھندے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں۔
15
از شش و از پنج عارف گشت فرد
محترز گشت ست زیں شش پنج نرد
ترجمہ: شش اور پنج سے عارف علیحدہ ہو گیا۔ اور اس (تحصیلِ دنیا کی) بازی کے شش و پنج سے بھی پرہیز کرنے والا بن گیا۔ (آگے اس شش اور پنج کی تفسیر فرماتے ہیں جو مصرعہ اولٰی میں ہے:)
16
رست او از پنج حسّ و شش جَہت
از وَراے آں ہمہ کرد آگہت
ترجمہ: وہ پانچوں حواس اور چھ جهت (کی محسوسات کے تعلقات) سے چھوٹ گیا۔ (اس لیے) ان سب کے ماوراء سے اس نے تجھ کو آگاہ کر دیا۔
مطلب: یعنی اس کا ”ماورائے عالمِ محسوس‘‘ اور ”مَا فَوقَ الْعَالَمْ‘‘ سے خبر دینا، اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو عالمِ عُلوی سے تعلق حاصل ہے، اور یہ علامت ہے اس کے عالمِ سفلی سے خلاصی پانے کی۔ کہ اس کے بدون وہ تعلق حاصل نہیں ہوتا۔ پس یہ”آگاہ کردن‘‘ اس ”رستن‘‘ پر مبنی ہے (کلید)۔
17
شد اشارتش اشاراتِ ازل
جَاوَزَ الْاَوْھَامَ طُرّاً وَ اعْتَزَلْ
ترجمہ: (اس کا یہ آگاہ کرنا، کسی کسبی علم سے نہیں بلکہ) اس کے اشارات (حکمًا) اشاراتِ ازل ہیں۔ وہ تمام وہمیات (پر مبنی ہونے والے علوم) سے آگے گزر گیا اور یکسو ہو گیا۔ (یعنی اس کا علم حق تعالیٰ کے علم کا فیض ہی ہے، اس لیے اب اس کو اکتسابی و ظنّی علوم کی حاجت نہیں۔)
18
زیں چہ شش گوشہ گر نبود بُروں
چوں بر آرد یوسفے را از دروں
ترجمہ: اگر وہ (عارف) اس (عالمِ شش جہت کے) چھ گوشے والے کنویں سے باہر نہیں ہے۔ تو (طالب مقیّد مثل) یوسف کو (اس کے) اندر سے کیونکر نکال لاتا ہے؟
مطلب: کیونکہ جو شخص خود کنویں کے اندر مقیّد ہو، وہ کسی دوسرے کو کنویں سے نہیں نکال سکتا۔ اسی طرح جو شخص خود تعلّقاتِ مَاسِوَی اللہ میں آلودہ ہو، اس کی تعلیم تربیّت اور قرب و صحبت میں عادۃً یہ اثر نہیں ہوتا کہ کوئی دوسرا اس سے متاثر ہو کر ان تعلقات سے نفرت کرنے لگے۔
ع او خویشتن گم ست کرا رهبری کند
19
واردے بالائے چرخِ بے ستُن
جسمِ او چوں تو در چَہ چارہ کن
ترجمہ: (پس) وہ (باعتبار روح کے) چرخِ بے ستوں سے باہر (کنویں پر) وارد (ہونے والا) ہے۔ (اور) اس کا جسم ڈول کی طرح چاہ (دنیا) میں (یوسف کو نکالنے کی) تدبیر کر رہا ہے۔
مطلب: حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ میں یہ آیت آئی ہے: ﴿وَ جَآءَتْ سَیَّارَةٌ فَاَرْسَلُوْا وَارِدَهُمْ فَاَدْلٰى دَلْوَهٗ- قَالَ یٰبُشْرٰى هٰذَا غُلٰمٌ- وَ اَسَرُّوْهُ بِضَاعَةً- وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ﴾ (یوسف: 19) ”اور اتفاق سے (اس کنویں پر جس میں یوسف علیہ السلام مقیّد تھے) ایک قافلہ آیا اور انہوں نے اپنے سقّے کو (پانی لانے کے لیے) بھیجا۔ سو جونہی اس نے اپنا ڈول لٹکایا (یوسف علیہ السلام اس میں بیٹھ گئے۔ ڈول نکالا تو سقّا) پکار اٹھا آہا! یہ تو لڑکا ہے، اور قافلے والوں نے یوسف کو مالِ تجارت قرار دے کر چھپا لیا، اور جو تدبیریں یہ لوگ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم تھیں۔“ اس شعر میں اسی قصہ کی طرف تلمیح ہے، یعنی جس طرح سقّے نے کنویں میں جا کر ڈول ڈالا اور ڈول حضرت یوسف علیہ السلام کے کنویں سے نکلنے کا ذریعہ بنا۔ اسی طرح عارف اپنی روح کے اعتبار سے چاہِ دنیا کے اوپر یعنی عالمِ غیب میں ہے، اور اس کا جسم بمنزلہ دلوِ چاہ دنیا کے اندر طالبوں کو جو حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح اس کنویں میں مقید ہیں، نکالنے کی تدبیر کر رہا ہے۔
20
یوسفاں چنگال در دلوش زدہ
رستہ از چاہ و شہِ مصری شدہ
ترجمہ: یوسفوں (یعنی طالبوں) نے اس کے ڈول کو پکڑ رکھا ہے۔ اور وہ کنویں سے نکل کر شاہِ مصر بن گئے۔ (یعنی وہ علائقِ دنیویہ سے رستگار ہو کر کمالاتِ باطن کے مراتب پر فائز ہو گئے۔)
21
دلوہائے دیگر از چَہِ آب جو
دلوِ او فارغ ز آب اصحاب جو
ترجمہ: دوسرے ڈول تو کنویں سے پانی ڈھونڈتے ہیں۔ اس (عارف) کا ڈول پانی سے بے نیاز ہے اور یاروں کو ڈھونڈتا ہے۔
22
دلوها غوّاصِ آب از بہرِ قُوْت
دَلوِ او قُوْت و حیاتِ جانِ حوت
ترجمہ: (دوسرے) ڈول غذا حاصل کرنے کے لیے پانی میں غوطہ لگاتے ہیں۔ (اور) اس کا ڈول خود مچھلی کی جان کے لیے غذا اور دوا ہے۔
مطلب: ان دو شعروں میں ”دوسرے ڈولوں‘‘ سے مراد عوام الناس کے اجسام ہیں۔ اور ” پانی‘‘ سے مراد مطلوباتِ دنیویہ کے طالب ہیں۔ یہ شخص ان کو اس آلودگی سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔”مچھلی‘‘ سے مراد طالبِ حق ہے، جو اس گندے اور متعفّن کنویں میں محبوس ہے۔ پھر ڈول یعنی عارف کے فیضِ صحبت کی بدولت نکل کر دریائے قرب میں جا پہنچتا ہے۔
23
دلوہا وابستۂ چرخِ بلند
دلوِ او در اصبعینِ زور مند
ترجمہ: (دوسرے) ڈول تو چرخِ بلند سے وابستہ ہیں۔ اور اس کا ڈول صاحبِ قوّت (حق تعالیٰ شانہ) کی دو انگلیوں کے درمیان ہے۔
مطلب: جس طرح ڈول کا تعلق کنویں کی چرخی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس طرح عَامَّۃُ النَّاسْ کے اجسام کا تعلق آسمان کے ساتھ ہے، جو اپنے دور و گردش کے لحاظ سے چرخی سے مشابہ ہے۔ اور آسمان کے ساتھ تعلق ہونے کے یہ معنٰی ہیں کہ یہ اجسام عناصر سے ہیں، اور فلکیات کے تصرُّفات عناصر پر مسلّم ہیں۔ بخلاف اس کے عارف کا جسم گو عنصری ہے، مگر وہ ان تصرفات سے آزاد ہے، اس کا تعلق ”جس سے طاعات کا جوارح سے صادر ہونا مراد ہے‘‘ حق تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ جیسے قربِ نوافل اور قربِ فرائض کی حدیث میں وارد ہے کہ: ”کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَ بَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ“ ( بخاری شریف، کتاب الرقاق، باب التواضع، رقم: 6137) ”تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے۔ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے دیکھتا ہے۔‘‘ اور چرخی کو اس کے ساتھ مفہومًا تشبیہ دی ہے۔ آگے ان مثالوں کا ناقص ہونا بیان فرماتے ہیں:
24
دلو چہ و حبل چہ و چرخ چی
ایں مثال بس رکیک ست اے اخی
ترجمہ: ڈول کیا چیز ہے؟ اور رسّی کون سی شے ہے؟ اور چرخی کیا ہے؟ اے بھائی یہ مثال تو بالکل مہمل ہے۔ (یعنی اس سے مماثلت مِنْ کُلِ الْوُجُوْہْ نہ سمجھ لینا۔ یہاں ممکن ہے کوئی کہے کہ پھر کوئی مثالِ تام پیش کی ہوتی، آگے اس کا جواب ہے:)
25
از کجا آرم مثالِ بے شکست
کفوِ او نے آید و نے آمد ست
ترجمہ: میں بے نقص مثال کہاں سے لاؤں۔ (کیونکہ) اس (عارف) کی مثل تو (ان اشیائے محسوسہ کے اندر) نہ (وجود میں) آئے گی، اور نہ کبھی وجود میں آئی ہے۔
مطلب: یہ بالکل ظاہر کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، خصوصًا روح جو عارف کی اصل ہے، وہ خود غیر محسوس ہے، اور خصوصًا جب اس میں نسبت مَعَ اللہ کا لحاظ کیا جائے پس غَیْرِ اَشْرَفْ میں اشرف کا مماثل اور محسوسات میں غیر محسوس کا مماثل اور متعلّقاتِ اللہ میں متعلق مع اللہ کا مماثل کہاں پایا جائے گا۔ پھر مثال کے تامِ کامل ہونے کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔ جب بھی کوئی مثال پیش کی جائے گی، تو لا محالہ وہ رکیک و ناقص ہی ہو گی۔ (کلید) آگے اس روحِ عارف کی افضلیت کا ذکر ہے، جو اوپر کے شعر میں مجملاً ہوا تھا۔ تفصیلاً فرماتے ہیں:
26
صد ہزاراں مرد پنہاں در یکے
صد کمان و تیر درجِ ناوکے
ترجمہ: (وہ عارف ایسا بزرگ قدر اور جامع صفات ہے کہ گویا) لاکھوں مرد (اس) ایک (شخص) میں پنہاں ہیں۔ (اور گویا) سو کمانیں اور تیر ایک ناوک میں درج ہیں۔
مطلب: جس طرح اکیلا ایک تیر لاکھوں کمانوں میں تیروں کا کام کرتا ہو، اسی طرح یہ عارف بذاتِ واحد لاکھوں مردوں کی طاقت رکھتا ہے۔ ناوک کے کھوکھلے ہونے سے یہ احتمال نہ کیا جائے کہ اس کے خون میں لاکھوں کمانوں اور تیروں کا رکھا جانا مراد ہے۔ کیونکہ اس طرح تو تیر ترکش میں رکھے جاتے ہیں۔ بلکہ یہاں ایک تیر میں لاکھوں تیروں کی سی طاقت ہونا مراد ہے۔ چنانچہ کہا گیا ہے:
لَیْسَ عَلَی اللّٰهِ بِمُسْتَنْکِرٍ
اَن یَّجْمَعَ الْعَالَمَ فِیْ وَاحِدٍ
اللہ تعالیٰ کے لیے یہ مشکل نہیں کہ
سارے جہاں کو ایک شخص میں جمع کر دے
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِلّٰهِ حَنِیْفًا﴾ (النحل: 120) ”بے شک ابراہیم علیہ السلام ایک پوری امت تھے اللہ کے فرمانبردار تمام راہوں سے ھٹے ہوئے ۔‘‘
27
مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ فتنہ
صد ہزاراں خرمن اندر خفتہ
ترجمہ: (وہ عارف)﴿مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ﴾(انفال:17) ”تو نے مٹی نہیں پھینکی جبکہ پھینکی تھی‘‘ (کا مصداق ہے، اور) ایک امتحان (الٰہی) ہے۔ (اور گویا وہ) لاکھوں خرمن (کے برابر ہے، جو) ایک مٹھی میں (ہوں)۔
مطلب: آیہ ”مَا رَمَیْتَ“ کا ترجمہ و تفسیر، اور اعتبار و تاویل کئی مرتبہ پیچھے گزر چکی ہے، مجملاً یہ کہ یہ آیت غزوۂ بدر کے اس واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی کی ایک مٹھی کفار کی طرف پھینکی، تو آپ کا یہ فعل بطورِ معجزہ کفار کی شکست کا باعث ہوا اس پر اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ فعل جو تم نے کیا تھا وہ فی الحقیقت ہم نے کیا تھا۔ یہاں یہ مراد ہے کہ اس عارف کے اکثر افعال منجانبِ اللہ ہوتے ہیں جو لوگوں کے لیے ایک امتحان ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَ جَعَلْنَا بَعْضَکُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَۃً﴾ (الفرقان: 20) ”اور ہم نے تم لوگوں کو ایک دوسرے کی آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے‘‘ اور امتحان اس طرح ہے کہ لوگ اس کو اپنا مثل سمجھ کر انکار و اعتراض سے پیش آتے ہیں، اور اس کی روحی جانب کو نہیں دیکھتے جو ان کی محرومی کا باعث ہے۔
28
آفتابے در یکے ذرّہ نہاں
ناگہاں آں ذرّہ بکشاید دہاں
ترجمہ: (اور وہ گویا) ایک آفتاب ہے جو ایک ذرّہ میں نہاں ہے۔ (اور اگر) ناگہاں وہ ذرّہ (جس میں آفتاب نہاں ہے) منہ کھول دے۔ (جس کے کھولنے سے اس آفتاب کی شعاعیں پھیلنے لگیں۔ تو:)
29
ذرّہ ذرّہ گردد افلاک و زمیں
پیشِ آں خورشید چُوں جَست از کمیں
ترجمہ: (تو سب) افلاک و زمیں میں اس آفتاب کے سامنے، جبکہ (وہ ذرّہ) کی کمیں گاہ سے نکل پڑے (تابِ انوار نہ لا کر) ریزہ ریزہ ہو جائیں۔
مطلب: یعنی اگر کبھی عارف کی زبان اظہارِ واردات اور القائے افادیت کے لیے کھلتی ہے، جس سے اس کا روحانی فیض پھیلنے لگتا ہے، تو اس وقت تمام عالم ہیچ اور بے قدر معلوم ہونے لگتا ہے، خود اس کی اپنی عظمت کے سامنے بھی اور اس لیے بھی کہ اس کے کلام سے دوسرے عالَم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ (کذا فی الکلید) یہاں تک جو تشبیہات مذکور ہوئیں یعنی صد ہزاروں مردوں کا ایک مرد میں جمع ہونا، اور صد ہزاروں کمان و تیر کا ایک ناوک میں مندرج ہونا، اور آفتاب کا ذرہ کے اندر پنہاں ہونا، تو یہ سب تشبیہات روح کی وسعت اور جسم کی تنگی کے اعتبار سے ہیں۔ آگے روح کے مقابلہ میں جسم کا لاشیئِ محض ہونا اس غرض سے بیان فرماتے ہیں کہ اہل اللہ کو صرف جسمیّت کی حیثیت سے نہ دیکھا جائے:
30
ایں چنیں جانے چہ در خوردِ تن ست
ہیں بشو اے تن ازیں جاں ہر دو دست
ترجمہ: ایسی روح جسمِ عنصری کے لائق کہاں ہے۔ ہاں اے جسم! تو اس روح سے دونوں ہاتھ دھو لے۔
31
اے تنِ گشتہ وثاقِ جاں بس ست
چند تاند بحر در مَشکے نشست
ترجمہ: اے جسم جو روح کا گھر بن رہا ہے (جتنا عرصہ تو نے روح کو اپنے اندر رکھا ہے) اسی قدر کافی ہے۔ (بس اب) کہاں تک (دریا کا دریا) مَشک کے اندر سما سکتا ہے۔
مطلب: اس سے مقصود یہ نہیں کہ جسم کو روح سے دست بردار ہونا اور اسے چھوڑ دینا چاہیے، بلکہ ایک شاعرانہ پیرایہ میں دونوں کا باہم متناسب نہ ہونا ظاہر کیا ہے، یعنی روح ایک اعلٰی جوہر ہے اور جسم ایک ادنٰی و اخس مخلوق ہے۔ اوپر جسمِ عارف سے خطاب کیا تھا، اب اس کے مقابلہ میں عارف کی روح سے خطاب کرتے ہیں:
32
اے ہزاراں جبرائیل اندر بشر
اے مسیحانِ نہاں در جوفِ خر
ترجمہ: اے (روحِ عارف جو گویا) ہزاروں (ارواحِ طیبہ کے) جبرائیل انسان (کے جسم) میں (پنہاں ہیں۔) اے (روحِ عارف جو گویا ارواحِ لطیفہ کے بہت سے) مخفی مسیح (جسمِ عنصری کے) شکمِ خر میں (بند ہیں)۔
33
اے کلیمُ اللہ نہاں اندر نمد
واقف از خوف ست و رست از نیک و بد
ترجمہ: اے (روحِ عارف جو گویا ایک) کلیمُ اللہ (موسیٰ ثانی) کمبل کے اندر چھپے ہوئے ہیں۔ جو منازلِ دنیا و عقبٰی کے خوف سے (و خطر) سے آگاہ (بھی) ہیں اور (دنیا کے) بھلے برے (تعلقات) سے رستگار (بھی) ہیں۔ (یعنی ان کو علم بھی ہے اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔)
34
اے حبیبُ اللہ نہاں در غارِتن
گنجِ ربّانی نہاں در مارِتن
ترجمہ: اے (روح عارف جو گویا ایک)حبیبُ اللہ کا (ایک) محبوب جسمِ (عنصری کے) غار میں مخفی ہے۔ (اور گویا) ایک خدائی خزانہ جسم کے سانپ میں (چھپا ہوا) ہے۔ ( ”غار کے ذکر سے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین دن تک غارِ ثور میں مخفی رہنے کی طرف اشارہ ہے۔ ”گنج‘‘ کے ساتھ ”مار‘‘ کا ذکر اس خیال کی بنا پر مناسب واقع ہوا ہے۔ جو عام مشہور ہے کہ خزانے پر کوئی نہ کوئی سانپ ضرور رہتا ہے۔)
35
اے ہزاراں کعبہ پنہاں در کنیس
اے غلط اندازِ عفریت و ابلیس
ترجمہ: اے (روحِ عارف جو گویا) ہزاروں کعبہ ایک کنیسہ میں پنہاں ہیں۔ (اور) اے دیو و ابلیس کو غلطی میں ڈالنے والی (روح)۔
مطلب: ظاہر ہے کہ ان اشعار میں ”اے“ حرفِ ندا سے روحِ عارف کو ندا کی ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں ”اے“ کا استعمال بغرضِ تعجب ہوا ہو۔ جس سے ایک عظیمُ الشّان وجود کے ایک حقیر محل میں پنہاں ہونے پر اظہارِ تعجب مقصود ہو، اور ”حرفِ اے“ کا تعجب کے لیے استعمال محاورہ میں شائع ہے۔ جس طرح اردو میں ”ارے“ حرفِ ندا بھی تعجب کے لیے ہے۔ جیسے میر سور کہتے ہیں؎
گئے گھر سے جو ہم اپنے سویرے
سلام اللہ خاں صاحب کے ڈیرے
وہاں دیکھے کئی طفل پری رو
ارے رے رے، ارے رے رے ارے ارے
اسی بنا پر صاحبِ منہج نے شعر؎ ”اے ہزاراں جبرائیل اندر بشر“ الخ کا ترجمہ یوں کیا ہے ”یَا عَجَبِی اُلُوْفُ جِبْرَائِیْلَ فِی الْبَشَرِ۔۔۔ الخ“ علاوہ ازیں شعر
اے کلیمُ اللہ نہاں اندر نمد
واقف از خوف ست و رست از نیک و بد
میں کلمہ ”است و رست“ بھی اس احتمال کے مؤیّد ہیں۔ کیونکہ اگر ”اے“ حرفِ ندا ہوتا تو ان کلموں کے بجائے ”هستی و رستی“ خطاب کے صیغے ہوتے۔ مگر مضمون کا سیاق اور خصوصًا اوپر کے شعر کا دوسرا مصرعہ ان کلمات کے حرفِ ندا ہونے کا مرجح ہے۔
36
سجدہ گاہِ لامکانی در مکان
مر بلیساں را ز تو ویراں دکان
ترجمہ: (اے روحِ عارف! کہ) تو مکان میں لامکانی (مخلوق) کا سجدہ گاہ ہے۔ شیطان کی دکان تجھ سے ویران ہو گئی۔
مطلب: یعنی عارف کی روح وجودِ آدم علیہ السلام کے ضمن میں ملائکہ کی مسجود ہوئی۔ ملائکہ کو لامکانی بمقابلہ مکانِ عنصری کے کہا ہے۔ اور مکان کے معنی اس صورت میں مناسب ہیں کہ ”فِی الْاَرْضِ“ کے لیے جائیں۔ جیسا کہ ایک قولِ مشہور ہے کہ سجدہ قبل دخولِ جنت کے ہوا تھا، اور اس پر اگر یہ شبہ ہو کہ پھر شیطان کو سجدہ سے انکار کرنے پر کہا گیا تھا ﴿فَاخْرُجْ مِنْھَا﴾ (ص:77) ”تو نکل جا یہاں سے۔“ جس سے ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ سجدہ جنت میں ہوا تھا۔ اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے کہ اہلِ سمٰوات سے سجدہ وہاں ہی کرایا گیا ہو، اور اسے انکار کی وجہ سے سمٰوات سے نکل جانے کا حکم ہوا ہو۔ (کلید) ابلیس نے سجدہ سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا:
37
کہ چرا من خدمتِ ایں طیں کنم
صورتِ دوں را لقب چُوں دیں کنم
ترجمہ: کہ میں اس مٹی (کے پتلے) کی خدمت کیوں کروں؟ اور ادنیٰ درجہ کے مجسّمہ کا لقب دین (کی سجدہ گاہ) میں کیوں دوں! (آگے مولانا فرماتے ہیں:)
38
نیست صورت چشم را نیکو بمال
تا بہ بینی شعشعِ نورِ جمال
ترجمہ: (ارے احمق ابلیس! یہ کوئی) خالی خولی مجسمہ نہیں (اپنی) آنکھ کو اچھی طرح مل۔ تاکہ تو (اس کے اندر) جلالِ (خداوند) کے نور کی شعاع دیکھے۔
انتباہ: آگے پھر عود ہے قصہ کی طرف، اور اس مقام کو بیانِ سابق کے ساتھ یہ پُر لطف ربط بھی ہے کہ اوپر روحِ عارف کی ایک عظیم الشان ہستی کا ایک حقیر جسم میں مستور ہونا مذکور تھا۔ اب یہ بیان فرماتے ہیں کہ یہی کیفیت شہزادہ کے پیشِ نظر تھی کہ اس نے شاہِ چین کی ہفت افلاک کے برابر وسیع روحانیت کو ان کے وجودِ ظاہری کی مشتِ خاک میں پنہاں پایا۔