دفتر 6 حکایت 127: اس حدیث کے بیان میں کہ سچائی اطمینانِ (قلب کا باعث) ہے اور جھوٹ شک (پیدا کرنے والا ہے)

دفتر ششم: حکایت: 127



در بیانِ حدیث (اَلصِّدْقُ طَمَانِیْنَۃٌ وَ الْکِذْبُ رِیْبَۃٌ)

”اس حدیث کے بیان میں کہ سچائی اطمینانِ (قلب کا باعث) ہے اور جھوٹ شک (پیدا کرنے والا ہے)“

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے امام حسن رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا ہے: ﴿دَعْ مَا یُرِیْبُکَ فَاِنَّ الصِّدْقَ طَمَانِیْنَۃٌ وَ الْکِذْبَ رِیْبَۃٌ﴾ یعنی ”جو بات تم کو شک میں ڈالے، اس کو چھوڑ کر ایسی بات اختیار کرو جو بات تم کو شک میں نہ ڈالے کیونکہ سچائی اطمینان کا باعث ہے اور جھوٹ شک (پیدا کرنے والا) ہے۔“ (منہج) یہی حدیث انہی الفاظ کے ساتھ جامع صغیر سیوطی میں امام احمد اور ابن حبان رحمہما اللہ سے مروی ہے۔

1

دل بیارامد از گفتارِ صواب

آنچنانکہ تشنہ آرامد بآب

ترجمہ: دل سچی بات سے اطمینان پاتا ہے جس طرح پیاسا پانی سے راحت پاتا ہے۔

2

جز دلِ محجوب کو را علتے ست

از نبی اش تا غبی تمییز نیست

ترجمہ: سوائے محجوب کے دل کے جس میں کوئی خرابی ہے، جس کو نبی اورغبی میں تمیز نہیں۔

مطلب: یعنی صدق و راستی کی یہ خصوصیت ہے کہ اس سے دل مطمئن ہو جاتا ہے۔ بشرطیکہ دل میں قبولِ صدق کی صلاحیت ہو، لیکن اگر دل پر معاصی کی ظلمات کا حجاب پڑا ہو تو اس میں یہ صلاحیت نہیں ہو سکتی۔ ایسا قلب نور و نار میں اور اخیار و اشرار میں حسًّا بھی کچھ تمیز نہیں کر سکتا۔ چہ جائیکہ امورِ غیر محسوس کے متعلق راست گوئی سے مطمئن ہو۔

3

ورنہ آں پیغام کز موضع بود

برزند بر مہ شگافیدہ بود

ترجمہ: ورنہ (اگر قلب محجوب نہ ہو تو پھر) جو پیام (اور مضمون) کہ (اصلی) مقام سے ہو، وہ چاند پر بھی اثر کرتا ہے (اور) وہ (اس کے اثر سے) شق ہو جاتا ہے۔ (اصلی مقام سے ہونے کا مطلب یہ ہےکہ سچائی کےمطابق واقع ہو)۔

4

مہ شگافد واں دلِ محجوب نے

زانکہ مردود ست او محبوب نے

ترجمہ: (اور وہ) چاند تو (اس سے) شق ہو جاتا ہے مگر قلبِ محجوب (متاثر) نہیں ہوتا کیونکہ وہ (قلبِ محجوب) مردود ہے، محبوب نہیں ہے۔

مطلب: پس وہ قلبِ مردود ہو جانے سے فاسدُ الاِدراک ہو گیا۔ چاند سے مراد اگر قلبِ منور ہے تو مطلب ظاہر ہے۔ اگر چاند بمعنی حقیقی مراد ہے تو یہ حکم دائمی نہیں بلکہ بعض اوقات اعتبار سے ہے۔ جیسے حضور صلّی اللہ علیہ وسلّّم کا دعوٰیِ نبوت صادق تھا اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلّّم کے صدق کے اظہار کے لیے اللہ تعالیٰ نے چاند کو منشق کر دیا اور قلوبِ کفار متاثر نہ ہوئے۔ اور اس انشقاقِ قمر میں آپ کے صدق کو متاثر کہنا اس طرح ہو سکتا ہے کہ آپ کا دعوٰی سبب ہو گیا حق تعالیٰ سے اس معجزہ کی درخواست کا اور وہ درخواست سبب ہوئی اس معجزے کے ظہور کی، اور سبب کا سبب ہوتا ہے۔ پس دعوائے نبوت سببِ مؤثر فی الانشقاق ہو گیا (کلید) چونکہ اس مسافرِ بغدادی کی بات سچی تھی اور کوتوال میں قبولِ حق کی استعداد باقی تھی، اس لیے بغدادی کی یہ بات سن کر:

5

چشمہ شد چشم عسس ز اشک مُبِل

نے گفت خشک بل از بوئے دل

ترجمہ: (اس) عسس کی آنکھ (گریبان کو) تر کر دینے والے آنسوؤں سے چشمہ (کی مانند جاری) ہو گئی (اس پر یہ اثر بغدادی کے) خشک لفظوں سے نہیں بلکہ (اس کی) بوئے دل سے (ہوا۔ آگے یہ بیان فرماتے ہیں کہ مختلف کلاموں میں طمانیت و ریبت کے علاوہ اور بھی آثار ہوتے ہیں:)

6

یک سخن از دوزخ آید سوئے لب

یک سخن از شہرِ جاں در کوئے لب

ترجمہ: ایک بات دوزخ (نفس) سے لب کی طرف آتی ہے (اور) ایک بات شہرِ جان کے (بہشت) سے لب کے کوچہ میں پہنچتی ہے (یعنی کسی بات کا منشا نفس ہوتا ہے اور کسی کا روح، اور ہر ایک کا جدا اثر ہوتا ہے۔ جس میں سے ایک اثر طمانیت یا ریبت بھی ہے۔)

7

بحرِ جاں افزا و بحرِ پُر حَرَج

درمیان ہر دو بحر ایں لب مَرْج

ترجمہ: (پس ایک کلام تو جس کا منشا روح ہے۔ گویا) بحرِ جاں افزا (کہ طمانیت وغیرہ آثارِ محمودہ کا مورث ہے) اور (ایک کلام جس کا منشا نفس ہے گویا) بحرِ پُر حرج ہے اور ریبت وغیرہ آثارِ مذمومہ کا مورث ہے اور ان دونوں بحروں کے درمیان یہ لب ان کے جاری ہونے کا مقام ہے)۔

مطلب: مرج کے لفظ میں آیتِ مذکورہ کے فرمان میں دو قسم کے شیریں و شور اور دریاؤں کے جاری کرنے کا ذکر کلمۂ مرج کی طرف تلمیح ہے۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے ﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ﴾ (الرحمن: 19) فرمایا ہے۔ اسی طرح یہاں روحانی و نفسانی کلام گویا دو دریا ہیں۔ ایک شیریں اور دوسرا شور۔ اور لب جن پر سے یہ دونوں قسم کے کلام گزرتے ہیں، گویا وہ زمین ہے جو مرجِ بحرین کا محل ہے۔ چنانچہ لب کی تشبیہ کو آگے واضح فرماتے ہیں:

8

بحرِ جان افزا و بحرِ عمر کاہ

ہر دو آں لب گذر دارند و راہ

ترجمہ: جان کو افزائش بخشنے والا دریا، اور عمر کو کم کرنے والا دریا دونوں کے دونوں لب پر گزرتے اور جاری ہوتے ہیں (لیکن جس طرح دونوں قسم کے شیریں اور شور دریاؤں کے ذائقہ کو اہلِ ذوق پہچان لیتے ہیں، اسی طرح ان دونوں کلاموں کی خوبی و خرابی کو اربابِ تمیز شناخت کرتے ہیں۔ آگے مثال ہے لبوں پر مختلف کلاموں کے آنے کی۔)

9

چوں ینپلو درمیانِ شہرہا

از نواحی آمد آنجا بہرہا

ترجمہ: جیسے شہروں کے درمیان منڈی (ہوتی ہے) جہاں اطراف (و جوانب) سے قسم قسم (کے مال) آتے ہیں۔

10

کالۂ محبوب و قلبِ کیسہ بُر

کالۂ پُر سُود مستشرق چو دُر

ترجمہ: (بظاہر دل لبھانے والا اور درحقیقت) کھوٹا (مال بھی آتا ہے) جو (گویا خریدار کی) جیب کترنے والا ہے (اور) پر نفع اور موتی کی طرح چمکیلا مال (بھی آتا ہے جس کے خریدنے میں کوئی نقصان نہیں۔)

11

زیں ینپلو ہر کہ بازرگاں ترست

بر سرہ و بر قُلب ہا دیدہ ورست

ترجمہ: اس منڈی (والوں) میں سے جو شخص زیادہ (ماہر سوداگر) وہ خالص اور ناخالص مال کا فرق پہچاننے والا ہے۔

12

شد ینپلو مرد را دارالرباح

واں دگر را از عمٰے دارالجُناح

ترجمہ: اس (مبصر سوداگر) کے لیے تو یہ منڈی نفع بخش ہے اور دوسرے غیر مبصر کے لیے عدمِ بصیرت کی وجہ سے تقصیرِ تجارت کی جگہ ہے۔

13

ہر یکے ز اجزائے عالم یک بیک

ہر غبی بندست و بر اُستاد فک

ترجمہ: (اور مفید و مضر ہونا صرف کلام یا تجارت میں منحصر نہیں بلکہ) اجزائے عالم میں ہر چیز ایک ایک کر کے غبی کے لیے قید (و گرفتاری) ہے اور ماہر کے لیے آزادی (کامیابی) ہے۔ (مثلًا ایک شخص ان اجزائے عالم کے تعلق میں خداوند تعالیٰ سے دور ہو گیا اور دوسرا انہی اجزا کو مظہر سمجھ کر خدا تعالیٰ کا مقرب ہو گیا)۔ (کلید)

14

بر یکے قندست و بر دیگر چو زہر

بر یکے لطف ست و بر دیگر چو قہر

ترجمہ: (پس ایک چیز ہی) ایک شخص پر قند ہے اور دوسرے (شخص) پر گویا زہر ہے۔ ایک کے لیے لُطف ہے، دوسرے کے لیے گویا قہر ہے۔

15

بر یکے دیوست و بر دیگر چو حُور

بر یکے نارست و بر دیگر چُو نور

ترجمہ: ایک شخص (گمراہ کرنے) کے لیے (بمنزلہ) شیطان ہے اور دوسرے کو راحتِ ایمانی بخشنے کے لیے مثلِ حور (ہے) ایک کے لیے (موجبِ عذاب) آتش ہے اور دوسرے کے لیے گویا نورِ ہدایت ہے۔

16

بر یکے گنج ست و بر دیگر چو مار

بر یکے وردست و بر دیگر چو خار

ترجمہ: ایک کے لیے (فوائد کا) خزانہ ہے اور دوسرے کے لیے گویا (مضرت رساں) سانپ ہے۔ ایک کے لیے فرحت بخش پھول ہے اور دوسرے کے (خلش پیدا کرنے والے) کانٹے کی مانند ہے۔

17

بر یکے شیریں و بر دیگر ترش

بر یکے مبہوت و بر دیگر چو ہُش

ترجمہ: ایک کے لیے شیریں ہے اور دوسرے کے لیے ترش (ہے) ایک کے لیے حیران کن(مدہوش) ہے اور دوسرے کے لیے مثل ہوش (ہے)۔

18

بر یکے پنہاں و بر دیگر عیاں

بر یکے سودست و بر دیگر زیاں

ترجمہ: ایک پر پوشیدہ ہے اور دوسرے پر نمایاں۔ ایک کے لیے نفع (بخش) ہے اور دوسرے کے لیے نقصان (رساں)۔

19

بر یکے بندست و بَر دیگر کشاد

بر یکے قیدست و بر دیگر مراد

ترجمہ: ایک پر رکاوٹ ہے اور دوسرے پر کشایش۔ ایک پر قید ہے اور دوسرے پر (آزادی) مراد مندی۔

20

بر یکے خوش ست و بر دیگر چو نیش

بر یکے بیگانہ بر دیگر چو خویش

ترجمہ: ایک پر شہد ہے اور دوسرے پر (شہد کی مکھی کا) ڈنگ۔ ایک کے لیے بیگانہ ہے اور دوسرے کے لیے قرابت داری کے مانند۔

21

بر یکے نقص است و بر دیگر کمال

بر یکے ہجرست و بر دیگر وصال

ترجمہ: ایک کے لیے نقص ہے اور دوسرے کے لیے کمال، ایک کے لیے ہجر اور دوسرے کے لیے وصال۔

22

بر یکے روزست و بر دیگر چو شب

بر یکے عیش ست و بر دیگر تعب

ترجمہ: ایک کے لیے دن ہے اور دوسرے کے لیے رات۔ ایک کے لیے آسودہ زندگی ہے اور دوسرے کے لیے مشقت۔

23

بر یکے محبوب و بر دیگر عدو

بر یکے راح ست و بر دیگر کدو

ترجمہ:ایک کے لیے دوست ہے اور دوسرے کے لیے دشمن، ایک کے لیے شراب ہے اور دوسرے کے لیے (خالی) کدو (اگلے زمانے میں شراب کدو میں ڈال کر رکھتے تھے)۔

24

بر یکے آب ست و بر دیگر چوں خوں

بر یکے اعجاز و بر دیگر فسوں

ترجمہ: ایک پر پانی ہے اور دوسرے پر مثلِ خوں۔ ایک پر معجزہ ہے اور دوسرے پر جادو۔

مطلب: جیسے دریائے نیل کا پانی قبطیوں کے لیے خون بن گیا تھا اور بنی اسرائیل کے لیے وہی پانی کا پانی تھا، اور انبیاء علیہم السّلام کا معجزہ مومن کی نظر میں معجزہ ہے اور کافر اسے جادو ٹھہراتا ہے۔

25

بر یکے حلوہ و بر دیگر چو سم

بر یکے سنگ ست و بر دیگر صنم

ترجمہ: ایک پر حلوہ ہے اور دوسرے پر مثل زہر (ہے)، ایک کے نزدیک پتھر ہے اور دوسرے کے لیے قابلِ پرستش بت (ہے)۔

26

بر یکے جسم ست و بر دیگر چو رُوح

بر یکے حبس ست و بر دیگر فتوح

ترجمہ: ایک پر جسم ہے اور دوسرے پر مثل روح ہے۔ ایک پر بندش ہے اور دوسرے پر کشادہ دلی۔

27

بر یکے تیرست و بر دیگر کمان

بر یکے نان ست و بر دیگر سنان

ترجمہ: ایک کے لیے تیر ہے (جو اس کے آ کر لگتا ہے) اور دوسرے کے لیے کمان ہے (جس سے وہ دوسرے کے تیر مارتا ہے۔) ایک کے لیے روٹی ہے (جس سے اس کا پیٹ بھرتا ہے۔) دوسرے کے لیے نیزہ (جس سے اس کا پیٹ چِھد جاتا ہے)۔

انتباہ: یہاں تک ایک ہی چیز کسی ایک شخص کے لیے مفید اور دوسرے کے لیے مضر ہونے کا ذکر بطورِ عموم و کلیت تھا۔ آگے اس کی چند خاص جزئیات کا ذکر بطور مثال فرماتے ہیں:

28

ہر جمادے با نبی افسانہ گو

کعبہ با حاجی گواہ و نطق جو

ترجمہ: (اسی طرح) ہر بے جان چیز (عام آدمی کے لیے خاموش اور) نبی کے ساتھ متکلم ہے (اس میں جماد میں سے ایک) کعبہ( بھی ہے کہ وہ قیامت کے روز) حاجی کے لیے گواہ اور ناطق ہو گا (اور جن کو اس سے تعلق نہیں، ان کے لیے شافع و ناطق نہ ہو گا۔)

29

بر مصلّی مسجد آمد ہم گواہ

کہ ہمے آمد بمن از دور راہ

ترجمہ: (اسی طرح) مسجد بھی نمازی کے حق میں گواہ ہو گی کہ وہ دور راستے سے میری طرف آتا (اور نماز پڑھتا) تھا (بے نمازی کے لیے وہ گواہی نہ دے گی)۔

30

بر خلیلؑ آتش بود ریحان و ورد

لیک بر نمرود آں مرگ ست و درد

ترجمہ: (اسی طرح) حضرت خلیل علیہ السلام پر آگ پھولوں کا باغ بن گئی لیکن (وہی آگ) نمرود کے لیے (ابدی) موت و عذاب (کا باعث) ہے۔

31

بارہا گفتیم ایں را اے حسن

مے نگردم از بیانش سیر من

ترجمہ: اے اچھے (مخاطب) ہم نے اس مضمون کو بارہا بیان کیا ہے (مگر چونکہ) اس کے بیان سے میں سیر نہیں ہوتا (اس لیے اس کو بار بار بیان کرنے لگتا ہوں)۔

مطالب: یہ بطور دفعِ دخل مقدر فرمایا، یعنی ممکن ہے کوئی سوال کرے کہ یہ مضمون بارہا پیچھے گذر چکا ہے۔ چنانچہ دفتر اول میں بھی تفسیر ِآیت ﴿مرج البحرین۔۔۔﴾ کے زیرِ عنوان اسی قسم کا مضمون ارشاد فرما چکے ہیں۔ لہٰذا جواب دیتے ہیں کہ تم کو بے رغبتی کی وجہ سے اس مضمون کے تکرار سے ملال ہوتا ہے لیکن میں اس سے سیر نہیں ہوں، اس لیے مجھے یہ تکرار برا معلوم نہیں ہوتا بلکہ ہر مرتبہ اس کا تازہ لطف محسوس ہوتا ہے۔ چنانچہ تم کو بھی جو چیزیں مرغوب ہیں، تم ان کا تکرار بلا ملال کرتے ہو۔ مثلًا:

32

بارہا خوردی تو نان دفعِ ذبول

ایں ہماں نان ست چوں نبوی مَلُول

ترجمہ: تم (بھوک کی) پژمردگی دور کرنے کے لیے بار بار روٹی کھاتے ہو۔ یہ وہی روٹی ہے (جو روز کھاتے ہو) پھر اس سے ملول کیوں نہیں ہوتے؟

33

در تو جُوعے میرسد نو ز اعتدال

کہ ہمے سوزد از تخمہ و ملال

ترجمہ: (اس کی وجہ یہ ہے کہ) تمہارے اندر اعتدال (مزاج) کی بدولت ایک تازہ بھوک پیدا ہو جاتی ہے جس کے سبب سے (وہ) بدہضمی اور سیری (جو بار بار وہی کھانا کھانے سے پیدا ہونی ممکن تھی) فنا ہوتی رہتی ہے۔

34

ہر کرا دردِ مجاعت نقد شد

نَو شدن با جزو جزوش عقد شد

ترجمہ: (اور) جس شخص کو بھوک کا دکھ بالفعل (عارض) ہو گیا (ہمیشہ کی معمولی غذا کا) نئی بن جانا اس کے عضو عضو کے ساتھ وابستہ ہو گیا۔

35

لذت از جوع ست نے از نُقلِ نو

با مجاعت از شکر بہ نانِ جو

ترجمہ: کھانے کی لذت بھوک سے ہے نہ کہ نئی غذا سے۔ بھوک کے ساتھ تو جو کی روٹی (بھی اس) شکر سے بہتر (معلوم ہوتی) ہے (جو بھوک کے بدون کھائیں۔ حالی مرحوم؎)

کھانے تو بہت میسر آئے ہیں ہمیں

جو دیکھ کے چکھ کے دل سے بھائے ہیں ہمیں

پر سب سے لذیذ تھے وہ کھانے اے بھوک

جو تو نے کبھی کبھی کھلائے ہیں ہمیں

سعدی؎

کوفتہ بر سفرۂ من گو مباش

گرسنہ را نانِ تہی کوفتہ است

36

پس ز بے جوعی ست وز تخمہ تمام

آں ملالت نے ز تکرار کلام

ترجمہ: پس معلوم ہوا کہ تمہارا (اعادۂ مضمون سے وہ ملول ہونا) بالکلیہ بھوک نہ ہونے اور بدہضمی سے ہے، نہ کہ تکرارِ کلام سے (اور نہ ہر جگہ تکرار موجبِ ملال ہوتا ہے، حالانکہ تم کو ہر چیز کے تکرار سے ملال نہیں ہوتا۔ اس کی اور مثال سنو:)

37

چوں ز دکّان و مُکِیس و قیل و قال

در فریب مردست ناید ملال

ترجمہ: تم کو دکان (تجارت) سے اور (خریداروں کو تنگ پریشان) کرنے سے اور (سارا دن) جھک جھک کرنے سے (جو) لوگوں کو پھسلانے میں (کیا کرتے ہو) ملال نہیں آتا۔

38

چوں ز غیبت و اکلِ لحمِ مردماں

شصت سالت سیرئے نامد ازاں

ترجمہ: (اور لوگوں کی) غیبت کرتے اور لوگوں کا گوشت کھاتے کھاتے ساٹھ سال تک اس سے تم کو سیری نہ ہوئی۔

مطلب: لوگوں کا گوشت کھانا کنایہ ہے۔ ان کی غیبت کرنے سے اس آیت کی بنا پر: ﴿وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ۔۔۔﴾ (الحجرات: 12) ”اور تم ایک دوسرے کے پیٹھ پیچھے برا نہ کہو، بھلا میں تم سے کوئی یہ گوارا کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے۔ یہ تو یقینًا، تم کو گوارا نہیں۔“ یہاں ایک عجیب نکتہ ہے، وہ یہ کہ مولانا اس الزامی جواب میں انسان کے ان افعالِ مکروہ کا ذکر رہے ہیں جو طبعًا یا عادۃً تقریبًا سب سے صادر ہوتے رہتے ہیں۔ طبعی افعال جیسے اکل و شراب اور عادی افعال جیسے بیع و شرا میں جھک جھک کرنا۔ پس غیبت کو ان شانوں میں لانا اس بات پر شاہد ہے کہ اس میں بھی تقریبًا سب لوگ کسی نہ کسی حد تک مبتلا ہیں۔ اس بنا پر یہاں مولانا کا ہر شخص سے خطاب صحیح ہو سکتا ہے، بخلاف اس کے دیگر معاصی مثل زنا، قمار، قتل وغیرہ کہ یہ نہ عام لوگوں سے صادر ہوتے ہیں، نہ افعالِ مکروہِ عادیہ میں اس کی مثال لائی جا سکتی ہے۔ نہ مولانا ان کے الزامی ذکر سے عام خطاب فرما سکتے ہیں۔ پس اس سے معصیتِ غیبت کی ہمہ گیری اور اس کے وسیع ابتلاء سے قیاس کرنا چاہیے۔ "اَللّٰھُمَّ احْفَظْ مِنْ آفَاتِ اللِّسَانِ۔" "شصت سال" سے مراد ساری عمر ہے۔ یعنی ساری عمر تو غیبت سے باز نہ آیا۔ کیونکہ اکثر لوگ اس عمر تک پہنچتے ہیں۔

39

شعرہا در عشقِ قحبہ گفتہ تو

بے ملالت ہمچو گل بشگفتہ تو

ترجمہ: (اور لو) تم نے بہت سے اشعار بدکار عورتوں کے عشق میں کہے ہیں، اور بلا ملال (اس شعر گوئی سے) تم شگفتہ رہے ہو۔

40

مدحہا در صیدِ شلّہ گفتہ تو

بے ملالی بارہا بشگفتہ تو

ترجمہ: تم نے بہت سے تعریفی اشعار (کسی عورت کی) شرمگاہ کو قابو میں لانے کے لیے کہے ہیں، اور بلا ملال بارہا (اپنی اس طبعِ موزوں سے) تم شگفتہ ہوئے ہو۔

41

بار آخر گوئیش سوزاں و چُست

گرم تر صد بار از بارِ نخست

ترجمہ: پھر دوسری بار وہی (مدحیہ) اشعار اور زیادہ پُرسوز اور چست کہتے ہو (اور) پہلی بار سے سو گنا سرگرم ہو کر (کہتے ہو)۔

مطلب: غزل گوئی کا ابتلاء بھی ان لوگوں میں عام دیکھا گیا ہے جن کی طبیعتوں میں حسن پسندی کے ساتھ موزونیتِ کلام کا ملکہ جمع ہو، حتٰی کہ بعض اہلِ علم اور اربابِ تقوٰی کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے آخر عمر میں متنبہ ہو کر اپنے عہدِ شباب کے ان مشاغل سے جو گویا عہدِ جاہلیت کے اعمال تھے، استغفار کی اور غزلیات کے دیوان کو تلف کر دیا۔ اور لیجئے:

42

درد داروئے کہن را نو کند

درد ہر شاخِ ملولی خَو کند

ترجمہ: مرض پرانی دوا کو جدید بنا دیتا ہے۔ مرض ملال کی ہر شاخ کو قطع کر دیتا ہے۔

مطلب: مریض کو جس دوا سے فائدہ محسوس ہو، خواہ وہ کوئی ناگوار جوشاندہ ہو یا تلخ یا تیز مکسچر ہو یا بدمزہ معجون ہو، اس کے کھانے پینے سے کبھی ملول نہیں ہوتا، تو گویا بیماری نے اس کا یہ ملال دور کر دیا۔ اگر بیماری نہ ہوتی تو وہ کبھی ان چیزوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا۔ آگے مولانا مرضِ ظاہر سے دردِ باطن کے ذکر کی طرف انتقال فرماتے ہیں۔ ظاہر مرض میں تو علاج سے ملال نہ تھا، یہاں خود درد سے ملال نہیں اور علاج کی پروا نہیں:

43

کیمیائے نو کنندہ دردهاست

کہ ملولی آں طرف کو درد خاست

ترجمہ: (پرانی چیزوں کو) نئی بنانے والی کیمیا (باطن کے) درد ہیں (پس) جہاں درد پیدا ہوا، وہاں سیری و ملولی کہاں۔ (صاحب سما؎)

گر بدرد و داغ روز افزونِ خود قانع شویم

برگِ عیش آمادہ تا روزِ جزا داریم ما

44

ہیں مزن تو از ملولی آہ سرد

درد جُو و درد جُو و درد درد

ترجمہ: خبردار! تم (درد سے) ملول ہونے کی وجہ سے آہِ سرد نہ کھینچو (بلکہ) طلبِ درد کرو۔ درد طلب کرو۔ درد۔ درد۔

امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ؎

چاشنیِ دردِ دل آنکس کہ بشناسد مقش

بروں مجروح خود مرہم شناسد نیش را

صائب رحمۃ اللہ علیہ؎

ہیچ آہ صائب بحق نزدیک تر از درد نیست

از طبیباں می کند پرہیز آں بیمارِ ما

وَ لَہٗ ؎

ما حوصلۂ درد نداریم وگرنہ

ہر درد کہ قسمت شود از غیب دوائیست

حافظ رحمۃ اللہ علیہ؎

عاشقِ یارم مرا با کفر و با ایماں چہ کار

تشنۂ دردم مرا با وصل و ہجراں چہ کار

اور چونکہ عادۃً مدد طلب پیدا ہونے کا وسیلہ شیخِ کامل کی محبت ہے اور ایسے شیخ کی تلاش میں دھوکے کا امکان ہے کہ بعض اوقات کسی ناقص کو کامل سمجھ کر اس سے رجوع کر بیٹھتے ہیں۔ اس لیے آگے اس دھوکا سے بچنے کی ہدایت فرماتے ہیں:

45

خادعِ درد اند درمانہائے ژاژ

رہزنند و زر ستاناں رسمِ باژ

ترجمہ: بیہودہ معالجاتِ درد (و مرض) کے دھوکا دینے والے ہیں۔ (ایسے معالجہ کے مدعی) رہزن ہیں اور برسمِ خراج روپیہ بٹورنے والے ہیں۔

مطلب: جس طرح مرضِ ظاہر کا علاج کسی گرسنہ چشم نیم حکیم سے کرانا بالکل دھوکا کھانا ہے کہ اس سے اضاعتِ مال اور ازدیادِ مرض بلکہ موت کا احتمال ہے۔ اسی طرح دردِ باطن پیدا کرنے کے لیے کسی شیخ ناقص و مزوّر کی طرف رجوع کرنا سخت غلطی ہے کہ اس کی صحبت کی نحوست سے عارضۂ قلب کے زائل اور درد طلب کے پیدا ہونے کے بجائے اور بھی ظلمتِ باطن اور قسوتِ قلب کے چھا جانے کا اندیشہ ہے۔

نگاہ دار خدایا مدام جامؔی را

ز شرِ رزقِ ریا پیشگان ازرق پوش

مولانا نے معالجۂ باطن کے مدعیوں کی تشبیہ مدعیانِ طبِ ظاہری سے دی ہے۔ بمقتضائے مقام و افادہ عام کے یہاں ان مدعیانِ طبِ ظاہری کے متعلق چند کلمات حوالۂ قلم کرنے ضروری معلوم ہوتے ہیں۔ اگرچہ مقاصدِ کتاب سے ذرا دور جانا پڑتا ہے۔ یہ لوگ حکماء و اطباء کے لباس میں گویا رہزنوں کا ایک گروہ ہے کہ خلق اللہ کی جان و مال پر ڈاکا ڈالتا پھرتا ہے۔ اس گروہ کی ترکتاز زیادہ تر دیہات کے بھولے بھالے لوگوں پر ہوتی ہے۔ کبھی وہ شہروں میں اپنا جال بچھاتے ہیں، اور بعض غرض مند عاقل بھی ان کے دامِ فریب میں پھنس جاتے ہیں۔

اس قماش کے بھوکے نیم حکیم کی چند مخصوص عادات ہوتی ہیں۔ بیمار یا تیماردار جو شفایابی کی دھن میں پس و پیش سے بالکل غافل ہوتا ہے، ان عادات کو بطورِ علامات ملحوظِ خاطر رکھ کر ان کی گرفت سے بچ سکتا ہے۔ (1) ایسے حکیموں کے پاس کسی مشہور طبی درسگاہ کی سند نہیں ہوتی، نہ وہ کسی نامی گرامی طبی خاندان کے فرد ہوتے ہیں۔ (2) وہ دینی و دنیاوی علوم میں کوئی معتد بہ پایہ نہیں رکھتے۔ (3) ان کے قول و فعل میں عمومًا مبالغہ، تضاد اور جھوٹ پایا جاتا ہے۔ (4) وہ اپنی دوا کی تعریف خود اپنے منہ سے نہایت مبالغہ کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ (5) وہ اپنی دوا کے گذشتہ کامیاب تجربوں کے قصے سنایا کرتے ہیں (6) وہ اپنے سابقہ زیرِ علاج و شفایاب مریضوں سے معقول نذرانے اور گراں بہاں انعام پانے کا ذکر کیا کرتے اور ان کی نگاہِ تجسس بیمار کی نبض سے پہلے اس کی جیب کی طرف جاتی ہے۔ (8) وہ یا تو نہایت خوش پوش لباس بوٹ سوٹ سے مزین ہوتے ہیں یا فقیرانہ لباس و ہیئت رکھتے ہیں۔ (9) وہ اپنے بیمار یا تیمار دار سے نہایت خوشامدانہ اور میٹھی باتیں کیا کرتے ہیں۔ بعض اس کے برعکس استغناء و بد دماغی سے پیش آیا کرتے ہیں کہ اس کو بھی ایک ثانیِ کمال سمجھا جاتا ہے۔ (10) بعض حریص معالج اپنے مریض یا تیمار داری کی کوئی اچھی چیز مثلًا ٹوپی، گھڑی، انڈی پینڈنٹ ہولڈر، تسبیح چھڑی، کتاب و مثل ذالک دیکھ کر اس کے لینے کے آرزو ظاہر کیا کرتے ہیں۔ (11) بعض تعجیلِ استفادہ کے لیے بیمار کے چند مقررہ ایام تک شفایاب ہونے کا قطعی حکم لگا دیا کرتے تھے۔

اگر جلبِ دولت ہو دل میں ٹھنی

طبابت نہیں بلکہ ہے رہزنی

معالج میں جب حرص کا ہو مرض

معالج نہیں ہے مریضِ غرض

جو دل پا کے حق صبر کرتا نہیں

وہ مٹی بھی کھا کھا کے بھرتا نہیں

آگے ان مدعیانِ طبِ ظاہری اور مدعیانِ معالجہ باطنیہ کے خدع و فریب کی مثال ہے:

46

آب شورے نیست درمانِ عطش

وقتِ خوردن گر نماید سرد و خوش

ترجمہ: کھارا پانی پیاس کا علاج نہیں ہے۔ اگرچہ پینے کے وقت ٹھنڈا اور خوشگوار معلوم ہو۔

47

لیک خادع گشت مانع شد ز جست

زابِ شیرینے کزو صد سبزہ است

ترجمہ: لیکن اس نے دھوکا دیا اور دھوکا یہ دیا کہ وہ آبِ شیریں کی جستجو سے مانع ہو گیا جس سے (صحت و شفا کے) صدہا سبزے پیدا ہوئے۔

مطلب: جس طرح ظالم نیم حکیم نے محض طمعِ زر کے لیے مریض کو اپنے دامِ فریب میں پھنسا کر حکمائے حاذق کے علاج سے محروم رکھا اور اس غریب کے مال کے ساتھ اس کی جان کو بھی غارت کیا، اسی طرح پیرِ ناقص نے خلقِ خدا کی کمائی پر گلچھرے اڑانے کے لیے مریدوں کو اپنے مکر کے جال میں پھانس کر اہل اللہ کاملین کے فیض و صحبت سے بے بہرہ رکھا اور ان کے مال کو خورد برد کرنے کے علاوہ ایمان کو بھی خطرہ میں ڈال دیا۔ آگے ایک اور مثال ہے:

48

ہمچنیں ہر زرِّ قُلبے مانع ست

از شناسِ نقدِ زر ہر جا کہ ہست

ترجمہ: اسی طرح ہر کھوٹا دینار کھرے دینار کی شناخت سے جہاں بھی ہو، مانع ہے۔

مطلب: جس طرح مکار نیم حکیم اپنی چاندی کھری کرنے کے لیے مریضوں کو حکمائے حاذق سے متنفر کرتا رہتا ہے اسی طرح شیخ مزوّر اپنے سامانِ عیش کو تازہ رکھنے کے لیے مریدوں کو شیوخ کاملین کے معتقد ہونے کا مانع رہتا ہے، کہ مبادا مریدوں کے ٹوٹ جانے سے اس کا بازار سرد پڑ جائے۔ شہر نابھہ میں پنجاب کے ایک جاہل پیر کی آمدورفت ہوئی جو عمومًا رات کے وقت گیس کی روشنی میں اپنے چہرۂ گلگوں اور کاملِ عنبرین کی نمایش کے ساتھ اس دھوم دھام کے وعظ کہتا کہ صدہا عورتیں اور مرد پروانہ وار اس پر نثار ہوتے اور سلسلۂ مریدین میں منسلک ہو جاتے۔ اسی علاقہ کے ایک مردِ خدا نے اس واعظ کے تخریبِ اخلاق اور تشویشِ عقائد کے فتنہ کو توڑنے اور اس کے دجل و فریب کا بھانڈا پھوڑنے کے لیے درسِ قرآن مجید کا حلقہ قائم کیا جس سے کئی گمراہ راہِ راست پر آ گئے۔ اب واعظ نے اپنے مریدوں کو فہمایش کرنی شروع کی کہ قرآن مجید کے درس میں کبھی شامل نہ ہوں اور اس کا یہ ضرر ہے، یہ نقصان ہے۔ یہ مثال ہے۔ "ہر زرِّ قُلبے مانع ست" کی ایسا پیر مزوّر اپنی پیری کی دکان کو سرد بازاری سے بچانے کے لیے مریدوں کو اس طرح قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے جس طرح کسی پرندے کو پرواز سے روکنے کے لیے اس کے پر کاٹ دیئے جائیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

49

بال و پرت را بہ تزویرے برید

کہ مرادِ تو منم گیر اے مرید

ترجمہ: اس (پیر مزوّر) نے تیری ترقی کے بال و پر کو فریب کے ساتھ کاٹ ڈالا (اور تجھے اپنا معتقد رکھنے کے لیے تسلی دی) کہ اے مرید تیری مراد (بخشنے والا) میں ہوں (مجھ سے اپنی مراد) لے (کسی اور کے پاس تجھے جانے کی کیا ضرورت ہے۔)

50

گفت دردت چینم و خود درد بود

باطنًا خار و بظاہر وَرد بود

ترجمہ: (اور پھسلانے کے لیے) کہا، میں تیرے مرض (باطن) کو چن چن کر نکال دوں گا۔ حالانکہ خود (اس مکار کا قرب بمنزلہ) مرض تھا، وہ (اپنے) باطن کے لحاظ سے (بمنزلۂ) خار اور ظاہر میں گلاب کا پھول تھا۔ (آگے مولانا نصیحت فرماتے ہیں:)

51

روز درمانِ دروغیں مے گریز

تا شود وردت مطیّب مشک بیز

ترجمہ: (اے طالب) جا جھوٹے معالجہ سے بھاگتا رہ تا کہ تیرا درد پاکیزہ اور مشک بیز ہو جائے۔

مطلب: درد کا لفظ یہاں دو معنوں میں مشترک واقع ہوا ہے۔ ایک درد بمعنی مرضِ باطن جس کو حجابِ غفلت، قسوتِ قلب اور کدورتِ روح وغیرہ الفاظ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ اوپر کے شعر میں وہی مراد تھا جس کو مزوّر نے چن چن کر نکال دینے کا وعدہ کیا تھا۔ حالانکہ وہ خود اس مرض میں مبتلا ہے اور ”خویشتن گم ست کرا رہبری کند“ دوسرا درد مصرعۂ ثانیہ میں یہی مراد ہے۔ فرماتے ہیں کہ شیخ مزوّر سے مرضِ باطن کے علاج کی امید نہ رکھو جو کچھ پہلے سے تمہارے اندر سوزِ طلب موجود ہے، وہی غنیمت ہے۔ اس کو کسی شیخِ کامل کی صحبت میں ترقی دو۔ اسی پر قرب وصول اور نسبت مع اللہ کے ثمراتِ محمودہ مرتب ہو جائیں گے۔ آگے عود پھر قصہ کی طرف: