دفتر 6 حکایت 134: قاضی کے نائب کا بازار میں آنا اور جوحی کے ساتھ صندوق کا سودا کرنا

دفتر ششم: حکایت: 134



آمدنِ نائبِ قاضی میانِ بازار و خریداری کردن صندوق را از جوحی

قاضی کے نائب کا بازار میں آنا اور جوحی کے ساتھ صندوق کا سودا کرنا

1

نائب آمد گفت صندوقت بچَند؟

گفت نہصَد بیشتر زر می دہند

ترجمہ: (قاضی کا) نائب (بازار میں) آیا، (اور جوحی سے مخاطب ہو کر) بولا، تیرا صندوق کتنے کا ہے؟ اس نے جواب دیا! نو سو (دینار) سے زیادہ دے رہے ہیں۔

2

من نمی آہم فرو تر از ہزار

گر خریداری کُشا کِیسہ بیار

ترجمہ: (مگر) میں ایک ہزار (دینار) سے نیچے نہیں اتروں گا۔ اگر تم خریدار ہو تو تھیلی کھولو (اور نقد بنقد قیمت) لاؤ (قاضی صاحب نے جب سنا ہو گا، کہ جوحی چار روپے کے صندوق کی قیمت ایک ہزار مانگتا ہے تو اب ان کی آنکھیں کھلی ہوں گی کہ جوحی کوئی بیوقوف آدمی نہیں، بلکہ ایک مکار و عیار آدمی ہے، جس نے اپنی بیوی کے ساتھ سازش کر کے مجھے اُلّو بنایا اور صندوق میں مقیّد کیا ہے۔)

3

گفت شرمے دار اے کوتہ نمد

قیمتِ صندوق خود پیدا بود

ترجمہ: اس نے کہا، اے مفلس!(کچھ تو) شرم کر۔ صندوق کی قیمت خود ظاہر ہوتی ہے۔

4

گفت شرمے دار از اہلِ خِرد

کس بدیں مقدار را کے خَرد

ترجمہ: (پھر) کہا کہ عقل مند لوگوں کے (روبرو ایسی بات کرتے ہوئے) کچھ شرم کر۔ (کہ وہ ایک کنگال کے منہ سے یہ امیرانہ قیمت سُن کر کیا کہیں گے، ارے) کوئی اس مقدار سے ( اس نکمّے صندوق کو اتنے گَراں قیمت میں) کب خریدے گا؟

مطلب: نائب بھی، جوحی کے ساتھ اس انداز سے کلام کر رہا ہے،کہ گویا جوحی صندوق سمجھ کر بیچ رہا ہے، اب جوحی نائب کی اس غلط فہمی کو رفع کرتا ہے۔ جس سے قاضی صاحب کا شک بھی، جو ان کو جوحی پر تھا، مبدّل بہ یقین ہو جائے گا۔

5

گفت بے رویت شرےٰ خود فاسدیست

بیعِ ما زیرِ گلیْم ایں راست نیست

ترجمہ: (جوحی نے) کہا دیکھے بغیر (کسی چیز کی) خریداری، درست نہیں ہے۔ ہمارا سودا یوں (چوری چھپے) کمبل کے نیچے، ٹھیک نہیں۔

6

بر کُشایم گر نمے اَرزد مَخر

تا نباشد بر تو حیفے اے پدر

ترجمہ: میں (اسی صندوق کو) کھولتا ہوں (اور تم کو دکھاتا ہوں، کہ اس کے اندر کس قدر گراں قیمت، اور قابلِ قدر مال پِنہاں ہے، پھر) اگر اتنے کا نہ ہو تو نہ خریدنا، تاکہ اے بزرگوار! تم پر (کسی پُر نقصان سودے کا) ظلم نہ ہو۔

مطلب: مکّار جوحی جانتا تھا، کہ اس وقت صندوق کے کھولنے کا قصد کرنا نائب کے گلے پر چھری رکھنے کے برابر ہے، اس ترکیب سے صندوق کی جو قیمت میں چاہوں گا، اس سے منوا لوں گا۔ نائب بھی جوحی کا یہ فقرہ سنتے ہی سمجھ گیا، کہ جوحی جو کچھ کر رہا ہے دیدہ دانستہ کر رہا ہے۔ اب پردہ داری کے ساتھ، قاضی کی رہائی باتوں سے نہیں، بلکہ صرف پیسے کے زور سے ہو سکتی ہے۔ ورنہ بھانڈا چوراہے میں پھوٹ کر رہے گا۔ درحقیقت یہ سودا صندوق کا نہیں، بلکہ قاضی کی عزت و آبرو کا تھا۔ چنانچہ نائب تو قاضی کے آبگینۂ عزت کو سستے داموں خرید کر، اپنی حفاظت میں لانا چاہتا ہے۔ اور جوحی اس کی قیمت کو چڑھانے کے لیے لوگوں کے سامنے چکنا چور کرنے کی دھمکی دیتا ہے۔ اس تکرار میں دونوں کی نوک جھونک اشاروں میں ہوتی ہے۔ مجمع دونوں کے چہروں کو تَک رہا ہے،کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔

7

گفت اے ستّار! برمکُشائے راز

سر بہ بستہ مے خرم با من بساز

ترجمہ: نائب نے کہا اے پردہ پوش! راز کو مت کھول میں۔ (اس صندوق کو) بند کا بند خریدتا ہوں میرے ساتھ (سودا) بنا لے۔

مطلب: یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے، کہ پہلا مصرعہ دعائیہ ہو، یعنی نائب جوحی کی سختی کو دیکھ کر حق تعالیٰ سے دعا کر رہا ہو، کہ یا اللّٰہ! خیر کیجیو، قاضی کا پردہ فاش نہ ہو جائے۔ پھر دعا کے بعد دوسرے مصرعہ میں جوحی سے معاملہ کے متعلق کہا ہو۔

8

ستر کن تا بر تو ستّاری کنند

تا نہ بینی ایمنی بر کس مخند

ترجمہ: (پھر اس نے جوحی کو کہا، تو لوگوں کے سامنے) پردہ پوشی کر، تاکہ تجھ پر بھی پردہ پوشی کریں۔ جب تک تو (خود عیوب کی آلودگی سے) امن میں نہ ہو، کسی (دوسرے کے عیوب) پر ہنسی نہ اڑا۔

سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

ہمہ حمّالِ عیب خویشتند

طعنہ بر عیبِ دیگراں مزنید

9

پس دریں صندوق چوں تو مانده اَند

خویش را اندر بلا بنشانده اند

ترجمہ: تجھ جیسے بہت سے لوگ اس (قسم کے عیوب کے) صندوق میں (گرفتار ہو) رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو بلا (کے پھندے میں) ڈال رکھا ہے۔ (پس تجھ کو پہلے اپنے گریباں میں منہ ڈال کر دیکھنا چاہیے، دوسروں کی عیب گیری پر تو اس شدّ و مد کے ساتھ آمادہ کیوں ہو رہا ہے؟)

10

آنچہ بر تو خواہِ آں باشد پسند

بر دگر کس آں کن از نفع و گزند

ترجمہ: جس نفع اور نقصان کی خواہش تجھ کو (اپنے لیے) پسند ہو۔ دوسرے شخص پر بھی اسی کو عمل میں لا۔

11

آنچہ تو برخود روا داری ہُماں

مے بکن از نیک و از بد با کساں

ترجمہ: جس اچھی اور بری بات کو تو اپنے حق میں روا رکھتا ہے، لوگوں کے حق میں بھی وہی کر۔

12

آنچہ نہ پسندی بخود از نفع و ضر

بر کسے مپسند ہم اے بے ہنر

ترجمہ: جو نفع یا نقصان تو خود اپنے لیے پسند نہیں کرتا، اے بے ہنر! (اس کو کسی) دوسرے پر بھی پسند نہ کر۔ (یہی مضمون اس حدیث کا ہے ''وَ اَنْ تُحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ وَ تَکْرَہَ لَھُمْ مَا تَکْرَہُ لِنَفْسِکَ'' (مسنداحمد)

13

زانکہ بر مرصادِ حق اندر کمیں

مے دہد پاداش پیش از یومِ دیں

ترجمہ: کیونکہ حق تعالیٰ گھات کی جگہ پر (یعنی) کمین گاہ میں سے۔ قیامت سے بیشتر بھی (اَحیَاناً) سزا دیتا ہے۔

مطلب: جزائے اعمال کا عام موقع اور بڑا مقام تو آخرت ہے، مگر دنیا میں بھی کبھی بندوں کو ان کے اعمال کی جزا و سزا مل جاتی ہے، اس بنا پر فرمایا ہے۔ ﴿مَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْـرٍ﴾ (الشوریٰ: 30) یہ آیت مع ترجمہ پیچھے کئی بار گزر چکی ہے۔ ''مصرعۂ اولٰی'' میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ ﴿اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَاد﴾ (الفجر: 14) یعنی ”بے شک تمہارا پروردگار نافرمانوں کی تَاکْ میں (رہتا) ہے۔“

14

آں عظیمُ العرش عرشِ او محیط

تختِ دادش بر ہمہ جانہا بسیط

ترجمہ: وہ بڑے عرش والا ہے، اس کا عرش (تمام کائنات پر) محیط ہے۔ اس کے انصاف کا تخت، تمام مخلوق پر کُشادہ ہے۔ (یعنی اس کا عدل و انصاف سب کے لیے وسیع ہے۔ ہر شخص اس کے قانونِ عدل کے نیچے سزا و جزا پاتا ہے)۔

15

گوشۂ عرشش بتو پیوستہ است

ہیں مجنباں جز بدین و داد دست

ترجمہ: اس کے عرش کا کنارہ تیرے ساتھ (بھی) متصل ہے۔ خبردار! ہاتھ کو سوائے دین و عدل کے حرکت مت دے۔

مطلب: یعنی تو جس کے ساتھ جو معاملہ کرے، اس میں دین اور انصاف کو ملحوظ رکھ، ورنہ اگر تجھ سے بے انصاف اور احکامِ دین کی مخالفت عمل میں آئی، تو حق تعالیٰ کا عدل تیری سزا کے لیے حرکت میں آئے گا۔ آگے تفریع ہے، یہاں سزا ملنے پر:

16

تو مراقب باش بر احوالِ خویش

نوش بیں در داد و بعد از ظلمِ نیش

ترجمہ: (پس) تو اپنے احوال پر نگران رہ۔ (اور) عدل میں شہد (کا مزا) چکھ لے اور ظلم کے بعد ڈنگ (کی تکلیف دیکھ لے)۔

17

پس ہمیں جا خود جزائے نیک و بد

میرسد با ہرکسے چُوں بنگرد

ترجمہ: پس (جب انسان) غور کرے تو، نیک و بد اعمال کی جزا، ہر شخص کو اسی جگہ مل جاتی ہے۔

18

واں جزا کانجا رسد در یومِ دیں

ہیچ آں با اِیں نماند نیک بیں

ترجمہ: اور وہ جزا جو وہاں روزِ قیامت میں ملے گی۔ وہ (اس قدر سخت ہے کہ) اس (دنیاوی سزا) کے ساتھ کچھ بھی مشابہ نہیں، خوب سمجھ لے۔

19

بے حدّ و بے عدّ بود آنْجا جزا

دوزخ و نارست جائے ناسزا

ترجمہ: وہاں بے شمار، اور بے حد سزا ہو گی۔ نالائق کا ٹھکانہ دوزخ اور آگ میں ہے۔

20

گفت آرے آنچہ کردم استم است

لیک ہم میدان کہ بادی اَظْلَمْ ست

ترجمہ: (جوحی نے اس کے جواب میں) کہا مانا کہ میں نے جو کچھ کیا ظلم ہے۔ لیکن یہ بھی جان لو! کہ ابتدا کرنے والا زیادہ ظالم ہے۔

مطلب: دوسرے مصرعے میں اشارہ ہے۔ مشہور قول ”اَلْبَادِیُ اَظْلَمُ“ کی طرف۔ اور اس میں جوحی کا اشارہ ہے، کہ میری عورت تو قاضی کے پاس محض ایک شکایت لے کر گئی تھی، اور یہ کوئی برا فعل نہ تھا، مگر قاضی نے اس کو بدنظری سے دیکھا اور اس کے ساتھ فعلِ قبیح کا قصد کیا، تو ظلم کا آغاز قاضی کی طرف سے ہوا، پس وہی زیادہ ظالم ہے۔

21

گفت نائب یک بیک ما بادئیم

با سوادِ رُو چہ اندر شادئیم

ترجمہ: نائب نے (اس کی تردید میں) کہا (اگر غور کرو تو) ہم (سب) ایک ایک کر کے ابتدا کرنے والے ہیں۔ (کسی خاص شخص کو الزام نہیں دے سکتے، پس اپنی) روسیاہی کے باوجود ہم (کسی دوسرے کی لغزش پر) کیسے خوش ہو رہے ہیں۔

مطلب: نائب کا مدّعا یہ ہے کہ اس معاملہ میں تم لوگوں کی نیت بھی صاف نہ ہو گی۔ تم خود کسی ناجائز مقصد کے لیے اپنی جنگِ زرگری کا قصہ قاضی کے پاس لے گئے ہو گے۔ تو اس کی نیت بھی صاف نہ رہی۔ پس ابتدا کرنے والے تم بھی ہوئے صرف قاضی نہیں۔ فرق صرف اتنا ہی ہے کہ تمہاری ابتدا پردہ میں پوشیدہ تھی، اور قاضی کی ابتدا منصۂ ظہور پر نمایاں ہو گئی، مگر اپنے اپنے رنگ میں بادی ہر ایک ہے۔ نائب نے اس تردیدی جواب کو اپنے حسنِ لیاقت سے جمع متکلم کے صیغے میں ایک اصولی قاعدے کی شکل میں ادا کیا ہے، کہ مبادا بصیغۂ خطاب سرزنش کرنے سے جوحی بگڑ جائے اور معاملہ طے ہوتا رہ جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس میں جوحی اور اس کی بیوی کی ابتدا بالخصوص مراد نہ ہو کیونکہ نائب کو اس کا علم بھی نہ ہو گا، بلکہ یہ عام بات مراد ہو کہ ایک قاضی پر کیا منحصر ہے، ہر شخص کسی قصور و گناہ میں ابتدا کرنے کا مجرم ہے۔ اور خود رو سیاہ ہو کر دوسروں کی روسیاہی پر ہنسنا بے انصافی ہے۔

22

ہمچو زنگی کو بود شاداں و خوش

او نہ بیند غیرِ او بیند رُخش

ترجمہ: جیسے حبشی جو (اپنی خوب صورتی کے زعم میں) خوش و خرم ہے۔ (اور اس کی وجہ یہ ہے کہ) وہ اپنی صورت نہیں دیکھتا، دوسرا شخص اس کے منہ کو دیکھتا ہے۔

23

ماجرا بسیار شد در مَنْ یَزِیْد

داد صد دینار و آں از وے خرید

ترجمہ: (غرض) قیمت کی زیادتی میں بہت تکرار ہوئی۔ (حتٰی کہ نائب نے) سو دینار دے کر وہ صندوق اس سے خرید لیا۔ (اور قاضی کو چِتا میں پڑ کر ہندو کی موت مرنے سے بچا لیا۔ آگے مولانا بطور انتقال فرماتے ہیں:

24

ہر دمے صندوقی اے بد پسند

ہاتفاں و غیبیانت مے خرند

ترجمہ: اے برے (کاموں) کو پسند کرنے والے (اسی طرح تو بھی) ہر دم (محالِ بد کے) صندوق (کا مقید) ہے۔ (جس کا نتیجہ تیری ہلاکت ہوتی، لیکن) تجھ کو (اس نائب کی طرح) ہاتف اور غیبی ہستیاں خرید کر (چھڑا) رہی ہیں۔ (”ہاتفوں اور غیبی ہستیوں سے مراد“ اہلُ اللہ ہیں جو طالبوں کو گمراہی سے بچاتے ہیں اور صلاح و تقویٰ کی تعلیم دیتے ہیں۔

25

ایں یقیں میدان کاسیر و بندۂ

زانکہ در صندوقِ غمہا ماندۂ

ترجمہ: اس (بات) کو یقین (کے ساتھ) یاد رکھ کہ تو قیدی اور غلام (بن رہا) ہے۔ کیونکہ تو (علائقِ دنیویہ کے) غموں کے صندوق میں پڑا رہ گیا ہے۔ (”کاسیر“ باسقاطِ الف)۔

26

بندِ ہرچہ گشتۂ از نیک و بد

ہر یکے بر تو چو صندوقے ست سد

ترجمہ: (دنیا کی) جس خوشنما و بدنما چیز کے تم دلدادہ ہو رہے ہو۔ (ان میں سے) ہر چیز تمہارے لیے بمنزلۂ صندوق (ہے، جو قضائے قدس کے طرف جانے سے) سدِ (راہ) ہے۔

27

تا نگردی زیں ہمہ آزاد تو

کے شوی اے جاں ز غم دلشاد تو

ترجمہ: (تو) اے جان! جب تک تم ان سے آزاد نہ ہو گے۔ تو غم کے سبب سے کب دلشاد ہو گے؟ (آگے اس آزادی کی مدح اور تعریف ایک حدیث سے مستنبط فرماتے ہیں:)