دفتر 5 حکایت 99: لومڑی کا شیر کی بات مان لینا اور روانہ ہونا۔ اور ایک گدھے کو دیکھنا

دفتر پنجم: حکایت: 99

اطاعت رُوباہ شیر را و روانہ شدن و دیدنِ خر

لومڑی کا شیر کی بات مان لینا اور روانہ ہونا۔ اور ایک گدھے کو دیکھنا!

-1-

گفت روبہ شیر را خدمت کنم حیلہا سازم ز عقلش بر کنم

ترجمہ: لومڑی نے شیر سے کہا۔ میں (آپ کا) حکم بجا لاؤں گی۔ (اگر کوئی گدھا نظر آیا تو) حیلے عمل میں لاؤں گی۔ (اور) اس کو عقل سے اکھیڑوں گی۔

-2-

حیلہ و افسوں گری کارِ من است کارِ من دستاں و از رہ بُردن است

ترجمہ: حیلہ کرنا اور سبزباغ دکھانا میرا (بائیں ہاتھ کا) کام ہے۔ میرا کام فریب اور اغوا ہے۔

-3-

از سرِ کُہ جانبِ جو مے شتافت آں خرِ مسکین لاغر را بیافت

ترجمہ: (چنانچہ) وہ پہاڑ کی بلندی سے نہر کی طرف دوڑی آرہی تھی کہ (دھوبی کے) اس گدھے کو (سامنے) پایا۔

-4-

پس سلامے گرم کرد و پیش رفت پیش آں سادہ دلِ درویش رفت

ترجمہ: پھر تپاک کے ساتھ سلام کیا اور اس کے سامنے گئی۔ (یعنی) اس سیدھے سادھے غریب گدھے کے سامنے گئی۔

-5-

گفت چونی اندریں صحرائے خشک درمیانِ سنگلاخ و جائے خشک

ترجمہ: (اور) بولی اس خشک جنگل میں تمہارا کیا حال ہے (جو سنگلاخ اور سوکھی جگہ میں پھر رہے ہو۔)

-6-

گفت خر گر در غمم، ور در اِرم قسمتم حق کرد و من زاں شاکرم

ترجمہ: گدھے نے کہا اگر میں غم میں ہوں اور اگر (عیش و عشرت کے باغ) ارم میں ہوں۔ (بہر حال حق تعالیٰ نے یہی) میری قسمت ٹھہرا دی اور میں اس پر شکر گزار ہوں۔

-7-

شکر گوئیم دوست را در خیر و شر زانکہ ہست اندر قضا از بد بتر

ترجمہ: میں ہر بُری بھلی حالت میں دوست (حقیقی) کا شکر کرتا ہوں (کہ مجھے اس سے زیادہ بُری حالت میں مبتلا نہیں کیا) کیونکہ تقدیر الہیٰ میں (ایک) بُری حالت سے زیادہ بُری حالت بھی ہے۔

-8-

چونکہ قسّام اوست کفر آمد گلہ صبر باید صَبرُ مِفتَاحُ الصِّلَہ

ترجمہ: جب (رزق و روزی) تقسیم کرنے والا وہ (دوست حقیقی تعالیٰ شانہ) ہے تو (رزق کا) گلہ کرنا کفر ہے صبر چاہیے۔ (کیونکہ) صبر بخشش کی کنجی ہے۔

-9-

باز گفت "الصَّبْرُ مِفْتَاحُ الفَرَج" صابراں را کے رسد جور و حرج

ترجمہ: پھر فرمایا۔ صبر کشائش کی کنجی ہے۔ صبر کرنے والوں کو کب سختی اور تکلیف پہنچتی ہے (اس حدیث کی تحقیق پیچھے گزر چکی)

-10-

راضیم من قسمتِ قسّام را کو خداوندست خاص و عام را

ترجمہ: میں روزی تقسیم کرنے والے کی تقسیم پر راضی ہوں۔ جو خاص و عام کا مالک ہے۔

-11-

بہرہ ور از نعمتِ او خاص و عام می رساند روزیِ وحش و ہوام

ترجمہ: اس کی نعمت سے خاص و عام فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ جنگلی جانوروں اور کیڑے مکوڑوں (سب) کو روزی پہنچاتا ہے۔

-12-

مرغ و ماہی قسمتِ خود می خورند مور و مار از نعمتِ او می چرند

ترجمہ: پرندے اور مچھلیاں اپنے نصیب کا کھاتے ہیں۔ چیونٹی اور سانپ اس کے انعام سے پیٹ پالتے ہیں۔

-13-

خوانِ اُو سر تا سرِ عالم گرفت بر سر خوانش خلائق در شگفت

ترجمہ: اس کے خوان (کرم) نے سارے جہان کو گھیر لیا ہے۔ اس کے خوان پر مخلوق تعجب میں ہے۔

-14-

میخورند و ہیچ کم ناید ازاں کیست بے روزی بگو اندر جہاں؟

ترجمہ: سب کھاتے ہیں اور اس سے کچھ کم نہیں ہوتا۔ بھلا بتلاؤ تو جہان میں روزی سے محروم کون ہے؟

-15-

باش راضی گر توئی دل زندۂ کو رَساند روزیِ ہر بندۂ

ترجمہ: اگر تم زندہ دل ہو تو راضی رہو کہ وہ ہر بندہ کی روزی پہنچاتا ہے۔

-16-

غیرِ حق جملہ عدوّ و دوست اوست با عدو از دوست کے شکوہ نکوست

ترجمہ: حق تعالیٰ کے سوا سب دشمن ہیں اور وہ دوست ہیں۔ (پھر) دوست کا شکوہ دشمن کے پاس کرنا کب اچھا ہے۔

-17-

شکر کن تا نایدت از بد بتر ورنہ مانی ناگہاں در گِل چو خر

ترجمہ: شکر کرو کہ تمہاری بُری حالت سے زیادہ بُری حالت نہ ہو جائے۔ ورنہ تم ناگہاں (اس گدھے کی طرح ہو جو) کیچڑ میں (پھنس جائے مصیبت کے دلدل میں) رہ جاؤ گے۔

-18-

تا دہد او غم نخواہم انگبیں زانکہ ہر نعمت غمے دارد قرین

ترجمہ: جب تک وہ مجھے غم دے میں شہد نہیں مانگوں گا۔ کیونکہ ہر نعمت (اپنے) ساتھ غم رکھتی ہے۔

مطلب: دنیا کی نعمت ہو تو وہ غفلت میں مبتلا کر کے آخرت کے غم کی باعث ہوتی ہے اور اگر آخرت کی نعمتیں پانے کی توقع ہے تو وہ اکثر دنیا کے غم و الم اور حسرت و حرمان کو مستلزم ہے۔ یا یہ مراد ہے کہ جسم کے لذائذ روح کے الم کا باعث ہیں اور روح کے حظوظ جو ریاضیات اور مجاہدات میں حاصل ہوتے ہیں۔ جسم کے لیے بلائیں ہیں۔ حضرت مجدد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں "ہر چہ جسم را درآں لذت است روح را الم است"۔

-20-

گنج بے مار و گِل بے خار نیست شادئیے بےغم دریں بازار نیست

ترجمہ: سانپ سے خالی خزانہ اور کانٹے کے بغیر پھول نہیں۔ اس بازار میں کوئی خوشی غم کے بدون نہیں۔ (آگے گدھا ایک حکایت سناتا ہے اور مقصود حکایت مولانا عنوان کے اندر ارشاد فرماتے ہیں:)