دفتر ششم: حکایت: 131
مکرّر کردنِ برادراں پند برادرِ بزرگ را و قبول ناکردنِ او و بیطاقتیِ اُو و خود را بے دستوری بدربارِ بادشاہِ چین انداختن
(دونوں) بھائیوں کا (اپنے) بڑے بھائی کو دوبارہ نصیحت کرنا اور اس کا نہ ماننا اور اس کا بے بس ہو جانا اور اپنے آپ کو بلا اجازت شاہِ چین کے دربار میں لا ڈالنا
1
آں دو گفتندش کہ اندر جانِ ما
ہست پاسخہا چو نجم اندر سما
ترجمہ: ان دو (بھائیوں) نے کہ ہمارے دل میں بہت سے جواب ہیں جیسے آسمان میں ستارے (بکثرت ہیں۔ ستارے کثیر ہوتے ہیں اور درخشاں بھی لہٰذا جوابات کو ان کے ساتھ تشبیہ یا تو ان جوابات کے روشن ہونے کے لحاظ سے ملی ہے یا ان کے کثیر ہونے کے اعتبار سے۔)
2
گر نگویم آں نیاید راست نرد
ور بگویم آں دلت آید بدرد
ترجمہ: (لیکن مشکل یہ ہے) کہ اگر ہم (ان کو) نہ کہیں تو (تمہاری) بازی راست نہیں آتی، اوراگر ہم کہتے ہیں تو تمہارا دل دکھتا ہے۔ (چونکہ وہ جوابات اس کے مانعِ عزم تھے، اس لیے اس کو ان کا سننا ناگوار ہوتا اور نہ کہنے سے وہ گمراہی میں رہتا۔ یہی مطلب ہے اس کی بازی راست نہ آنے کا۔)
3
ہمچو چغزیم اندر آب از گفت الم
وز خموشی اختناق ست و سقم
ترجمہ: ہماری حالت مینڈک کی مانند ہے جو پانی میں (ہو کہ اس کو) بولنے سے دکھ (محسوس ہوتا ہے) اور خاموش رہنے سے گھٹن اور بیماری ہے۔ (گویم مشکل و گر نگویم مشکل)
4
گر نگویم آتشے را نور نیست
ور بگویم آں سخن دستور نیست
ترجمہ: (غرض) اگر ہم نہیں کہتے تو(معاملہ روشنی میں نہیں آتا جیسے پھونک مارے بدون) آگ روشن نہیں ہوتی اور اگر وہ بات کہیں تو (مصلحت کی) اجازت نہیں ہے۔
5
در زماں برجست کاے خویشاں وداع
﴿اِنَّمَا الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا مَتَاع﴾
ترجمہ: (بڑا بھائی) فورًا اٹھ کھڑا ہوا (اور بولا) کہ اے بھائیو! رخصت، بس دنیا اور دنیا کی سب چیزیں چند روزہ سامان ہے (اشارہ بمضمون آیت ﴿اِنَّمَا ھٰذِہِ الدُّنْیَا مَتَاعٌ﴾ (غافر: 39)۔
6
بس بروں جست او چو تیرے از کماں
کہ مجالِ گفت کم بود آں زماں
ترجمہ: پر وہ اس طرح نکل چکا جس طرح کمان سے تیر۔ کہ اس وقت بات چیت کی گنجائش کم تھی۔
7
اندر آمد مست پیشِ شاہِ چیں
زود مستانہ ببوسید او زمیں
ترجمہ: وہ مستی میں (بے خود ہو کر) شاہِ چین کے حضور میں آیا اور جلدی مستانہ انداز میں اس نے زمین کو بوسہ دیا (جو بادشاہ کے حضور میں جانے والوں کا دستور ہے۔)
8
شاہ را مکشوف یک یک حالِ شاں
اول و آخر غم و زلزالِ شاں
ترجمہ: بادشاہ (چونکہ) ایک عارفِ کامل تھا اس لیے اس پر ان (بھائیوں) کا ایک ایک حال اور اوّل سے آخر تک غم اور اضطراب (بذریعہ کشف) معلوم (ہو چکا) تھا۔
9
میش مشغول ست در مرعائے خویش
لیک چوپاں واقف ست از حالِ میش
ترجمہ: (جیسے) بھیڑ اپنی چراگاہ کے اندر چرنے میں مشغول ہے لیکن گڈریا بھیڑ کے حال سے واقف ہے۔ (گو بھیڑ کو گڈریے کی اس آگاہی کی خبر نہیں۔)
10
کُلُّکُمْ رَاعٍ بداند از رمہ
کہ علف خوارست کہ در ملحمہ
ترجمہ: (وہ گڈریا بحکمِ) "کُلُّکُمْ رَاعٍ" (بخوبی) جانتا ہے کہ ریوڑ میں سے کونسی (بھیڑ بکری) گھاس چرنے والی، کونسی لڑائی میں (مشغول) ہے (اسی طرح شیخِ کامل اپنے متوسلین کی نگرانی رکھتا ہے۔)
11
گرچہ در صورت ازاں صف دُور بود
لیک چوں دف درمیانِ سور بود
ترجمہ: اگرچہ (شاہ چین) بظاہر (شہزادوں کی) صف سے (جس میں وہ باہم راز کی گفتگو کرتے تھے) دور تھا لیکن (براہِ کشف) دف کی طرح مجلسِ شادی کے اندر تھا۔
12
واقف از سوز و لہیبِ آں و خود
مصلحت آں بُد کہ خشک آوردہ بود
ترجمہ: وہ اس جماعت کی باطنی سوزش و آتش سے واقف تھا۔ مصلحت یہی تھی کہ خاموش ہو رہا تھا۔
13
درمیانِ جانِ شاں بود آں سمی
لیک قاصد کردہ خود را اعجمی
ترجمہ: وہ عالی جاہ (ان کے ضمائر سے اس طرح آگاہ تھا گویا) ان کی جان کے اندر بیٹھا تھا مگر قصدًا اپنے آپ کو بے خبر بنا رکھا تھا۔
14
صورت آتش بود پایانِ دیگ
معنے آتش بود در جانِ دیگ
ترجمہ: (دیکھا) آگ کا ظاہر (وجود دیگ کے نیچے اور اس سے خارج) ہوتا ہے (اور) آگ کی (تپش جو اس کی روح ہے) دیگ کی جان میں (پیوست) ہوتی ہے۔
15
صورتش بیروں و معنیٰ اندروں
معنیٰ معشوق جاں در رگ چو خوں
ترجمہ: (پس) اس (آگ) کی صورت تو خارج ہے اور اس کے معنٰی (دیگ میں) داخل ہے۔ (اسی طرح جان جو گویا) معشوق ہے، اس کے معنٰی رگ (رگ) میں خون کی طرح (دورہ کرتا) ہے۔
مطلب: جس طرح آگ کا ظاہری وجود دیگ سے خارج ہونے کے باوجود اس کی روح دیگ کے اندر ساری ہوتی ہے اور روحِ انسانی بوجہ تجرُّد بدن سے خارج ہونے کے باوجود اس کی رگ رگ میں اپنا تصرّف رکھتی ہے، اسی طرح بادشاہ اپنی مسندِ حکومت میں بیٹھا ہوا ان شہزادوں کے حال و مقال سے آگاہ ہو رہا تھا۔
16
شاہزادہ پیشِ شہ زانو زدہ
دِہ مُعرِّف شارحِ حالش شدہ
ترجمہ: شہزادہ بادشاہ کے سامنے زانوئے ادب تہ کر کے جا بیٹھا اور مقامی نقیب اس شہزادہ کے حال کی شرح کرنے لگا۔
17
گرچہ شہ عارف بُد از کل پیش پیش
لیک میکردے معرّف کار خویش
ترجمہ: اگرچہ بادشاہ بہت پہلے سے سب (شہزادوں) کو پہچانتا تھا لیکن نقیب اپنا کام کرتا رہا (آگے مولانا کا مقولہ ہے:)
18
در دروں یک ذرۂ نورِ عارفی
بہ بود از صد مُعَرِّف اے صفی
ترجمہ: شناخت کا ذرہ جو اپنے باطن میں ہو، اے برگزیدہ! وہ سو نقیبوں کے ذکر و تعریف سے بہتر ہے۔ (جنابِ کلید فرماتے ہیں، یہاں اس سے یہ مراد ہے کہ شیخ کے طالبین کی حالت کو نورِ بصیرت سے پہچاننا ضروری ہے۔ محض راویوں کے بیان پر اعتماد نہ کرنا چاہیے۔)
19
گوش را رہنِ معرّف داشتن
آیتِ محجوبی ست و حزر و ظن
ترجمہ: کان کو نقیب (کے بیان اور عوام کی روایت) پر وقف کر دینا اپنے محجوب اور تخمینہ و ظن پر مدار رکھنے کی علامت ہے (یعنی ایسا کرنے والا غیر مبصر ہے۔ اس میں کمال کا شمہ نہیں۔)
20
آنکہ او را چشمِ دل شد دیدباں
دید خواہد چشمِ او عین العیاں
ترجمہ: جن صاحبِ بصیرت کے دل کی آنکھ نگراں ہوگی، اس کی آنکھ (طالب کو) بالکل بطور معائنہ دیکھے گی۔
21
با تواتر نیست قانع جانِ او
بل ز چشمِ دل رسد ایقانِ او
ترجمہ: افواہِ عام پر اس کی جان قانع نہیں ہوتی، بلکہ چشمِ دل سے اس کا یقین (اس درجہ کو) پہنچتا ہے (کہ اس پر عمل کرنا جائز سمجھے۔)
22
پس معرّف پیشِ شاہِ منتخب
در بیانِ حالِ او بکشود لب
ترجمہ: تو نقیب نے شاہ برگزیدہ کے سامنے اس (شہزادہ) کا حال بیان کرنے میں لب کشائی کی۔
23
گفت شاہا صیدِ احسانِ تو است
بادشاہی کن کہ او آنِ تو است
ترجمہ: (اور) بولا اے بادشاہ (یہ شہزادہ) حضور کے احسان کا شکار (ہو چکا) ہے۔ حضور (اس کے ساتھ) بادشاہانہ سلوک کریں کہ یہ حضور کا ہو چکا ہے۔
24
دست در فِتراکِ ایں دولت زدست
بر سرِ سرمستِ او برمال دست
ترجمہ: اس نے اس دولت کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کر لیا۔ اس کے مست سر پر شفقت کا ہاتھ پھیریے۔
25
گفت شہ ہر منصبے و ملکتے
کالتماسش ہست یابد آں فتے
ترجمہ: بادشاہ نے اس (ظاہری بیان کے جواب میں یوں ظاہری) جواب دیا کہ جس منصب اور حکومت کی اس کو خواہش ہو، وہ اس جوان کو ملے گی۔
26
بیست چنداں ملک کو شد زاں بری
بخشمش اینجا و من خود برسری
ترجمہ: جس ملک سے وہ دست بردار ہوا ہے اس سے بیس گنا زیادہ ملک میں یہاں بخش دوں گا، اور میں خود (جو) اس کا جانبدار ہوں گا۔ (تو یہ اس عطا کے علاوہ (ہے)۔
27
گفت تا شاہیت در وَے عشق کاشت
جز ہوائے تو ہوائے کے گذاشت
ترجمہ: (نقیب نے کہا) جب سے آپ کی شاہی نے اس کے (دل کے) اندر عشق (کا بیج) بویا ہے تو آپ کی محبت کے سوا (ملک و منصب وغیرہ کی) محبت کہاں چھوڑی ہے (جو یہ اس کی خواہش کرے)۔
28
بندگیِ تش چناں در خورد شد
کہ شہی اندر دلِ او سرد شد
ترجمہ: حضور کی غلامی کو اس کے ساتھ کچھ ایسے مناسبت ہو گئی کہ بادشاہی (تک) سے اس کا دل سیر ہو گیا۔
29
شاہی و شہزادگی در باختہ است
از پئے تو در غریبی ساختہ است
ترجمہ: اس نے بادشاہی اور شہزادگی تیاگ دی ہے۔ حضور کے لیے بے وطنی پر قناعت کی ہے۔
30
صوفیے کانداخت خرقۂ وجد در
کے رود او برسرِ خرقۂ دگر
ترجمہ: جو صوفی وجد کے اندر (اپنا) خرقہ (اتار کر) پھینک چکا (اور قوّال وغیرہ کسی مستحق نے اس کو اٹھا لیا) تو وہ صوفی کسی دوسرے کا خرقہ لینے پر کب مائل ہوتا ہے۔
31
میل سوے خرقۂ دادہ و ندم
آنچناں باشد کہ من مغبوں شدم
ترجمہ: دیے ہوئے خرقہ کی طرف مائل ہونا اور (اس کو دینے سے) پچھتانا ایسا ہے (گویا وہ صوفی یہ کہہ رہا ہے) کہ میرا نقصان ہو گیا۔
32
باز دہ آں خرقہ ایں سُو اے قریں
کہ نمے ارزید آں یعنی بدیں
ترجمہ: (اور گویا یہ کہہ رہا ہے کہ) اے ہمنشیں وہ خرقہ (جو میں نے غلطی سے دے دیا تھا) ادھر (مجھے) واپس دے دے، کیونکہ وہ کوئی اتنی سی قیمت کا نہیں یعنی اس (وجد) کے عوض میں (بلکہ اس سے زیادہ قیمت کا ہے)۔
مطلب: یہ اوپر کے تین شعر مولانا کا مقولہ ہے جنہیں اس بات کے ثبوت کے لیے کہ شہزادہ کو بادشاہی سے دست بردار ہو کر دوبارہ اس پر مائل نہیں ہونا چاہیے۔ صوفی کو خرقہ دے کر واپس لینے کی اہمیت کو بطور نظیر پیش کیا ہے۔ صاحبِ کلید فرماتے ہیں کہ اگر یہ خرقہ کسی کو دیا تھا۔ بشرطیکہ دیتے وقت باوجود غلبۂ حال کے اتنا شعور و مقصد ہو کہ شرعًا اس کے تصرفات صحیح ہوں۔ تو تب تو پھر شریعت کے بھی خلاف ہے، اور اگر صرف اتار دیا تھا اور کسی نے رسم کے طور پر اٹھا لیا تھا تو اس وقت اس کو اتار پھینکنے اور اس سے روگردانی کے بعد کہ علامتِ ترک ہے واپس مانگنا کہ نشانِ حرص ہے، باوجود اباحت زہد کے خلاف ہے۔ پس یہ ذمِّ اقالہ ایک کلی مشکّک کے طور پر باختلافِ درجہ دونوں کے ساتھ متعلق ہو سکتی ہے (انتہٰی) آگے مولانا اسی اقالہ کی مذمت فرماتے ہیں۔
33
دور از عاشق کہ ایں فکر آیدش
در بیاید خاک بر سر بایدش
ترجمہ: عاشق سے (یہ بات) بعید ہے کہ یہ (برکاتِ وجد پر خرقہ کی ترجیح کا) خیال اس کے دل میں گزرے، اور اگر گزرے تو اس کے سر پر خاک ڈالنی چاہیے۔
34
عشق ارزد صد چو خرقہ کالبُد
کہ حیاتے دارد و حسّ و خرد
ترجمہ: عشق کی قیمت میں تو جسمِ انسانی کے خرقہ کی مثل سینکڑوں (ہوں تو بھی تھوڑے ہیں۔ وہ جسم) جو زندگی اور حس اور عقل (بھی رکھتا ہے۔)
35
خرقۂ ملکِ دنیا کابترست
پنج دانگ ہستیش دردِ سَرست
ترجمہ: خصوصًا ملکِ دنیا کا خرقہ جو بالکل ہی ناقص ہے، اس کی ہستی کے پانچ پیسے (بھر سرمایہ کی طلب تو) سراسر دردِ سر ہے۔
36
ملکِ دنیا تن پرستاں را حلال
ما غلامِ ملک عشقِ بے زوال
ترجمہ: دنیا کی بادشاہی تن پرست لوگوں کو نصیب ہو، ہم تو عشقِ بے زوال کی بادشاہی کے دلدادہ ہیں۔ (آگے پھر نقیب کا قول چلتا ہے:)
37
عاملِ عشق ست معزولش مکن
جزْ بہ عشقِ خویش مشغولش مکن
ترجمہ: یہ تو عشق (کی حکومت) کا عہدیدار ہے۔ اس کو (اس عہدہ سے) معزول نہ کیجئے۔ اپنے عشق کے سوا (کسی اور کام میں) اس کو مشغول نہ کیجئے۔ (اسی طرح سالک دنیا کی مشغولی سے بچتا ہے۔)
38
منصبے کانم ز رُویت محجب ست
عین معزولی ست نامش منصب ست
ترجمہ: (یہ شہزادہ اگر زبان سے نہیں تو دل سے ضرور کہہ رہا ہے کہ) جو عہدہ مجھے حضور کے دیدار سے حجاب میں رکھنے والا ہے، وہ بالکل معزولی ہے۔ (اگرچہ بظاہر) اس کا نام (عہدہ و) منصب ہے۔ (یعنی شہزادہ کی مراد تو یہ ہے کہ ہمیشہ حضور میں حاضر اور دولتِ دیدار سے متمتع رہے۔ اگر کسی ملک کا حاکم بنا کر بھیج دیا گیا تو اس دولت سے محروم ہو جائے گا۔ اسی طرح سالک کہتا ہے کہ اگر میں دنیا کی مرادات میں مستغرق ہو گیا تو حق سے غافل ہو جاؤں گا۔)
39
موجبِ تاخیر اینجا آمدن
فَقْدِ اِستعداد بود و ضعفِ تن
ترجمہ: (اس کے) یہاں آنے میں دیر کرنے کا سبب یہ تھا کہ (اس میں ابھی حضوری کی) استعداد (پیدا) نہ (ہوئی) تھی اور (ساتھ ہی) جسم کی کمزوری (بھی اس تاخیر کا باعث ہوئی۔)
مطلب: یعنی ایک تو اس شہزادے میں بھی ابھی وہ لیاقت پیدا نہیں ہوئی جو حضور کی بارگاہ کے حاضر باش کے لیے لازم ہے۔ دوسرے اس درگاہ کے حاضر باش کے لیے خدمات کی بجا آوری میں جو جسمانی طاقت درکار ہے، وہ ابھی تکمیل کو نہیں پہنچی تھی۔ اس لیے تاخیر ہوئی، لہٰذا حضور یہ شبہ نہ فرمائیں کہ اگر یہ ہمارا ایسا عاشق تھا تو اب تک حاضر کیوں نہ ہوا؟ آگے مولانا کا مقولہ ہے کہ ہر کام استعداد پر ہے۔
40
بے ز استعداد بر کانے روی
بر یکے حبہ نگردی محتوی
ترجمہ: (حصولِ جواہرات کی استعداد) کے بدون تم کسی کان (جواہرات) پر جاؤ (تو جواہرات تو رہے الگ) تم ایک حبہ پر بھی تو قابض نہ ہو سکو گے۔
مطلب: جوہرات کے حصول کے لیے ایک تو کان کی شناخت کا ملکہ ہونا چاہیے، کیونکہ کان میں پتھر اور جواہرات ملے جلے ہوتے ہیں۔ عام لوگ نہیں پہچانتے کہ یہاں جواہرات ہیں۔ دوسرے جواہرات کو نکالنے کی استعداد لازم ہے کہ یہ بھی ایک فن ہے جو بدون استعداد نہیں آتا۔ اس میں یہ سبق مرکوز ہے کہ طالب کو پہلے اپنے اندر استفادہ کی استعداد پیدا کرنی چاہیے۔ جس کے معنٰی طلب اور شوق کے ہیں۔ پھر عارفین کی طرف رجوع کرے۔ کیونکہ حصولِ فیض کے لیے طلب و شوق کا ہونا شرط ہے ورنہ حرمان لازم۔ گو وہ حضرات جواہرِ کمالات کے معدن ہیں لیکن فاقد الاستعداد جو طلب و شوق سے خالی ہے، ان سے کیا متمتع ہو سکتا ہے۔ آگے کامیابی کے لیے استعداد کے شرط ہونے اور فاقد الاستعداد کے محروم رہنے کی چند مثالیں ہیں:
41
ہمچو عنّینے کہ بکرے را خرد
گرچہ سیمیں تن جُود کے بر خورَد
ترجمہ: (بے استعداد آدمی) نامرد کی مثال (ہے) جو کسی باکرہ (کنیز) کو خرید لے۔ اگر چہ وہ (کنیز) سیم انداز ہو (جس کے ساتھ مباشرت کی رغبت ہر جوان کو طبعًا ہوتی ہے) تو وہ کب اس سے لذت گیر ہو سکتا ہے (جب کہ اس میں اس کی استعداد ہی نہیں۔)
42
چوں چراغِ بے زیت و بے فتیل
نے کثیرستش ز نور و نے قلیل
ترجمہ: (اور اس بے استعداد کی مثال ایسی ہے) جیسے ایک (خالی) چراغ جس میں نہ تیل ہے نہ بتی تو اس میں نور نہیں ہو سکتا، نہ کم نہ زیادہ (کیونکہ اس کی استعداد ہی اس میں نہیں۔)
43
در گلستاں اندر آید اخشمے
کے شود مغزش ز ریحاں خُرّمے
ترجمہ: (اور) جیسے وہ شخص جس کی سونگھنے کی قوت نہ ہو، باغ کے اندر آئے تو اس کا مغز پھول کی خوشبو سے کب خوش ہوگا (جب کہ اس میں سونگھنے کی استعداد ہی نہیں۔)
44
ہمچو خوبے دلبرے مہمانِ غر
بانگِ چنگ و بربطے درپیشِ کر
ترجمہ: (اور) جیسے ایک حسین دلبر (عورت) جو کسی نامرد کی مہمان ہو (جس میں لذتِ صحبت کی استعداد نہیں اور) جیسے سارنگی اور بربط کی سریلی آواز بہرے کے آگے (جس میں اس کو سننے کی استعداد نہیں۔)
45
ہمچو مرغ خاک کاید در بحار
زاں چہ یابد جز ہلاک و جز خسار
ترجمہ: (اور) جیسے خشکی کا پرندہ جو دریاؤں میں آ پڑے تو اس سے اس کو سوائے ہلاک اور ضرر کے کیا ملے گا (کیونکہ وہ تیرنے کی استعداد نہیں رکھتا۔)
46
ہمچو بے گندم شدہ در آسیا
جز سفیدیِ ریش و مو نبود عطا
ترجمہ: (اور) جیسے وہ شخص کے پاس گیہوں نہ ہو (اور وہ خالی خولی، چکی گھر میں جائے تو اس کو آٹے کے غبار سے) ڈاڑھی اور بالوں کے سفید ہو جانے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
47
آسیائے چرخ بر بے گندُماں
مو سپیدی بخشد و ضعفِ میاں
ترجمہ: آسمان کی چکی ان لوگوں کو جو استعداد و صلاحیت کے گیہوں سے خالی ہیں (صرف) بالوں کی سفیدی اور ضعفِ کمر بخشتی ہے (یعنی عدمِ استعداد کی وجہ سے وہ کوئی کمال حاصل نہیں کرتے حتٰی کہ بڑھاپا آ جاتا ہے۔ بال سفید کمر خم ہو جاتی ہے۔)
48
لیک با باگندماں ایں آسیا
مُلک بخش آمد دہد کار و کیا
ترجمہ: لیکن یہ چکی گیہوں والوں کو بادشاہی بخشنے والی ہے اور عہدہ و عصمت عطا کرتی ہے۔ (اہل استعداد کو طرح طرح کے کمالات حاصل ہو جاتے ہیں۔)
49
اول استعدادِ جنت بایدت
تا ز جنت زندگانی زایدت
ترجمہ: پہلے تم میں بہشت (میں جانے) کی استعداد چاہیے تاکہ جنت (کی استعداد) سے تمہاری (ابدی) زندگی پیدا ہو۔
50
طفلِ نو را از شراب و کباب
چہ حُلاوت از قصور و از قباب
ترجمہ: نوزائیدہ بچے کو شراب و کباب سے کیا لذّت؟ (اور) محلوں اور گنبدوں سے کیا دلچسپی؟ (جب کہ اس میں ان چیزوں کی پسندیدگی کی استعداد ہی نہیں۔)
51
حد ندارد ایں مثل کم جو سخن
تو برو تحصیلِ استعداد کُن
ترجمہ: یہ مثالیں تو (کوئی) انتہا نہیں رکھتیں۔ تم (تمثیلات و نظائر کی) تقریروں کے طالب نہ بنو بلکہ جاؤ استعداد پیدا کرو (جو مقصودِ تقریر ہے۔ آگے پھر قصہ چلتا ہے۔)
52
بہرِ استعداد تا اکنوں نشست
شوق از حد رفت و آں نامد بدست
ترجمہ: (حضور) یہ تو اب تک حصولِ استعداد کے لیے بیٹھا رہا (مگر اب) شوق حد سے گزر گیا اور وہ (استعداد پوری طرح اب بھی) حاصل نہیں ہوئی (ناچار غلبۂ شوق سے مجبور ہو کر اسی حالت میں حاضر ہو گیا۔)
53
گفت استعداد ہم از شہ رسد
بے ز جاں کے مستعد گردد جسد
ترجمہ: اس نے (اپنے جی میں) کہا استعداد بھی بادشاہ ہی سے ملے گی (اور) روح کے بدون جسم کب بارِ استعداد ہوتا ہے۔ (بادشاہ کو روح سے اور شہزادہ کو جسم سے تشبیہ دی ہے۔)
54
لطفہائے شہ غمش را در نوشت
شد کہ صید شہ کند و صید گشت
ترجمہ: حضور کے الطاف نے اس کے غم کو تہ کر (کے رکھ) دیا۔ آیا تھا حضور کو مسخر کرنے کے لیے یہ (خود ہی) مسخّر ہو گیا۔
55
ہر کہ در اشکار چوں تو صید شد
صید را ناکردہ قید‘ او قید شد
ترجمہ: (اور کیوں نہ ہو) جو شخص (بھی) حضور جیسے شکار کی گرفت کے لیے گیا ہوگا وہ شکار (مطلوب) کو گرفت میں لائے بدون خود گرفتار ہو گیا۔
مطلب: یہ شہزادہ اس لیے حاضر ہوا تھا کہ اپنی اعلیٰ خدمات سے حضور کو اپنی محبت کے دام میں ڈالے مگر حضور کا دیدار کرتے ہی الٹا خود ہی دامِ محبت میں گرفتار ہو گیا۔ یہی معاملہ اہل اللہ کاملین کا ہوتا ہے۔ خادمِ مخلص ان کے لطف و عنایت کو اپنی طرف جذب کرنے کے لیے بیش از بیش خدمات بجا لاتا ہے مگر جوں جوں خدمات بجا لاتا ہے خود ان کی زنجیرِ محبت میں منجذب ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک نقیب کا مقولہ تھا آگے مولانا اس تقیید و تقیّدِ محمود سے جو اہل اللہ کا معاملہ ہے، تقیید و تقیدِ مذموم کے ذکر کی طرف انتقال فرماتے ہیں جو اہلِ دنیا کا شیوہ ہے۔
56
ہر کہ جویائے امیری شُد یقیں
پیش ازاں او در اسیری شُد رہیں
ترجمہ: جو شخص امیری (و سرداری) کا طالب ہوا یقینًا وہ اس (کے حصول) سے پہلے (خود اس کے شوق کی) قید میں مقیّد ہوا (اور یہ ظاہر ہے کہ اگر وہ اس کے شوق کا مقیّد نہ ہوتا تو اس کو طلب ہی کیوں کرتا۔ پس ارادہ تو کرتا ہے اس کو مسخّر کرنے کا اور خود اس کا مسخّر ہو جاتا ہے۔
57
عکس میداں نقش دیباجۂ جہاں
نامِ ہر بندۂ جہاں خواجۂ جہاں
ترجمہ: (پس جب امیری کے لیے اسیری لازم ہے تو) تم چہرۂ جہاں کے نقش کو الٹا سمجھو (یعنی) ہر غلامِ جہاں کا نام آقائے جہاں ہے۔
مطلب: جو امیر مسندِ امارت پر متمکّن نظر آتا ہے وہ اس امارت کے حصول سے پہلے اس کی طلب میں اسیر رہ چکا ہے پس یہ وہ آقا ہے جس کے ماتھے پر داغِ غلامی موجود ہے۔ گویا ایک غلام کو آقا کہا جاتا ہے اور چونکہ اس غلامی و اسیری کا اثر روح پر بھی ہوتا ہے اور اسیری اسی اصل فطرت کے خلاف ہے۔ اس تقریب سے آگے یہ مذکور ہے کہ روح نفس و بدن کو بطور شکوہ خطاب کرتی ہے۔ جس سے اس اسیری کے مضر و مذموم ہونے پر تنبیہ مقصود ہے۔
58
اے تنِ کژ فکرت و معکوس رو
صد ہزار آزاد را کردی گرو
ترجمہ: (روح کہتی ہے کہ) اے جسم (اور نفس) جو الٹے خیال اور الٹی چال والا ہے، تو نے لاکھوں آزاد (روحوں) کو مقیّد کر رکھا ہے۔
مطلب: الٹا خیال یہ کہ اسیری کو امیری سمجھتا ہے اور الٹی چال یہ کہ اسیری کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔ پہلا وصف قوّتِ علمیہ کا نقص ہے اور دوسرا وصف قوّتِ عملیہ کا فعل ہے۔ ہر چند کہ نقص و خلل کا باعث نفس ہے مگر بدن سے خطاب اس لیے کہ نفس کے آلاتِ معاصی یہی اعضائے بدنیہ ہیں۔
59
مدتے بگذار ایں حیلت پژی
چند دم پیش از اجل آزاد زی
ترجمہ: (ارے) کچھ مدّت کے لیے تو اس ہتھکنڈے بازی کو چھوڑ دے۔ چند دم موت سے پہلے (اس شیوۂ مذموم کی قید سے) آزاد ہو کر زندگی گزار لے (حیلت پژی سے مراد مکر و فریب اور کذب و دغا ہے جو جاہ و مال کے حصول کے لیے کرتا ہے۔)
60
ور در آزادیت چوں خر راہ نیست
ہمچو دلوت سیر جز در چاہ نیست
ترجمہ: اور اگر گدھے کی طرح تجھ کو آزادی کی طرف راستہ نہیں ملتا (جو ہمیشہ بوجھ اٹھانے اور ڈنڈے کھانے میں مقیّد ہے اور) ڈول کی طرح تیری سیر سوائے (تاریک) کنویں کے اور کہیں نہیں ہے تو:
61
مدّتے رو ترک جانِ من بگو
رو حریفے دیگرے جُز من بجو
ترجمہ: (تو خدا کے لیے) جا ایک مدت کے لیے میری جان چھوڑ۔ جا کوئی اور ہمراہی میرے سوا تلاش کر۔
62
نوبتِ من شد مرا آزاد کُن
دیگرے را غیرِ من داماد کن
ترجمہ: میری باری گزر چکی (اب) مجھ کو آزاد کر اور کسی دوسرے کو میرے سوا (اپنا) داماد بنا۔
63
اے تنِ صد کارہ ترکِ من بگو
عمرِ من بُردی کسے دیگر بجو
ترجمہ: اے سینکڑوں فریب والے بدن! مجھ کو چھوڑ میری عمر تو نے برباد کی (اب) کسی اور کو ڈھونڈھ۔
رفعِ اشتباہ: یہاں مدعائے بیان ظاہر ہے کہ روح بدن کی قید سے اپنی آزادی چاہتی ہے۔ جس کے اعضاء و جوارح سے نفس کام لے کر معاصی و منہیات کا ارتکاب کرتا ہے اور روح اس سے ملوث ہو کر مستوجبِ عذاب ہوتی ہے۔ ممکن ہے کوئی علّتی یہاں کہے کہ ان اشعار سے تناسخ کے عقیدہ کی تائید ہوتی ہے کہ روح ایک جسم سے آزاد ہونا اور جسم کو دوسری روح کے لیے چھوڑ جانا چاہتی ہے،ک اس کا جواب یہ ہے کہ مولانا کے کسی کلام سے ان کے مذہب کے خلاف کوئی بات ثابت کرنے کی کوشش کرنا خود اپنے جہل کا ثبوت پیش کرنا ہے جس کو ہم اس شرح میں کئی جگہ شرح و بسط کے ساتھ سپردِ قلم کر چکے ہیں۔ اشعار زیرِ نظر کے متعلق اتنا کہنا کافی ہے کہ ان سے کسی طرح بھی تناسخ کے خیال کا احتمال پیدا نہیں ہوتا۔ تناسخ کی صورت تو یہ ہے کہ روح ایک جسم سے نکل کر دوسرے جسم میں مقیّد ہو جائے حالانکہ یہاں روح کلی آزادی کی تمنّا کر رہی ہے۔ اور ”مرا آزاد کن“ کہہ رہی ہے اگر اس کو یہ نظر آتا کہ میرے انسان کے جسم سے نکلنے کے بعد اب گدھے یا کتے کا جسم میری قید کے لیے تیار ہے تو ہرگز اس جسم سے نکلنے کی آرزو نہ کرتی، اگر کرتی تو وہ "آزاد کن" کا مصداق نہ ہوتی۔ ”مراد قید بدتر ازیں قید کن“ کا مصداق ہوتی، اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی آزادی کی آرزو نہیں۔ دوسرے یہاں روح کہہ رہی ہے ”کسے دیگر بجو“ یعنی اے جسم اب میرے بجائے کسی اور روح کو تلاش کر جو تیرے اندر میری طرح مقیّد ہو کر رہے اور تناسخ کی یہ صورت نہیں ہے کہ ایک روح کسی ایسے جسم میں چلی جائے جس میں پہلے کوئی اور روح رہ چکی ہے۔ بلکہ یہ بروز کی صورت ہے جس کا نہایت مفصّل و مبسوط تذکرہ ہم نے جلد اوّل میں کیا ہے اور بروز کوئی ایسا اہم مذہبی عقیدہ نہیں ہے جس کی تائید یا تردید کی ضرورت ہو۔ تناسخ کی صورت تو یہ ہے کہ روح ایک جسم سے نکل کر کسی ایسے جسم میں چلی جائے جو خاص اسی کے لیے کسی جاندار کے رحم میں ابھی تیار ہوا ہے اور پہلے اس جسم سے کسی روح کا تعلق نہیں ہوا۔ ان اشعار میں یہ صورت کسی طرح بھی پیدا نہیں ہوتی۔ باقی رہا یہ سوال کہ روح نے یہ کیوں کہا کہ ”کسے دیگر بجو“ یعنی اے جسم اب تو کسی اور روح کو تلاش کر جو میرے بجائے تجھ سے متعلق ہو کر رہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ روح کا یہ قول اظہارِ بیزاری کے پیرایہ میں ہے۔ جیسے ایک ظالم و بدخو آدمی اپنی بیوی کو بے جا ستاتا اور اس کی تحقیر کرتا ہو کہ بد صورت ہے، مفلس گھر کی بیٹی ہے، تو وہ بے چاری تنگ آ کر اس کو کہے کہ مجھے طلاق دے دے اور میرے بجائے کسی شہزادی کو بیاہ لا۔ ظاہر ہے کہ اس شہزادی کے بیاہ لانے کو کہنا کوئی مقررہ تجویز نہیں ہے بلکہ اس کے طنز کا ایک جواب ہے۔ جس کے ساتھ اپنی بیزاری کا اظہار بھی مقصود ہے۔ اسی طرح روح کا یہ کہنا کہ تو کسی اور روح کو اپنے پنجے میں اختیار کرلے کسی اور واقعی کی تحریک نہیں ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اے بدن اگر تو ایسا ہی روح کو اپنے پنجے میں میں گرفتار رکھنے کا شائق ہے تو یہ شوق کسی دوسری روح کے لیے رکھ چھوڑ، مجھے آزادی دے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی مشورہ یا تحریک نہیں۔ کیونکہ اس روح کے نکلنے کے بعد کسی دوسری روح کا خاص اسی جسم سے متعلق ہونا دنیا کے کسی مذہب کے نزدیک کبھی ممکن نہیں، بلکہ جسم کا اس روح کے نکلتے ہی لقمۂ نار یا طعمۂ مور و مار ہو جانا ایک امرِ بدیہی ہے۔ پس روح کسی محال و ناممکن امر کی تحریک کیونکر کر سکتی تھی۔ آگے روح کے اس قول کی تائید میں کہ ”دیگرے را غیرِ من داماد کن“ ایک قاضی کا قصّہ بیان فرماتے ہیں، جس کو ایک مکار عورت نے فریب دیا تھا۔ کچھ مدّت کے بعد وہ پھر اس کو فریب دینے کی غرض سے گئی اور قاضی نے اس کو پہچان لیا تو کہا اب میرے بجائے کسی اور کو اُلّو بنا۔