دفتر ششم: حکایت: 133
رفتنِ قاضی بخانۂِ زنِ جوحی و حلقہ زَدنِ جوحی کہ تُندی و خشم بَر دَر گریختنِ قاضی دَر صندوق
قاضی کا جوحی کے گھر میں جانا اور جوحی کا تندی و غصہ کے ساتھ دروازہ کا کنڈا کھٹکھٹانا اور قاضی کا دوڑ صندوق کے اندر چلے جانا
1
مکرِ زَن پَایاں نَدارد رَفت شب
قاضیِ زیرک سُوئے زن بہرِ دَب
ترجمہ: عورت کے (مکر کو کہاں تک بیان کیا جائے، اس)مکر کی انتہاء نہیں۔ (اب اصل قصہ سنو کہ) قاضیِ دانا رات کے وقت عورت کی طرف (اس کی لذتِ) صُحبت (سے متمتع ہونے)کے لیے چلا۔
2
زَن چُو شمع و نُقلِ مجلس راست کرد
زاں نوازش شاد شُد قاضیِ فرد
ترجمہ: عورت نے جب (قاضی کی خاطر مدارت کے لیے) شمع اور (کچھ) پھل شیرینی وغیرہ قرینے سے سجا کر رکھے۔ تو قاضیِ یکتا اپنی اس عزت افزائی سے خوش ہوا۔ (اسے کیا معلوم کہ یہ دام کے اوپر دانہ پاشی ہے۔)
3
چونکہ بَنشِستَند باہم ساعتے
تا بر آسایند اندر خلوتے
ترجمہ: (اور) جب دونوں باہم ایک ساتھ بیٹھے، تاکہ تنہائی میں آرام کریں۔
4
چوں نشست اُو پہلوئے زَن با مُراد
گشت جانِ پُر غمش زاں وَصل شاد
ترجمہ: (اور) جب وہ (قاضی) عورت کے پہلو میں بامراد ہو کر بیٹھا۔ (اور) اس وصل سے اس کی جان خوش ہو گئی۔( تو)
5
اندر آں دَم جوحی آمد دَر بَزد
جُست قاضی مَہرَبے تَا دَر خزَد
ترجمہ: تو اسی وقت جوحی آپہنچا (اور) اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ قاضی (اپنی فضیحت کے خوف سے) فورًا اٹھا،کہ کسی جائے گریز میں جا گُھسے۔
6
غیرِ صندوقے نَدید اُو خَلوتے
رَفت دَر صندوق از خوفِ آں فتے
ترجمہ: تو (ایک صندوق) کے سوا (جو وہاں موجود تھا) اس کو کوئی چُھپنے کی جگہ نظر نہ آئی۔ وہ اس جوان (جوحی) کے خوف سے صندوق میں داخل ہو گیا۔
7
اندر آمد جوحی و گُفت اے حَریف
اے وَبالم در ربیع و در خریف
ترجمہ:جوحی اندر آیا اور بولا اے دشمن! اے بہار و خزاں میں میرے وَبال!
8
مَن چہ دَارم کہ فِدایَت نیست آں
کہ ز مَن فریاد دَاری ہَر زماں
ترجمہ: میرے پاس کیا ہے، جو تجھ پر فدا نہیں ہے، (پھر)جو تو میری ہر وقت شکایت کرتی ہے۔ (تو اس کی کیا وجہ ہے؟)
مطلب: ’’ایامِ بہار‘‘ سے مراد خوشحالی و فارغ البالی ہے، اور موسم خزاں سے مقصود تنگدستی و مفلسی ہے، یعنی اے عورت! تو ہمیشہ ناشکری کرتی اور مجھے ستاتی رہتی ہے۔ نہ خوشحالی میں شکر کرتی ہے نہ تنگی میں صبر و قناعت۔
9
گُفت شخصے نزدِ قاضی رفتۂ
در حقم نا گفتنیہا گفتۂ
ترجمہ: ایک شخص نے (مجھے) بتایا ہے،کہ تو قاضی کے پاس گئی ہے، (اور) میرے حق میں، تو نے وہ باتیں کہی ہیں، جو نہ کہنے کے لائق ہیں۔
10
بَر لبِ خُشکم کُشا دَستی زباں
گاہ مُفلِس خَوانیم گہ قَلتباں
ترجمہ: میرے (خاموش و) خشک لب رہنے کے باوجود تو نے (میرے خلاف) زبان کھولی ہے ۔کبھی مجھے مُفلس کہتی ہے (کہ میں تیرے اخراجات پورے نہیں کرتا اور) کبھی (مجھے) دَیُّوث (بتاتی ہے، جس سے تیرا مطلب یہ ہےکہ میں یہ گوارا کر لیتا ہوں،کہ تو اپنے اخراجات کی بہم رسانی کے لیے، غیر مردوں کے پاس جائے)۔
11
اِیں دَو عِلَّت گَر بوَد اے جَاں مرا
آں یَکے اَز تُست و دِیگر اَز خُدا
ترجمہ: اے جان! اگر (فی الواقع) یہ دو عیب مجھ میں ہیں، تو وہ ایک (یعنی میری بے غیرتی) تیری طرف سے پیدا ہوئی ہے، اور دوسری (یعنی میری مُفلسی) خدا کی طرف سے ہے۔
مطلب: یعنی جب تو خود بدکاری پر آمادہ ہوئی تو مجھے اپنی کمزوری سے بے غیرت بننا پڑا۔ ورنہ میں بے غیرت کیوں ہوتا۔ قاضی صاحب صندوق کے اندر بیٹھے، یہ ساری باتیں سن رہے ہیں۔ ابھی تک ان پر میاں بیوی کے اس پر فریب چال کا راز ظاہر نہیں ہوا ہو گا۔ وہ تو یہی سمجھتے ہوں گے ،کہ واقعی مفلسی کی وجہ سے ان میاں بیوی میں اَن بَن ہے۔ اور بیوی تنگی کے سبب عصمت فروشی پر آمادہ رہتی ہے، اور دل میں کہتے ہوں گے، کہ سعی کا تیر تو ہدفِ مراد پر پڑا تھا مگر کم بخت جوحی عین موقع پر آ مرا، مگر آگے چل کر ان کی آنکھیں کھلیں گی۔
12
مَن چَہ دَارم غیرِ اِیں صندوق کاں
ہَست مَایہ تُہمت و پَایہ گُماں
ترجمہ: (جوحی کہتا ہے) میں اس صندوق کے سوا اور کیا چیز رکھتا ہوں، کہ وہی (تیرے حق میں افشائے زر کی) تہمت کا مادہ، اور (میرے خلاف لوگوں کی) بدگمانی کی بنیاد ہے۔ (صندوق کی طرف جوحی کی توجہ معلوم کر کے، قاضی کا کلیجہ دَھک دَھک کرنے لگا ہوگا۔)
13
خَلق پِندارند زَر دَارم دَرُوں
دَاد وَا گیرند از مَن زیں ظنُوں
ترجمہ: لوگ سمجھتے ہیں! کہ میں (اس صندوق کے) اندر نقد مال رکھتا ہوں۔ (اپنی) بدگمانیوں سے اپنے عطیات مجھ سے روک رکھتے ہیں (اور کہتے ہیں یہ خیرات کا مستحق نہیں)۔
14
صورتِ صندوق بَس زیباست لیک
از عروض و سِیم و زَر خَالیست نیک
ترجمہ: صندوق اوپر سے تو بڑا خوب صورت ہے۔ لیکن مال و متاع اورسونے چاندی سے بالکل خالی ہے۔
15
چوں تَنِ زَرّاق خوب و بَا وقار
اندراں سَلّہ نیابی غیرِ مار
ترجمہ: جیسے رَیاکار کا جسم، جو خوشنما اور شاندار ہے۔(مگر) اس ٹوکرے میں تم سانپ کے سوا کچھ نہ پاؤ گے، (ریاکار کے اندر نفسِ اَمَّارہ اپنا کام کر رہا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں، بڑا عابد و پارسا ہے۔ یہی حال میرے صندوق کا ہے، اوپر سے گُلزار اندر سے پُرخار۔)
16
من بَرم صندوق را فَردا بکُوئے
پَس بَسُوزَم درمیانِ چَار سُوئے
ترجمہ: میں(عَلی الصُّبح) اس صندوق کو،کوچے میں لے جاؤں گا، پھر (اس کو) چوراہے میں(رکھ کر)آگ لگا دوں گا۔ (یہ گفتگو رات کے وقت ہو رہی ہے۔ لہٰذا ’’فردا‘‘ سے مُراد علیَ الصُّبح ہے نہ کہ اگلا دن، کیونکہ ایسے اہم کام کے لیے، ایک دن کا تَوقُّف کوئی معنی نہیں رکھتا۔)
17
تا بہ بِیند مُومن و گبر و جہُود
کَاندرِیں صندوق جُز لُعبَت نبود
ترجمہ: تاکہ مسلمان و کافر اور یہودی (و عیسائی وغیرہ ہر قوم اور ہر فرقہ کے لوگ) دیکھ لیں،کہ اس صندوق میں سوائے بیہودگی کے کچھ نہ تھا۔ (دوسرا مصرعہ قاضی صاحب کے حق میں کس قدر ہَتک آمیز ہے، مگر یہاں تو جان کے لالے پڑ رہے ہیں۔ ہَتک(بیعزتی)کا احساس کہاں ہو گا۔)
18
گفت زَن ہے در گزر اے مَرد زِیں
خورد سوگند آں کہ نَکُنم جُز چنیں
ترجمہ: عورت نے کہا خبردار اے مرد! ایسا مت کرو اس (جوحی)نے قسم کھا لی،کہ میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کرنےکا۔
19
با رسَن صندوق را دَر دَم بہ بَست
خَویشتن را کَردہ بُد مَانندِ مَست
ترجمہ: اسی وقت صندوق کو رَسِّی سے باندھ لیا۔ (اور اس کام میں) اس نے اپنے آپ کو دیوانوں کی مانند بنا لیا تھا۔
مطلب: اپنے آپ کو دیوانہ وار اس لیے بنایا، کہ دیکھنے والے سمجھیں کہ واقعی ’’جوحی‘‘ جوش میں بھرا ہوا ہے یہ اس کی کوئی بناوٹ نہیں۔ صندوق کو رسی سے اس لیے باندھا،کہ بندھی ہوئی رسیوں میں ہاتھ ڈال کر اٹھانا آسان ہوتا ہے، یا شاید اس لیے باندھا ہو گاکہ نقل و حرکت میں اس کی کوئی تختی و کواڑی نہ کھل جائے، یا جوحی کا یہ فعل صندوق کو اپنے قبضۂِ تصرف میں لے لینے کا گویا اعلان تھا۔ تاکہ میں جو چاہوں اس کے ساتھ کروں گا۔ عورت اب اس پر قابض نہیں ہو سکتی۔
20
اَز پگہ حمّال آورد اُو چو باد
زُود آں صندوق بَر پُشتش نَہاد
ترجمہ: صبح ہی سے وہ ہوا کی طرح (لپک کر) ایک قُلِّی کو بُلا لایا، (اور) فوراً وہ صندوق اس کی پُشت پر رکھ دیا۔ (یہ بھی ہو سکتا ہےکہ ’’چو باد‘‘ حمّال کی صفت ہو۔ یعنی وہ قلی جو ہوا کی طرح تیز رفتار تھا)
21
اَندراں صندوق قاضی اَز نکال
بَانگ مِیزد کاے حمّال و اَے حمال
ترجمہ: (اب تو) قاضی (کی جان پر بنی اور وہ) اس صندوق کے اندر، مارے مصیبت کے پکارنے لگا، کہ او قُلّی! ارے او قُلّی!
22
کرد آں حمّال پیش و پَس نَظَر
کز چہ سُو دَر میرسَد بانگ و خَبر
ترجمہ: اس قُلّی نے آگے اور پیچھے کی طرف نظر کی، کہ یہ آواز اور خبر کدھر سے آئی ہے۔
23
ہَاتِف است اِیں دَاعی مَن اے عجَب
یا پَری اَم مے کُند پِنہاں طَلب
ترجمہ: ارے تعجب ہے، کہ یہ میرا پکارنے والا کوئی ہاتف ہے؟ یا کوئی جن مجھ کو خُفیہ بلا رہا ہے؟
24
چوں پیاپے گَشت آں آواز بیش
گُفت ہَاتِف نیست باز آمد بَخویش
ترجمہ: جب لگا تار وہ آواز بڑھتی گئی، تو (قُلّی نے دل میں کہا) یہ ہاتف (کی آواز) نہیں، اور (اب تعجب کے رفع ہو جانے سے) اس کے ہوش بجا ہوئے۔
25
عَاقبت دَانست کاں بانگ و فُغاں
بُد زَ صندوق و کسے در وَے نہاں
ترجمہ: آخر اس نے سمجھ لیا،کہ وہ آواز و فریاد صندوق (میں) سے (آتی) تھی، اور کوئی آدمی اس کے اندر چھپا ہواہے۔ ( آگے مولانا فرماتے ہیں:)
26
عَاشَقے کُو دَر غَمِ مَعشوق رَفت
گرچہ بیروں ست دَر صندوق رَفت
ترجمہ: (اور صندوق کے اندر بند ہونے میں، کوئی قاضی کی تخصیص نہیں! بلکہ) جو عاشق (مجازی) معشوق (مجازی) کے غم میں مبتلا ہو گیا۔ اگرچہ بظاہر وہ باہرہے، (مگر معنًی) صندوق کے اندر مُقیَّد ہوگیا۔
27
عُمر دَر صندوق بُرد اَز اندُہاں
جُز کہ صندوقے نہ بِینَد دَر جَہاں
ترجمہ: اس (عاشقِ مجازی) نے (ان) غموں کے سبب سے (جو عشق میں پیش آتے ہیں، اپنی) عمر صندوق کے اندر گزار دی۔ وہ دنیا میں سوائے صندوق کے کچھ نہیں دیکھتا۔ (آگے اور تعمیم کرتے ہیں:)
28
آں سَرے کہ نیست فوقِ آسمان
اَز ہَوس اُو رَا دَراں صندوق دَاں
ترجمہ: (اس عاشقِ مجازی کی بھی تخصیص نہیں) جو سَر (فکرِ معاد میں) آسمان پر (اپنا خیال) نہیں (لے جاتا)۔ اس کو (دنیا طلبی کی) ہَوس سے، اس صندوق کے اندر) مُقَیَّد سمجھو۔
29
چُوں ز صندوقِ بَدن بیروں رَوَد
اُو ز گورے سُوئے گورے مَیشوَد
ترجمہ: جب صندوق،بدن سے باہر (نکل کر قبر) میں جائے گا، تو (یوں سمجھو کہ) وہ ایک گور سے دوسری گور کی طرف جا رہا ہے۔
مطلب: یعنی یہ قبر اس کے لیے کوئی نئی چیز نہیں، بلکہ اس سے پہلے بھی وہ قبر ہی میں تھا۔کیونکہ جب اس کا قالب، ایک ایسے مُردہ قلب پر مشتمل تھا جس میں تعلقاتِ دنیا اور شغفِ ماسوانے روحانیت باقی نہیں رہنے دی تھی، تو گویا وہ قالب اس قالب کے لیے بمنزلہ گور تھا۔
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
نیست فرق اَز تن دلِ اَفسردۂ خود کام را
رنگِ برگِ خَویش باشد میوہائے خَام را
30
اِیں سُخن پَایاں نَدارد قاضیش
گفت اے حمّال و اے صندوق کَش
ترجمہ: اس مضمون کی تو انتہا نہیں، (اب قصہ سنو کہ) قاضی نے اس (حمال) کہ کہا اے حمال! اور اے صندوق کو اٹھا کر لے جانے والے!
31
اَز من آ گہ کُن درونِ مَحکمہ
نَائبم رَا زُود تَر با اِیں ہمَہ
ترجمہ: بہت جلد، محکمہ (قضا) میں (جا کر) میرے نائب، کو اس سارے (واقعہ) سے آگاہ کر دے۔
32
تا خَرد ایں را بزَر زِیں بے خِرد
ہَمچنیں بَستہ بخانہ مَا بَرد
ترجمہ: تاکہ وہ اس (صندوق) کو اس بیوقوف (جوحی) سے بعوضِ قیمت خرید لے۔ (اور اس کو) اسی طرح بندھا بندھایا ہمارے گھر لے جائے۔
مطلب: سادہ لوح قاضی! اب تک یہ سمجھتا ہے،کہ جوحی! اصل واقعہ سے بے خبر ہے، اور یہ ساری کاروائی جو وہ کر رہا ہے، محض عورت کی شکایت سے ناراض ہو کر کر رہا ہے۔ اس لیے وہ جوحی کو بیوقوف کہتا ہے۔ اس کو یہ معلوم نہیں، کہ عیَّار ’’جوحی‘‘ خود تجھے بیوقوف بنا رہا ہے۔ آگے مولانا فرماتے ہیں:
33
اے خدا بگمار قومِ رحم مَند
تَا ز صندوقِ بدن ما وَا خرنَد
ترجمہ: الٰہی! رحم مند لوگوں کو (اس کام پر) مقرر کر دے،کہ وہ ہم کو صندوقِ جسم سے ہم کو خرید لیں۔
مطلب: یعنی جس طرح یہ قاضی، جوحی اور اس کی عورت کے فریب سے، صندوق میں مقید ہو گیا، اور اب وہ اس صندوق سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے، اور اس کے لیے اپنے نائب سے مدد چاہتا ہے۔ اسی طرح ہم بھی نفس و شیطان کے فریب سے، مُقتضیاتِ جسم اور لذاتِ نفسانیہ کے صندوق میں بند، اور اس قید سے نکلنے کے آرزو مند ہیں۔ الٰہی! تو اپنے کرم سے ہم کو اہلِ ارشاد کی نظرِ توجہ سے متمتع فرما، تاکہ ان کے فیض سے ہمارا قلب تعلقاتِ مَا سِوَی اللہ سے پاک ہو جائے۔ آگے مولانا اس’’قومِ رحم مند‘‘کی تعیین کرتے ہیں:
34
خَلق رَا از بندِ صندوقِ فسُوں
کہ خرَد؟ جُز اَنبیاء وَ مُرسلون
ترجمہ: (اور) مخلوق کو فریب کے صندوق سے، سوائے انبیاء اور مُرسلین علیہم السلام (اور ان کے سچے وارثوں) کے کون چھوڑا سکتا ہے؟ (آگے ان گرفتارانِ تعلُّقاتِ مَا سِوَی اللہ کے جَہل کا ذکر کرتے ہیں:)
35
اَز ہَزاراں یَک کَسے خُوش مَنظر ست
کہ بداند کُو بصندوق اَندرست
ترجمہ: (باوجودیکہ یہ لوگ صندوقِ تعلُّقات میں مُقیَّد ہیں، مگر پھر بھی) ہزاروں میں سے کوئی ایک ہی شخص خوش نظر ہے جو یہ جانے کہ وہ صندوق کے اندر ہے۔
36
آنکہ دَانَد تُو نِشانَش ایں شَناس
کہ ز رَوحِ اِیں جَہاں دَارد ہَراس
ترجمہ: جو شخص (اپنی قیدِ صندوق کو) محسوس کرتا ہے، تم اس کی علامت یہ سمجھو، کہ وہ اس عالَم کی راحت سے مُتوَحّش ہوتا ہے۔ (یعنی یہاں کے سامان راحت سے اس کو دلچسپی نہیں، بلکہ نفرت ہے۔)
37
اُو جہاں را دِیدہ بَاشد پیش ازاں
تا بَداں ضِد ایں ضِدش گردَد عَیاں
ترجمہ: (پس) اس (شخص) نے، اس جہان کو اس سے پہلے دیکھ لیا ہو گا، حتٰی کہ اس ضد کے سبب سے، یہ ضد اس پر ظاہر ہو گئی۔
مطلب: جس طرح صندوق کی تنگی کو وہی شخص محسوس کر سکتا ہے جس نے عالمِ فراخ دیکھا ہے۔ اسی طرح تعلقاتِ دنیا کی تنگی و ناگواری کا احساس اسی شخص کو ہو سکتا ہے، جو اپنی بصیرتِ باطن سے عالمِ بالا کو دیکھ چکا ہے۔ روشنی دیکھ کر ، تاریکی کا احساس ہوتا ہے۔ خوشبو سُونگھ کر، بدبو کی برائی محسوس ہوتی ہے۔
38
زِیں سَبب کہ علم ضالّۂ مُومن ست
عارفِ ضالّۂ خود ست و مُوقن ست
ترجمہ: (اور) اس سبب سے کہ ’’علم‘‘ مومن کی گم شدہ چیز ہے۔ وہ اپنی گم شدہ چیز پہچاننے والا ہے، اور (اپنی اس شناخت کے صحیح ہونے پر) یقین رکھتا ہے۔
مطلب: پہلے مِصرعہ میں اس حدیث کی طرف تَلمِیح (اشارہ)ہے۔ ''اَلْکَلِمَۃُ الْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ فَحَیْثُ وَجَدَھَا فَھُوَ اَحَقُّ بِھَا‘‘ (سنن ترمذی،کتاب العلم،سنن ابن ماجہ،کتاب الزہد) یعنی ”پُرحِکمت بات مسلمان کی گم شدہ چیز ہے، پس وہ اس کو جہاں پائے اس کے لینے کا حق دار ہے“ اس حدیث کے مشہور الفاظ یہی ہیں مگر مشکوٰۃ میں ’’ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ‘‘ کے بجائے ’’ضَالَّۃُ الْحَکِیْمِ‘‘ منقول ہے، غرض جس طرح مالک اپنی چیز کو یقین کے ساتھ پہچان لیتا ہے، اسی طرح یہ سعادت مند لوگ، انبیاء و مرسلین علیہم السلام کی زبان سے اس عالمِ وسیع کا تذکرہ سنتے ہی اس کو پہچان لیتے ہیں،گویا کبھی پہلے اس کو دیکھ چکے ہیں اور دنیا کے موجباتِ غفلت نے ان کے دل سے بھلا دیا تھا، اور اب اس یاد دہانی سے فوراً ان کو یاد آ گیا، اور اس عالمِ فراخ کے پیشِ نظر ہوتے ہی ان کو یہ ’’عالمِ تنگ‘‘ بمنزلہ صندوق دکھائی دینے لگا۔ آگے ان لوگوں کا ذکر ہے جن کو یہ احساس نہیں:
39
آنکہ ہَرگِز رَوزِ نیکو خُود نَدید
اُو دَریں اِدبار کے خَواہد طَپید
ترجمہ: (بخلاف اس کے) جس شخص نے کوئی اچھا دن ہرگز دیکھا ہی نہیں۔ (اور عالمِ بالا کی فراخی کا اس کو احساس نہیں ہوا) وہ اس (دنیوی) اِدبار (اور تعلقِ مَا سِوَی اللہ میں کب بے قرار ہو گا) بلکہ اس کی حالت تو یہ ہو گی کہ﴿وَرَضُوا بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَاطْمَئَنُّوا بِهَا﴾(یونس: 7) ”اور وہ اس دنیا کی زندگی سے خوش ہیں اور اس پر مطمئن ہیں“۔
40
یا بَطِفلی دَر اسیری اُو فتاد
یا خُود از اَوّل ز مادَر بندہ زَاد
ترجمہ: (ایسا شخص) یا تو بچپن سے قید میں پڑ گیا ہے، یا وہ اول ہی سے ماں (کے پیٹ) سے (نفس کا) غلام پیدا ہوا ہے۔ (یعنی یا تو ماحول کی بری تاثیرات نے اس کو بگاڑا ہے، یا اس کی فطرت ہی فاسد ہے۔)
41
ذوقِ آزادی نَدیدہ جانِ اُو
ہَست صندوقِ صُوَر میدانِ اُو
ترجمہ: اس کی جان نے، آزادی (و حریت) کا مزا نہیں چکھا۔ (تو پھر اس کو صندوق میں مقید ہونا، کیوں ناگوار ہونے لگا بلکہ) تصویروں کا صندوق، تو اس کا میدانِ تفریح ہے۔
42
دائماً مَحبوس عَقلَشْ دَر صُوَر
از قفَص اَندر قَفَصْ دَارد گزر
ترجمہ: ہمیشہ اس کی عقل تصویرات میں محبوس رہے گی۔ ایک پنچرے سےدوسرے پنچرے میں گزر رکھےگا۔
ان اشعار میں ’’صندوق‘‘ سے مراد تعلقاتِ ’’مَا سِوَی اللہ‘‘ کی قید اور تصویرات سے وعجائباتِ ’’مَا سِوَی اللہ‘‘ ہیں جن کے تماشا و تفریح میں دنیا دار منہمک رہتا ہے۔ چنانچہ وہ ایک دنیوی مراد سے لطف و لذت اٹھا کر، دوسری مراد میں مشغول ہو جاتا ہے، پھر تیسری میں، اس کے بعد چوتھی میں، ’’از قفس‘‘ سے یہی مراد ہے۔ آگے فرماتے ہیں کہ وہ دنیا بھر کی منازل میں مارا مارا پھرتا رہتا ہے۔ اس سے باہر نہیں جاتا۔ ؎
اہلِ دنیا نَتواند بعقبٰے پردَاخت
غیر مراد قفصہا مِیرود از جَا بجا
43
مَنفذَش نے از قفَص سُوئے عُلا
دَر قفَصہا میرود از جَا بجا
ترجمہ: اس کے لیے (دنیا طلبی کے) پنجرے سے عالمِ بالا کی طرف (کوئی) سوراخ نہیں(کھلا)۔ وہ پنجروں ہی میں، ایک جگہ سے دوسری جگہ (پھدکتا) پھرتا ہے۔(یعنی اس کی تمام تَگ و دو اور کُود، پَھاند، دنیا طلبی کے لیے ہے۔) کما قیل ؎
ہر صبح کہ در ہائے فلک باز کنند
مردم قانونِ گفتگو ساز کنند
قوّالِ فلک بدست گیرد دف مہر
دنیا طلباں پا زدن آغاز کنند
44
در نُبے اِنِ اسْتَطَعْتُمْ فَانْفُذُوْا
ایں سخن بَا جِنّ و اِنْس آمد ز ہُو
ترجمہ: قرآن مجید میں (یہ مضمون ہے،کہ) ’’اگر تم سے ہو سکے تو نکل جاؤ‘‘ جن و انس کے ساتھ ،(خطاب کے طور پر) حق تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے۔
45
گُفت مَنفذ نیست از گردونِ شاں
جُز بسُلطان و بوحیِ آسمان
ترجمہ: (اور اس کے بعد حق تعالیٰ نے) فرمایا ہے،کہ آسمانوں سے ان کے لیے کوئی سوراخ نہیں، سوائے قُوّت اور آسمانی وحی کے۔
مطلب: یہ اس آیت کی طرف اشارہ ہے ﴿یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍۚ﴾ (الرحمٰن: 33) ”اے گروہِ جِنّ و انس! اگر تم سے ہو سکےکہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے (ہو کر کہیں کو) نکل جاؤ تو نکل جاؤ۔ تم زبردست طاقت کے بغیر نہیں نکل سکو گے ‘‘۔
اوپر یہ تقریر جاری تھی،کہ دنیا دار تعلقاتِ دنیا کے پنجرے سے نکل نہیں سکتا، اب اس آیت کے لانے سے یہ مقصودہےکہ تعلقاتِ دنیا کی قید سے نکلنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے، اور یہ کوشش روحانی قوت کے حصول، اور پیغمبری تعلیمات پر عمل کرنے سے ہو سکتی ہے۔
واضح رہے! کہ یہ اس مضمون کی تفسیر نہیں ہے، بلکہ آیت کا اصل مُدَّعا جن و انس کے عجز و ضعف کا اظہار ہے۔ یہاں اس آیت سے محض بطورِ اعتبار مضمونِ مذکور کی تائید مقصود ہے۔
46
گر زَ صندوقے بصندوقے رَوَد
اُو سَمائی نیست صندوقی بُوَد
ترجمہ: اگر وہ (تعلقاتِ دنیویہ، کا صندوق نشین ایک) صندوق سے (دوسرے) صندوق میں جاتا ہے۔ تو عالمِ بالا سے نسبت نہیں رکھتا، بلکہ (اسی) صندوق سے لگاؤ رکھتا ہے۔
47
فرجۂ صندوقِ نَو نَو مُسکِر ست
دَر نَیابد کُو بَصندوق اَندر ست
ترجمہ: (دنیوی دلچسپیوں کا) نئے سے نیا صندوق مست کر دینے والا ہے۔ (اس لیے دنیا دار، اپنی مستی میں یہ) محسوس نہیں کرتا، کہ وہ ایک صندوق میں مقید ہے۔ (جس کی دلیل یہ ہے کہ:)
48
گر نشُد غرّہ بدیں صندوق ہا
ہَمچُو قَاضی جُوید اطلاق و رہا
ترجمہ: اگر وہ ان (تعلقاتِ دنیویہ کے) صندوقوں پر فریفتہ نہ ہوتا۔ (بلکہ ان سے متنفر ہوتا)، تو قاضی کی طرح (ان سے)خلاصی، اور رہائی طلب کرتا (مگر جب وہ اس سے رہائی طلب نہیں کرتا، بلکہ ان میں مقید رہنے پر خوش ہے، تو ضرور ان پر فریفتہ ہے)۔
49
آنکہ دَانَد ایں نِشانَش آں شَناسْ
کُو نباشد بے فغاں و بے ہَراسْ
ترجمہ: (بخلاف اس کے) جو شخص اس (قید کو قید) سمجھتا ہے۔ اس کی نشانی یہ سمجھو،کہ وہ بے فغاں اور بے خوف نہ ہو گا(بلکہ ہر دم اس قید سے تنگ آ کر فریاد کرے گا، اور اس کے بُرے نتائج سے خائف و ہراساں رہے گا)۔
50
ہَمْچُو قَاضی بَاشد اُو دَر اِرتعَادْ
کے شَود زاں غم دلش یَکْ لَحْظَہ شَاد
ترجمہ: وہ قاضی کی طرح لرزہ میں (مبتلا) رہے گا۔ اس غم سے اس کا دل ایک لحظہ بھی کب شاد ہوتا ہے۔ (آگے قصہ چلتا ہے:)
51
رَہروے رَا گفت آں حمّالِ شَاد
کہ بَرو دَر محکمہ قَاضی چو بَاد
ترجمہ: حمّال نے جو خوش تھا، اس وقت کسی رَہْرو کو کہا، کہ (جلدی) ہوا کی طرح (تیز رو ہو کر) قاضی کے محکمہ میں جاؤ۔ (حمّال کے خوش ہونے کی وجہ ہم آگے بیان کریں گے۔)
52
نائِبشْ رَا گوے کیں شُد وَاقِعہ
بَر سرِ قَاضی بیَامد قارِعہ
ترجمہ: اس کے نائب کو کہو کہ یہ واقعہ (ظہور پذیر) ہو گیا ہے۔ قاضی کے سَر پر ایک قیامت(مصیبت) آ گئی ہے۔
53
شُغل را بگذار زُود اِینجا بیا
زُو بخَر سَر بستہ صندوق رَا
ترجمہ: کام کو چھوڑ! (اور) جلدی یہاں آ ۔ اور اِس شخص سے اس صندوق کو سربستہ خرید لے۔
مطلب: حمّال غالبًا، اس لیے شاد ہو گا، کہ اس کو ہاتف یا جن کی آواز کا جو خطرہ تھا وہ رفع ہو گیا، یا اس لیے کہ قاضی نے اس سے کچھ انعام کا وعدہ کیا ہو گا، یا اس لیے کہ اس کو قاضی سے کچھ اذیت پہنچی ہوگی۔ لہٰذا اب خوش ہوگا کہ قدرت نے قاضی سے میرا یہ انتقام لیاہے کہ اس کو صندوق میں مقیّد کر دیا۔ اب اگر اس کی جان سلامت رہی تو مالی نقصان سے سلامت نہیں رہ سکتا. اگر اس احتمال کی تردید میں کہاجائے کہ پھر تو حمّال قاضی کی بات تک نہ سنتا اور نہ اس کے نائب کو اطلاع پہنچاتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قاضی کی اذیّت اس قدر شدید نہ ہوگی کہ اس کے انتقام میں حمّال اس کی جان کو خطرہ میں ڈالنا پسند کرتا۔ بلکہ اس کے لیے یہ قیدِ صندوق کی ذلت اور نقصان کافی سمجھا ہو گا، اس کے علاوہ حمّال کو یہ یقین ہوگا، کہ اگر میں نے قاضی کی یہ فرمائش پوری نہ کی اور اس نے کسی اور وسیلہ سے خلاصی پائی تو پھر میری خیر نہیں۔
54
چونکہ رَہْرو شُد رسالت رَا رَسَاند
ہر کہ زُو بشنید اِیں خیرہ بماند
ترجم: جب وہ رہرو (محکمۂ قضا میں گیا اور نائب قاضی کو یہ پیغام پہنچایا، تو (اہلِ محکمہ میں سے) جس نے اس سے یہ سنا وہ حیران رہ گیا۔ (کہ قاضی صاحب اور صندوق میں مبتلا ’’لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ‘‘۔)
55
بُرد اَلْقِصَّہ خبر صندوق کَش
نائبِ قاضی حَسن رَا اَز غمش
ترجمہ: قصہ مختصر! صندوق اٹھانے والے(قلی) کی (اس) خبر سے (جو رہرو کے ذریعہ سے محکمہ میں پہنچی)۔ قاضی حسن کے نائب کو، اس کے غم کی وجہ سے بے قرار کر دیا(اس کو غم یہ تھا کہ نہ معلوم بے چارے قاضی صاحب کس کارِ خیر اور کس مبارک فہم میں کہاں گئے ہوں گے، اور کس طرح صندوق میں مقیّد ہوئے، اور اب ان کا کیا حشر ہونے والا ہے)۔
56
آتَشے بَر کردہ جوحی اَزْ مَلا
کہ بَخواہَم سوختْ اِیں صندوق رَا
ترجمہ: (ادھر) جوحی (کا حال سنو! کہ اس) نے مجمع سے (نکل کر) الاؤ لگایا۔ (اور بولا) میں اس صندوق کو پھونک ڈالوں گا۔
57
بَر سَرِ بَازار جوششِ عَامۂ
چیست؟ جوحی مے نَہد ہنگامۂ
ترجمہ: بازار میں عوام الناس کا ایک (ہجوم اور) جوش ہے(کہ یہ) کیا (قصہ)ہے ؟ کہ جوحی نے ایک ہنگامہ برپا کر رہا ہے (یہ دو شعر نہ ہماری اصل کتاب میں ہیں نہ منہج القوی میں اور نہ قلمی نسخے میں، صرف کلیدِ مثنوی میں ہیں، ممکن ہے الحاقی ہوں)۔