دفتر 5 حکایت 100: حکایت ایک سقے کے گدھے کا با سامان عربی گھوڑوں کو اصطبلِ خاص میں دیکھنا اور اس کا اس دولت کی تمنا کرنا (یہ حقیقت) اس نصیحت میں (ہے) کہ سوائے مغفرت اور عنایاتِ حق کے اور کسی چیز کی تمنا نہ کرنی چاہیے۔ کیونکہ (اس حالت میں) اگرچہ سو طرح کے رنج پہنچیں، جب مغفرت کی لذت حاصل ہو تو سب (رنج) خوشگوار ہو جاتے ہیں۔ باقی جس دولت کو آزمائے بدون اس کی آرزو کروگے وہ اس رنج کے ساتھ شامل ہے جس کو تم نے دیکھا نہیں۔ چنانچہ ہر جال کا دانہ تو ظاہر ہوتا ہے اور جال پوشیدہ۔ تم اسی ایک جال میں پھنس کر تمنا کرتے ہو کہ کاش میں ان دانوں کے ساتھ چلتا اور گمان کرتے ہو کہ دانے جال کے بغیر ہیں

دفتر پنجم: حکایت: 100

حکایت دیدن خر سقائے بانوائے اسپانِ تازی را در آ خُرِ خاص۔ و تمنا بردن او وآں دولت را۔ در موعظہ آنکہ تمنا نباید برد۔ الّا مغفرت و عنایت۔ گہ اگرچہ صد گُون رنجے رسد۔ چوں لذتِ مغفرت بود۔ ہمہ شیریں شود۔ باقی ہر دولتے کہ آں را نا آزمودہ تمنا مے بری با آں رنجے قرین ست کہ آں را نمے بینی۔ چنانکہ از ہر دامے دانہ پیدا بود و فتح پنہاں۔ تو دریں یک دام ماندہ و تمنا مے بری کاش کہ با آں دانہا رفتمے و پنداری کہ دانہا بے دام است

حکایت ایک سقے کے گدھے کا با سامان عربی گھوڑوں کو اصطبلِ خاص میں دیکھنا اور اس کا اس دولت کی تمنا کرنا (یہ حقیقت) اس نصیحت میں (ہے) کہ سوائے مغفرت اور عنایاتِ حق کے اور کسی چیز کی تمنا نہ کرنی چاہیے۔ کیونکہ (اس حالت میں) اگرچہ سو طرح کے رنج پہنچیں، جب مغفرت کی لذت حاصل ہو تو سب (رنج) خوشگوار ہو جاتے ہیں۔ باقی جس دولت کو آزمائے بدون اس کی آرزو کروگے وہ اس رنج کے ساتھ شامل ہے جس کو تم نے دیکھا نہیں۔ چنانچہ ہر جال کا دانہ تو ظاہر ہوتا ہے اور جال پوشیدہ۔ تم اسی ایک جال میں پھنس کر تمنا کرتے ہو کہ کاش میں ان دانوں کے ساتھ چلتا اور گمان کرتے ہو کہ دانے جال کے بغیر ہیں

-1-

یک حکایت یاد دارم از پدر در نصیحت گفت روزے کاے پسر

ترجمہ: (گدھے نے کہا) مجھے (اپنے) باپ کی (سنائی ہوئی) ایک کہانی یاد ہے۔ ایک دن اس نے بطورِ نصیحت کہا اے فرزند!

-2-

بُود سِقّائے مرو را یک خرے گشتہ از محنت دو تا چوں چنبرے

ترجمہ: کوئی سقا تھا۔ اس کا ایک گدھا تھا۔ جو (پانی ڈھونے کی) محنت سے دائرے کی مانند دوہرا ہو گیا تھا۔

-3-

پشتش از بارِ گراں دَہ جائے ریش عاشق و جویانِ روزِ مرگِ خویش

ترجمہ: اس کی پیٹھ بھاری بوجھ کے سبب سے دس جگہ سے زخمی (تھی) وہ اپنی موت کے دن کا عاشق و طالب تھا (نولکشوری نسخہ میں دوسرا مصرعہ یوں ہے) "عاشق جَو تا بروز مرگ خویش" یعنی وہ مرتے دم تک جو کی آرزو کرتا رہا۔ گو اس نسخہ میں رکاکت ہے مگر (اگلے شعر کے ساتھ زیادہ پیوست ہے۔)

-4-

جو کجا از کاہِ خشک او سیر نے در عقب زخمے ز سیخِ آہنے

ترجمہ: جو تو کہاں (میسر آتے) وہ سوکھی گھاس سے سیر (ہونے کا بھی موقع) نہ (پاتا) تھا۔ پیٹھ پر لوہے کی سلاخ سے (مار پیٹ کا) زخم تھا۔

-5-

میر آخور دید او را رحم کرد کاشنائے صاحبِ خر بود مرد

ترجمہ: داروغہ اصطبل نے اس (گدھے) کو دیکھ کر رحم کیا (اور دیکھنے کا موقع) اس لیے (ہوا) کہ وہ شخص گدھے کے مالک کا دوست تھا۔ (اتفاق سے اس کے گھر گیا تو وہاں گدھا نظر پڑ گیا۔)

-6-

پس سلامش کرد و پرسیدش ز حال کز چہ ایں خر شد دو تا ہمچوں ہلال

ترجمہ: پھر (داروغہ نے) اس (گدھے والے) کو سلام کیا اور حال پوچھا کہ یہ گدھا ہلال کی طرح دوہرا کیوں ہو رہا ہے۔

-7-

گفت از درویشیِ و تقصیرِ من کہ نمے یابد جَو ایں بستہ دہن

ترجمہ: (گدھے کے مالک نے) کہا کہ میری محتاجی و کوتاہی کی وجہ سے یہ بے زبان (جانور) جو نہیں پاتا۔ (بےزبان) بستہ دہن کا ترجمہ ہے۔ شاید یہ مراد ہو کہ بد قسمتی سے اس کا منہ غذا سے بند ہے۔)

-8-

گفت بسپارش مرا ایں روز چند تا شود در آخُرِ شہ زور مند

ترجمہ: کہا اس کو چند روز میرے سپرد کر دو۔ تاکہ شاہی اصطبل میں (کچھ کھا پی کر) طاقتور ہو جائے۔

-9-

خر بدو بسپرد و از زحمت برست درمیانِ آخُرِ سلطانش بست

ترجمہ: (غرض) اس نے گدھا اس کے سپرد کر دیا اور (آپ) اس زحمت سے چھوٹ گیا۔ (داروغہ نے) اس کو شاہی اصطبل میں (لا کر) باندھ دیا۔

-10-

خر ز ہر سو مرکبِ تازی بدید با نوا و فربہ و خوب و جدید

ترجمہ: گدھے نے (وہاں) ہر طرف عربی گھوڑے دیکھے با ساماں خوبصورت اور موٹے تازے۔

-11-

زیرِپا شاں رفتہ و آبے زدہ کَہ بوقت و جَو بہنگام آمدہ

ترجمہ: ان کے پاؤں کے نیچے (کی جگہ جھاڑو سے) صاف کی ہوئی اور پانی چھڑکا ہوا۔ گھاس وقت پر اور جَو (ٹھیک) موقع پر آتے تھے۔

-12-

خارِش و مالش مر اسپاں را بدید پوز بالا کرد کاے ربّ مجید

ترجمہ: اس نے گھوڑوں کا بدن کھجانے اور ملے جانے کا بندوبست دیکھا تو منہ اوپر اٹھایا (اور دعا کی) کہ اے بزرگ پروردگار!)

-13-

نہ کہ مخلوقِ تو ام گیرم خرم از چہ زار و پشت ریش و لاغرم

ترجمہ: مانا کہ میں (مسکین) گدھا ہوں۔ تو کیا تیری مخلوق نہیں ہوں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ میں بد حال، زخمی پیٹھ والا اور دبلا ہوں۔

-14-

شب ز دردِ پشت و از جوعِ شکم آرزو مندم بمردن دمبدم

ترجمہ: میں رات بھر پیٹھ کے درد اور پیٹ کے بھوک سے دمبدم مرنے کا آرزومند ہوں۔

-15-

حالِ ایں اسپاں چنیں خوش با نَوا من چہ مخصوصم بہ تعذیب و بلا

ترجمہ: ان گھوڑوں کا حال اس قدر اچھا (اور) با سامان ہے۔ میں عذاب و بلا کے لیے کیوں مخصوص ہوں۔

-16-

ناگہاں آوازۂ پیکار شد تازیاں را وقت زین و کار شد

ترجمہ: اچانک جنگ کا اعلان ہو گیا۔ عربی گھوڑوں پر کاٹھی پڑنے اور کام دینے کا وقت آ گیا۔

-17-

زخمہائے تیر خوردند از عدو رفت پیکانہا در ایشاں سُو بُسو

ترجمہ: (جنگ میں) انہوں نے دشمن سے تیروں کے زخم کھائے۔ اِن میں جا بجا تیر کی نوکیں گھس گئیں۔

-18-

از غزا باز آمدند آں تازیاں اندر آخُر جملہ افتادہ ستاں

ترجمہ: وہ گھوڑے جنگ سے واپس آئے تو سب (زخموں سے چور ہو کر) اصطبل میں چپ بڑے تھے۔

-19-

پایہا شاں بستہ محکم با نوار نعل بنداں ایستادہ در قطار

ترجمہ: نعل بندوں نے صف بستہ کھڑے ہو کر اُن کے پاؤں نواڑ کے ساتھ مضبوطی سے باندھے۔

-20-

می شگافیدند تنہا شاں بہ نیش تا بُروں آرند پیکانہا زِ ریش

ترجمہ: (پھر) وہ ان کے جسموں کو نشتروں سے چھیدنے لگے۔ تاکہ زخموں سے تیر نکالیں۔

-21-

چوں خر آں را دید بس گفت اے خدا من بفقر و عافیت دادم رضا

ترجمہ: جب گدھے نے وہ (حال) دیکھا۔ تو کہا الہیٰ میں محتاجی اور امن پر راضی ہوں۔

-22-

زاں نوا بیزارم و زیں زخمِ زشت ہر کہ خواہد عاقبت دنیا بہشت

ترجمہ: میں اس سامان سے بیزار ہوں اور اس بُرے زخم سے (بھی) جو شخص آخرت کا طالب ہے وہ دنیا سے دست بردار ہو گیا۔

مطلب: بہشت فعل ماضی از ہشتن ترک کردن، ”ب“زائد ہے۔ یعنی جو شخص آخرت میں نجات اور امن چاہتا ہے وہ دنیا کی غافلانہ عیشِ شیریں کو پسند نہیں کرتا۔ جس کا انجام عذاب و عقاب ہے۔ جیسے یہ گھوڑے لذت و راحت میں اوقات بسر کر رہے تھے۔ مگر یہ وقت ان کو نظر آتا تھا۔ جس میں ان کے لیے یہ عذاب مقدر تھا اور ان کی ساری خاطر و مدارات اسی وقت کے لیے ہو رہی تھی۔