دفتر 6 حکایت 129: کوتوال کا مسافر کو اپنا خواب سنانا اور خود اس کے گھر میں خزانہ کا پتا بتانا

دفتر ششم: حکایت: 129



گفتنِ عسس خوابِ خود با غریب و نشانِ گنج دادن ہم در خانۂ او

کوتوال کا مسافر کو اپنا خواب سنانا اور خود اس کے گھر میں خزانہ کا پتا بتانا۔“

01

گفت دُزدی و نَے تو فاسقی

مردِ نیکی لیک گول و احمقی

ترجمہ: اس (کوتوال) نے کہا، مجھے یقین ہے کہ نہ تو چور ہے، نہ بدکار ہے (بلکہ) ایک نیک آدمی ہے لیکن سادہ لوح اور احمق ہے۔

02

برخیالِ خواب چندیں رہ کنی

نیست عقلت را تسُوئے روشنی

ترجمہ: تو ایک خواب کی دھن میں اتنا (لمبا) راستہ طے کرتا ہے۔ تیری عقل میں ذرہ بھر روشنی نہیں۔

03

بر خیالے بچنیں راہِ دراز

پیش گیری از سرِ جہل وز آز

ترجمہ: تو (محض) ایک خیال (کی بنا) پر اس قدر لمبی مسافت بے وقوفی اور حرص کی رو سے اختیار کرتا ہے۔

04

بارہا من خواب دیدم مُستَمِر

کہ بہ بغداد ست گنجِ مستتر

ترجمہ: میں نے بارہا لگا تار خواب دیکھا ہے کہ بغداد میں ایک مخفی خزانہ ہے۔

05

در فلاں کوئے و فلاں خانہ دفیں

بود آں خود نامِ خانہ و کُوئے ایں

ترجمہ: جو فلاں محلّہ اور فلاں گھر میں مدفون ہے (اور تماشا یہ کہ) وہ خود اسی (شخص) کے گھر اور محلّہ کا نام تھا (جو اس نے بتایا۔ کوتوال کہتا ہے کہ مجھ سے اسی خواب میں کہا گیا کہ:)

06

ہست در خانہ فلانے رو بجو

نامِ خانہ و نامِ او گفت آں عدُو

ترجمہ: وہ (خزانہ) فلاں گھر میں (گڑا ہوا) ہے۔ جا تلاش کر (اور) اس حریف (کوتوال) نے اسی شخص کے گھر کا نام بتایا۔

انتباہ: عدو بمعنی دشمن مراد نہیں، کیونکہ کوتوال نے اس کے ساتھ کوئی دشمن وار بدسلوکی نہیں کی۔ اور ڈنڈے جو مارے تھے، تو وہ اس کے فرضِ منصبی کا تقاضا تھا نہ کہ کسی ذاتی کینہ و بغض کا۔ بلکہ یہاں عدو سے حریف مراد ہے، اور یہ بدیں لحاظ کوتوال خزانہ کے معاملہ میں اس شخص کا مدِّ مقابل تھا۔ چنانچہ یہ تو خزانہ کا طالب ہے اور وہ اس کا خواب دیکھتا ہے، یہ اس کو پا لیتا ہے اور وہ محروم رہ جاتا ہے۔

07

دیدہ ام خود بارہا ایں خوابِ من

کہ بہ تعداد ست گنجے در وطن

ترجمہ: میں نے خود بارہا یہ خواب دیکھا ہے کہ بغداد میں ایک خزانہ آبادی کے اندر ہے (نہ کہ ویرانہ میں)۔

08

ہیچ من از جا نہ رفتم زیں خیال

تو بیک خوابے بیائی بے ملال

ترجمہ: میں نے (بار بار خواب دیکھ کر بھی) اس خیال پر کبھی (اپنی) جگہ سے (نقل و حرکت) نہیں کی تو (صرف) اک خواب (کے دیکھنے) سے بے تکان دوڑا چلا آتا ہے۔

09

خوابِ احمق لائقِ عقلِ وے است

ہمچو او بے قیمت ست و لاشئے است

ترجمہ: واقعی احمق کا خواب اس کی عقل کے لائق ہوتا ہے۔ اسی (کی حیثیت) کی مانند بے قیمت اور ناچیز (ہوتا) ہے۔

10

خوابِ زن کمتر ز خوابِ مرد داں

از پئے نقصانِ عقل و ضعفِ جاں

ترجمہ: اسی طرح تم عورت کے خواب کو (اس کے) ناقصۃ العقل ہونے اور (اس کی) روحانی کمزوری کے سبب سے مرد کے خواب سے کم رتبہ سمجھو۔

مطلب: حدیث شریف میں آیا ہے "نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَ دِیْنٍ" (صحيحين) ”(عورتوں کی) عقل اور دین دونوں ناقص ہیں“۔ مصرعہ ثانیہ اس حدیث کی طرف تلمیح ہے۔ ان کی روحانی کمزوری کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ صنف نازک میں اولیاء اللہ بہت کم ہوئی ہیں جس کی وجہ یہی ہے کہ ان میں ضبطِ نفس، تحمّلِ ریاضت اور صبر و استقامت نہیں ہوتا جن حصولِ کمالات کے مبادیات کے لیے حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے قبیلہ کی ایک بی بی نے ان سے عرض کیا کہ ہم کو بھی کچھ ذکر و شغل بتا دیجئے۔ انہوں نے فرمایا، تم عورتوں سے یہ کام ہونا مشکل ہے۔ نماز، روزہ وغیرہ فرائض کی پابندی کافی ہے۔ اس بی بی نے اصرار کیا تو فرمایا، اچھا تو پہلے یوں کرو کہ جس قدر کھانا تم ایک وقت کھاتی ہو، اس سے آدھا کم کر دو اور آدھا کھانا کھانے پر اکتفا کیا کرو۔ پھر آگے کوئی اور کام بتایا جائے گا۔ بی بی بولی، یہ تو ہم سے نہیں ہو سکتا۔ حاجی صاحب نے فرمایا، تو پھر تم سے ذکر و شغل بھی نہیں ہونے کا۔

11

خوابِ ناقص عقل و گول آید کساد

پس ز بے عقلے چہ باشد خواب؟ باد

ترجمہ: (جب) ناقص العقل (عورت) اور احمق مرد کا خواب نکما ہوتا ہے (جن میں کچھ نہ کچھ تو عقل ہوتی ہے) تو پھر (تجھ جیسے) بے عقل کا خواب کیا ہو گا؟ (محض) بادِ ہوائی (کوتوال تو اس بغدادی کو ناصحانہ خطاب میں یہ تنبیہ کر رہا ہے مگر بغدادی نے شاید اپنے خزانہ کی دھن میں کوتوال کا ایک لفظ بھی سنا اور سمجھا نہ ہو گا چنانچہ:)

12

گفت با خود گنج در گنجِ من ست

پس مرا آنجا چہ فقر و شیون ست

ترجمہ: اس (بغدادی) نے اپنے جی میں کہا، خزانہ تو (خود) میرے (گھر کے) کونے میں (مدفون) ہے، پھر مجھ کو وہاں کونسی محتاجی اور ماتم (درپیش) ہے۔

13

بر سرِ گنج از گدائی مردہ ام

زانکہ اندر غفلت و در پردہ ام

ترجمہ: (باوجود اس کے کہ) میں (خود) خزانہ کے روبرو (بیٹھا ہوں) پھر گدائی سے مرا جا رہا ہوں، اس لیے کہ میں (اس خزانہ کی طرف سے) غفلت اور پردہ میں ہوں۔

14

زیرِ بشارت مست شد دردش نماند

صد ہزار اطہر زیرِ لب بخواند

ترجمہ: غرض اس بشارت سے وہ مست ہو گیا۔ (اور اس کو صعوبتِ سفر، تمنائے خزانہ اور کوتوال کی زدوکوب کا کوئی) دکھ (یاد) نہ رہا (اور) لاکھوں شکرانے کے کلمات اس نے چپکے چپکے پڑھے۔

مطلب: چپکے پڑھنے سے مقصد یہ تھا کہ کوتوال اس راز سے آگاہ نہ ہو جائے کہ جو محلّہ اور گھر اس نے خواب میں دیکھا تھا اور جس کو اب تک غیر واقعی اور جھوٹا خواب سمجھتا تھا، فی الواقع اس نام کا کوئی محلّہ اور گھر بغداد میں ہے، جس سے ممکن ہے کہ کوتوال کو بھی وہاں خزانہ کے مدفون ہونے کا احتمال ہو جائے اور اس سے کوئی اور جھگڑا بکھیڑا جائے۔

15

گفت بُد موقوف ایں لت لوتِ من

آبِ حیواں بُود در حانوتِ من

ترجمہ: (بغدادی نے اپنے جی میں) کہا میری یہ نعمت لات (اور) گھونسا کھانے پر موقوف تھی۔ آب حیات میری دکان ہی میں تھا۔ (سعدی رحمۃ اللہ علیہ؎)

دلارام در بر دلارام جوئے

لب از تشنگی خشک بر طرف جوئے

16

رو کہ بر لوتِ شِگرِفے بر زدم

کورئیِ آں وہم کہ مفلس بُدم

ترجمہ: (اے نفس گھر کی طرف چل) کہ ایک عجیب نعمت پر میں نے ہاتھ مارا ہے۔ آنکھیں پھوٹیں اس وہم کی کہ میں مفلس تھا (آگے دل ہی دل میں کوتوال کو خطاب کرتا ہے:)

17

خواہ احمق داں و خواہی عاقلم

یافتم ہرچہ کہ می خواہد دلم

ترجمہ: خواہ تم مجھے احمق سمجھو اور خواہ عاقل۔ میرا دل جس کو چاہتا ہے، وہ میں نے پالی۔

18

خواہ احمق داں مرا خواہی فرو

آنِ من شد ہرچہ میخواہی بگو

ترجمہ: خواہ تم مجھ کو احمق کہو یا فرومایہ (کہو وہ خزانہ تو اب) میری ملک ہو گیا۔ تم جو جی میں آئے کہو۔

19

من مرادِ خویش دیدم بے گماں

ہرچہ خواہی گو مرا اے بد دہاں

ترجمہ:بلا شبہ مجھے اپنی مراد نظر آ گئی (اب) اے بد زبان! جو کچھ تیرا جی چاہے، مجھے کہہ لے۔

20

گو مرا پر درد گوے محتشم

پیشِ تو پر درد پیشِ خود خوشم

ترجمہ: اے معزز! خواہ مجھ کو مرض کا مارا کہہ لے۔ تیرے سامنے میں مرض کا مارا ہوں اور اپنے نزدیک چنگا بھلا ہوں (کوتوال اس کو بے عقلی و بے وقوفی کے عوارض میں مبتلا کہہ چکا ہے۔)

21

وائے گر برعکس بودے ایں مطار

پیشِ تو گلزار و پیشِ خویش خوار

ترجمہ: بڑا افسوس ہوتا اگر یہ پروازِ (فکر) کا موقع برعکس ہوتا (یعنی) تیرے نزدیک میں فضائل کام گلزار (ہوتا) اور خود اپنی نظر میں فضائل سے خالی اور ذلیل ہوتا۔

مطلب: یعنی شکر ہے کہ تو غلط فہمی سے مجھے بے عقل سمجھ رہا ہے اور میں بفضلِ خدا عقل سے بے بہرہ نہیں ہوں لیکن اگر اس کے برعکس تو خلافِ واقعہ مجھ کو عاقل سمجھتا۔ حالانکہ مجھ میں اپنے اندر عقل و فہم کا کوئی شمہ نظر نہ آتا تو قابلِ افسوس بات ہوتی۔ کیونکہ اس سے میں بھی غلط فہمی میں پڑ جاتا اور اپنی عقل کے غرور سے دوسرے عقلاء کی بات پر عمل نہ کرتا۔ اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہاں اپنے فضائل کی رو سے استحضار کی تعریف کی گئی ہے جو باعثِ عُجب و غرور ہے اور تواضع و کسر نفسی کے خلاف ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ "من آنم کہ من دانم"۔ میں اچھا ہوں یا برا، اپنے آپ کو خود جانتا ہوں۔ پس کسی کا واقعیت سے زیادہ مجھ کو حقیر سمجھنا مجھے مغموم نہیں کر سکتا۔ آگے اس کی ایک مثال ہے:

22

با فقیرے گفت روزے یک خسے

کہ ترا اینجا نمے داند کسے

ترجمہ: ایک روز کسی فقیر سے ایک کمینے نے کہا (ارے) تجھے یہاں کوئی نہیں جانتا۔

23

گفت او گر مینداند عامیم

خویش را من نیک میدانم کیم

ترجمہ: اس نے جواب دیا کہ اگر عام آدمی مجھے نہیں جانتا تو (کیا پروا ہے) میں (خود) اپنے آپ کو بخوبی جانتا ہوں کہ میں کون ہوں۔

24

وائے گر برعکس بودے درد و ریش

او بدے بینائے من، من کور خویش

ترجمہ: افسوس (تو جب تھا کہ) اگر دکھ اور زخم اس کے برعکس ہوتا (یعنی وہ میرے احوال کے) متعلق بینا ہوتا (اور میں اپنے احوال) سے بے بصر ہوتا۔

مطلب: کیونکہ اس صورت میں نہ اپنے معائب سے آگاہ ہو کر ان کی اصلاح کر سکتا اور نہ اپنے فضائل و کمالات کے کسی درجہ سے مطلع ہو کر اگلے درجہ کی ترقی کے لیے کوشش کر سکتا، وہی کنویں کا مینڈک بنا رہتا۔

25

احمقم گیر احمقم من نیک بخت

بخت بہتر از لجاج و روئے سخت

ترجمہ: (اجی کوتوال صاحب!) تم مجھ کو احمق ہی سمجھ لو (چلو) میں احمق ہی سہی (مگر) خوش نصیب تو ہوں۔ نصیب خصومت اور ترشروئی سے بہتر ہے۔

مطلب: اگر اب میں اپنی عقل کا ثبوت دینے اور تمہارے الزام کی تردید کرنے کے لیے بحث کروں تو اس بحث اور تکرار سے کیا فائدہ ہو گا۔ میں عاقل ہوں یا بے عقل بہر حال خزانہ پانے کی وجہ سے خوش نصیب تو ہوں۔ تم جیسے عاقلوں سے ہزار درجہ بہتر ہوں جو خزانہ کا خواب دیکھتے دیکھتے اس سے بے بہرہ رہے اور میں نے اس کو پا لیا۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ؎

کیمیا گر بمردِ غصہ و رنج

ابلہ اندر خرابیہ یافتہ گنج

26

ایں سخن بر وفقِ ظنت مے جہد

ورنہ بختم دادِ عقلم مے دہد

ترجمہ: یہ (اپنی بے عقلی کا) اعتراف (میری زبان سے بطورِ طنز) تیری بد گمانی کے موافق نکل رہا ہے، ورنہ میری خوش قسمتی تو میری عقل کی داد دے رہی ہے۔