دفتر پنجم: حکایت: 98
تشبیہ کردنِ قطب کہ عارف واصل ست در اجرائے دادن خلق از قوت مغفرت و رحمت ہر مراتبے کہ حقش الہام دہد و تمثیل بہ شیر کہ اجرا خوار و باقی خوارِ ویند ہر مراتب قربِ ایشاں بہ شیر نہ قربِ مکانی بلکہ قربِ صفتی و تفاصیل ایں بسیار ست واللہ الہادی
قطب کی تشبیہ جو عارفِ واصل ہے۔ مخلوق کو مغفرت اور رحمت کی غذا سے روزی دیتے ہیں۔ ان مراتب کے مطابق جن کا حق نے اس کو الہام کیا ہے اور شیر کے ساتھ اس کو تمثیل دینا کہ (تمام گوشت خور جانور) اس کے وظیفہ خوار اور بچا کھچا کھانے والے ہیں قرب کے ان درجوں کے موافق جو ان کو شیر کے حضور میں حاصل ہے۔ مکانی قرب نہیں بلکہ صفتی قرب اور اس کی تفاصیل بہت ہیں اور اللہ ہدایت دینے والا ہے۔
-1-
قطب شیر و صید کردن کارِ اوباقیاں ایں خلق باقی خوارِ اُو
ترجمہ: قطب (گویا) شیر ہے۔ اور (فیضانِ غیب کو) شکار کرنا اس کا کام ہے۔ یہ باقی لوگ اس کا بچا کھچا کھانے والے ہیں۔
-2-
تا توانی در رضائے قطب کوشتا قوی گردد کند در صید جوش
ترجمہ: جہاں تک تم سے ہو سکے قطب کو خوش رکھنے کی کوشش کرو۔ تاکہ وہ (امورِ معاش سے فارغ رہنے کی) طاقت پائے اور (فیوضِ باطن کا) شکار کرنے پر آمادہ رہے۔
-3-
چوں برنجد بےنوا مانندِ خلقکز کفِ عقل ست چندیں رزقِ خلق
ترجمہ: جب وہ ضروریاتِ معیشت اور اخراجاتِ عیال کی مصیبت کا بیمار رہا تو لوگ (اس کے فیض سے) تہی دست رہ جائیں گے۔ کیونکہ (جس طرح) عقل کے ہاتھوں گونا گوں رزق خلق میں پہنچتا ہے۔ (اُسی طرح شیخ کی بدولت لوگوں کو روحانی رزق پہنچتا ہے۔ مگر وہ مہماتِ معیشت میں گرفتار ہے افاضہ باطن کیونکر کرے)
-4-
زانکہ وُجدِ خلق باقی خوردِ اوستایں نگہدار دلِ تو صید جوست
ترجمہ: کیونکہ لوگوں کی روحانی غذا اس کی خوراک کا پسماندہ ہے۔ اس (بات) کو یاد رکھو اگر تمہارا دل شکار کا طالب ہے (اوپر شیخ کو عقل سے تشبیہ دی تھی۔ اب اس تشبیہ کی وضاحت فرماتے ہیں)
-5-
او چو عقل و خلق چوں اجزائے تنبستہ عقل ست تدبیرِ بدن
ترجمہ: وہ (قطب) عقل کی مانند ہے۔ اور مخلوق گویا جسم کے اجزا ہیں۔ (اور ان اجزائے بدن کی غذا رسانی اور) بدن کی تدبیر عقل سے وابستہ ہے۔
-6-
ضعفِ قطب از تن بود از روح نےضعف در کشتی بود در نوحؑ نے
ترجمہ: قطب (کی بیماری اور اس) کا ضعف (جو ہم نے کہا ہے وہ اس کے) بدن سے (متعلق) ہے روح سے نہیں (کیونکہ اس کی روح سالم و غانم ہے) ضعف کشتی میں ہے۔ نوح میں نہیں (پس وہ جسمانی حوائج میں لوگوں کی اعانت کا مستحق ہے اور لوگ روحانی فیوض میں اس کے محتاج ہیں۔)
-7-
قطب آں باشد کہ گردِ خود تَنَدگردشِ افلاک گردِ او زَنَد
ترجمہ: اور وہ روحانیت میں کمزور کیوں ہو جب کہ قطب ہوتا ہی وہ ہے جو اپنے گرد گردش کرے۔ افلاک کی گردش اس کے گرد واقع ہو۔
مطلب: جب اس کی روحانیت افلاک تک کو تھامے ہوئے ہے۔ تو پھر وہ روحانیت میں کمزور کیوں ہونے لگا قطب چکی کی میخ اور پہیے کے دُھرے کو کہتے ہیں اور اسی مناسبت سے سالار قوم کو بھی کہتے ہیں جس پر تمام قومی امور کا مدار ہو۔
-8-
یاریے دہ در مرمہ کَشْتِیَشْ!گَر غلامِ خاص و بندہ گَشْتِیَشْ
ترجمہ: اگر تم اس (قطب عارفِ کامل) کے خاص غلام اور خادم بن گئے ہو تو کشتی کی مرمت میں اس کی مدد کرو۔ (یعنی اس کی ضروریات زندگی میں نقد سے اس کی مدد کرو)
-9-
یاریت در تو فزاید نے دروگفت حق اِنْ تَنْصُرُ اللّٰہَ یَنْصُرُ
ترجمہ: (اگر تم نقد و جنس وغیرہ سے اس کی مدد کرو گے۔ تو) تمہاری (یہ) مدد خود تم کو ترقی دے گی نہ کہ اس کو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِن تَنْصُرُوْا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ (محمد:7) یعنی اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔
-10-
ہمچو رُوبہ صید گیر و کن فدیشتا عوض بینی ہزاراں صید بیش
ترجمہ: لومڑی کی طرح شکار مارو اور اس پر نثار کر دو۔ تاکہ (اس کے) عوض میں ہزار گنا زیادہ (نفع) پاؤ۔
-11-
رُوبہانہ باشد آں صیدِ مُریدمردہ گیرد صید کفتارِ مَرید
ترجمہ: مرید کا وہ شکار (جسے لا کر وہ شیخ کے پیش کر دے) لومڑی کا شکار ہے (اور شیخ کے منکر کا شکار) سرکش بجو (کا سا شکار ہے) جو مردہ کو شکار کرتا ہے۔
مطلب: شیخ جو خود اپنے زورِ بازو اور اپنی وجوہ مداخل سے کمائے وہ شیر کے شکار کی مثل ہے اور مرید جو کچھ کما کر شیخ کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ وہ لومڑی کے شکار سے مشابہ ہے۔ جو شیر کے لیے شکار مار لاتی ہے۔ پہلے شکار شیر کھاتا ہے پھر بچا کھچا وہ اڑاتی ہے۔ اس لیے وہ شیر کی خوشامد کرتی رہتی ہے۔ اسی طرح مرید شیخ کی مالی خدمت کرتا ہے۔ اس خوشامد میں کہ وہ اس سے باطنی فیض حاصل کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔ لَیْسَ مِنْ اَخْلَاقِ الْمُوْمِنِ التَّمَلُّقُ وَ اِلَّا فِیْ طَلَبِ الْعِلْمِ (الجامع الصغیر للسیوطی) یعنی خوشامد اور حسد مومن کے اخلاق سے نہیں ہے مگر علم حاصل کرنے میں۔ پس ظاہری و باطنی علوم و معارف کے حصول کے لیے خوشامد کرنا بھی مشروع ہوا۔ بلکہ یہ ارادت مند و طالب کمالِ درویش کی شان میں داخل ہے۔ جو منکر یا مرید غیر مخلص احکام دنیا میں مرشد سے بخل کرے۔ اس کی مثال بجو کی سی ہے جس کے حصے میں مردے کا شکار ہے۔ جو وہ قبروں سے نکال لیتا ہے۔ ہاں اگر وہ منکر شیخ کا قائل ہو جائے یا مرید غیر مخلص اپنے اندر اخلاص کی صفت پیدا کرے اور اپنی کمائی میں سے شیخ سے دریغ نہ رکھے تو پھر اس کا مردہ شکار بھی پاک و طیب ہو سکتا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔
-12-
مُردہ پیشِ او کشی زندہ شودچرک در پالیز رویندہ شود
ترجمہ: (اے منکر یا مریدِ بے اخلاص! اگر (اپنا مال جو مثل) مردہ ہے۔ (اخلاص کے ساتھ) اس کے حضور میں پیش کر دو تو وہ زندہ ہو جائے۔ (جس طرح) گندگی باغ کے اندر (کھاد کی صورت میں پڑ کر سبزہ) اُگاتی ہے۔
تقریر اہم: ان بارہ اشعار میں مولانا نے یہ چھ نہایت اہم باتیں ارشاد فرمائی ہیں
(1) مریدوں کو چاہیے کہ پیر کی مالی خدمت سے غافل نہ ہوں اور حتی الوسع اس کو ضروریاتِ معیشت سے مطمئن رکھیں۔
(2) پیر ضروریاتِ معیشت سے مطمئن و فارغ البال ہو تو زیادہ افاضۂ برکات کر سکتا ہے۔
(3) مالی محتاجی پیر کے ذاتی کمالات میں قادح نہیں۔
(4) پیر کی مالی خدمت کر کے اس پر احسان نہ رکھنا چاہیے۔
(5) بلکہ پیر کے بجائے یہ خود اپنے ساتھ احسان ہے کہ اپنی ہی ترقی کا باعث ہے۔ سعدیؒ ٗ
منت منہ کی خدمتِ سلطان می کنم
منت شناس ازو کہ بخدمت بداشتت
(6) حصول فیض کے لیے پیر کی خوشامد رکھنی چاہیے۔
گو بیانِ مقصود کے لیے یہ تقریر کافی و شافی ہے۔ مگر ہم بمناسبتِ مقام چند کلمات اور اضافہ کرنے کی ناظرین سے اجازت چاہتے ہیں۔
دنیا کے عالمِ اسباب میں تمام دینی و دنیوی امور اسباب و علل کے سلسلہ سے مربوط ہیں۔ جن بزرگ ہستیوں کو الواقع "خاک را بنظر کیمیا کنند" کا درجہ حاصل ہے۔ ان کو بھی جب مہماتِ معیشت میں مال کی ضرورت ہوتی ہے تو اس طاقتِ خارق عادت سے کام نہیں لیتے۔ اور بدر و حجر پر یہ نظر آزمائی کرتے نہیں پھرتے۔ بلکہ اپنے معتقدین کے ہدیوں اور پیشکشوں ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ پھر ان بزرگ ہستیوں سے بھی بزرگ ہستی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حالات پر نظر کرو جن کا یہ رتبہ ہے کہ اگر چاہیں تو جبلِ احد ان کے لیے سونے کا ڈھیر بن جائے اور سنگلاخ بطحا، کانِ طلا ہو جائے مگر جب تجہیز جیشِ عسرت کی اہم ترین ضرورت پیش آتی ہے تو وہ بھی اربابِ اموال ہی سے بہشت کے سودے پر استمداد فرماتے ہیں۔ غور کرو تو یہ سودا۔ یہ داد وَسَتَد اور یہ تعامل و تعاون کسی پہلو سے بھی غیر موزوں نہیں ہے۔ بلکہ عین سنت اللہ کے مقتضیات سے ہے۔ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْویٰ (المائدہ:2) حق تعالیٰ نے شیخ کو گنجینہ معرفت کا خازن و گنجور بنایا ہے کہ مریدوں کو اس دولت سے مالا مال کرے اور مریدوں کے بازوانِ توانا کو شیخ کے ذاتی اخراجات اور ساتھ ہی اس کے آستانہ کے خاک نشینوں اس کی بارگاہ کے ”اصحابِ صفہ“ اور اس کے خوانِ کرم کے اضیاف اللہ کے مصارف کا بار اٹھانے کی ہمت بخشی ہے کہ ان ضروریات کے لیے کسبِ زر کے اشغال۔ شیخ کے گرانمایہ احوال میں خلل نہ ڈالیں۔
ع ہر کسے را بہر کارے ساختند
اگر شیخ مرید کی اخروی نجات کی کوشش کر رہا ہے اور مرید شیخ کی دنیوی ضروریات میں ہاتھ بٹاتا ہے تو اس سودے میں کیا نقصان ہے؟ متقدمین صوفیہ سے لے کر متاخرین تک یہی معاملہ چلا جاتا ہے۔ منہج القوی جلد دوئم کے دیباچہ میں لکھا ہے:
قَالَ نَجْمُ الدِّیْن الکبریٰ کُنْتُمْ ضَعَفَاءُ بِالصِّدْقِ و الطَّلَبِ مُحْتَاجِیْنَ اِلَی الصُّحْبَۃِ و التَّرْبِیَّۃِ۔ فَمَنَّ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ بِصُحْبَۃِ الْمَشَائِخِ وَ قُبُوْلِھِمْ اِیَّاکُمْ وَالْاِقْبَالِ عَلیٰ تَرْبِیَّتِکُمْ وَ اِیْصَالِ رِزْقِکُمْ اِلَیْھِمْ وَ شَفْقَتِھِمْ وَ عَطْفِھِمْ عَلَیْکُمْ، فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تَرُدُّوْا صادِقاً اھتِمَاماً لِّرِزْقِہٖ اَوْ تَقَبَّلُوْا کَاذِباً حرصاً عَلیٰ تَکْثِیْرِ الْمُرِیْدِیْن۔
”حضرت نجم الدین کبریٰ فرماتے ہیں کہ تم صدق و طلب میں کمزور اور صحت و تربیت کے محتاج تھے۔ پس اللہ نے تم پر فضل کیا کہ مشائخ کی صحبت میں آ گئے اور انہوں نے تم کو مرید بنا لیا اور تمہاری تربیت پر آمادہ ہو گئے۔ تمہاری کمائی بطور ہدایا ان کے پاس پہنچی اور ان کی شفقت و ہدایت تم پر مبذول ہوئی۔ پس تم خود فیصلہ کر لو کہ ان کے رزق کے اہتمام میں صداقت کے کام لو گے یا مزید بڑھانے کی غرض سے جھوٹے مرید بنو گے۔“
لیکن زمانہ کے نقشہ کا دوسرا پہلو دیکھا جائے تو دنیا طلب پیروں اور مزورین مشائخ نے اس مشروع داد و سَتَد کو نہایت ناپاک و گندا کر رکھا ہے۔ بعض بطور اشارہ و کنایہ اپنے مریدوں سے مال و زر کا سوال کرتے رہتے ہیں۔ بعض صراحتاً فرمائشیں کرتے ہیں اور تخلّف مامول سے دل تنگ و ملول ہو جاتے ہیں اور بعض نے ایک سلطان جابر کی طرح مریدوں کی کمائی کا ربع یا خمس وصول کرنے کا ضابطہ بنا رکھا ہے اور اس طرح اپنے غریب مریدوں کی کمائی پر شاہانہ عیش و عشرت کر رہے ہیں۔
گر ہوائے طاق کسریٰ ہست صائب در دلتدانہ از تسبیح سازد دام از سجادہ کن
بزرگانِ زمانہ کا لائحہ عمل اپنے مریدوں سے فتوحات قبول کرنے کے بارے میں وہ ہونا چاہیے جو ہمارے حضرت المرشد سلمہ اللہ تعالیٰ نے عامہ مشائخ کے لیے کتاب کنز الہدایات کے حاشیہ صفحہ 6 میں تحریر فرمایا ہے:
”بدانکہ حضرت امام ربانی در مکتوب صد و ہفتاد و یکم از جلد اول میفرمائیند۔ نیک تاکید نمایند کہ طمع در مالِ مرید و توقع در منافع دنیوی او پیدا نشود کہ مانع رشد مرید ست و باعث خرابی پیر۔ در آنجا ہمہ دینِ خالص مے طلبند اَلَا للّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ۔ شرک را در آں حضرت بہیچ وجہ گنجایش نیست و حضرت امام شعرانی فرمودہ اند
اِنَّ الشَّیْخَ اِذَا عَلِمَ مِنْ مُّرِیْدِہٖ اَنَّہٗ صَارَ یَریٰ اَنَّ جَمِیْعَ مَا فِیْ یَدِہٖ اِنَّمَا وَصَلَ اِلَیْہِ بِبَرَکَۃِ اُسْتَاذِہٖ وَ اَنَّہٗ ھُوَ وَ عَیَالُہٗ اِنَّمَا یَاکُلُوْنَ مِنْ مَّالِ ذٰلِکَ الْاُسْتَاذِ فَلَا حَرَجَ عَلَی الشَّیْخِ حِیْنَئِذٍ فِیْ الْاَکْلِ مِنْ طَعَامِ ذٰلِکَ الْمُرِیدْ
”واضح ہو کہ حضرت امام ربانی قدس سرہ نے (مکتوبات کی) پہلی جلد کے ایک سو اکہترویں مکتوب میں فرمایا ہے کہ خوب تاکید کی جائے کہ مرید سے مال لینے کی حرص اور اس سے دنیوی فائدہ اٹھانے کی توقع پیدا نہ ہو۔ کیونکہ یہ مرید کی ہدایت کی مانع اور پیر کی خرابی کی باعث ہے۔ خدا کے ہاں بالکل خالص دین کی طلب ہے۔ چنانچہ فرمایا یاد رکھو اللہ کا حصّہ خالص دین ہے۔ شرک کی اس درگاہ میں کسی طرح گنجائش نہیں ہے اور حضرت امام شعرانیؒ نے فرمایا "کہ شیخ کو جب یہ معلوم ہو کہ اس کا مرید اس درجے کو پہنچ گیا ہے کہ اسے یقین ہے کہ میری تمام املاک میرے استاد کی برکت سے مجھے حاصل ہوئی ہیں اور میں اور میرا عیال اسی استاد کا مال کھا رہا ہے تو اس وقت شیخ کے لیے اس مرید کا طعام کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔“