دفتر 5 حکایت 94: نصوح کا توبہ کرنا اور آواز آنا کہ ہم نے سب کی تلاشی لے لی اب نصوح کی تلاشی لو۔ اور نصوح کا اس دہشت سے بے ہوش ہو جانا اور کام کا انتہائی بندش کے بعد کشادہ ہونا۔ جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کسی بیماری یا غم کے پیش آنے کے وقت فرمایا کرتے (کہ) اے تکلیف تو سخت ہو جا کہ پھر ٹل جائے۔

دفتر پنجم: حکایت: 94

توبہ جستن نصوح و آواز آمدن کہ ہمہ را جستیم نصوح را بجوئید و بیہوش شدنِ نصوح ازاں ہیبت و کشادہ شدن کار بعد از نہایت بستگی کَماَ کَانَ یَقُولُ الرَّسُولُ عَلَیہِ السَلاَمِ اِذَا اَصاَبَہٗ مَرَضٌ اَؤھَمٌّ اِشتَدِّیْ اَزِمَةُ تَنفَرِجِی۔

نصوح کا توبہ کرنا اور آواز آنا کہ ہم نے سب کی تلاشی لے لی اب نصوح کی تلاشی لو۔ اور نصوح کا اس دہشت سے بے ہوش ہو جانا اور کام کا انتہائی بندش کے بعد کشادہ ہونا۔ جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کسی بیماری یا غم کے پیش آنے کے وقت فرمایا کرتے (کہ) اے تکلیف تو سخت ہو جا کہ پھر ٹل جائے۔

مطلب: شدتِ مشکلات عموماً ذریعہ حصول مرادات ہو جاتی ہے۔ کما قیل :

کار بہتر شود آندم کہ بتر می گردد سخت چوں شد گرہ قطرہ گہر می گردد

حدیث مندرجہ عنوان اشتَدِی۔۔۔۔ الخ کو عسکری اور دیلمی اور قضاعی نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں حسین بن عبداللہ بن ضمرہ ہے اور کذاب ہے (کذا فی تمیزالطب) ایک عربی اخبار میں راقم نے ایک شعر دیکھا۔ جس میں اس حدیث کو بہت عمدہ تضمین کیا گیا۔ ٗ

اِشتَدّی اَزِمَۃُ تَنفَرِجِی قَد اٰذَنَ لَیلُکِ بِالبَلج

یعنی اے مصیبت تو سخت ہو جا تاکہ آخر ٹل جائے۔ اب تیری تاریک رات سے سپیدہ صبح نمودار ہونے کا وقت قریب آگیا۔

1

جملہ را جُستیم پیش آ اے نصوح گشت بے ہوش آں زماں پرّید روح

ترجمہ: (آواز آئی کہ) ہم نے سب کی تلاشی لے لی (اب) اے بی بی نصوح تو سامنے آ۔ (تاکہ تیری بھی تلاشی برہنہ کر کے لی جائے) اس وقت (نصوح) بے ہوش ہو گیا۔ (اور ایسا بے ہوش کہ گویا اس کی) رُوح پرواز کر گئی۔

2

ہمچو دیوارے شکستہ در فتاد ہوش و عقلش رفت و شد ہمچوں جماد

ترجمہ: وہ ایک شکستہ دیوار کی طرح (دھڑام سے) گر پڑا۔ اس کا ہوش اور عقل جاتے رہے اور وہ بے جان چیز کی مانند ہو گیا۔

3

چونکہ ہوشش رفت از تن آں زماں سِرّ او با حق بہ پیوست از نہاں

ترجمہ: جب اس وقت اُس کا ہوش بدن سے جاتا رہا تو اس کا راز باطن سے حق تعالیٰ کے ساتھ جا ملا۔

4

چوں تہی گشت و خودیِ او نماند بازِ جانش را خدا در پیش خواند

ترجمہ: جب وہ اپنی ہستی سے خالی ہو گیا اور اس کی خودی نہ رہی تو اس کی روح کے باز کو خدا تعالیٰ نے اپنے پاس بلا لیا۔ (یعنی وہ مشاہدہ حق میں مستغرق ہو گیا)

4

چوں شکست آں کشتیِ او بے مراد در کنارِ رحمتِ دریا فتاد

ترکیب: بےمراد حال ہے۔ نصوح کی ضمیر سے رحمتِ دریا مرکب توصیفی ہے۔ بتاویلِ رحمتِ بے پایاں ان کو مرکب اضافی ماننا بے لطف بلکہ بے معنی ہوگا اور بہ تکلف معنی درست ہوں گے۔

ترجمہ: جب نا مرادی میں اس کی کشتی ٹوٹ گئی تو رحمت (خداوندی) کے کنارے پر جو (اپنی وسعت و بے پایانی میں بمنزلہ) دریا ہے جا پڑا۔

-6

جاں بحق پیوست چوں بے ہوش شد موجِ رحمت آں زماں در جوش شد

ترجمہ: جب وہ بے ہوش ہوا تو (اس کی) جان حق تعالیٰ سے جا ملی۔ رحمت (خداوندی) کی موج اس وقت جوش میں آگئی۔ (وہ بے ہوشی میں مستغرق بحق ہو گیا)۔

7

چونکہ جانش وا رہید از ننگِ تن رفت شاداں پیشِ اصلِ خویشتن

ترجمہ: جب اس کی جان بدن کی شرم (ناک معیت) سے چھوٹ گئی تو وہ خوشی خوشی اپنے اصل (یعنی ذاتِ احدیت کے) پاس چلی گئی۔

8

جان چو باز و تن مرا ُو را کُندۂ پائے بستہ پر شکستہ بندۂ

ترجمہ: جان باز کی مانند ہے (جو عالمِ بالا کی طرف پرواز کرنا چاہتی ہے) اور بدن اس کے لیے (بمنزلہ) کُندہ ہے (اب روح ایک عاجز) بندہ ہے جس کے پاؤں بندھے ہوئے ہیں اور پر کٹے ہوئے ہیں۔

9

چونکہ ہوشش رفت پایش بر کشاد مے پرد آں باز سوئے کیقباد

ترجمہ: جب اس کے ہوش جاتے رہے (اور روح کا تعلق جسم کے ساتھ نہ رہا) تو اس کے پاؤں کھل گئے (اب) وہ باز بادشاہ (حقیقی تعالیٰ شانہ) کی طرف اڑ رہا ہے۔

10

چونکہ آں دریائے رحمت جوش کرد سنگہا ہم آبِ حیواں نوش کرد

ترجمہ: جب وہ دریائے رحمت جوش پر آتا ہے تو پتھر بھی آبِ حیات نوش کر لیتے ہیں۔

11

ذرّہ لاغر، شگرف و زفت شد فرشِ خاکی اطلس و زربفت شد

ترجمہ: (پھر) ایک لاغر ذرّہ بھی عمدہ اور موٹا ہو جاتا ہے۔ خاکی فرش اطلس اور زر بفت بن جاتا ہے۔

12

مردہ صد سالہ بیروں شد زِ گور دیو ملعوں شد بخوبی ہمچو حُور

ترجمہ: سو سال کا مردہ قبر سے باہر نکل پڑتا ہے۔ شیطان ملعون خوبصورتی میں حور کی مانند ہو جاتا ہے۔

13

جملگی روئے زمیں سرسبز شد شاخِ خشک اشگوفہ کرد و گبز شد

ترجمہ: تمام روئے زمین سر سبز ہو جاتی ہے۔ سوکھی ٹہنی کلیوں سے بھر جاتی ہے اور موٹی ہو جاتی ہے۔

14

گرگ با برّہ حریفِ مَے شدہ نا امیداں خوش رگ و خوش پے شدہ

ترجمہ: بھیڑیا بکری کے بچہ کے ساتھ، شراب (پینے) میں شریک ہو جاتا ہے۔ نا امید لوگ (خوشی سے) اچھی رگوں اور اچھے پٹھوں والے بن جاتے ہیں۔

مطلب: غرض خداوند تعالیٰ کی رحمت جب جوش پر آتی ہے تو اس طرح تمام مخلوق کو نہال کر دیتی ہے۔ نصوح کی دعا و مغفرت سے بھی اس کی رحمت کا دریا جوش زن ہوا اور گردابِ ہلاکت سے نصوح کا بیڑا پار ہو گیا۔