دفتر 5 حکایت 93: اس بات کے بیان میں کہ حق تعالیٰ سے عارفِ واصل کی دعا اور اس کی درخواست ایسی ہے جیسے خود حق تعالیٰ کی درخواست اپنے آپ سے۔ کہ (حدیث قدسی میں فرمایا) میں اس کی شنوائی و بینائی اور زبان اور ہاتھ ہوں (اور قرآن مجید میں فرمایا) اور نہیں کنکریاں پھینکیں تم نے جب پھینکیں بلکہ اللہ نے پھینکیں اور آیات و احادیث اور بزرگوں کے اقوال اس بارے میں بہت ہیں اور اس بات کی تفصیل کہ حق تعالیٰ نے ایک سبب پیدا فرما دیا تاکہ وہ مجرم کو کان پکڑ کر توبہ کی طرف لائے

دفتر پنجم: حکایت: 93

در بیان آنکہ دعائے عارفِ واصل و درخواستِ او از حق ہمچو خواست حق است از خویشتن کہ کُنتُ لَہ سَمْعًا وَّبَصْرًا وَّلِسَانًا وَّیدًا. وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ رَمیٰ۔ وآیات و اخبار و آثار دریں بسیارست و شرح سبب ساختن حق جلّ و علیٰ تا محرم را گوش گرفتہ بہ توبۂ نصوح آورد

اس بات کے بیان میں کہ حق تعالیٰ سے عارفِ واصل کی دعا اور اس کی درخواست ایسی ہے جیسے خود حق تعالیٰ کی درخواست اپنے آپ سے۔ کہ (حدیث قدسی میں فرمایا) میں اس کی شنوائی و بینائی اور زبان اور ہاتھ ہوں (اور قرآن مجید میں فرمایا) اور نہیں کنکریاں پھینکیں تم نے جب پھینکیں بلکہ اللہ نے پھینکیں اور آیات و احادیث اور بزرگوں کے اقوال اس بارے میں بہت ہیں اور اس بات کی تفصیل کہ حق تعالیٰ نے ایک سبب پیدا فرما دیا تاکہ وہ مجرم کو کان پکڑ کر توبہ کی طرف لائے

مطلب:

حق تعالیٰ اپنے مقربین کے حق میں فرماتا ہے کہ میں ان کی زبان بن جاتا ہوں۔ پس اگر وہ مقرب اپنی زبان سے کوئی دعا کریں تو گویا حق تعالیٰ خود دعا کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ایسی دعا کس قدر مقبول ہوگی۔ یہ کلمات اس حدیث قدسی سے ماخوذ ہیں۔ جو قربِ فرائض اور قربِ نوافل کے مضمون پر مشتمل ہے۔ حدیث مذکورہ مع تفصیل ہر دو قرب مفتاح العلوم جلد اوّل میں درج ہو چکی ہے۔ یہاں اس کے متعلق حضرت خواجہ محمد معصوم قدس سرہ کے چند کلمات تبرکاً نقل کیے جاتے ہیں۔ جو ان شاء اللہ سابقہ بیان سے زیادہ بصیرت افزا بھی ہیں اور عنوان بالا کی توضیح کے لیے زیادہ مفید بھی:


”قربِ نوافل قربے ست کہ بر عبادت نافلہ مترتب شود۔ وچو در نوافل وجودِ عابد درمیان است قرب کہ براں مترتب شود قرب بود کہ وجود سالک درمیاں باشد۔ بس ایں قرب مغنّی نہ بُود کہ وجود صاحبِ قرب درمیان است۔ گفتہ اند کہ قربِ نوافل آنست کہ بندہ فاعل باشد و حق آلہ فعل او بود جلّ و علیٰ۔ در حدیث قدسی آمدہ لَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقرَّبُ اِلَیَّ بِالنّوَافِلِ حَتّی اَحْبَبْتُہٗ فَاِذَا کُنْتُ لَہٗ سَمْعاً وَّ بَصْرًا وَّیَدًا و موید او در روایتے آمدہ است فَبِیْ یَسْمَعُ وَبِی یُبْصِرْ۔ و در قرب فرائض چونکہ محض امتثالِ امرِ الہٰی است تعالیٰ وجودِ عابد درمیان نیست۔ پس قربے کہ برآں مترتب شود قربے بود کہ وجودِ عارف درآں درمیاں نبود لہٰذا گفتہ اند کہ قرب فرائض آنست کہ حق فاعل بود تعالیٰ و بندہ آلتِ فعلِ او باشد۔ چنانچہ وارد شدہ است اَلحَقُّ یَنطِقُ عَلیٰ لِساَن عُمَر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ناطقِ حق است و زباں بَیش از آلت نیست و نیز وارد شدہ اِتَّقُوْا غَضَبَ عُمَرَ فَاِنَّ اللّٰہ یَغضِبُ۔ پس قرب فرائض مفتی وجود سالک ست و قرب نوافل مفتی نیست و جمع بین المتقربین آنست کہ فاعل و آلت ہر دو حق باشد سبحانہ و بندہ درمیان ہیچ نہ بود۔ در آیہ کریمہ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ رَمَىٰ (الانفال:7) گویا اشارات بر سہ قرب ست۔“(مکتوب 137 از مکتوباتِ معصومیہ جلد سوم)

ترجمہ:

”قرب نوافل وہ قرب ہے جو عبادتِ نافلہ پر مترتب ہوتا ہے اور چونکہ نوافل میں عابد کا وجود درمیان ہے (اس لیے) جو قرب اس پر مترتب ہوتا ہے یہ وہ قرب ہے جس میں سالک کا وجود درمیان ہوتا ہے۔ پس یہ قرب درجۂ فنا پر پہنچانے والا نہیں ہوتا۔ کیونکہ صاحبِ قرب کا وجود درمیان ہے اور کہا گیا ہے کہ قرب نوافل وہ قرب ہے کہ بندہ فاعل ہو اور حق جل و علا اس کے فعل کا آلہ ہو اور حدیث قدسی میں آیا ہے کہ ”میرا بندہ برابر میری طرف نوافل کے ساتھ تقرّب چاہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان اور آنکھ و ہاتھ بن جاتا ہوں اور اس کا مؤید،“ ایک روایت میں آیا ہے ”پس وہ میرے ساتھ سنتا اور میرے ساتھ دیکھتا ہے“ اور قرب فرائض میں چونکہ محض حکم الہیٰ کی بجا آوری ہے اور عابد کا وجود درمیان نہیں۔ پس جو قرب اس پر مترتب ہوتا ہے یہ وہ قرب ہوتا ہے جس میں عارف کا وجود درمیان نہیں ہوتا۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ قربِ فرائض وہ ہے کہ حق تعالیٰ فاعل ہو اور بندہ اس کے فعل کا آلہ ہو جیسے کہ وارد ہوا ہے کہ حق تعالیٰ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے بولتا ہے۔ یعنی بولنے والا حق ہے اور عمرؓ کی زبان آلہ کے سوا اور کچھ نہیں اور نیز وارد ہوا ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غضب سے ڈرو کہ یہ اللہ کا غضب ہے۔ پس قرب فرائض سالک کے وجود کو درجہ فنا پر فائز کرنے والا ہے اور قرب نوافل فنا بخشنے والا نہیں اور دونوں قربوں کے جمع کی صورت یوں ہے کہ فاعل اور آلہ دونوں حق سبحانہ، ہو اور بندہ درمیان نہ ہو۔ آیۃ کریمہ”تم نے نہیں پھینکا جبکہ پھینکا، بلکہ اللہ نے پھینکا ہے“ گویا تینوں قربوں کی طرف اشارہ ہے۔

اس آیت کریمہ میں تینوں قربوں کی وجہ اشارہ شاید یوں ہو کہ وَماَ رَمَیتَ میں جو عبد سے نفی رمی کر کے آگے وَلٰکِنَّ اللہ رَمیٰ کا اسناد اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا ہے تو اس سے اللہ کا فاعل اور عبد کا محض آلہ ہونے کا اشارہ مستفاد ہوتا ہے۔ جو قربِ فرائض ہے۔ اور پھر اِذْ رَمَیتَ میں جو عبد کی رمی کو مثبت رکھ کر وَلٰکِنَّ اللہ رَمیٰ میں اس سے استدراک کیا ہے اور اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ رمی تو آپ ﷺ نے کی مگر اس میں آلہ فعلِ حق تھا تو اس میں عبد کے فاعل اور اللہ کے آلہ فعل ہونے کا کنایہ ہے جو قرب نوافل ہے اور جب نفی کا سریان و نفوذ رمیِ عبد پر کلیتاً ہے جس سے عبد نہ فاعل رہتا ہے نہ آلۂ فعل اور وَلٰکِنَّ اللہَ رَمیٰسے یہ دونوں باتیں اللہ کے لیے ثابت ہوگئیں۔ تو اس سے قرب فرائض و قربِ نوافل دونوں آگئے۔ ہٰذَا مَا وُِفِّقْتُ بِہٖ واللہ تعالیٰ اعلم۔

اب قصہ چلتا ہے:

1

آں دعا از ہفت گَردُوں در گذشت کارِ آں مسکیں بآخر خوب گشت

ترجمہ: (عارف کی) وہ دعا (کہ ایزدت توبہ دہاد) ساتوں آسمانوں سے گزر گئی۔ (اور اس غریب کا کام آخر درست ہوگیا۔)

2

کاں دعائے شیخ نے چوں ہر دعاست فانیست و گفتِ او گفتِ خداست

ترجمہ: کیونکہ وہ دعا (جو) شیخ (کامل) کی (زبان) سے نکلتی ہے ہر (شخص کی) دعا کی سی نہیں ہے وہ فانی (فی اللہ) ہے اور اس کا بول خدا کا بول ہے۔

3

چوں خدا از خود سوال و گَد کند پس دعائے خویش را چوں رد کند

ترجمہ: جب (شیخ کی دعا کے معنی یہ ہوئے) کہ گویا خداوند تعالیٰ خود اپنے آپ سے سوال کرتا اور بھیک مانگتا ہے تو وہ اپنی دعا کو کیوں رد کرنے لگا۔

مطلب: فنا کے مقام میں فانی کو بقا باللہ حاصل ہوتی ہے اور اس کا ہر قول و فعل خداوند تعالیٰ سے منسوب ہوتا ہے۔ پس جب وہ فانی دعا کرے گا تو وہ بھی گویا خداوند تعالیٰ کا فعل ہوگا۔

4

یک سبب انگیخت صنعِ ذوالجلال کہ رہانیدش ز نفرین و وبال

ترجمہ: (چنانچہ) خداوند تعالیٰ ذوالجلال کی کاریگری نے ایک سبب پیدا کر دیا کہ (جس کی بدولت اس کو (اس) ملامت (کے کام) اور وبال سے نجات دلا دی۔

5

اندراں حمام پُر می کرد طشت گوہرے از دخترِ شہ یاوَہ گشت

ترجمہ: وہ (حمامی) اس حمام میں طشت کو (پانی سے) بھر رہا تھا (کہ شہزادی کو نہلائے تو اس وقت) شہزادی کا ایک (نہایت قیمتی) موتی گم ہو گیا۔

6

گوہرے از خلقہائے گوش او یاوہ گشت و ہر زنے در جستجو

ترجمہ: اس کے کان کی بالیوں سے ایک موتی گم ہو گیا اور ہر (خادمہ) عورت تلاش میں (مشغول ہو گئی)۔

7

پس درِ حمام را بستند سخت تا بجویند اول اندر پیچ و رخت

ترجمہ: پھر حمام کا دروازہ سختی سے بند کر دیا گیا تاکہ پہلے کپڑوں کے پیچ اور لباس میں (اس موتی کو) تلاش کیا جائے پھر کوئی تدبیر کی جائے۔ ممکن ہے (یہ لفظ) ”پیچِ رخت“ ہو یعنی لباس کی تہ میں۔ ناقلوں کی غلطی سے واؤ عاطفہ درج ہو گئی ہو۔

8

رختہا جستند و آں پیدا نہ شد دُزدِ گوہر نیز ہم رسوا نہ شد

ترجمہ: (چنانچہ) کپڑوں کی تلاشی لے لی گئی اور وہ (موتی) نہ نکلا۔ موتی کے چور کا بھی بھانڈا نہ پھوٹا۔ (یعنی بعض اوقات چور پکڑا جاتا ہے اور چوری کا مال ابھی برآمد نہیں ہوتا۔ یہ بھی نہ ہوا۔)

9

پس بَجِدّ جستن گرفتند از گزاف در دہان و گوش و اندر ہر شگاف

ترجمہ: تو کوشش کے ساتھ (حاضرینِ حمام کے) منہ اور کان اور ہر مخفی سوراخ میں بے حد ڈھونڈنا شروع کیا گیا۔

10

در شگافِ فوق و تحت و ہر طرف جستجو کردند دُر از ہر صدف

ترجمہ: اوپر کے اور نیچے کے اور ہر طرف کے سوراخ میں (جستجو کی۔ غرض) موتی کو ہر سیپ میں ڈھونڈا گیا۔

مطلب: اوپر کے سوراخ منہ ناک کان اور نیچے کے سوراخ حوائجِ ضروریہ کے دونوں راستے دزدی پیشہ لوگ اکثر ان سوراخوں میں نقدی چھپا رکھتے ہیں۔ ایک چور دیکھا گیا۔ جس نے اپنی ہنرمندی کے فخر میں آ کر منہ کے اندر سے پانچ روپے کی ریزگاری نکال کر دکھا دی۔ جو اس نے کنج دہن میں اس صفائی سے چھپا رکھی تھی کہ گفتگو میں ذرا تغیّر نہ آتا تھا۔ بعض جرائم پیشہ قوم کی عورتیں اپنی شرمگاہ میں نقدی زیور وغیرہ اشیاء چھپا لیتی ہیں اسی لیے جب ان اقوام کے مرد عورت چوری کے الزام میں گرفتار ہوتے ہیں تو پولیس والے ان کی شرمگاہوں کی بھی تلاشی لیتے ہیں۔ یہی عمل یہاں حمام کے اندر کیا گیا۔ مگر جب موتی یوں بھی نہ ملا تو احتمال ہوا کہ اس کو چرانے والا کوئی عیار چور ہے۔ جو اپنے پہنے ہوئے کپڑوں کے اندر ہیرا پھیری کر جاتا ہے اور تلاشی کے وقت موتی کو ادھر سے اُدھر کرتا رہتا ہے۔ اس لیے:

11

بانگ آمد کہ ہمہ عریاں شوند ہر کہ ہستند از عجوز و از لوند

ترجمہ: (افسرِ تفتیش کی طرف سے) آواز آئی کہ سب بوڑھی اور فاحشہ عورتیں جو (یہاں موجود) ہیں ننگی ہو جائیں۔ (اب حمامی کی چھپی ہوئی مردمی کا راز فاش ہونے کا اندیشہ تھا۔ اور یہی توبہ نصوح کا باعث ہوا۔ جس سے خداوند تعالیٰ نے اس کو نفرین و وبال سے نجات دلائی۔)

12

یک بیک را حاجبہ جستن گرفت تا بدید آید گہر، بنگر شگفت

ترجمہ: دربان عورت نے ایک ایک عورت کی تلاشی لینی شروع کی۔ تاکہ موتی مل جائے (اب تم خدا کی قدرت کا) عجیب معاملہ دیکھو۔

13

آں نصوح از ترس شد در خلوتے روئے زرد و لب کبود از خشیتے

ترجمہ: وہ (حمامی جس کا نام) نصوح (تھا) خوف کا مارا خلوت میں چلا گیا۔ ڈر کی وجہ سے اس کا منہ زرد تھا اور ہونٹ نیلے۔

مطلب: ایک مرد کا فریب و مکر سے نا محرم عورتوں کے ننگے جسموں کو دیکھنا اور ان کو چھونا اور خصوصاً حریمِ سلطانی کو اپنی اس ہوس رانی کا تختہ مشق بنانا، اور نہ محض اتفاقاً بلکہ اس کام کو اپنا پیشہ ٹھہرانا اس قدر جرم تھا کہ جس کی سزا میں اس کو کولہو میں پلوایا جاتا۔ اس کے ٹکڑے اڑا کر چیلوں کوؤں کو کھلائے جاتے یا اس کے گوشت کو گرم سنڈاسیوں سے نوچا جاتا تو یہ باتیں غیرتِ سلطانی سے بعید نہ تھیں۔ اس لیے وہ ڈرتا تھا۔ غرض:

14

پیش چشمِ خویشتن میدید مرگ سخت می لرزید بر خود ہمچو برگ

ترجمہ: وہ موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے (موجود) دیکھ رہا تھا۔ اپنے حق میں پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔

15

گفت یارب بارہا برگشتہ ام توبَہ ہا و عذر را بشکستہ ام

ترجمہ: (گڑ گڑا کر) کہنے لگا۔ اے پروردگار میں بارہا (تیری بارگاہ میں رجوع کر کے) برگشتہ ہو گیا ہوں۔ توبہ و عذر (کے پیمان) توڑ چکا ہوں۔

16

کردہ ام آنہا کہ از من مے سزید تا چنیں سیلِ سیاہی در رسید

ترجمہ: میں نے وہ (بُرے) عمل کئے ہیں۔ جو مجھ (ایسے نالائق) کو (ہی) زیب دیتے تھے۔ حتیٰ کہ یوں سیاہ کاری کا سیلاب آن پہنچا (جس میں غرق ہوا چاہتا ہوں)۔

17

نوبتِ جُستن اگر در من رسد وَہ کہ جانِ من چہ سختی ہا کَشد

ترجمہ: اگر (اس) تلاشی کی نوبت مجھ تک پہنچ گئی تو ہائے میری جان کیسے کیسے عذاب اٹھائے گی۔

18

در جگر اُفتادہ استم صد شرر در مناجاتم بہ بیں خونِ جگر

ترجمہ: میرے جگر میں (خوف و خطر کے) سینکڑوں شرارے آ پڑے۔ دیکھ مناجات میں میرا خون جگر (بہہ رہا ہے)

19

ایں چنیں اندوہ کافر را مباد دامنِ رحمت گرفتم، داد، داد!

ترجمہ: ایسا غم تو کسی کافر کو بھی (نصیب) نہ ہو۔ میں نے تیری رحمت کا دامن تھام لیا ہے۔ دہائی ہے! دہائی ہے!!

20

کاشکے مادر نزادے مر مرا یا مرا شیرے بخوردے در چرا

ترجمہ: کاش! میری ماں مجھ کو نہ جنتی یا کوئی شیر چراگاہ کے اندر مجھے کھا جاتا۔

بقول: نظامی :

مرا اے کاش کہ مادر نزادے وگر زادے بخوردے سگ بدادے

21

اے خدا آں کن کہ از تو مے سزد کہ زِ ہر سوراخ مارم مے گزد

ترجمہ: اے خدا (اب) تو (میرے ساتھ) وہ سلوک کر جو تجھ کو زیب دیتا ہے۔ کیونکہ (اب) مجھے ہر سوراخ سے سانپ کاٹ رہا ہے۔

مطلب: اس شعر کا تعلق اس سابقہ شعر سے ہے کہ ”ٗ کردہ ام آنہا کہ ازمن مے سزید“۔ یعنی میں نے وہ بد اعمالیاں کیں جو مجھ کو زیب دیتی تھیں۔ اب تو رحم و کرم کا وہ سلوک کر جو تیری شان کے لائق ہے کما قیلؒ

یا رب از ما بغیر تقصیر نخاست گر قہر کنی بروں ز اندازہ رواست چیزے کہ باد تسلی خود بدہم از بحرِ عنایتِ تو امید عطاست

22

جانِ سنگیں دارم و دل آہنیں ورنہ خوں گشتے دریں درد و حنیں

ترجمہ: میں پتھر کی سی جان اور لوہے کا سا دل رکھتا ہوں۔ ورنہ اس درد اور گریہ میں وہ خون بن جاتے۔

23

وقت تنگ آمد مرا دہ یک نفس پادشاہی کن مرا فریاد رس

ترجمہ: مجھ پر نہایت تنگ وقت آگیا، ایک لمحہ کے لیے (اپنی سب سے زبردست) حکومت سے کام لے اور میری فریاد رسی کر (اگر تو اپنی طاقت سے کام لے تو مجھے کسی جابر اور قاہر حاکم سے گزند نہ پہنچے)۔

24

گر مرا ایں بار ستّاری کنی توبہ کردم من ز ہر ناکردنی

ترجمہ: اگر اس مرتبہ تو میری پردہ پوشی فرمائے تو آیندہ کے لیے میں نے ہر ایسے کام سے جو نہ کرنا چاہیے، توبہ کی۔

25

توبہ ام بپذیر ایں بارِ دگر تا بہ بندم بہرِ توبہ صد کمر

ترجمہ: اب دوبارہ میری توبہ قبول فرما تاکہ میں اب توبہ کے لیے سو کمر باندھوں۔ (یعنی کمال آمادگی کے ساتھ توبہ کروں)۔

26

من اگر ایں بار تقصیرے کنم پس دگر مشنو دعا و گفتنم

ترجمہ: اگر میں اس مرتبہ کوئی قصور کروں تو پھر میری دعا اور بات نہ سننا۔

27

اُو ہمے زارید و صد قطرہ رواں کاندر افتادم بجلّاد و عواں

ترجمہ: وہ یونہی رو رہا تھا اور سینکڑوں آنسو جاری تھے کہ میں جلاد اور سخت گیر کے پنجہ میں گرفتار (ہونے والا) ہوں۔

28

تا نہ میرد ہیچ افرنگی چنیں ہیچ ملحد را مبادا ایں چنیں

ترجمہ: (غرض بڑی آفت کا سامنا ہے) یہاں تک کہ کوئی فرنگی بھی ایسی موت نہ مرے۔ کسی ملحد کو بھی ایسا (بُرا دن نصیب) نہ ہو۔

عبرت: کیا عبرت کی بات ہے کہ آج اہلِ فرنگ حکمت و دانش میں، علوم و فنون میں، دولت و ثروت میں، آئینِ ملک داری میں اپنے آپ کو تمام اقوامِ عالم سے فائق سمجھتے ہیں اور باقی تمام قومیں ان کی نظر میں وُحوش و دَوابّ، کچھ زیادہ وقعت نہیں رکھتیں۔ ایک دن مسلمانوں کی برتری اور اہلِ فرنگ کی پستی کا یہ حال تھا کہ اہلِ اسلام ان کے کفر و جہالت کی وجہ سے انہیں بدترین مخلوق سمجھتے تھے۔ اس شعر میں فرنگی کا ذکر اس زمانہ کی اُسی ذہنیت عام کا مظہر ہے۔ یعنی یہ موت ایسی پُر فضیحت اور رسوائی خیز ہے کہ کوئی مومن و مسلمان تو کیوں اس کا مستوجب ہو، کوئی بدتر سے بدتر مخلوق حتیٰ کہ فرنگی بھی اس میں مبتلا نہ ہو۔ اسی محاورہ پر حضرت مجدّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کسر نفس اور حالتِ فنا کے بیان میں بارہا فرماتے ہیں ”خویش را از کافرِ فرنگ بدتر باید شمرد“۔ گویا فرنگی کا کفر تمام جَماعاتِ کَفَرَہ کے کفر سے بدتر ہے۔ یہ تو صدیوں بیشتر کا حال ہے۔ اگر آج بھی اہلِ فرنگ کی مادی ترقیات سے قطع نظر کر کے ان کی مذہبی و دینی حالت کو دیکھا جائے تو اب بھی فی الواقع ان کا کفر دیگر تمام اقوام کے کفر سے بدتر اور پُر خطر ہے۔ مسلمان کا لڑکا چین و جاپان اور افریقہ کے کفرستانوں میں جا کر اپنے مذہب سے نہیں پھرتا۔ لیکن اگر لندن اور برلن کی تعلیم گاہوں میں وہ چند ماہ گزارے تو اس کا مغرور و متکبر، خود بین و خود آرا اور بزرگوں کے ادب اور شعائراللہ کی تعظیم سے کورا ہو جانا تو معمولی بات ہے۔ بلکہ وہ اپنے دین و مذہب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور وہاں کے ہوٹلوں سے لحمِ خنزیر تک کھانے میں اس کو ذرا جھجک نہیں رہتی۔ اَعَاذَناَ اللہُ مِن تِلکَ البُلدَانِ۔

29

نوحے ہا مے کرد او بر جانِ خویش روئے عزرائیل دیدہ پیش پیش

ترجمہ: (غرض) وہ (حمامی) عزرائیل (ملک الموت) کی صورت اپنے رو برو دیکھ کر اپنی جان کے لیے (روتا اور طرح طرح کے) نوحے کرتا تھا۔

30

اے خدا و اے خدا چنداں بگفت کاں در و دیوار با او گشت جفت

ترجمہ: اس نے اس قدر (رو رو کر) یا خدا یا خدا کہا کہ وہ دَر و دیوار (بھی) اس کے ساتھ (اس فریاد و فغاں میں) شریک ہو گئے۔

31

درمیانَ یا رب و یارب بُد اُو بانگ آمد از میانِ جستجو

ترجمہ: وہ (اپنی سی) یا رب یا رب (کی ندا) میں تھا کہ (اس) تلاش کے اثنا میں (یہ) آواز آئی کہ: (آواز کے کلمات عنوان میں آتے ہیں)