دفتر ششم: حکایت: 126
دیدنِ میراثی بخواب کہ در مصر بفلاں موضع گنجے ست و رفتن بشہرِ مصر بطلبِ آں و رسیدن بمصر و بیروں آمدن بکوئے در شب بجہت شب کوکی و گدائی و گرفتنِ عسس او را و مرادِ او پس از رنج حاصل آمدن ﴿وَ عَسٰۤی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ﴾ (البقرۃ: 216) ﴿وَ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا﴾ (الانشراح:6)
میراث خوار کا خواب میں دیکھنا کہ مصر میں فلاں جگہ ایک خزانہ ہے اور اس کا شہرِ مصر میں اس کی طلب کے لیے جانا اور مصر میں پہنچنا اور رات کے وقت ایک کوچہ میں رات کے سوالی بننے اور بھیک مانگنے کی غرض سے نکلنا اور کوتوال کا اس کو پکڑنا اور اس مراد کا تکلیف کے بعد حاصل ہونا اور "شاید تم ناپسند کرو کسی چیز کو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو" اور "بے شک تنگی کے ساتھ فراخی ہے"
1۔
خواجہ چوں میراث خورد و شد فقیر
آمد اندر یا رب و گریہ و نفیر
ترجمہ: خواجہ (شریف آدمی) نے جب میراث کھا (اڑا) لی اور محتاج ہو گیا تو یا رب کہنے(لگا) اور رونے اور فریاد کرنے میں مشغول ہوا (آگے مولانا کا مقولہ ہے):
2۔
خود کہ کوبد ایں در رحمت نثار
کو نیابد در اجابت صد بہار
ترجمہ: (اور ایسا) ہے بھی کون جو اس دروازۂ رحمت باش کو کھٹکھٹائے تو وہ قبولیت میں سو بہاریں نہ پائے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ
پندار ایں در کہ ہرگز نہ بست
کہ نومید گردد برادر دہ دست
3۔
خواب دید و ہاتف گفت او شنید
کہ غنائے تو بمصر آید پدید
ترجمہ: (چنانچہ) اس نے خواب دیکھا اور (اس خواب میں) ہاتف نے (اس سے) کہا (جس کی بات کو) اس نے سنا کہ تیری تونگری مصر میں ظاہر ہو گی۔
4۔
رو بمصر آنجا شود کارِ تو راست
کرد گریہ ات قبول او مر نجاست
ترجمہ: مصر میں جا وہاں تیرا کام ٹھیک ہو جائے گا۔ تیرے سوال کو (خدا نے) قبول فرما لیا، وہ ایسا ہے جس سے (قبولِ سوال کی) امید کی جاتی ہے۔
5۔
در فلاں موضع یکے گنجے ست زفت
در پے آں بایدت تا مصر رفت
ترجمہ: فلاں مقام میں ایک بڑا خزانہ ہے۔ اس کی تلاش میں تم کو مصر تک جانا چاہیے۔
6۔
بیدرنگے ہیں ز بغداد اے نژند
رو بسوئے مصر و منبت گاہِ قند
ترجمہ: ہاں افسردہ! بلا توقف بغداد سے مصر اور (عمدہ) قند کے پیدا ہونے کی جگہ میں جاؤ۔
7۔
چوں زبغداد آمد او تا سوئے مصر
گرم شد پشتش چو دید او روئے مصر
ترجمہ: جب وہ بغداد سے مصر تک آیا تو مصر تک منہ دیکھتے ہی اس کی پشت گرم(کمر مضبوط) ہو گئی (پشت گرم ہونا کنایہ ہے حوصلہ بڑھانے سے پشت و رو میں مناسبت پر لطف ہے)
8۔
بر امیدِ وعدۂ ہاتف کہ گنج
یابد اندر مصر بہرِ دفعِ رنج
ترجمہ: (اس کی پشت گرم) ہاتف کے (اس) وعدہ کے (پورا ہونے کی) امید پر (تھی) کہ وہ مصر کے اندر خزانہ (مفلسی کی) تکلیف دور کرنے کے لیے پائے گا۔
9۔
در فلاں کوئے و فلاں موضع دفین
ہست گنج سخت نادر بس گزیں
ترجمہ: فلاں کوچے اور فلاں جگہ میں ایک نہایت نادر اور بہت پسندیدہ خزانہ مدفون ہے۔
مطلب: اگر یہاں یہ شبہ ہو تو وہ خزانہ بغداد میں مدفون تھا جیسے کہ آگے قصہ میں آتا ہے۔ پھر ہاتف نے اس کا مصر میں مدفون ہونا کیوں بتایا تو جواب یہ ہے کہ ہاتف کی مراد اس سے یہ تھی کہ مصر میں اس خزانہ کا پتا ملے گا اور اس کا پتا ملنے کا فلاں مقام ہے۔ پس سراغ ملنے کے مقام کو مجازًا دفنِ خزانہ کا مقام کہا۔ ایسے مجازات خوابوں میں بہت ہوئے ہیں اور خوابوں کے انہی مجازوں سے حقیقتوں کا پتا لگانا علمِ تعبیر کہلاتا ہے جو ایک خداداد فراست پر موقوف ہے۔
10۔
لیک نفقہ اش بیش و کم چیزے نماند
خواست دقّے بر عوام الناس راند
ترجمہ: لیکن (جوں ہی) مصر میں پہنچا تو اس کو یہ مشکل پیش آئی کہ اس کا خرچ (کی ضرورت کا مال) کم و بیش کچھ بھی نہ رہا (سب صرف ہو گیا تو مجبورًا) اس نے عام لوگوں کے پاس دستِ سوال دراز کرنا چاہا۔
11۔
لیک شرم و ہمتش دامن گرفت
خویش را در صبر افشردن گرفت
ترجمہ: لیکن (گدائی کی عادت نہ ہونے کے سبب سے) شرم اور بلند ہمتی نے اس کا دامن پکڑا (کہ ٹھیر یہ کام اچھا نہیں۔ ناچار) اس نے اپنے آپ کو صبر میں دبانا شروع کیا۔
12۔
باز نفسش از مجاعت بر طپید
از گدائی کردن او چارہ ندید
ترجمہ: (مگر) پھر اس کا نفس بھوک سے تڑپنے لگا۔ (اس لیے) گدائی کرنے سے اس نے چارہ نہ دیکھا۔
13۔
گفت شب بیروں روم من نرم نرم
تا ز ظلمت نایدم از گدیہ شرم
ترجمہ: اپنے جی میں کہنے لگا، میں رات کے وقت آہستہ آہستہ باہر نکلوں گا تا کہ تاریکی کے سبب گدائی سے مجھے شرم نہ آئے۔
مطلب: روشنی میں گدائی سے شرم آنے کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ شناسا لوگوں پر اس انقلابِ اصول کے افسانے سے ذلت و رسوائی کا سامنا ہو گا۔ یہ وجہ تو ایک مسافرِ بغداد کے لیے مصر میں متحمل نہ تھی کیونکہ یہاں اس کا کوئی شناسا نہ تھا جہاں اور ہزاروں ناشناس بھکاری بھیک مانگتے پھرتے تھے، یہ بھی مانگ سکتا تھا۔ دوسری وجہ نگاہ کی شرم کو عام محاورہ میں لحاظ کہتے ہیں، یہ مسافر و مقیم سب کے لیے یکساں ہے۔ ایک باہوش و حواس آدمی خواہ مسافر ہو یا مقیم یہ گوارا نہیں کرتا کہ کسی کی آنکھ اس کے کسی شرمناک فعل پر پڑے حتیٰ کہ وہ مخاطب کے ساتھ ایک بد زبان، تند گفتار، غیر متصف، خود رائے کی حیثیت سے آنکھ ملاتے بھی بڑی حد تک جھجکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص ان اوصاف کے اظہار کے لیے جس قدر تاریکی میں آزادی پاتا ہے، روشنی میں نہیں پاتا۔ اسی بنا پر لوگ کہا کرتے ہیں کہ اندھے کو شرم کم ہوتی ہے کیونکہ کسی سے اس کی آنکھ نہیں مل سکتی۔ اس لیے وہ شرمناک کام کرتے ہیں یا شرمناک بات کہتے لحاظ نہیں کیا کرتا۔ یہ تجربہ کی بات ہے کہ اگر کسی اہم فیصلہ طلب امر کے لیے لوگوں کا مجمع ہونا قرار پائے تو جو لوگ انصاف و معقولیت کے ساتھ حق کے مطابق فیصلہ کے خواہاں ہوں، ان کے لیے اس مجمع کا انعقاد دن کے مطابق مصلحت ہوتا ہے کیونکہ دن میں شورش پسند طبائع آنکھوں کے لحاظ سے دبی رہتی ہیں اور بے جا خصومت کی طاقتیں سر کم اٹھاتی ہیں لیکن جو لوگ اپنے مفسدانہ شور و شغب سے اس معاملہ کو ناقابلِ فیصلہ رکھنا چاہیں، ان کے لیے اس مجمع کا انعقاد رات کو زیادہ مفید طلب ہوتا ہے کیونکہ اب ان کے نا معقول ارادے معقولیت کی آنکھ سے مرعوب نہیں ہوتے۔ اسی بنا پر ایک عزیز اپنے بزرگ سے یا ایک ماتحت اپنے افسر سے سنجیدہ بحث جس آزادی اور زور دار استدلال کے ساتھ تحریرًا کر سکتا ہے، اس کے سامنے روبرو ہو کر نہیں کر سکتا۔ الغرض ایک مسافر بھی جس کی طبیعت سے اس شرم کا حجاب نہ اٹھا ہو، گدایانہ حیثیت میں لوگوں سے آنکھیں چار کرنا گوارا نہیں کرتا۔ اس لیے وہ تاریکی میں یہ کام کرنا پسند کرتا ہے۔ چنانچہ وہ مسافر بغداد میں اپنے جی میں کہتا ہے:
14۔
ہمچو شب کُو کے کنم ذکر و بانگ
تا رسد از با مہایم نیم دانگ
ترجمہ: میں شبکو (رات کے سوالی) کی طرح ذکر اور صدا کروں گا تاکہ مجھ کو بالاخانوں سے آدھا دانگ ہی مل جائے۔
15۔
اندریں اندیشہ بروں شد بکوئے
و اندریں فکرت ہمے شد سو بسوئے
ترجمہ: اسی سوچ میں وہ (ڈیرے سے) کوچہ میں باہر نکلا اور اسی تردد میں ادھر ادھر پھرتا تھا (کہ کیا کہوں اور کس طرح صدا لگاؤں)۔
16۔
یک زماں مانع ہمے شد شرم و جاہ
یک زمانے جوع میگفتش کہ خواہ
کسی وقت تو شرم و جاہ (بھیک مانگنے سے) مانع ہوتی تھی اور کسی وقت بھوک (مجبور کرتی اور) کہتی تھی کہ (بھیک) مانگ۔
17۔
پائے پیش و پائے پس تا ثلثِ شب
کہ بخواہم یا بخسپم خشک لب
ترجمہ: (اسی تذبذب میں اس کی یہ حالت تھی کہ کبھی مانگنے کے قصد سے اس کا ایک) پاؤں آگے پڑتا تھا اور (کبھی اس مقصد کو ترک کرنے سے ایک) پاؤں پیچھے ہٹ جاتا تھا۔ وہ تہائی رات تک (اسی تردّد میں رہا) کہ (آیا میں) مانگوں یا یوں ہی تہی شکم اور خشک لب سو جاؤں۔
18۔
ناگہانے خود عسس او را گرفت
چوبہا زد بے محابا ناشکفت
ترجمہ: اچانک اس کو کوتوال نے پکڑ لیا (اور) بلا لحاظ بے صبری کے ساتھ ڈنڈے مارے (اور پولیس والوں کی ڈنڈا بازی تو ہر وقت تیار رہتی ہے)۔
19۔
اتفاقًا اندراں شبہائے تار
دیدہ بُد مردم زشب دُزداں ضرار
ترجمہ: اتفاقًا اندھیری راتوں میں لوگ رات کے چوروں سے بہت نقصان اٹھا چکے تھے۔
مطلب: بعض خاص ایام میں چوری کی وارداتیں بکثرت اس لیے واقع ہوا کرتی ہیں کہ چوروں کا کوئی خاص گروہ وارد ہوا ہو یا محکمۂ پولیس کمزور و بے رعب ہو یا افسرانِ پولیس چوروں سے رشوت کھاتے ہوں وغیرہ۔ یہاں کوئی اسی قسم کی وجہ ہو گی جس کے متعلق آگے ارشاد آئے گا۔
20۔
بود شبہائے مخفوف و مُنتَحس
پس بجد مے جست دُزداں را عسس
ترجمہ: (وہ) راتیں (بھی کثرتِ واردات کی وجہ سے) خوفناک اور نا مبارک تھیں۔ جبھی کوتوال چوروں کو خاص کوشش سے ڈھونڈتا تھا۔
21۔
تا خلیفہ گفتہ کہ ببرید دست
ہر کہ شب گردد اگر خویشِ مَنست
ترجمہ: حتٰی کہ (خود) امیر المومنین (کو بھی اس کا خیال ہوا اور اس) نے حکم دیا کہ جو شخص رات کو نکلے اس کے ہاتھ کاٹ ڈالو۔ اگر چہ میرا قریبی ہی ہو۔
مطلب: یہ دزدانِ شب کے انسداد کا باضابطہ ہے کہ شب کے وقت عام و خاص سب لوگوں کا باہر نکلنا اور گلی کوچوں میں پھرنا بند کیا جائے جن کے پردے میں چور گلی کوچوں میں پھرتے اور موقع پا کر چوری کرتے ہیں تاکہ پھر کوئی چور باہر نکلنے اور چوری کرنے نہ پائے اور اگر نکلے تو اس اشتباہ کے بدون کہ یہ کوئی عام آدمی ہے، چور سمجھا جائے اور فورًا پکڑا جائے۔ بادشاہ کا قریبی اگرچہ عادۃً رات کا چور نہیں ہوتا۔ تا ہم اس کو چوروں کے برابر قطعِ ید کی سزا دینے کا حکم اس لیے دیا کہ وہ ضابطہ شکنی میں گویا دُزدانِ شب کا مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ اس لیے وہ خود بمنزلۂ دزد ہے اور اس ضابطہ کا نفاذ اس لیے کرنا پڑا کہ ان دنوں جو امتحان تھا کہ چوروں کا کوئی خاص جرائم پیشہ گروہ شہر میں وارد ہوا ہے اور کثرتِ واردات کی عمومًا یہ بھی ایک وجہ ہوتی ہے جس کو ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ آگے کثرتِ واردات کی دوسری وجہ یعنی محکمہ پولیس کی کمزوری کا ذکر فرماتے ہیں:
22۔
بر عسس کردہ ملک تہدید بیم
کہ چرا باشید بر دُزداں رحیم
ترجمہ: بادشاہی نے (اس ضابطہ کو نافذ کرنے کے علاوہ خود) کوتوال کو (بھی) ڈانٹ ڈپٹ کی کہ تم لوگ (اپنی طبعی کمزوری سے) چوروں پر رحم کیوں کرتے ہو۔
مطلب: یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ رحم کرنا تو ایک اعلیٰ فضیلت ہے۔ اس کو کمزوری کا مقتض کیوں کہا گیا کیونکہ رحم وہی فضیلت ہے جو کسی مظلوم و بے کس اور جرائم سے خالص توبہ کرنے والے پر کیا جائے۔ بخلاف اس کے جب کوئی ظالم سرکش اور جرائم پیشہ مجرم قابو میں آئے تو اس کی بے بسی سے متاثر ہونا یا اس کی منافقانہ توبہ پر یقین کرنا عدالت کی کمزوری ہے۔ یہ رحم نہیں بلکہ دوسرے لوگوں پر ظلم ہے۔ کما قیل؎
ترحم برپلنگ تیز دنداں
ستمگاری بود بر گوسفنداں
سعدی رحمۃ اللہ علیہ
بگفتیم در باب احسان کسے
و لیکن نہ بایست با ہر کسے
بخور مردم آزار را جاں و مال
کہ از مرغِ بد کندہ بہ پرّ و بال
اگلے شعر کے پہلے مصرعہ میں اس مضمون کی تائید ہے کہ عادی مجرم کی منافقانہ توبہ کا اعتبار نہ کرنا چاہیے اور دوسرے مصرعہ میں جرائمِ دُزدی کی کثرت کی تیسری وجہ مذکور ہے جس سے اس زمانہ میں خصوصًا دیسی ریاستوں میں اندھیر مچ رہا ہے۔
23۔
عشوہ شاں را از چہ رو باور کنید
یا چرا زیشاں قبولِ زر کنید
ترجمہ: تم ان کی پر فریب باتوں پر یقین کیوں کرتے ہو یا ان سے رشوت کیوں قبول کرتے ہو۔
24۔
رحم بر دُزداں و ہر منحوس دست
برضعیفاں زحمت و بے رحمی ست
ترجمہ: چوروں پر اور ہر نا مبارک (کاموں میں) ہاتھ ڈالنے والے پر رحم کرنا کمزور لوگوں پر تعدی اور بے رحمی ہے۔
25۔
ہِیں زرنجِ خاص مگسل ز انتقام
رنجِ او بگزیں و بنگر رنجِ عام
ترجمہ: خبردار (کسی) خاص (شخص) کے دکھ (کے خیال) سے (اس کو) سزا دینے میں درگزر نہ کرو۔ اس کو (سزائے جرم کا) دکھ دینا منظور کرو اور عام مخلوق کے دکھ کا خیال کرو (جو مجرم کو سزا نہ دینے کی صورت میں پیش آئے گا۔)
مطلب: اس حکمت کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿وَ لَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرۃ: 179) ”اے عقل مندو! قصاص (کے قاعدے) میں تمہاری زندگی ہے تاکہ تم (قصاص سے خائف ہو کر خونریزی سے) باز رہو۔“ (البقرۃ: 179) و نعم قیل؎
ترحم بر پلنگ تیز دنداں
ستمگاری بود بر گوسفنداں
آگے اس حکمت کی توضیح کے لیے ایک مثال ارشاد ہے:
26۔
اصبع ملدوغ بُر در دفع شر
در تعدی و ہلاکِ تن نگر
ترجمہ: (اگر سانپ کی) ڈسی ہوئی انگلی سے (سارے جسم میں) زہر (کے سرایت کر جانے کا خوف تو اس) کو دفع کرنے کے لیے کاٹ ڈالو (اس کے زہر کی) تعدی میں جسم کے ہلاک ہونے کو ملحوظ رکھو (جس کا لحاظ انگلی کے تلف ہونے کے خیال پر مقدم ہے)۔
27۔
گشتہ دزد انبہ در آں ایّام بس
کاں فقیر افتاد در دستِ عسس
ترجمہ: ان دنوں چوروں کی بہت کثرت تھی کہ وہ فقیر بھی (چور کے شبہ میں) کوتوال کے ہاتھ پھنس گیا۔
28۔
اتفاقًا انداراں ایّام دُزد
گشتہ بود انبوہ پختہ و خام دُزد
ترجمہ: (اور) اتفاقًا ان دنوں چوروں کی کثرت تھی (جس میں) پختہ (کار) اور خام (کار) سب طرح کے چور (شامل تھے)۔
مطلب: یعنی پولیس کی کمزوری یا رشوت خواری سے جو چوری کی کثرت ہوئی اور چوری کی جرأت بڑھ گئی تو دیکھا دیکھی غیر دُزدی پیشے لوگ بھی چور بن گئے۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ کوتوال نے اس مسافرِ بغداد میں جب چوری کی سی خاص علامات نہ پائی ہوں گی تو توقع تھی کہ اس کو چھوڑ دیتا مگر پھر اس نے سوچا ہو گا کہ آج کل بہتیرے نئے اور انجان چور پھر رہے ہیں، یہ بھی اسی قسم کا چور ہے۔ اس لیے اس کو گرفتار ہی کر لیا اور اس کی خوب گت بنائی۔ چنانچہ
29۔
در چنیں وقتش بدید و سخت زد
برسر و بر پشت چوبِ بے عدد
ترجمہ: اس (کوتوال) نے اس کو ایسے وقت میں (جب کہ نئے اور کچے چور بکثرت پھرتے تھے) دیکھا اور (ایک قسم کا چور سمجھ کر) اس کے سر اور پشت پر ان گنت ڈنڈے رسید کیے۔
30۔
نعرہ و فریاد زاں درویش خاست
کہ مزن تامن بگویم حال راست
ترجمہ: (جب سڑاسڑ مار پڑنے لگی تو) اس غریب (کے منہ) سے نعرہ و فریاد (بلند ہوئی کہ خدارا مجھے) نہ مارو تا کہ میں صحیح اور اصلی حال عرض کروں۔
31۔
گفت اینک دادمت مہلت بگو
تا بشب چوں آمدی بیروں بکُو
ترجمہ: اس (کوتوال) نے کہا کہ میں تجھ کو مہلت دیتا ہوں، بتا کہ تو کیوں رات کے وقت خلافِ ضابطہ کوچہ سے نکلا۔
32۔
تو نۂ زینجا غریب و منکری
راستی گو تا بچہ مکر اندری
ترجمہ: تو اس علاقہ کا (معلوم) نہیں ہوتا۔ پردیسی اور اجنبی ہے، سچ بتا کہ تو کس مکر (کی ادھیڑ بن) میں ہے۔
مطلب: پردیسی اور اجنبی آدمی کو کسی غیر علاقہ میں عمومًا دن میں کام ہوتا ہے۔ رات کو وہ کسی سرائے یا اپنے میزبان کے گھر میں آرام کرتا ہے کیونکہ اس کے شہری تعلقات ایسے وسیع و کثیر نہیں ہوتے کہ ان کے لیے رات کو بھی نکلنا پڑے۔ اس سے کوتوال کا یہ شبہ حتمی ہو گیا کہ وہ چوروں کے کسی غیر ملکی گروہ کا آدمی ہے۔ دوسرے مصرعہ میں مکر کا لفظ ہمارے کستوری نسخہ کے مطابق ہے۔ قلمی نسخے اور کلید مثنوی کے متن میں اس کے بجائے فکر درج ہے اور منہج القوٰی کے متن میں ”بچہ کار اندری“ لکھا ہے۔ معنی سب کے چسپاں ہو جاتے ہیں۔ کما ہو ظاہر۔
33۔
اہلِ دیواں بر عسس طعنہ زدند
کہ چرا دُزداں کنوں انبہ شدند
ترجمہ: (ادھر) اہلِ دفتر نے کوتوال کو ہدفِ ملامت بنا رکھا ہے کہ کیوں آج کل چوروں کی کثرت ہے۔
34۔
انبہُی از تست و از امثالِ تُست
وانما یارانِ زشتت را نخُست
ترجمہ: (ارے) یہ کثرت (تو) تجھ سے اور تجھ جیسوں سے ہے۔ پہلے اپنے بدمعاش یاروں کا پتا بتا (کہ وہ کہاں ہیں)۔
35۔
ورنہ کینِ جُملہ را از تو کشم
تا شود ایمن ز شر ہر محتشم
ترجمہ: ورنہ سب کی سزا تجھ (اکیلے) کو دوں گا تاکہ ہر عزت دار آدمی (چوروں کے) شر سے بے خوف ہو جائے۔
36۔
گفت او از بعد سوگندانِ پُر
کہ نیم من خانہ رُوب و کیسہ بُر
ترجمہ: اس نے بہت سی قسموں کے بعد کہا کہ میں (کوئی) گھر کا صفایا کرنے والا (چور) اور جیب کترا نہیں ہوں۔
37۔
من نہ مردِ دُزدی و بیدادیم
من غریبِ مصرم و بغدادیم
ترجمہ: میں چوری اور ظلم کا پیشہ ور نہیں ہوں۔ میں تو مصر کا مسافر اور بغداد کا (باشندہ) ہوں۔
38۔
قصّۂ آں خواب و گنجِ زر بگفت
پس زصدقِ او دلِ آنکس شگفت
ترجمہ: (پھر) اس نے (اپنے) اس خواب کا اور نقدی کے خزانے کا قصہ سنایا تو اس کی سچائی سے اس کوتوال کا دل شگفتہ ہو گیا۔
39۔
بوئے صدقش آمد از سوگندِ او
سوزِ او پیدا شد از اسپندِ او
ترجمہ: اس کی سوگند سے اس کو سچائی کی بُو آئی۔ اس کے (بیان و تقریر کے) سپند (سوزی) سے اس (کے دل) کا سوز (و گداز) ظاہر ہوا (”ہر چہ از دل خیزد بر دل ریزد“ آگے صدق و کذب کی خاصیت کے بیان کی طرف انتقال ہے):