دفتر 5 حکایت 97: اُس شخص کے ذکر (کی تمثیل) میں ایک حکایت جو توبہ کرے اور پشیمان ہو۔ پھر اُن پشیمانیوں کو بھول جائے اور آزمودہ کو آزمائے تو نقصان اٹھائے۔ جب اس کی توبہ کو (حق تعالیٰ کی طرف سے) پائیداری اور حلاوت اور قبولیت کی مدد نہ پہنچے۔ تو وہ اس درخت کی سی ہے جس کی جڑ نہ ہو۔ وہ ہر روز زرد اور خشک ہوتا جائے گا۔ اللہ پناہ میں رکھے۔

دفتر پنجم: حکایت: 97

حکایت در بیانِ کسے کہ توبہ کند و پشیمان شود و باز آں پشیمانیہا فراموش کند و آزمودہ را آزماید۔ در خسارت افتد چوں توبہ او را ثُباتے و حلاوتے و قبولے مدد نرسد۔ چوں درختِ بے بیخ ہر روز زرد تر و خشک تر شود۔ نعوذ باللہ

اُس شخص کے ذکر (کی تمثیل) میں ایک حکایت جو توبہ کرے اور پشیمان ہو۔ پھر اُن پشیمانیوں کو بھول جائے اور آزمودہ کو آزمائے تو نقصان اٹھائے۔ جب اس کی توبہ کو (حق تعالیٰ کی طرف سے) پائیداری اور حلاوت اور قبولیت کی مدد نہ پہنچے۔ تو وہ اس درخت کی سی ہے جس کی جڑ نہ ہو۔ وہ ہر روز زرد اور خشک ہوتا جائے گا۔ اللہ پناہ میں رکھے۔

-1-

گازرے بود و مر او را یک خرے پشت ریش اشکم تہی تن لاغرے

ترجمہ: کوئی دھوبی تھا اور اس کا ایک گدھا تھا۔ جس کی پیٹھ زخمی، پیٹ خالی اور جسم دُبلا تھا۔

-2-

درمیانِ سنگلاخے بے گیاہ روز تا شب بے نوا و بے پناہ

ترجمہ: دن بھر رات تک گھاس سے خالی پہاڑ میں بے سامان اور بے پناہ (پھرتا رہتا)

-3-

بہرِ خوردن غیرِ آب آنجا نبود روز و شب خر بد دراں کور و کبود

ترجمہ: کھانے (پینے) کے لیے وہاں پانی کے سوا (اور کچھ نہ تھا) اس لیے گدھا اس (مقام) میں دن رات اندھا اور تاریک (چشم ہو کر ٹھوکریں کھاتا پھرتا) تھا۔

-4-

آں حوالی نیستان و بیشہ بود شیرے آنجا بود صیدش پیشہ بود

ترجمہ: وہ نواح سر کنڈے کا جنگل اور صحرائی تھا۔ ایک شیر وہاں (رہتا) تھا۔ اور اس کا پیشہ شکار کرنا تھا۔

-5-

شیر را با پیل نر جنگے فتاد خستہ شد آں شیر و ماند از اصطیاد

ترجمہ: (اتفاقاً) شیر کی ایک نر ہاتھی کے ساتھ لڑائی ہوگئی۔ (جس میں) وہ شیر زخمی ہو گیا اور شکار مارنے سے (عاجز) رہ گیا۔

-6-

مدتے وا ماند زاں ضعف از شکار بےنوا ماند نہ دَد از چاشت خوار

ترجمہ: وہ اس کمزوری کی وجہ سے مدت تک شکار سے مجبور رہا (اور اس کے شکار نہ کرنے سے دوسرے) گوشت خور جانوروں کی غذا سے محروم رہ گئے۔

-7-

زانکہ باقی خوارِ شیر ایشاں بدند شیر چوں رنجور شد تنگ آمدند

ترجمہ: کیونکہ وہ شیر کا بچا کھچا (شکار) کھانے والے تھے۔ جب شیر بیمار ہو گیا۔ وہ تنگ آگئے۔

-8-

شیر یک روباہ را فرمود رَو مر خرے را بہرِ من صیاد شو

ترجمہ: شیر نے ایک لومڑی کو حکم دیا کہ جا میرے لیے ایک گدھا شکار کر کے لا۔

-9-

گر خرے یابی بگردِ مرغزار رو فسونش خواں قریبانش بیار

ترجمہ: اگر جنگل کے آس پاس تجھے کوئی گدھا ملے تو جا۔ اس کو جھانسا دے۔ اس کو فریب دے (اور یہاں) لے آ۔

-10-

یا خرے یا گاؤ بہرِ من بجو زاں فسونہائے کہ میدانی بگو

ترجمہ: (غرض کوئی شکار چاہیے) یا تو گدھے کو یا بیل کو میرے لیے تلاش کر۔ اور چکنی چپڑی باتیں جو تو جانتی ہے (اس سے) کر۔

-11-

چوں بیابم قوتے از لحمِ خر پس بگیرم بعد ازاں صیدے دگر

ترجمہ: جب میں گدھے کے گوشت سے (کچھ) طاقت پا جاؤں گا۔ تو پھر اس کے بعد اور شکار (خود) ماروں گا۔

-12-

اندکے من میخورم باقی شما من سبب باشم شمارا در نوا

ترجمہ: تھوڑا سا (گوشت) میں کھا لیا کروں گا۔ باقی تم (لوگ یعنی لومڑی، بھیڑیا، گیدڑ وغیرہ سب مل کر کھایا کرو گے) میں روزی میں تمہارے لیے ذریعہ ہوں گا۔

-13-

از فسونہا و ز سخنہائے خوشش نرم گرداں زود تر اینجا کشش

ترجمہ: فریب کی باتوں اور اچھی باتوں سے اس کو نرم کر (اور) جلدی اس کو یہاں کھینچ لا۔

انتباہ: مولانا آگے ایک ارشادی مضمون کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ جس میں شیر کو قطب سے تشبیہ دے کر فرماتے ہیں کہ جس طرح شیر شکار مارتا ہے اور اس کی بدولت جنگل کے سب درندے روزی پاتے ہیں اُسی طرح قطب کی بدولت تمام اہلِ ارادت کو غیبی فیضان سے باطنی غذا اور روحانی روزی ملتی ہے۔