دفتر 6 حکایت 135: اس حدیث کے بیان میں کہ جس کا مولا میں ہوں پس اس کے مولا علیؓ ہیں

دفتر ششم: حکایت: 135



در بیانِ حدیثِ نبویمَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ‘‘ (الترمذي فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبی طالب رضی الله عنه، الحديث رقم : 3713،)

اس حدیث کے بیان میں ”کہ جس کا مولا میں ہوں پس اس کے مولا علیؓ ہیں‘‘

1

زیں سبب پیغمبرِؐ با اِجتِہاد

نامِ خود و آں علیؓ مولا نہاد

ترجمہ: (چونکہ آزادی اچھی ہے) اس سبب سے پیغمبرؐ صاحبِ اجتہاد نے اپنا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام مولا رکھا (مولا کے معنٰی ہیں آزاد کرنے والا۔ اجتہاد کے معنٰی کوشش کرنے والا۔ اس میں یہ اشارہ ہے، کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم امت کو عذابِ آخرت سے آزادی دلانے کی کوشش فرماتے ہیں۔)

2

گفت ہر کو را منم مولا و دوست

ابنِ عمِّ من علیؓ مولائے اوست

ترجمہ: (چنانچہ) آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا ہے، (کہ اس امت میں) جس کا میں مولا اور دوست ہوں۔ میرے عمّ زاد (بھائی) حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے مولا ہیں۔

3

کیست مولا آنکہ آزادت کند

بندِ رقِّیت ز پایت برکند

ترجمہ: (اور) مولا کون (ہوتا) ہے؟ (مولا) وہ (ہوتا ہے!) جو تجھ کو آزاد کرے۔ (اور) غلامی کی قید تیرے پاؤں سے دور کر دے۔

مطلب: مولا کے کئی معنٰی ہیں۔ جن میں ایک معنٰی دوست کے بھی ہیں، اور ایک معنٰی آزاد کنندہ کے ہیں۔ حدیث مذکور میں پہلے معنٰی مشہور ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص مجھ کو دوست رکھتا ہے، اس پر واجب ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی دوست رکھے۔ اور حدیث کے اگلے کلمات، اسی معنٰی و مطلب کی تائید کرتے ہیں۔ چنانچہ آگے یہ کلمات ہیں۔ اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَّالَاہُ (فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل، رقم الحديث: 1016، فضائل علیؓ) ”الٰہی تو اس شخص کو دوست رکھیو جو علیؓ کو دوست رکھے‘‘ لیکن مولانا نے ''مولا‘‘ بمعنٰی آزاد کننده قرار کر، مقصودِ مقام پر استدلال کیا ہے۔ جس کی رُو سے آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم کا، اور آپ کے اتباع میں مشائخِ کاملین کا، آزادی دہندہ ہونا ثابت ہوا، اور اسی سے آزادی کی مدح اور ترغیب بھی مفہوم ہوئی۔ آگے آپ کے اوّلاً، اور آپ کے وارثین کے تبعًا، آزادی دہندہ ہونے پر بطور تفریع فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو اس آزادی کے حصول پر مسرور ہونا چاہیے:

4

چوں بآزادی نبوّت هادی ست

مومناں را ز انبیاؑ آزادی ست

ترجمہ: جب (انبیاء علیہم السلام کی) نبوت (تعلیماً) آزادی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ (اور) مومنوں کو انبیاء علیہم السلام کی بدولت آزادی (حاصل ہوئی )ہے۔ (تو:)

5

اے گروہِ مومناں شادی کنید

ہمچو سرو و سوسن آزادی کنید

ترجمہ: تو اے مومنوں کی جماعت! خوشی مناؤ۔ اور سرو و سوسن کی طرح آزادی کرو۔

6

لیک می گوئید ہر دم شکرِ آب

بے زباں چوں گلستانِ خوش خضاب

ترجمہ: لیکن (رسمی خوشی نہیں بلکہ حقیقی خوشی مناؤ۔ اس طرح کہ) ہر وقت (اپنے مربی کی) آب (رسانی) کا شکر کرو۔ (اور وہ شکر صرف) زبان سے نہیں، (بلکہ عملاً ہو) جیسے خوش رنگ باغ۔ (زبانِ حال سے شکر ادا کر رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے شیخِ مربی کا شکر، نہ صرف قولاً بلکہ عملاً بھی کرو، یعنی دل سے اس کے معتقد رہو اور جوارح سے خدمت بجا لاؤ۔)

7

بے زبان گویند سرو و سبزہ زار

شکرِ آب و شکرِ عدلِ نوبہار

ترجمہ: (چنانچہ) سرو اور سبزہ زار، زبانِ (قال) کے بدوں پانی اور نو بہار کے انصاف کا شکر ادا کر رہے ہیں۔ (نوبہار کا انصاف یہ کہ اس کے ذریعہ ہر درخت اور پودے کو اس کے ذریعہ پھل پھول عطا ہوتا ہے۔)

8

حُلّہا پوشیده و دامن کشاں

مست و رقاص و خوش و عنبر فشاں

ترجمہ: (چنانچہ) وہ (اظہارِ شکر کے لیے، ہری بھری) پوشاکیں پہنے ہوئے، (ناز سے) دامن کھینچے ہوئے۔ ناچتے، خوشی مناتے، اور خوشبو پھیلاتے ہیں۔

9

جزو جزو آبستن از شاہِ بہار

جسمِ شاں چوں دُرجِ پُر دُرِّ ثمار

ترجمہ: (ان کا) ہر برگ و ریشہ شاہ بہار (کے فیض) سے، بار دار ہے۔ (یعنی) ان کا جسم، ڈبّے کی طرح پھلوں کے موتیوں سے پُر ہے۔

10

مریماں بے شوے آبست از مسیح

خامشاں بے لاف و گفتارے فصیح

ترجمہ: (وہ درخت گویا) مریمیں ہیں، جن کے شوہر نہیں (ہیں، اور پھلوں کے) مسیح سے حاملہ ہیں۔ (وہ) خاموش (ہیں، اور کسی قسم کے) دعوے اور گفتگو کے بغیر خوشگوار ہیں۔ (اور اپنی اس خاموشی کے متعلق، یوں کہہ رہے ہیں کہ:)

11

ماہِ ما بے نطق خوش برتافتہ است

ہر زبانِ نطق از فرِّ او یافتہ است

ترجمہ: ہمارا (موسمِ بہار کا) چاند (جس سے ہم نے سرسبزی کا نور حاصل کیا ہے) بغیر گفتگو کے خوب درخشاں ہے۔ (اور) ہر زبان نے اس کے اقبال سے نطق حاصل کیا ہے۔

مطلب: یعنی اگر ہم زبانِ قال سے شکر ادا نہیں کر سکتے، تو کیا مضائقہ ہے؟ خود ہمارا مربی یعنی موسمِ بہار بھی تو غیر ناطق ہے۔ اور وہ بے نطق ہی کافی افادہ کر رہا ہے۔ پس جس طرح اس کے عدمِ نطق سے اس کے افادہ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، اس طرح ہمارے عدمِ نطق سے بھی ہمارے ادائے شکر میں کوئی نقصان لازم نہیں آتا۔ دوسرے مصرعہ کا مطلب یہ ہے، کہ موسمِ بہار کے فیضان سے مختلف غذائیں پیدا ہوتی ہیں، جو انسان کو طاقت بخشتی ہیں اور محرّکِ نطق ہوتی ہیں۔ پس نطق میں بہار کا دَخل بالواسطہ ہے۔ آگے اس ذریعۂ نطق کی مثل ہے:

12

نطقِ عیسیٰؑ از فرِّ مریم بود

نطقِ آدمؑ پرتوِ آں دم بود

ترجمہ: (دیکھو) عیسیٰ علیہ السلام کا (مہد کے اندر) ناطق ہونا، حضرت مریم علیھا السلام کی برکت سے ہے۔ اور حضرت آدم علیہ السلام کا نطق اس نفخ کا پَرتو ہے۔

مطلب:اس شعر میں ”آں دم“ سے اشارہ اس ارشادِ خداوندی کی طرف ہے، کہ ﴿وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ(الحجر: 29) ”اور میں نے آدم علیہ السلام میں اپنی روح پھونکی“۔ مطلب یہ ہےکہ حضرت مریم علیہا السلام خود خاموش تھیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔﴿فَقُوْلِیْۤ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا﴾ (مریم: 26) یعنی ”اے مریم تم (اشارہ سے) کہہ دینا کہ میں نے خدائے رحمن کے لیے روزے کی منت مان رکھی ہے، تو میں آج کسی آدمی سے بات نہیں کر سکتی“۔ اور آدم علیہ السلام میں روح پھونکنے والا یعنی حق تعالیٰ اس نطقِ متعارف سے منزّہ ہے، پس ان دونوں پیغمبروں کا نطق غیر ناطقوں کے فیض سے تھا۔ اسی طرح مشبّہ میں سمجھو۔ آگے اس تاکیدِ شکر کا تتمہ ہے۔

13

تا زیادت گردد از شکر اے ثقات

بس نباتِ دیگرست اندر نبات

ترجمہ: (تم اپنے مربی، آزادی عطا کرنے والے کا، شکر کرتے رہو) تاکہ اے معتبر لوگو! شکر سے (اس فیض میں) زیادتی ہو۔ (کیونکہ یہاں فیوض و برکات کی) بہت سی دوسری نباتات در نباتات ہیں۔ (آگے اسی سلسلے میں طلبِ مزید کی ترغیب ہے:)

14

عکسِ آں اینجاست ذَلَّ مَنْ قَنَعَ

اندریں طورست عَزَّ مَنْ طَمَعَ

ترجمہ: یہاں (دینی نعمتوں میں، اس قول مشہور جو دنیا کے باب میں وارد ہے ”عَزَّ مَنَ قَنعَ‘‘) کا عکس (یعنی)ذَلَّ مَنْ قَنَعَ“ (صحیح) ہے۔ اور اس طرح (اس قول کا دوسرا حصہ، ”ذَلَّ مَنْ طَمَعَ‘‘ کا بھی عکس یعنی) ”عَزَّ مَنْ طَمَعَ“ (صحیح) ہے۔

مطلب: یہ قول جو مشہور ہے، کہ ”عَزَّ مَنْ قَنَعَ وَ ذَلَّ مَنْ طَمَعَ“ یعنی ”جس نے قناعت کی اس نے عزت پائی۔ اور جس نے طمع کی اس نے ذلت اٹھائی‘‘ تو یہ فوائدِ دنیا کے متعلق ہے، فوائدِ دین کا معاملہ اس کے برعکس ہے، وہاں قناعت بری اور طمع اچھی ہے۔ اس لیے وہاں اس قول کا عکس یعنی ”ذَلَّ مَنْ قَنَعَ وَ عَزَّ مَنْ طَمَعَ“ درست ہے۔ جس کے معنٰی یہ ہیں۔ ”کہ قناعت کرنے والا ذلیل اور حرص کرنے والا معزز ہے۔‘‘ مدّعا یہ ہے کہ ان مربّیوں کی اطاعت کرو۔ اپنے آپ کو کامل سمجھ کر ان سے مستغنی نہ ہو۔

15

در جوالِ نفسِ خود چندیں مرو

از خریدارانِ خود غافل مشو

ترجمہ: اپنے (غرورِ) نفس کی بوری میں (جو تجھ کو مقیّد کرنے میں، قاضی کے صندوق کی مانند ہے،) اس قدر نہ چل۔ (اور) اپنے خریداروں (یعنی بیعت کرنے والے مربیوں) سے غافل نہ رہ (بلکہ ان کی طاعت کر، کہ یہی ان کا شکر ہے۔ آگے پھر قاضی کا قصہ چلتا ہے:)