دفتر ششم: حکایت: 130
بیانِ بعضے عجائبِ تصرّفاتِ الٰہیہ
اللہ تعالیٰ کے بعض عجائبِ تصرّفات کا بیان
مطلب: یعنی وہ تصرّفاتِ الٰہیہ جن میں وہ بعض اسباب پر غیر متوقع مسبّبات مرتّب فرماتا ہے۔ اور اس بیان سے مقصود توحید و توکل اور خوف و رجا کی تعلیم ہے، اور یہ کہ اسباب پر بھروسہ نہ رکھنا چاہیے بلکہ مسبِّب پر نظر رکھیں۔
1
گمرہی را منہجِ ایمان کند
کژ روی را مقصدِ احساں کند
ترجمہ: (حق تعالیٰ بعض اوقات) گمراہی کو ایمان کا راستہ بنا دیتا ہے (اور کبھی) اس کے برعکس اخلاص کا مقصد کجروی کو ٹھہراتا ہے۔
مطلب: ادھر تو وہ گمراہی نیکی بن جاتی ہے اور ادھر اخلاص بدی کا رنگ اختیار کر لیتا ہے۔ پہلی بات کی مثال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایمان لانا ہے، جو اپنے بہنوئی اور بہن کے ایمان لانے کی خبر سن کر ان کو ایذا پہنچانے کے گمراہانہ قصد سے گئے تھے مگر وہاں جانا آیاتِ قرآنیہ سننے اور ان کے اثر سے دولتِ ایمان کے ساتھ مشرف ہونے کا باعث بن گیا۔ دوسری بات کی مثال ابلیس کا ارتداد ہے جس کو اس کی طاعت و عبادت کے عُجب نے برباد کیا۔ آگے ان دونوں حکموں کی بعض حکمتیں بطور لف و نشر غیر مرتب مذکور ہیں۔
2
تا نباشد ہیچ محسن بے وَجا
تا نگردد ہیچ خائن بے رَجا
ترجمہ: (اور حق تعالیٰ ایسا اس لیے کرتا ہے) تاکہ کوئی نیکی کرنے والا بے خوف نہ رہے، اور تاکہ کوئی عاصی نا امید نہ ہو۔
3
اندرونِ زہر تریاقِ آں خفی
کرد تا گویند ذُواللُّطْفِ الْخَفِیْ
ترجمہ: (اس مہربان نے) زہر (مضر) کے اندر تریاق (مفید کو مضمر) کر رکھا ہے، تاکہ لوگ اس کو اچھی مہربانی والا کہیں (ورنہ اگر اس کے تمام الطاف مواقعِ متوقع ہی سے ظاہر ہوتے تو وہ "ذُوْ اللُّطْفِ" تو کہلاتا مگر "ذُوْ اللُّطْفِ الْخَفِیّ" نہ کہلاتا۔
4
نیست مخفی در نماز آں مکرُمت
در گُنہ خلعت نہد آں مغفرت
ترجمہ: (چنانچہ) وہ کرم نماز میں مخفی نہیں ہے (کہ اس کا باعثِ کرم ہونا ظاہر ہے، بلکہ اس کے کرمِ مخفی کا نمونہ یہ ہے کہ وہ) گناہ میں اس مغفرت کا خلعت رکھ دیتا ہے۔ (اس طرح کہ بعض اوقات گناہ سے اس قدر ندامت ہوتی ہے کہ وہ مغفرت کے لیے کافی ہوتی ہے۔)
5
منکراں را قصد اِذلالِ ثقات
ذُل شدہ عِزّ و ظہورِ معجزات
ترجمہ: (اس طرح) منکروں کا قصد (انبیاء علیہم السلام سے معجزات طلب کرنے سے ان) انبیائے مقبولین کو ذلیل کرنے کا تھا۔ (وہی) ذلت (جو کفار کو متوقع تھی ان حضرات کے لیے) عزت اور ظہورِ معجزات (کی باعث) بن گئی۔
6
قصدِ شاں ز انکار ذُلِ دیں بُدہ
عینِ ذُل عِزِّ رسولاں آمدہ
ترجمہ: ان کافروں کو (اسلام سے) انکار کرنے سے دین کی ذلت مقصود تھی (مگر) عین وہی ذلت (جو ان کی توقع میں تھی) رسولوں کی عزت بن کر ظاہر ہوئی۔
7
گر نہ انکار آمدے از ہر بدے
معجزہ و برہان چرا نازل شدے
ترجمہ: اگر ہر برے (آدمی) سے انکار واقع نہ ہوتا تو معجزہ اور برہان کیوں نازل ہوتے۔ (آگے اس کی مثال ہے:)
8
تا نگردد خصمِ تو مصداق خواہ
کے کند قاضی تقاضائے گواہ
ترجمہ: جب تک تمہارا فریقِ مخالف تمہارے سچ کا ثبوت طلب نہیں کرتا، تو قاضی (تم سے) گواہ (پیش کرنے) کا تقاضا کب کرتا ہے۔
9
معجزہ ہمچوں گواہ آمد زکی
بہرِ صدقِ مدعی در بیشکی
ترجمہ: پس معجزہ (نبوت کا) دعوٰی کرنے والے کی سچائی کے متعلق شبہ رفع کرنے میں ایک عادل گواہ کی مانند ہے۔
10
طعنہ چوں مے آمد از ہر ناشناخت
معجزہ میداد حق و مے نواخت
ترجمہ: جب ہر بے تمیز (کافر) کی طرف سے (نبی کی تکذیب کا) طعنہ آتا تھا تو حق تعالیٰ (اس کی تصدیق کے لیے) معجزہ عطا فرماتا اور (نبی کی) عزت افزائی کرتا تھا۔ (غرض کفار نے انبیا کو رسوا کرنے کا سامان کیا۔ وہ خود انہی کے لیے باعث رسوائی اور انبیاء کے لیے باعث عزت افزائی ہوا۔)
11
مکرِ آں فرعون سی صد تو بُدہ
جُملہ ذُلِّ او و قمعِ او شدہ
ترجمہ: (چنانچہ) اس فرعون کا مکر تین سو گنا تھا (جس سے اس کا مقصود اپنا اعزاز اور موسیٰ علیہ السلام کی تذلیل تھی) مگر سب کا سب اسی کے لیے باعث ذلت اور موجبِ تباہی ہوا۔
12
ساحراں آوردہ حاضر نیک و بد
تاکہ جرحِ معجزہ موسیٰؑ کند
ترجمہ: (اس کا ایک مکر یہ تھا کہ) اس نے ماہر جادوگروں کو حاضر کیا تاکہ موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ (عصا) میں جرح کرے۔
13
تا عصا را باطل و رسوا کند
اعتبارش را ز دِلہا برکند
ترجمہ: تاکہ عصا (کے معجزہ) کو بے کار و خوار کر دے (اور) اس کی وقعت کو دلوں سے اٹھا دے۔
14
عینِ آں مکر آیتِ موسیٰؑ شدہ
اعتبارِ آں عصا بالا شدہ
ترجمہ: (تو) بالکل وہی مکر موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ بن گیا (اور) اس عصا کی وقعت دوبالا ہو گئی (یعنی جب ساحروں کا سحر اس عصا سے مغلوب ہو گیا تو ساحر مسلمان ہو گئے اور موسیٰ علیہ السلام کی شوکت و وقعت زیادہ ہو گئی۔)
15
لشکر آرد او پُگہ تا حولِ نیل
تا زند بر موسیٰؑ و قومش سبیل
ترجمہ: (فرعون کا ایک مکر یہ تھا کہ) وہ علٰی الصبح ساحلِ نیل پر اپنا لاؤ لشکر لاتا ہے تاکہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کا راستہ بند کر دے (تو:)
16
ایمنیِ امتِ موسیٰ شود
او بہ تحتِ ارض و ہاموں در رود
ترجمہ: (تو اس کا یہی مکر) موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے لیے امن کا باعث ہو جاتا ہے (اور وہ مردود غرق ہو کر) زمین اور صحرا کے نیچے پہنچ جاتا ہے۔ (جس سے بنی اسرائیل ہمیشہ کے لیے مطمئن ہو گئے۔)
17
گر بمصر اندر بُدے و نامدے
وہم از سبطی کجا زائل شدے
ترجمہ: (ورنہ) اگر وہ مصر ہی میں رہتا (اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے تعاقب میں نہ آتا) تو بنی اسرائیل کا (خوف و) وہم (اس کی طرف سے) کب دور ہوتا (پس اس کا یہ چڑھائی کر کے آنا بنی اسرائیل کے لیے نہ صرف باعثِ امن بلکہ ہمیشہ کے لیے دافعِ وہم ہو گیا۔)
18
آمد و در سبط افگند او گداز
کہ بداں کہ امن در خوف ست راز
ترجمہ: (چنانچہ وہ تعاقب کرتا ہوا) آیا اور بنی اسرائیل میں (ایک جاں) گداز (دہشت) ڈال دی (جب کہ قدرتِ الٰہیہ کہتی تھی کہ) یاد رکھو (اس) خوف میں امن مضمر ہے۔
19
ایں بود لطفِ خفی کو را صَمَد
نار بنماید خود آں نُورے بود
ترجمہ: (حق تعالیٰ کی) مخفی مہربانی یہی تو ہے کہ (وہ) بے نیاز (بظاہر) آگ دکھاتا ہے اور وہ (فی الحقیقت) نور ہی ہوتا ہے۔
20
نیست مخفی مزد دادن در تقا
ساحراں را اجر بیں بعد از خطا
ترجمہ: (اور) پرہیزگاری کا اجر دینا (لطفِ) خفی نہیں ہے (بلکہ لطفِ جلی ہے۔ لطفِ خفی کا معلوم کرنا ہو تو) ساحروں کے اجر کو دیکھو (جو ان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مقابلہ و معارضہ کرنے کے) گناہ کے بعد دیا گیا (یعنی ساحر موسیٰ علیہ السلام سے مغلوب ہو کر ایمان لائے اور فرعون کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالنے کی دھمکی کے باوجود ایمان پر قائم رہے۔)
21
نیست مخفی وصل اندر پرورش
ساحراں را وصل داد او در بُرِش
ترجمہ: (اسی طرح) پرورش (اور عطائے نعمت) میں وصل مخفی نہیں (بلکہ ظاہر ہے) وصل (مخفی تو وہ ہے جیسے) اس نے ساحروں کو ہاتھ پاؤں کاٹنے میں بخشا۔
مطلب: بظاہر ان ساحروں کو ہاتھ پاؤں کاٹنے کی اذیت شدید پہنچ رہی تھی تو اس اذیت میں نعمتِ وصل مضمر تھی، یعنی انہوں نے ایمان لانے کے عوض میں جو عذاب برداشت کیا تو اس سے ان کو قربِ حق حاصل ہو گیا۔
22
نیست مخفی سیر با پاے روا
ساحراں را سیر بیں در قطعِ پا
ترجمہ: چلتے ہوئے پاؤں سے چلنا (لطفِ) مخفی نہیں ہے (بلکہ لطفِ ظاہری ہے، ہاں لطفِ مخفی دیکھنا ہو تو) ساحروں کا قطعِ پا (کی حالت) میں (مراتبِ قرب میں) چلنا دیکھ لو۔ (آگے اس پر ایک تفریع ہے۔)
23
عارفاں زانند دائم آمنُوں
کہ گزر کردند از دریائے خوں
ترجمہ: عارف لوگ اسی سبب سے (دنیا کے خطرات سے) بے خوف ہیں کیونکہ وہ خطرات کے دریائے خون سے عبور کر چکے ہیں۔
24
امنِ شاں از عینِ خوف آمد پدید
لاجرم باشند ہر دم در مزید
ترجمہ: ان کا امن عین خوف سے ظاہر ہوا ہے۔ اس لیے وہ ہر دم (امیدِ لطف کی) ترقی میں ہیں۔
25
امن دیدی گشتہ در خوفے خفی
خوف بیں ہم در امیدے اے صفی
ترجمہ: تم نے (ابیاتِ بالا میں) خوف کے اندر امن مخفی دیکھ لیا (اگلے اشعار میں) اے برگزیدہ! خوف کو بھی امن کے اندر مضمر دیکھ لو۔)
26
آں امیر از مکر بر عیسیٰؑ تند
عیسیٰؑ اندر خانہ رو پنہاں کند
ترجمہ: (دیکھو) وہ (یہودی) امیر مکر سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درپے ہوتا ہے (اور) عیسیٰ علیہ السلام (اس سے بچنے کے لیے) ایک گھر میں روپوش ہو جاتے ہیں۔
مطلب: اس میں یہودی حکومت کی اس سازشِ قتل کا مجملًا مذکور ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف کی گئی تھی۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل کا کوئی بادشاہ بڑا ظالم اور سرکش تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس کو دینِ الٰہی کی بہت ہدایت کی مگر وہ راہِ راست پر نہ آیا بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے درپے ہو گیا۔ اس لیے وہ ایک مکان میں روپوش ہو گئے اور انہوں نے اپنے حواریوں کو بلا کر وصیت کی کہ میرے بعد قبیلہ قریش سے ایک عربی نبی پیدا ہوگا۔ تم اپنی اولاد کو نسلاً بہ نسلاً وصیت کرتے جاؤ کہ جو کوئی اس نبی کے وقت میں موجود ہو، وہ اس پر ایمان لائے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک حواری جس کا نام یہودا تھا، ان سے برگشتہ ہو گیا اور اس نے حاکم کے پاس جا کر کہا کہ اگر میں عیسیٰ علیہ السّلام کا پتا بتا دوں تو مجھے کیا انعام ملے گا۔ حاکم نے کہا تیس درہم۔ وہ راضی ہو گیا اور تیس درہم لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پتا بتا دیا۔ یہودی لوگ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن تھے ہی، انہوں نے ان کو سولی پر چڑھانے کا مصمّم ارادہ کر لیا۔ حاکمِ مطلق کے حکم سے حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر لے گئے۔ ادھر کیا تماشا ہوا کہ مخبر کی شکل خدا کے حکم سے ہو بہو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سی ہو گئی۔ جب مخبر نشان دہی کے لیے سرکاری آدمیوں کے آگے آگے اس مکان میں پہنچا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام روپوش ہوئے تھے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دھوکے میں خود گرفتار ہو گیا۔ یہودی لوگ اس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کر گھسیٹتے ہوئے حاکم کے پاس لے گئے اور راستے میں بھی حقارت کرتے گئے۔ کوئی منہ پر طمانچے مارتا تھا۔ کوئی سر پر کانے رکھ دیتا تھا۔ کوئی کہتا تھا کہ تم مردے زندہ کرتے تھے۔ اب ہم سے اپنے آپ کو کیوں نہیں چھڑا لیتے۔ یہودا نے ہر چند قسمیں کھا کھا کر کہا کہ میں عیسیٰ نہیں ہوں بلکہ یہودا ہوں مگر وہ کب ماننے والے تھے۔ آخر کشاں کشاں لے جا کر یہودا کو سولی پر چڑھا دیا۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک رشتہ دار نے اس کی لاش کو حکومت سے مانگ کر دفن کر دیا۔ یہ روایت اسلام کے صحیح عقیدہ کے مطابق ہے۔ اس میں دو باتیں محلِ بحث ہیں۔ ایک حضرت عیسٰی علیہ السلام کا آسمان پر چلے جانا، دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دھوکے میں مخبر یہودا کا سولی پر چڑھنا۔ نصارٰی اسلام کے ساتھ پہلی بات میں متفق اور دوسری میں مختلف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سولی پر یہودا نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو چڑھایا گیا اور ان کی موت اسی سے واقع ہوئی۔ پھر ان کی لاش کو دفن کر دیا گیا۔ تین دن بعد ان کی قبر خالی پائی گئی کیونکہ وہ زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے۔ فرقہ مرزائیہ قادیانیہ اس عقیدۂ اسلام سے پہلی بات میں مختلف اور دوسری بات میں متفق ہے۔ اس کے نزدیک فی الواقع حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بجائے مخبر ہی سولی پر چڑھایا گیا مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر نہیں گئے بلکہ روپوشی کی حالت میں کسی طرف نکل گئے اور پھر وہیں وفات پائی۔ غرض مولانا فرماتے ہیں:
27
اندر آید تا شود او تاجدار
خود ز شبہِ عیسیٰؑ آمد تاج دار
ترجمہ: وہ (یہودی مخبر) اندر آیا تاکہ (اس کارگزاری کے عوض میں عزت کا) تاج حاصل کرے، مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہم شکل بن جانے سے خود سولی پر چڑھ گیا۔
مطلب: اوپر کے شعر میں اس مخبر کو امیر کہا ہے۔ شاید وہ کوئی صاحبِ حیثیت اور جاگیردار ہو۔ ایسے لوگوں کو عُرفًا امیر کہتے ہیں۔ یا شاید حاکم نے مخبری کے عوض نقد انعام کے علاوہ کوئی عہدہ اور یہودیوں کی کسی جماعت کی سرداری بھی دے دی ہو۔ اس لحاظ سے اس کو امیر کہہ دیا۔ پہلے مصرعہ میں تاجدار سے مراد معزز ہے اور سرکاری دربار میں ایسی جھوٹی عزت عمومًا ان غرض پرست لوگوں کو مل جایا کرتی ہے جو اکابرِ قوم کے خلاف ظالم حکومت کو مدد دیا کرتے ہیں۔ دوسرے مصرعہ میں تاج دار مرکب اضافی ہے۔ بمعنی بالائے دار اس میں تاج بمعنی بالا مراد ہے۔ بطور "تَسْمِیَّۃُ الظَّرْفِ بِاسْمِ الْمَظْرُوْفِ"۔
28
ہِیں میاویزید من عیسیٰؑ نیم
من امیرم بر جہوداں خوش پیم
ترجمہ: (اب وہ مخبر چلاتا چیختا ہے کہ) اے ہے! (مجھ کو) دار پر نہ چڑھاؤ، میں عیسیٰ نہیں ہوں (ارے) میں تو یہودیوں کا سردار ہوں (اور حاکم کی نظر میں ایک) مبارک قدم (آدمی) ہوں (جس کے ذریعے عیسیٰ علیہ السلام کا سراغ ملا)۔
29
زو ترش بردار آویزید کو
عیسیٰؑ ست از دستِ ما تخلیص جو
ترجمہ: ّ(مگر لوگ کہتے ہیں کہ اس کو) جلدی دار پر چڑھاؤ کیونکہ وہ عیسیٰ ہے (اور بہانہ کر کے) ہمارے ہاتھ سے خلاصی چاہتا ہے۔
30
چند لشکر مے رود تا بر خورد
برگِ او برگردد و بر سر خورد
ترجمہ: اسی طرح بہت مرتبہ لشکر کہیں جاتا ہے تاکہ (فتحِ ممالک سے) بہرہ مند ہو، مگر اس کا سامانِ غلبہ انقلاب پذیر ہو جاتا ہے اور وہ دشمن سے الٹا اپنی سرکوبی کرا لیتا ہے (اور مغلوب ہو جاتا ہے۔)
31
چند بازرگاں رود بر بوئے سُود
عید پندارد بسوزد ہمچو عود
ترجمہ: (اسی طرح) بسا اوقات سوداگر نفع کی امید پر (کسی ملک میں) آ جاتا ہے (اور حصولِ نفع کے آنے والے دن کو) عید سمجھتا ہے (مگر اس دن کے آنے سے پہلے) عُود کی طرح جلنے لگتا ہے۔
مطلب: ایسی صورتیں مالِ تجارت کے لٹ جانے یا کشتی کے غرق ہو جانے یا کسی اور آفت یا کسی جنس کا بھاؤ مندا پڑ جانے سے پیش آیا کرتی ہیں، جس میں بعض سوداگر خودکشی کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں 1938ء میں ہردوار پر ہنود کا عظیم الشان میلہ تھا، بازار میں آگ لگ گئی۔ ہندو سوداگروں کا مال خاکستر ہو گیا۔ بعض سوداگر اس صدمہ کی تاب نہ لا کر دریائے گنگا میں کود کر مر گئے۔
32
چند در عالم بود در عکسِ ایں
زہر پندارد بود آں انگبیں
ترجمہ: (بخلاف اس کے) بہت دفعہ دنیا میں اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ (چنانچہ کسی چیز کو کوئی) زہر سمجھتا ہے۔ (حالانکہ) وہ شہد ہوتا ہے۔ (مثلًا ایک دیرینہ بیمار شدت سے تنگ آ کر خودکشی کے قصد سے زہر کھا جاتا ہے جو مہلک مقدار میں نہیں ہوتا اور وہی زہر مرض کے لیے دوا ثابت ہوتا ہے اور مریض شفایاب ہو جاتا ہے۔ ایسے یا اس کے قرب قریب واقعات سنے گئے ہیں۔)
33
بس سپہ بنہاد دل بر مرگِ خویش
روشنیہا و ظفر آید بہ پیش
ترجمہ: بہتیری افواج کو اپنی تباہی کا یقین ہو گیا (کہ اچانک ان کو سلامتی کے) انوار اور فتح مندی (کی چمک) پیش آتی ہے۔
مطلب: جیسے امیر تیمور کو ایک مرتبہ اپنی تھوڑی سی جمعیت کے ساتھ ایک دشمن کی فوجِ گراں کے پنجہ سے بچ نکلنے کا موقع ملا۔ وہ اپنی شکست خوردہ و دل باختہ جماعت کے ساتھ صبح کی تاریکی میں بھاگا تو آ رہا تھا اور اس کے تعاقب میں دشمنوں کا دَل ہر طرف سے مارا مار کرتا آ رہا تھا۔ سوئے اتفاق سے یہ جماعت ایک ایسی وادی میں آ پہنچی جس کے سامنے پہاڑ کا دامن پھیلا ہوا تھا۔ آگے پہاڑ پیچھے دشمن۔ راہِ گریز مسدود تھی اور بچنے کی کوئی آس نہ تھی۔ امیر کو کیا سوجھی کہ فورًا اپنے ہمراہیوں کو حکم دیا کہ گھوڑوں سے اتر کر ان کو میدان میں چھوڑ دیں۔ فوجی نشانات کو چھپا لیں اور سب کے سب چادریں اپنے اوپر تان کر اطمینان کے ساتھ لیٹ جائیں۔ جب دشمن کی فوج پاس سے گزری تو صبح کی روشنی پھیل چکی تھی۔ یہی معلوم ہوتا تھا کہ کوئی قافلہ رات سے سویا پڑا ہے۔ کسی کو بھی یہ شبہ نہ ہوا کہ یہی ہمارے حریفِ میدان ہیں۔ اس کی ایک نظیر ارشاد ہے کہ خوف میں سامانِ جمعیت پیدا ہو جاتا ہے اور وہ آگے پھر ابیاتِ بالا کے اس مضمون کی بھی نظیر ہو سکتی ہے کہ کفار نے اہل اللہ کی تذلیل کا قصد کیا مگر وہ ان کے اعزار کا باعث ہو گیا اور وہ ابرہہ حاکمِ یمن کا قصد ہے جس نے کعبہ کو منہدم کرنے کا قصد کیا تھا مگر اس قصد سے اس کی آن بان کا قصر منہدم ہو گیا اور کعبہ کی عزت اور دو بالا ہو گئی۔ یہ قصہ کئی بار اسی شرح میں گزر چکا ہے۔
34
ابرہہ با پیل بہرِ ذُلِّ بیت
آمدہ تا افگند حَی را چو میت
ترجمہ: (اسی طرح) ابرہہ ہاتھی لے کر کعبہ کو (ڈھانے اور) بے وقعت کرنے کے لیے آیا، تاکہ (بیت اللہ کے) زندہ (خادموں) کو مردوں کی طرح مار گرائے (دوسرے مصرعہ کا یوں ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ "تاکہ اس تعمیر کو جو گویا ایک زندہ وجود ہے ڈھا کر مردے کی طرح گرا دے۔)
35
تا حریمِ کعبہ را ویراں کند
جملہ را ز آنجائے سرگرداں کند
ترجمہ: تاکہ کعبہ کے حریم کو ویران کر دے (اور) سب خادموں اور زائروں کو وہاں سے نکال کر سرگرداں (و پریشان) کرے (جس سے اس کا مقصد یہ تھا نہ کعبہ رہے نہ مکہ زیارت گاہ ہو۔)
مطلب: حریم احاطہ بدیں لحاظ کہ گھر کی حرمت اس سے محفوظ کی جاتی ہے۔ کعبہ شریف کے لیے یہ لحاظ اور بھی مرجّح ہے۔
36
تا ہمہ زوّار گردِ او تنند
کعبۂ او را ہمہ قبلہ کنند
ترجمہ: تاکہ (پھر) تمام (جہان کے) زائرین کعبہ سے مایوس ہو کر اس (کعبہ ڈھانے والے کی طرف رجوع کریں) اور سب اس کے کعبہ کو اپنا قبلہ بنا لیں۔
مطلب: اس بدبخت نے یمن میں ایک کعبہ بنا رکھا تھا اور چاہتا تھا کہ لوگ مکہ کو چھوڑ کر میرے کعبہ کی زیارت کو آیا کریں مگر کسی نے اس کے کعبہ کو نہ پوچھا بلکہ بعض لوگوں نے اس کو آگ لگا دینے کی بھی کوشش کی تو اس کو کچھ انتقامًا اور کچھ اپنے کعبہ کو ترقی دینے کے لیے انتظامًا یہ شیطنت سوجھی۔ اس شعر میں اس کے انتظام کی طرف اشارہ ہے۔ اگلے شعر میں انتقام کی صراحت ہے:
37
وز عرب کینہ کشد اندر گزند
کہ چرا در کعبہ ام آتش زنند
ترجمہ: اور (علاوہ ازیں اس) مار دھاڑ میں عربوں سے انتقام بھی لے کہ کیوں میرے کعبہ میں آگ لگاتے ہیں۔
38
عینِ سعیش عزّتِ کعبہ شدہ
موجبِ اعزازِ آں بیت آمدہ
ترجمہ: تو اس کی بالکل وہی کوشش (جو وہ کعبہ کی بے عزتی کے لیے کر رہا تھا) کعبہ کے لیے باعثِ عزت بن گئی اور اس بیت اللہ کے اکرام کی موجب ثابت ہوئی۔
39
مکیّاں را عزّ یکے بد صد شدہ
تا قیامت عِزِّ شاں ممتدّ شدہ
ترجمہ: (اور اگر بالفرض) مکہ والوں کی عزت (اس سے پہلے) ایک (حصہ) تھی تو (اب) سو (حصہ) ہو گئی (اور) قیامت تک (کے لیے) ان کی عزت پائیدار ہو گئی۔
40
او و کعبۂ او شدہ مخسوف تر
از چہ است ایں؟ از عنایاتِ قدر
ترجمہ: (وہ ظالم خود) اور اس کا کعبہ (اور بھی) زیادہ خاک میں مل گئے۔ یہ کس وجہ سے ہے؟ تقدیرِ الٰہی کی عنایت سے (ابرہہ اور اس کی فوج جب وادیِ مکہ میں تباہ ہوئی تو اس کا بہت بہت سا مال و اسباب اہلِ مکہ کے ہاتھ آیا۔ آگے اس کا ذکر ہے:)
41
از جہازِ ابرہہ خیلِ عرب
گشتہ مستغنی ز فضہ و ذہب
ترجمہ: ابرہہ کے سروسامان (سے) جو چاندی سونے (وغیرہ اموال و اجناس) سے (تھا) جماعتِ عرب مالدار ہو گئی۔ (جماعت عرب سے مراد قریش ہیں کہ وہی متولیِ کعبہ تھے۔ اس مہم میں وہی ابرہہ کی زد پر تھے اور وہی اس کے مالِ غنیمت کے حقدار۔ آگے بھی مولانا لطف و ذوق میں اسی مضمون کو دہرا رہے ہیں:)
42
از جہازِ ابرہہ ہمچوں دوہ
ایں فقیرانِ عرب منعم شدہ
ترجمہ: ابرہہ جو (اپنی خونخواری و مردم آزاری میں) مثل درندہ تھا۔ اس کے سروسامان سے وہ عرب کے محتاج مالدار ہو گئے۔
43
از جہازِ ابرہہ دونِ دنی
ایں فقیرانِ عرب گشتہ غنی
ترجمہ: فقیر و کمینہ ابرہہ کے سروسامان سے یہ عرب کے محتاج غنی ہو گئے۔
44
او گماں بُردہ کہ لشکر مے کشد
بہرِ اہلِ بیتِ او زر مے کشد
ترجمہ: اس کو گمان تھا کہ میں (مکہ پر) لشکر کشی کر رہا ہوں (مگر فی الحقیقت) وہ بیت اللہ والوں کے لیے مال و زر لا رہا تھا۔ (اب آگے تتمیم ہے قصۂ بغدادی کی:)
45
اندریں فسخِ عزائم ویں ہمم
ور تماشا بود در رہ ہر قدم
ترجمہ: (غرض وہ بغدادی جب وطن کو واپس چلا تو) راستے میں ہر قدم پر (اپنے) ان ارادوں کو فسخ کرنے اور (کبھی ازسرِ نو) ارادوں کو مضبوط کرنے) کے مطالعہ میں مصروف تھا۔( یعنی وہ سوچتا تھا کہ میں کس طرح مصر میں خزانہ جوئی کے قصد سے گیا، پھر اس قصد کو فسخ کر کے گھر کی طرف جا رہا ہوں۔)
46
خانہ آمد گنج را او باز یافت
کارش از لطفِ الٰہی ساز یافت
ترجمہ: وہ گھر میں آیا (اور) اس نے (کوتوال کی نشاندہی کے مطابق زمین کو کھودا تو) خزانہ کو پا لیا۔ خداوند تعالیٰ کی مہربانی سے اس کا کام بن گیا۔
47
تا بدانی حکمتِ فردِ حکیم
ایمنی ہا مے نہد در خوف و بیم
ترجمہ: (یہ قصہ ہم نے اس لیے بھی بیان کیا ہے کہ) تاکہ تم (اس خدواندِ) حکیمِ یکتا کی حکمت کو سمجھ جاؤ کہ وہ خوف و خطر میں بہت سے امن (مرکوز) رکھتا ہے (یعنی جس طرح کوتوال پہلے بغدادی کے لیے باعثِ خوف تھا مگر پھر ذریعۂ مراد مندی بن گیا۔ آگے شہزادوں کے قصے کی طرف رجوع ہے:)
48
یادم آمد قصّۂ شہزادگاں
گوشِ ہوش آور بمن بشنو بیاں
ترجمہ: (اب) مجھ کو شہزادوں کا قصہ یاد آ گیا۔ تم اپنا گوش ہوش میری طرف لگاؤ۔ (اور مجھ سے یہ) بیان سنو۔