دفتر پنجم: حکایت: 92
در بیانِ توبہ نصوح کہ چنانچہ شِیر از پستان بیروں آید باز بہ پستاں نہ رود۔ وآنکہ توبہ نصوح کرد ہر گز ازاں گناہ یاد نکند بطریقِ رغبت بلکہ ہر دم نفرت اورا زیادہ گردد و نفرتِ او دلیلے قاطع بود بر قبولِ توبہ او۔ چہ شہوت اول بے لذت شدہ۔ ولذتِ قبولِ توبہ بجائے آں نشستہ۔ وآ نکہ قبولِ توبہ نیافتہ ازیں حال بے خبر ست
خالص توبہ کے بیان میں کہ جس طرح دودھ جب پستان سے نکلتا ہے تو پھر پستان میں واپس نہیں جاتا اور جس شخص نے خالص توبہ کی۔ ہر گز اس گناہ کو بطریق رغبت یاد نہیں کرتا۔ بلکہ (اس گناہ سے) ہر دم اس کی نفرت زیادہ ہو جاتی ہے اور اس کی نفرت اس کی توبہ کے قبول ہونے کی قطعی دلیل ہوتی ہے۔ کیونکہ پہلی خواہش (گناہ) بے لذت ہو چکی۔ اور قبولِ توبہ کی لذت اس کی قائم مقام ہو گئی۔ اور جس کو قبولِ توبہ نصیب نہیں ہوئی وہ اس حال سے بے خبر ہے۔
1
بود مردے پیش ازیں نامش نصوحبد ز دَلّاکی زناں او را فتوح
ترجمہ:
اس سے پہلے ایک شخص تھا۔ جس کا نام نصوح تھا۔ عورتوں کا بدن مل (کر نہلانے) سے اس کی آمدنی (وابستہ) تھی۔ (مرد کا عورتوں کے بدن کو ملنے کا موقع پانا بلکہ اس سے روزی کمانا ایک عجوبہ امر ہے۔ راز اس سے یہ تھا کہ:
2
بود روئے او چو رُخسارِ زناںمردیِ خود را ہمے کردے نہاں
ترجمہ:
اس کا چہرہ عورتوں کے رخسار کی طرح (خوبصورت اور بے ریش و بروت) تھا (اس لیے بظاہر وہ عورت معلوم ہوتا تھا۔ اور) اپنی مردی کو چھپائے رکھتا تھا۔
مطلب:
چونکہ عورتیں اس کو عورت سمجھتی تھیں۔ اس لیے اس سے اپنے گلفام جسموں کو ملوانے اور اپنے عنبرین بالوں کو دھلوانے سے حجاب نہیں کرتی تھیں۔ اور عورتوں کی اس غلط فہمی سے اس مکار حمامی کو روزی کمانے اور مسّ نساء سے لطف و لذت پانے کا موقع حاصل تھا۔ دوسرے مصرعہ میں یہ اشارہ ہے کہ گو اس عجیب موقع کے حصول میں بڑی حد تک قدرت نے اس کی مساعدت کی کہ اس کو عورتوں کا سا گلگوں چہرہ، متوسط قد، نرم و گداز ہاتھ پاؤں، سریلی اور باریک آواز اور زنانہ ادائیں بخشی تھیں۔ مگر ابھی تک بہت سے امور ایسے تھے جن سے اس کی مردمی کا راز طشت از بام ہو سکتا تھا۔ مثلاً گفتگو میں مردانہ محاورہ، حسین عورتوں کی طرف گرسنہ نگاہی۔ عورتوں کا بدن چھونے میں شہوت سے بے بسی اور بے بسی میں کسی خطرناک حرکت کا ارتکاب۔ سو اِن باتوں میں وہ مکار بڑی ہوشیاری سے محتاط رہتا تھا اور عورتوں کو شک و شبہ کا کوئی موقع نہ آنے دیتا تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
3
او بحماّمِ زناں دَلاّک بُوددر دغا و حیلہ بس چالاک بُود
ترجمہ:
وہ عورتوں کے حمام میں حمامی (بنا ہوا) تھا۔ دغا اور حیلہ میں بڑا چالاک تھا۔
4
سالہا می کرد دلّاکی و کسبو نبرد از حالتِ آں بوالہوس
ترجمہ:
وہ برسوں (عورتوں کے) بدن ملنے کا کام کرتا رہا اور کوئی شخص اس شہوت پرست کی حالت سے (مردمی) کا سراغ نہ پا سکا۔
5
زانکہ آواز و رخش زن وار بودلیک شہوت کامل و بیدار بود
ترجمہ:
کیونکہ اس کی آواز اور چہرہ عورتوں کے سے تھے لیکن شہوت پوری اور بیدار تھی۔
6
چادر و سر بند پوشید و نقابمردِ شہوانی و در غرہ شباب
ترجمہ:
(اس) شہوت پرست مرد نے (دھوکا دینے کے لیے زنانی) چادر اور سر بند اور نقاب پہن رکھا تھا۔ اور (اندرونی حالت یہ تھی کہ وہ) جوانی کے غرور میں (مست تھا)۔
7
دخترانِ خسرواں را زیں طریقخوش ہمے مالید و مے شست آں عشیق
ترجمہ:
اس طریقے سے وہ عشق باز‘ بادشاہوں کی لڑکیوں کو خوب ملتا اور نہلاتا تھا۔
8
توبہ ہا میکرد و پا در مے کشیدنفسِ کافر توبہ اش را مے درید
ترجمہ:
وہ بارہا توبہ (بھی) کرتا تھا۔ اور (اس راہِ معصیت سے اپنے) پاؤں کو روکتا تھا۔ (مگر) نفسِ کافر اس کی توبہ کے پرزے پرزے کر (کے رکھ) دیتا تھا۔
مطلب:
گو وہ حمامی اس وقت نفسِ شیطان کی سخت گرفت میں تھا اور لذتِ نفسانیہ کے ایسے گرداب میں اس کی کشتی گرفتار تھی جس سے نکلنا سخت دشوار تھا۔
جب جوش پہ آئے مستیِ عہد شباباور عیش کے ہوں سارے میسر اسبابمحبوب ہو سازگار غائب ہو رقیبتقویٰ کا جہاز ہے میانِ گرداب
مگر ابھی اس کی فطرت بالکل مسخ نہیں ہوئی تھی اور صلاحیت کا ورق پوری طرح سیاہ ہونے نہیں پایا تھا۔ اس لیے اس غفلت کے نشے میں کبھی کبھی ندامت و پشیمانی کی رگ تڑپنے لگتی تھی۔ اور وہ نا محرم عورتوں کو برہنہ دیکھنے اور ان کے بدن چھونے کی معصیت سے توبہ کرتا۔ مگر پھر نفس سرکش زور پا کر اس کی توبہ کو تباہ کر دیتا۔
ایک مرتبہ راقم نے حضرت المرشد سلمہ اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ بعض ایسے لوگ دیکھے جاتے ہیں جو نمازی، پابندِ جماعت روزہ دار، تہجد گزار، روزانہ تلاوت کرنے والے اور زکوٰۃ بالالتزام دینے والے ہیں۔ مگر وہ تقویٰ میں ایسے کمزور پائے جاتے ہیں کہ ہر وقت نا محرم عورتوں کی ہوس سر پر سوار ہے۔ کل فلاں گھر سے رسوا ہو کر گئے تھے تو آج فلاں گھر سے پٹ کر نکلے ہیں۔ ان کا یہ حال ایک معمہ ہے جو سمجھ میں نہیں آتا۔ فرمایا :ان لوگوں کی فطرت اچھی ہے۔ مگر وہ نفس کے پنجہ میں گرفتار ہیں۔ اس وقت فطرتِ حسنہ اور نفس کا معرکہ ہو رہا ہے۔ آخر ایک وقت فطرت غالب آئے گی۔ عبادات کا ثمرہ ظاہر ہوگا اور معاصی بالکل ترک ہوجائیں گے۔ غرض اسی طرح وہ حمامی اپنے حسنِ فطرت کے تقاضے سے جب توبہ کرتا تو نفس اپنی قوت سے اس کی توبہ کو توڑ ڈالتا۔ آخر اس کی فطرت کو غلبہ حاصل ہوا۔ یعنی اس کے ان معاصی سے بالکل کنارہ کش ہونے اور نفس کو مغلوب کرنے کے اسباب منجانب اللہ پیدا ہو گئے۔ چنانچہ:
9
رفت پیشِ عارفے آں زشت کارگفت ما را در دعائے یاد دار
ترجمہ:
وہ بدکار ایک عارف کے پاس گیا (اور اس سے) کہا آپ ہم کو کسی دعا میں یاد رکھیں۔
10
سرّ او دانست آں آزاد مردلیک چوں حلمِ خدا پیدا نہ کرد
ترجمہ:
اس آزاد مرد (عارف) نے اس کے راز کو معلوم کر لیا۔ لیکن خداوند تعالیٰ کے حلم کی طرح (اس کو) ظاہر نہ کیا۔
مطلب:
خداوند تعالیٰ ہر شخص کے گناہِ معصیت کو دیکھتا ہے مگر اس کو مستور و مخفی رکھتا ہے اور یہ اس کا حلم ہے۔ اگر وہ گناہوں کی سزا بھی دیتا ہے تو بھی پردہ داری کے ساتھ دیر کے بعد اور بلا تعین مدت۔ اور اس نے کوئی قرینہ ایسا قائم نہیں ہونے دیا کہ کسی خاص جرم کی خاص سزا سمجھی جائے۔ ورنہ جب کوئی شخص کسی خاص قسم کی مصیبت میں مبتلا ہوتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ اس نے فلاں جرم کیا ہے اور اس سے اس کا پردہ فاش ہو جاتا یہ بھی اس کا حلم ہے۔ اسی طرح اس عارف نے بھی یہ معلوم کرنے کے باوجود کہ یہ عورت نہیں بلکہ عورت نما مرد ہے اور مرد بھی شہوت پرست و مرتکبِ معاصی، اپنے علم کا اس پر اظہار نہ کیا کہ وہ خجل نہ ہو اور عارف کی حالت یہ ہے کہ:
11
بر لبش قفل ست و در دل رازہالب خموش و دل پُر از آوازہا
ترجمہ:
اس کے لب پر (خاموشی کا) قفل (لگ رہا) ہے اور (اس کے) دل میں (چھپے) راز (عیاں) ہیں۔ لب خاموش (ہیں) اور دل (مختلف) آوازوں سے پُر ہے۔ (آگے مولاناؒ عارف لوگوں کے حفظِ اسرار و ضبط ضمیر کا ذکر فرماتے ہیں)۔
12
عارفاں کہ جامِ حق نوشیدہ اندرازہا دانستہ و پوشیدہ اند
ترجمہ:
عارف لوگ جو (معرفتِ) حق کا جام پی چکے ہیں۔ (اکثر) راز (باعلامِ حق) جان جاتے ہیں اور ان کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔
13
ہر کرا اسرارِ حق آموختندمُہر کردند و دہانش دوختند
ترجمہ:
جس شخص کو حق تعالیٰ کے اسرار بتائے گئے (اس کے لبوں پر) مہر لگا دی گئی۔ اور اس کا منہ سی دیا گیا کہ ان اسرار کا (افشا نہ کرے) ۔کما قیل :
اے خواجہ دلت چو محرم غیب بُودمیپوش ہر آنچہ سر لاریب بوداسرارِ خدا بروں میفگن کہ زعیبیک نقطہ اگر بروں فتد عیب بود
آگے پھر قصہ چلتا ہے:
14
سُست خندید و بگفت اے بد نہادزانچہ دانی ایزدت توبہ دہاد
ترجمہ: (غرض) وہ (عارف اپنے کشف سے اس کا حال معلوم کر کے) آہستہ سے ہنسا اور (بطور دعا) کہا۔ اے بد نہاد! اس حالت سے جو تجھے معلوم ہے اللہ تعالیٰ تجھ کو توبہ (کی توفیق) دے۔