دفتر 6 حکایت: 132 جوحی کی عورت کا قصہ اور اس کا قاضی کو فریب دینا اور مکر و حیلہ سے اس کو صندوق میں بند کرنا اور اس کی تفصیلات

دفتر ششم: حکایت: 132



قصّۂ زن جوحی و عشوہ دادنِ او قاضی را و بمکر و حیلہ در صندوق کردن و شرحِ آں

جوحی کی عورت کا قصہ اور اس کا قاضی کو فریب دینا اور مکر و حیلہ سے اس کو صندوق میں بند کرنا اور اس کی تفصیلات

(جوحی ایک مسخرہ کا نام ہے جو نہایت ظریف تھا۔ مثنوی میں پیچھے بھی کئی بار اس کا ذکر گزر چکا ہے ایک جگہ اس نے بچپن میں اپنے باپ کو ایک یہ تمسخر آمیز بات کہی تھی کہ یہ رونے والا جس قبر کو رو رہا ہے وہ شاید ہمارا ہی گھر ہے۔ ایک جگہ وہ زنانہ لباس بدل کر عورتوں کی ٹولی میں جا بیٹھا اور کسی بہانہ سے ایک عورت کا ہاتھ اپنی ازار میں ڈلوا لیا۔ عورت کو جب ہاتھ کے احساس سے معلوم ہوا کہ یہ مرد ہے تو اس نے چیخ ماری اب یہاں جوحی اور جوحی کی بیوی دونوں مل کر اس سے بھی زیادہ دلچسپ گل کھلاتے ہیں)۔

1

ہر زماں جوحی ز درویشی بفن

رو بزن کردے کہ اے دلخواہِ من

2

چوں سلاحت ہست رو صیدے بگیر

تا بدوشانیم از صیدِ تو شیر

ترجمہ: جوحی تنگدست ہونے سے (مجبور ہو کر) ہر وقت مکر (کی غرض سے اپنی بیوی کی طرف متوجہ ہوتا (اور کہتا) کہ اے میری چہیتی (بیوی) جب تیرے پاس (ناز و عشوہ کا) ہتھیار ہے تو جا کوئی شکار پکڑ (لا) تاکہ ہم تیرے شکار سے دودھ دوہیں۔ (یعنی اس سے کچھ مال لوٹیں۔)

3

قوسِ ابرو تیرِ غمزہ، دامِ کید

بہرچہ دادت خدا؟ از بہرِ صید

ترجمہ: خدا نے تجھے یہ ابرو کی کمان، غمزہ کا تیر اور مکر کا جال کیوں دیا ہے؟ شکار مارنے کے لیے (ہی تو دیا ہے پھر کیوں بیکار بیٹھی ہے۔)

4

رو پئے مرغے شگرفے دام نِہ

دانہ بنما لیک در خوردش مدِہ

ترجمہ: جا کسی موٹے مرغ کے لیے جال لگا (اس کو) دانہ دکھلا (مگر) اس کے کھانے کو نہ دے (یعنی اس کو اپنے وصل کا لالچ دے مگر وصل کی نوبت نہ پہنچنے دے۔ خوب! جوحی صاحب ماہر دغا ہونے کے ساتھ غیرت مند بھی ہیں۔ بیوی کو اغیار کے پاس بھیجتے ہیں اور اس کی عصمت کی بھی فکر ہے۔)

5

کام بنما و کن او را تلخ کام

کَے خورد دانہ چو شد در حبس دام

ترجمہ: اس کو (وصل کی) مراد دکھا کر (حصول سے) ناکام رکھ (اتنے میں اس کو گرفتارِ دام کر لے پھر) جب دام کا مقید ہو گیا تو دانہ کہاں کھائے گا (یعنی یہ احتیاط رکھنا کہ وہ آغازِ ملاقات ہی میں تجھ پر ہاتھ نہ ڈال دے کہ یہ امر مضرِ عصمت ہے۔ بلکہ اس کو فورًا کسی مصیبت کے پھندے میں ڈالنے کی کوشش کر پھر اس کو اپنی پڑ جائے گی اور تجھے کچھ نہ کہے گا۔)

6

شد زنِ او نزدِ قاضی دَر گِلہ

کہ مرا افغاں زشوے دَہ دلہ

ترجمہ: تو اس کی عورت قاضی کے پاس (اس کے عدالت میں) شکایت لے کر گئی، کہ متلوّن مزاج شوہر سے میری فریاد ہے (جس کا دل ادھر ادھر مائل رہتا ہے اس طرف توجہ نہیں کرتا نہ مجھے نان نفقہ دیتا ہے۔)

مطلب: آگے بیان ہو گا کہ یہ دونوں میاں بیوی قاضی کو الّو بنائیں گے اور اس کی خوب حجامت کریں گے۔ واضح رہے کہ قاضیوں کی سادگی یا عاشق مزاجی اور شہوت پرستی یا بد دیانتی وغیرہ کے جو قصے بکثرت مشہور ہیں یہ ضروری نہیں کہ ان میں حقیقت کا کوئی شمہ ہو، پس خواہ ہندوستان کا قاضیِ جونپور ہو یا فارس کا قاضیِ ہمدان یہ سب محفل آرائی کے لیے فرضی شخصیتوں کے مفروضہ قصے تیار کیے ہوئے ہیں۔ پڑھنے سننے والوں کو ان قصوں سے اس منصبِ جلیل کی بے وقعتی اور ان منصب دارانِ عالی جاہ کی تحقیر کا تصور دل میں نہ لانا چاہیے۔ باقی رہا یہ سوال کہ پھر دیگر اہل و علمِ ارباب مناصب کو چھوڑ کر صرف قاضیوں پر یہ نظرِ عنایت کیوں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح پیشہ ور اقوام میں سے نائی، میراثی اور جولاہے کو خصوصیت کے ساتھ پُر لطف حکایات کے موضوع بنایا گیا ہے کیونکہ نائی کی نیش زنی، میراثی کی بذلہ سنجی اور جولاہے کی سادہ لوحی میں سامانِ تفریح نسبتًا زیادہ ہے۔ اسی طرح قاضی کا منصبِ عدل، توازنِ مزاج، فہمِ معاملات اور دین و دیانت کے لحاظ سے تمام مناصب سے زیادہ اہم اور ذمہ دارانہ ہے اس لیے اس منصب دار کی بے عدلی، غلبۂ طمع، سوئے فہم اور بددیانتی جس قدر موجبِ مضحکہ ہونی چاہیے اور کسی منصب دار کی نہیں ہو سکتی۔

7

قصہ کوتہ کن کہ قاضی شُد شکار

از مقال و از جمالِ آں نگار

ترجمہ: (غرض عورت نے بہت باتیں کیں، کہاں تک بیان ہو) قصہ کوتاہ (اور مطلب کی بات کہو) کہ قاضی اس معشوقہ کے (فتنہ انگیز) حسن اور (دل فریب) گفتگو سے متاثر ہوا (اس کے دامِ عشق میں) گرفتار ہو گیا۔

8

گفت ایدر محکمہ است و غلغلہ

من نتانم فہم کردن ایں گلہ

ترجمہ: (اور) بولا اس وقت تو عدالت کی کاروائی ہو رہی ہے اور شور برپا ہے۔ میں اس وقت شکایت کو (کما حقہ) سمجھ نہیں سکتا۔

9

گر بخلوت آئی اے سروِ سہی

وز ستمگاریِّ شو شَرحم وہی

10

فہمِ آں بہتر کنم بدہم سزاش

آنچہ حق باشد تو زیں غمگین مباش

ترجمہ: اے سیدھے سرو (کے سے قد والی پیاری) اگر تو خلوت میں (میرے پاس) آئے اور (اپنے) شوہر کے ظلم کا حال مجھے سنائے تو میں اس کو اچھی طرح سمجھ سکوں (اور) اس کو وہ سزا دوں جو مناسب ہو تو غمگین نہ ہو۔

11

مر مرا معلوم گردد حالِ تو

شوہرت را نرم سازم بے عُتُو

ترجمہ: (خلوت میں) مجھ کو تیرا حال (بخوبی) معلوم ہو جائے گا (پھر) میں تیرے خاوند کو ایسا نرم اور سیدھا کروں گا (کہ اس میں) کوئی بل نہیں (رہے گا)۔

مطلب: سادہ لوح قاضی نے عورت کے مکر کو محسوس نہ کیا اور سمجھا کہ فی الواقع وہ اپنے خاوند کی روکھائی اور بے اعتنائی سے نالاں ہے، اب وہ اس کی فریاد رسی کے بہانے سے چاہتا ہے کہ اس کو اپنی خلوتِ عیش میں لے جا کر اس کے گلستانِ حسن سے گل چینی کرے۔ ادھر یہ چالاک عورت قاضی کے دامِ فریب میں پھنسنے کے بجائے خود اس کو اپنے مکر کے پھندے میں پھانسنے کی کوشش کرتی ہے۔ چنانچہ:

12

گفت زن در خانۂ تو نیک و بد

ہر دم از بہرِ گلہ آید رود

ترجمہ: عورت نے کہا جناب کے گھر میں تو ہر وقت بھلے برے لوگ (اپنی اپنی) شکایت (عرض کرنے) کے لیے آتے جاتے (رہتے) ہیں۔

13

گفت خانۂ تو ز ہر نیک وبدے

باشد از بہر گلہ آمد شدے

ترجمہ: (اور) اس نے دوبارہ تاکیدًا کہا کہ جناب کے گھر میں تو ہر نیک و بد آدمی کی آمد و رفت شکایت عرض (کرنے) کے لیے رہتی ہے (آگے مولانا ایک ارشادی مضمون کی طرف انتقال فرماتے ہیں جس میں انسان کے دماغ و قلب کو جو غیر اللہ کے مقیّد ہیں قاضی کے گھر سے تشبیہ دی ہے:)

14

خانۂ سر جملہ پُر سودا بود

صدر پُر وسواس و پُر غوغا بود

ترجمہ: (اس طرح ہر دنیادار کے) سر کا گھر بالکل سودا (و خبط) سے پُر ہوتا ہے (اور) سینہ (بھی) وسواس و غوغا سے لبریز رہتا ہے۔

15

باقی اعضا ز فکر آسودہ اند

واں صدور از صادراں فرسودہ اند

ترجمہ: باقی (تمام) اعضاء (دست و پا وغیرہ) سوچ (بچار) سے آسودہ ہیں اور وہ اعضائے رئیسہ آنے جانے والے افکار (و خیالات) سے (تھک کر) چور ہو رہے ہیں۔

16

ہمچو شاخ از برگ و از میوہ کہن

گرد خالی تا رسد از امرِ کن

17۔

برگہا و میوہائے نورِ غیب

از پئے آں کہنگی بے ہیچ ریب

ترجمہ: (پس) تم پرانے (دنیوی خیالات کے) پتّوں، پھولوں سے (سوکھی) ٹہنی کی طرح خالی ہو جاؤ تاکہ اس کہنگی کے بعد (خداوند تعالیٰ کے) امرِ کُنْْ سے نورِ غیب کے پتے اور پھل بلا شبہ پیدا ہوں (یعنی تم علوم و معارف اور اصول و مواجید سے متمتع ہو۔)

18

در خزاں و باد خوفِ حق گریز

آں شقائقہائے پاریں را بریز

ترجمہ: تم (فکرِ عقبٰی کی) خزاں اور خوفِ حق کی ہوا میں جا پہنچو (اور غفلت و دنیا طلبی کے) ان سابقہ گل ہائے لالہ کو جھاڑ دو۔

مطلب: افکارِ دنیویہ کو گلِ لالہ سے تشبیہ دی ہے بایں مناسبت آج جس طرح گلِ لالہ خوب صورت ہوتا ہے اسی طرح مرادتِ دنیویہ کے خیال پُر لطف ہوتے ہیں۔ ﴿زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ﴾ (آل عمران: 14) چونکہ فکرِ عقبٰی اور خوفِ حق میں دنیا اور مراداتِ دنیویہ سے دل سیر ہو جاتا ہے۔ جس طرح خزاں سے درختوں کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔ یہ خیال رہے کہ خوفِ حق اور فکرِ عقبٰی کو صرف دنیا کے خیالات کے لیے خزاں کہا ہے۔ ورنہ وہ لذتہائے بہترین بہار ہیں۔ آگے "بریز" کی علّت ارشاد ہے۔

19

کیں شقائق منعِ نو اشگوفہاست

کہ درختِ دل برائے آں نماست

ترجمہ: اس لیے کہ یہ سابقہ گل ہائے لالہ (خیالاتِ معاد کے ان) نئے شگوفوں کے مانع ہیں جن کے (نشو و) نما کے لیے (یہ) درختِ دل (بنا) ہے (یعنی خطراتِ معاش خیالاتِ معاد کے مانع ہیں جو اصل مقصود ہیں) سعدی رحمۃ اللہ علیہ؎)

شب چو عقدِ نماز بریں دم

چہ خورد بامداد فرزندم

20

خویش را در خواب کن زیں افتکار

سر ز زیرِ خواب در یقظت برار

ترجمہ: اپنے آپ کو (ماسوائے اللہ کے) اس فکر سے (یکسو کر کے محویت کے) خواب میں ڈال دو (اور اس خواب کے معنٰی باعتبارِ حقیقت کے یہ ہیں کہ) سر خواب (غفلت کی چادر) کے نیچے سے بیداری کی طرف نکالو۔

21

ہمچو آں اصحابِ کہف اے خواجہ زود

رو بہ اَیْقَاظًا کہ نَحْسَبُھُمْ رُقُوْد

ترجمہ: پس اے خواجہ! جلدی ان اصحابِ کہف کی طرح ایسی نیند کی طرف جاؤ کہ لوگ تم کو (مخلوق کی طرف) بیدار سمجھیں (اور تم اس کی طرف سے سو رہے ہو)۔

مطلب: یعنی تم یادِ حق میں ایسی حالت اختیار کرو کہ (لوگ تم کو خلق سے با خبر سمجھیں اور تم خلق سے بے خبر ہو۔ خلق سے بے خبر ہونا مشغول بحق ہونے کو لازم ہے اور لوگ جو اس کو خلق سے با خبر سمجھیں گے تو اس میں مصلحت یہ ہے کہ اس کا کمالِ محویت لوگوں سے مخفی رہے گا تو وہ خارج اوقات نہ ہوں گے اور خود اس میں کوئی شائبۂ ریا پیدا نہ ہوگا۔ دوسرے مصرعہ کے الفاظ میں اس آیت کریمہ کی طرف تلمیح ہے جو اصحابِ کہف کے قصے میں وارد ہے۔ ﴿تَحْسَبُھُمْ اَیْقَاظًا وَّّ ھُمْ رُقُوْدٌ﴾ (الکھف: 18) یعنی تم ان کو جاگتے سمجھو گے حالانکہ وہ سو رہے ہیں۔ مصرعہ میں آیت کے کلمات پس و پیش واقع ہوئے ہیں اور الفاظ کی اس ترتیب میں ترجمہ خلافِ مقصود ہوتا ہے۔ پس یہ کلمات جو بضرورتِ وزن اس ترتیب سے درج ہوئے ہیں۔ صرف تلمیح کا کام دیتے ہیں ان کا ترجمہ بایں ترتیب مقصود نہیں۔ آگے پھر قصہ چلتا ہے:

22

گفت قاضی اے صنم تدبیر چیست

گفت خانہ ایں کنیزک بس تہی ست

ترجمہ: قاضی نے کہا پیاری! تو پھر اس کی کیا تدبیر ہو سکتی ہے؟ وہ بولی اس کنیزک کا گھر بالکل خالی ہے (قاضی صاحب کو کنیز کے لفظ میں جو مزہ آیا ہو گا وہ انہی کا دل جانتا ہے۔)

23

خصم در دِہ رفت و حارس نیز نیست

بہرِ خلوت سخت نیکو مسکنے ست

ترجمہ: (میرا) خصم گاؤں گیا ہے اور (کوئی) رقیب بھی (موجود) نہیں خلوت کے لیے نہایت عمدہ جگہ ہے (اس تجویز نے قاضی صاحب کے دل پر جو اثر کیا ہو گا وہ محتاج توضیح نہیں۔)

جب جوش پہ آئے مستیِ عہد شباب

اور عیش کے ہوں سارے میسر اسباب

محبوب ہو سازگار غائب ہو رقیب

تقویٰ کا جہاز ہے میانِ گرداب

24

امشب ار امکاں بود آنجا بیا

کارِ شب بے سمعہ ست و بے ریا

ترجمہ: آج کی رات اگر ممکن ہو تو وہاں تشریف لائیے۔ رات کا کام بے شہرت اور بلا اظہار (ہوتا) ہے۔ (عورت نے قاضی کے دل پر یہ کس بلا کا تیر پھینکا ہے۔ جس کی کوئی روک تھام نہیں۔)

صائب رحمۃ اللہ علیہ؎

حاجتِ دامِ کمندے دام نیست در تسخیرِ ما

التفاتِ یار باشد حلقۂ زنجیرِ ما

25

جملہ جاسوساں ز خمرِ خواب مست

زنگیِ شب جملہ را گردن زدست

ترجمہ: (اس وقت) تمام مخبر نیند کی شراب سے مست (ہوتے ہیں کیونکہ) (زنگیِ شب) سب کی گردن اڑا دیتا ہے۔

26

خواند بر قاضی فسوں ہائے عجب

آں شکر لب وانگہائے از چہ لب

ترجمہ: غرض اس شکر لب (عورت) نے قاضی پر عجیب افسون پھونکے اور کیسے لب سے (جن کا جادو خالی جانے والا نہ تھا)۔

27

چند بآدم ابلیس افسانہ کرد

چونکہ حوّا گفت خور آنگاہ خورد

ترجمہ: (اور عورت ذات کی بات میں اثر بھی ہوتا ہے، چنانچہ) ابلیس نے ہر چند آدم علیہ السلام کے ساتھ (دانہ کھانے کے لیے) اصرار کیا (مگر انہوں نے نہ کھایا اور) جب حوا نے کہا تو اس وقت فورًا کھا گئے۔

مطلب: شیطان کے اصرار سے حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں ایک تردّد پیدا ہو گیا تھا کہ دانہ کھاؤں یا نہ کھاؤں۔ پھر جب شیطان نے حضرت حوا کو بھی وہی ترغیب دی تو عورتیں چونکہ کوتہ اندیش ہوتی ہیں وہ اس کے فریب میں آ گئیں۔ اب حوا نے حضرت آدم علیہ السلام کو دانۂ گندم کھانے کو کہا تو وہ ان کے قول سے متاثر ہو کر کھا گئے۔ اس میں عورتوں کی بات کے مؤثر ہونے کی نظیر مقصود ہے۔ آگے عورتوں کے باعثِ فساد ہونے کی ایک نظیر بیان ہوئی ہے جیسے مشہور ہے کہ زر، زن، زمین تینوں بواعثِ نزاع ہیں۔

28

اولیں خوں جہانِ ظلم و داد

از کفِ قابیل بہرِ زن فتاد

ترجمہ: اس ظلم وعدل کے عالم میں سب سے پہلا خون (جو واقع ہوا تو) قابیل کے ہاتھ سے عورت کے لیے واقع ہوا (جس کا مفصّل قصہ کسی گذشتہ جلد میں گزر چکا ہے آگے عورتوں کی فساد انگیزی و شرارت پسندی کی دو نظیریں مذکور ہیں:)

29

نوحؑ بر تاوبہ چو بریاں ساختے

واہلہ بر تابہ سنگ انداختے

ترجمہ: حضرت نوح علیہ السلام جب (قوم کو دعوت اسلام دینے کے لیے وعظ کا طعام خوش بیانی کے) توے پر پکاتے تو (ان کی گمراہ بیوی) واہلہ توے پر پتھر پھینکتی (یعنی ان کے وعظ و تقریر میں شور مچا دیتی)۔

30

مکرِ زن پُر فنِ او چیرہ شدے

آبِ صافِ وعظِ او تیرہ شدے

ترجمہ: تو عورت کا (یہ) مکر ان کے فن (وعظ) پر غالب آ جاتا ہے اور ان کے وعظ کا صاف پانی مکدّر (ہو کر لوگوں کے لیے نا خوشگوار اور غیر مؤثر) ہو جاتا۔

31

قوم را پیغام کردے از نہاں

کہ نگہدارید دیں از گمرہاں

ترجمہ: (اور وہ اسی ظاہری مخالفت پر ہی اکتفا نہ کرتی بلکہ) در پردہ (بھی قوم کو پیغام پہنچاتی کہ) ان گمراہوں سے (اپنے سابقہ) دین کو محفوظ رکھو۔

32

لوطؑ را زن ہمچنیں بُد کافرہ

خواندہ باشی قصّۂ آں فاجرہ

ترجمہ: اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام کی عورت بھی کافرہ تھی، اس بری عورت کا قصہ تم نے پڑھا ہوگا۔

مطلب: فاجرہ کے معنوی معنی بدکار ہیں چونکہ انبیاء کی ازواج بدکاری سے منزّہ ہیں اس لیے یہاں اس لفظ سے مطلق گنہگار و بد اعمال مراد ہے۔ اس کا یہ قصہ یوں ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں فعلِ خلافِ وضعِ فطری عام تھا۔ حضرت لوط علیہ السلام ہر چند ان کو سمجھاتے مگر وہ باز نہ آتے تھے، ان کی عورت بھی گمراہ تھی اور بدکار قوم کی حمایت کا دم بھرتی تھی حق تعالیٰ کا غضب ان پر نازل ہوا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام ان لوگوں کو سزا دینے کے لیے بھیجے گئے جو ایک خوب صورت نوجوان کی شکل میں حضرت لوط علیہ کے گھر میں وارد ہوئے، حضرت لوط علیہ السلام ان کو دیکھ کر اپنے مہمانِ عزیز کی عزت کے خیال سے بہت پریشان ہوئے۔ ان کو کیا معلوم تھا کہ یہ وہ ہستی ہے جو دشمنوں کا تختہ الٹ دینے کی طاقت رکھتی ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی عورت نے حسبِ عادت جھٹ اپنی قوم کو مطلع کر دیا کہ ایک حسین جوان ہمارے گھر آیا ہے۔ بدکار لوگ اس جوان کی طلب میں دوڑے آئے۔ حضرت لوط علیہ السلام ان کی منت سماجت کرنے لگے کہ میرے مہمان کی تذلیل کا ارادہ نہ کرو مگر وہ باز نہ آنے والے تھے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اندر سے کہا اے نبی! تم کچھ پروا نہ کرو، ان کو اندر آنے دو۔ جب وہ لوگ اندر آئے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اپنے بازوئے پروانہ کو ہوا میں حرکت دی جس سے سب لوگ اندھے ہو گئے۔ پھر حضرت لوط علیہ السلام کو حکم ہوا کہ آپ راتوں رات اپنے اہل و عیال سمیت اس بستی سے نکل جائیں اور کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے علٰی الصباح بدکاروں کی بستی کا تختۂ زمین اوپر اٹھایا اور بلندی پر لے جا کر وہاں سے نیچے گرا دیا اور اوپر سے ان لوگوں پر پتھر برسے۔ ادھر حضرت لوط علیہ السلام اپنے اہل و عیال سمیت بستی سے باہر نکل گئے تھے اور ان میں سے کسی نے پیچھے مڑ کر نظر نہ کی مگر ان کی بیوی اپنی پاداشِ عمل سے سلامت نہ رہ سکی۔ چنانچہ اس نے پیچھے کی طرف نظر کی تو ایک پتھر اس کے بھی آ کر لگا جس سے وہ ہلاک ہو گئی۔ حضرت لوط علیہ السلام کے نام کی نسبت سے ان کی امّت کا ہر آدمی لوطی کہلاتا ہے۔ مگر چونکہ وہ لوگ مذکورہ شیوہ کے عادی تھے اس لیے پھر ہر اس شخص کو جو اس فعل کا عادی ہو لوطی کہنے لگے۔ خواہ وہ کسی قوم سے ہو اور اس فعل کے مصدر کے لیے لواطت کا لفظ وضع ہو گیا۔ آگے عورتوں کے مکر و فریب کی نظیر مذکور ہے:

33

یوسفؑ از کیدِ زلیخائے جواں

ماند در زنداں برائے امتحاں

ترجمہ: اسی طرح یوسف علیہ السلام جوان عورت یعنی زلیخا کے فریب سے امتحان کے لیے قید خانہ میں رہے۔

مطلب: امتحان سے تو یہ مراد ہے کہ زلیخا اس قید سے یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ یوسف جبر و تشدّد کی کسی حد سے اس کے لیے رام ہو سکتے ہیں، یا خدائی امتحان مراد ہے، یعنی اس رنج و عنا پر صبر و استقامت اختیار کرنے سے ان کے مراتب کی ترقی مقصود تھی۔

مذکورہ نظائر میں عورتوں کے چار فتنے ثابت ہوتے ہیں (1) عورتوں کے کلام کی تاثیر (2) عورتوں کا باعثِ فساد ہونا (3) عورتوں کا خود فساد برپا کرنے کی کوشش کرنا (4) عورتوں کا مکر و فریب۔ مولانا کا مقصود یہ ہے کہ جوحی کی عورت ان چاروں فتنوں کا مجموعہ تھی۔ (1) یعنی اس کی باتوں نے قاضی کو مسخّر کر لیا۔ (2) اس کا حسن قاضی کے لیے باعثِ مصیبت ہوا (3) اس نے قاضی کو مالی نقصان پہنچانے کی تدبیر کی (4) اپنے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے قاضی کو فریب دیا۔ آگے مولانا جوحی کی عورت کے ہتھکنڈوں کی مثال اکثر صنفِ نسواں کے مایۂ فساد ہونے کا فیصلہ فرماتے ہیں۔

34

ہبلہ کاندر جہاں بینی عیاں

باشد از شومیِ زن در ہر مکاں

ترجمہ: جو بلا تم جہاں میں عیاں دیکھو وہ ہر جگہ عورت ہی کی برائی سے (واقع ہے)۔

مطلب: مولانا کا یہ قول اس حدیثِ مرفوع کی ترجمانی کر رہا ہے جو متفق علیہ ہے کہ "مَا تَرَکْتُ بَعْدِیْ فِتْنَۃً اَضَرُّ عَلٰی الرِّجَالِ مِنَ النَّسَآءِ" (مشکوٰۃ) یعنی "میں نے اپنے بعد کوئی ایسا فتنہ (پیچھے) نہیں چھوڑا جو لوگوں کے لیے عورتوں کے فتنے سے بڑھ کر مضر ہو۔" یہ بالکل حق ہے اور امین و صادق علیہ السّلام کے قول کے حق ہونے میں کیا کلام ہو سکتا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے عورتوں کی وجہ سے بڑے بڑے خاندانوں کی مٹی پلید ہو چکی ہے، لوگوں میں خون خرابے ہو گئے ہیں، ان کے جان و مال کی تباہی مچ چکی ہے، ریاستیں اور حکومتیں زیر و زبر ہو چکی ہیں، سلطنتوں کے تخت الٹ گئے ہیں۔ دورِ جدید کے زن پرست لوگ اگر اس کو مبالغہ سمجھیں تو ان کی یہ خوش فہمی ان کو مبارک!

نظامی رحمۃ اللہ علیہ؎

اگر نیک بودے سرانجامِ زن

زناں را مزن نام بودے نہ زن

جامی رحمۃ اللہ علیہ؎

زن از پہلوئے چپ شدہ آفریدہ

کس از چپ راستی برگزیدہ

آگے پھر قصہ چلتا ہے: