دفتر پنجم: حکایت: 91
رسیدنِ زن بخانہ و جُدا شدن زاہد از کنیزک
بی بی کا گھر پہنچنا اور زاہد کا لونڈی سے الگ ہو جانا
1
چوں رسید آں زن بخانہ در کشادبانگِ در در گوشِ ایشاں در فتاد
ترجمہ:
جب وہ عورت گھر پہنچی تو اس نے دروازہ (جس کی زنجیر نہیں چڑھائی گئی تھی) کھولا (اور ادھر) دروازے کی آواز ان (دونوں غریقانِ وصل) کے کان میں پڑی۔
2
آں کنیزک جست آشفتہ ز سازمرد بر جست و سِتاد اندر نماز
ترجمہ:
(1) وہ لونڈی (جو گھبرا کر اٹھی بے سرے) باجے سے (بھی زیادہ) پریشان اٹھی (اور) مرد (زاہد بھی) اچھل پڑا (اور) فوراً مصلّے پر جو پاس ہی بچھا رکھا تھا) نماز میں جا کھڑا ہوا۔
(2) وہ لونڈی حالت جماع سے گھبرا کر اٹھی، زاہد بھی اچھل پڑا اور نماز میں جا کھڑا ہوا،
3
زن کنیزک را بژولیدہ بدیددرہم و آشفتہ و دَنگ و مَرید
ترجمہ: عورت نے (جو) لونڈی کو الجھے ہوئے (بالوں سے اور) گڑ بڑ اور پریشان و حیران اور (سلیقہ لباس کی) اصول شکن (یا ایک حالت سے دھکیل کر نکالی ہوئی) دیکھا۔
4
شوئے خود را دید قائم در نمازدر گماں افتاد زن زاں اہتراز
ترجمہ:
(اور) اپنے شوہر کو نماز میں کھڑے دیکھا تو اس حرکت سے شبہ میں پڑ گئی۔
مطلب:
اہتزاز کے معنی جنبش کے ہیں۔ جیسے زلزلہ میں زمین کی جنبش، ستارے کا غروب کے وقت ڈبڈبانا، جانور کا چلتے میں حرکت کرنا، فارسی میں یہ لفظ خوشی کی حرکت میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں زاہد کی حرکتِ نماز مراد ہے یعنی حرکت سے جو لونڈی کو ژولیدہ مُو اور پریشان حال دیکھا۔ جو صحبت و ملاعبت کی نمایاں علامت ہے اور ادھر زاہد صاحب مصروفِ نوافل نظر آئے تو اسے زاہد کی نماز پر شبہ ہوا کہ یہ محض مکاری کی نماز ہے۔ اس لیے:
5
شوئے را برداشت دامن بے خطردید آلودۂ منی خصیہ و ذَکَر
ترجمہ:
اس نے بلا تامل شوہر (کے تہمد) کا دامن اٹھایا تو (اس کے) خصیہ اور ذکر کو منی سے آلودہ پایا۔
6
از ذَکَر باقیِ نطفہ مے چکیدران و زانو گشتہ آلودہ پلید
ترجمہ:
(اس وقت) ذکر سے باقی نطفہ ٹپک رہا تھا (جس سے) ران اور زانو آلودہ اور ناپاک ہو رہے تھے۔
7
برسرش زد سیلی و گفت اے مہینخصیہ مردِ نمازی باشد ایں؟
ترجمہ:
(عورت نے) اس کے سر پر چانٹا لگایا اور کہا، اے حقیر آدمی! کیا نمازی مرد کے یہی (ناپاک و آلودہ) خصیے ہوتے ہیں
8
لائقِ ذِکر و نمازَست ایں ذَکَر؟و ایں چنیں ران و زہارِ پُر قذر؟
ترجمہ:
کیا یہ ذکر نماز کی طاعت کے لائق ہے اور ایسی پلیدی سے بھری ہوئی ران و شرمگاہ۔
مطلب:
عورت اپنے بدکار شوہر کو پھٹکار رہی ہے کہ نمازی تو اپنی شرمگاہ کو پاک رکھتا ہے ، جیسی تیری حالت ہو رہی ہے، کیا نماز کے لائق ایسی حالت ہوتی ہے؟
9
نامۂ پُر ظلم و فسق و کفر و کینلائق ست انصاف دہ اندر یمین؟
ترجمہ:
(عورت کہہ رہی ہے کہ ارے کچھ) انصاف تو کر کہ کیا (تجھ ایسے بدکار آدمی کا) اعمالنامہ جو ظلم و بدکاری اور کفر و کینہ سے لبریز ہو (قیامت میں) دائیں ہاتھ کے اندر (آنے) کے لائق ہے؟
مطلب:
زاہد اور اس کی بیوی کا قصہ یہاں تک ہے۔ بیوی کا یہ آخری قول مولانا رومؒ کے اس قولِ سابق کا مؤید ہے کہ
ایں چنیں نامہ کہ پُر ظلم و جفاستکے خود در خور آں دستِ راست
اور اسی بیان کی تائید کے لیے جس میں اعمالنامہ کے دائیں یا بائیں ہاتھ میں آنے کی بحث ہے۔ یہ قصہ مذکور ہوا ہے۔ یعنی صوم و صلوٰۃ والوں کا اعمالنامہ تو دائیں ہاتھ میں آنا چاہئے۔ لیکن کیا ایسی نمازیں پڑھنے والوں کا اعمالنامہ بھی دائیں ہاتھ میں آنے کے لائق ہے۔ جیسی یہ زاہد پڑھ رہا ہے؟ اور عنوان کے ساتھ اِس قصّے کی مناسبت یہ ہے کہ زاہد اس وقت مصلے پر کھڑا ہوا گویا بہ زبانِ حال اپنے عابد ہونے کا دعوٰی کر رہا ہے۔ مگر لمحہ بھر پہلے جو اس کی حالت تھی اور اب زیرِ اِزار اس کی جو کیفیت ہے اس کو اس دعوٰی سے کچھ مناسبت نہیں۔ آگے مولاناؒ اسی عبارت کے عنوان کی تفسیر فرماتے ہیں:
10
گر بپرسی گبر را کایں آسماںآفریدہ کیست و ایں خلقِ جہاں
ترجمہ:
اگر تم کسی کافر سے پوچھو کہ یہ آسمان اور یہ مخلوقاتِ عالم کس نے پیدا کی ہے۔
11
گوید اینہا آفریدہ آں خداستکافرینش بر خدائیش گَوَاست
ترجمہ:
تو وہ کہے گا کہ یہ سب اشیا اُس خدا ہی کی پیدا کی ہوئی ہیں جس کی خدائی پر خلقت گواہ ہے۔
12
کفر و ظلم و استمِ بسیارِ اوہست لائق با چنیں اقرارِ او
ترجمہ:
تو کیا اس کا یہ کفر اور ظلم و ستمِ کثیر اس کے ایسے اقرار کے باوجود زیبا ہے؟
13
ہست لائق با چنیں اقرارِ راستآں فضیحتہا و آں کردارِ کاست؟
ترجمہ:
کیا ایسے درست اقرار کے ساتھ وہ رسوائیاں اور ناقص کام لائق ہیں؟
14
فعلِ اُو کردہ دروغ آں قول را تا شُد او لائق عذابِ ہول را
ترجمہ:
اس کے فعل نے اس کے قول کو جھٹلا دیا حتیٰ کہ وہ ہولناک عذاب کا مستوجب ہو گیا۔
15
پس دروغ آمد ز سر تا پائے اُوکہ دروغش کرد ہم اعضائے او
ترجمہ:
پس وہ سر سے پاؤں تک جھوٹا نکلا کیونکہ خود اس کے اعضا نے بھی اس کی تکذیب کی۔
مطلب: منافق یعنی دل کا کافر جب زبان سے اپنے اسلام کا اقرار کرتا ہے اور اس کے اعضاء سے اعمالِ کفریہ سرزد ہوتے ہیں۔ تو گویا اعضا اس کے زبانی اقرار کی تکذیب کرتے ہیں۔ یہ تو دنیا میں اس کے اعضا کی گواہی ہے جو وہ صاحبِ اعضا کے خلاف دیتے ہیں۔ آگے قیامت میں ان کے گواہی دینے کا ذکر فرماتے ہیں۔
16
روزِ محشر ہر نہاں پیدا شودہم ز خود ہر مجرمے رُسوا شود
ترجمہ:
(اسی طرح) قیامت میں ہر مخفی بات ظاہر ہو جائے گی۔ ہر گنہگار آپ سے آپ رسوا ہو جائے گا۔
17
دست و پا بدہد گواہی با بیاںبر فسادِ او بہ پیشِ مستعاں
ترجمہ:
ہاتھ پاؤں خداوند تعالیٰ کے سامنے! جس سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ اس مجرم کی خرابی پر مدلل گواہی دیں گے۔
18
دست گوید من چنیں دزدیدہ املب بگوید من چنیں بوسیدہ ام
ترجمہ:
وہ ہاتھ کہے گا، میں نے یوں چوری کی ہے۔ لب کہے گا میں نے یوں بوسہ لیا ہے۔
19
پائے گوید من شد ستم تا مُنےٰفرج گوید من بکردَستم زنا
ترجمہ:
پاؤں کہے گا میں (ناجائز) مقاصد کی طرف گیا ہوں۔ شرم گاہ کہے گی میں نے زنا کیا ہے۔
20
چشم گوید غمزہ کردَستم حرامگوش گوید چیدہ ام سوء الکلام
ترجمہ:
آنکھ کہے گی میں نے حرام (طرز سے) اشارہ کیا ہے۔ کان کہے گا میں نے بُری بات اخذ کی ہے۔
مطلب:
اعضا کی گواہی کے بارے میں جو وہ محشر میں دیں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَيَوْمَ يُحْشَرُ أَعْدَاءُ اللَّـهِ إِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوزَعُونَ ۱۹ حَتَّىٰ إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ۲۰ (فصلت) اور جس دن دشمنانِ خدا دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے۔ پھر وہ (اور دوزخیوں کے جمع ہونے کے انتظار میں) روکے جائیں گے۔ یہاں تک کہ دوزخ پر آ جمع ہوں گے۔ تو جیسے جیسے عمل یہ لوگ کرتے رہے ہیں، ان پر ان کے کان اور اُن کی آنکھیں اور ان کے (گوشت) پوست ان کے خلاف گواہی دیں گے۔
21
پس دروغ آید ز سر تا پائے خویشچوں گواہی میدہد اعضائے خویش
ترجمہ:
پس جب (اس کے) خود اپنے اعضاء (اس کے خلاف) گواہی دے رہے ہوں گے تو وہ خود سر تا پا جھوٹ ثابت ہوگا۔
22
آنچناں کاندر نمازِ با فروغاز گواہی خصیہ شد ز رقش دروغ
ترجمہ:
جیسے کہ پُر نور نماز کے اندر خصیہ کی گواہی سے اس (زاہد) کی بناوٹ جھوٹ (ثابت) ہوگئی (زاہد کے مذکورہ بالا قصے کی طرف اشارہ ہے۔ نماز کو پُر نور اصل عبادت کے لحاظ سے کہا ہے۔ خاص زاہد کی اس وقت کی نماز کو نہیں کہا۔ کیونکہ وہ تو پر نور ہونے کے بجائے پُر ظلمت تھی)
23
پس چناں کن فعل کاں خود بے زباںباشد اشہد گفتن و عینِ بیاں
ترجمہ:
(پس تم ایسا نیک) فعل کرو کہ وہ (فعل) خود ہی زبان کے بغیر قول اشہد اور عین بیان ہو۔ (اشہد کے معنی میں گواہی دیتا ہوں، یعنی ہر فعل بزبانِ حال کہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ نیک آدمی ہے)
24
تا ہمہ تن عضو عضوت اے پسرگفتہ باشد اشہد اندر نفع و ضر
ترجمہ:
تاکہ اے عزیز! تیرے سارے جسم کا جوڑ جوڑ (جس سے وہ افعال صادر ہوں ہر) نفع و ضرر میں (پہلے ہی) کہہ دے کہ میں (اس شخص کے نیک ہونے پر) گواہی دے رہا ہوں۔ (یہ ترجمہ اس صورت میں ہے کہ ”عضوت“ ”ہمہ تن عضو“ کا بدل ہو۔ اگر ”ہمہ تن عضو“ ” عضوت“ کی تاکید ہو تو ترجمہ یوں ہوگا کہ ہر جوڑ ہمہ تن زبان ہو کر اشہد کہہ دے۔)
25
رفتنِ بندہ پے خواجہ گَوَاستکہ منم محکوم و ایں مولائے ماست
ترجمہ:
غلام کا (اپنے) آقا کے پیچھے پیچھے چلنا (اس بات کی) شہادت ہے کہ میں غلام ہوں اور یہ ہمارا آقا ہے۔
مطلب:
یہ فعل شہادت دینے کی ایک مثال ہے۔ یعنی غلام کا آقا کے پیچھے چلنا ایک ایسا فعل ہے، جو غلام کے حق میں یہ شہادت دیتا ہے کہ اس نے اپنے متبوع کو آقا اور واجب الاتباع مانا ہوا ہے۔ جیسے ایک آدمی تمام احکام میں رسول اللہ ﷺ کا اتباع کر رہا ہے تو اس کا یہ اتباع خود ہی اس کے مسلم و مومن ہونے پر شاہد ہے اگرچہ وہ اپنے منہ سے مسلمان ہونے کا دعوٰی نہ کرے، بر خلاف اس کے اگر ایک آدمی بتوں کے آگے ماتھا ٹیکتا نظر آئے تو اس کو کوئی مسلمان نہیں کہہ سکتا۔ اگر چہ وہ اپنا گلا پھاڑ پھاڑ کر اپنے مسلمان ہونے کا دعوٰی کرے۔ بقول صائب ؒ
عمر با کارِ تو باگفتارِ بے کردار بودبعد ازیں کردارِ بے گفتار مے باید شدن
غرض خدا پرست ہونے کا حق یہ ہے کہ محبوبِ خدا ﷺ کا کامل اتباع کیا جائے۔ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ (آل عمران:31) آگے فرماتے ہیں کہ اگر تم گزشتہ ایام میں ایسے اعمال سرزد کر چکے ہو جو تمہارے ایک مسلمان متورّع ہونے کے خلاف گواہی دیتے ہیں تو اُن سے آئندہ توبہ کرو اور ایسے اعمال اختیار کرو جو تمہاری نیکی و صلاح کے شاہد ہوں۔
27
گر سیہ کردی تو نامۂ عمرِ خویشتوبہ کن زانہا کہ کردستی بہ پیش
ترجمہ:
اگر تم نے اپنی عمر کا اعمالنامہ (ایسے اعمال سے) کالا کر لیا ہے (جو تمہارے خلاف شہادت دیتے ہیں) تو ان (اعمال) سے جو پہلے کیے گئے ہیں، توبہ کرو۔
28
عمر گر بگذشت بِیخَش ایں دم استآبِ توبہ اش دہ اگر او بے نم ست
ترجمہ: اگر عمر (گناہوں میں) گزر چکی تو (بھی مایوس ہونے کی بات نہیں) عمر (کے درخت) کی جڑ یہ (موجودہ) سانس ہے۔ اس (جڑ) کو (ہی) توبہ کا پانی دو۔ اگر وہ تری سے خالی ہے۔ (یعنی اس سانس کو بھی توبہ و استغفار میں صرف کرو تو تمام سابقہ گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔)
29
بیخ عمرت راہ دِہ آبِ حیاتتا درختِ عمر گردد با ثُبات
ترجمہ: اپنی عمر کی جڑ کو (توبہ و انابت کا) آب حیات دو تاکہ (تمہاری) عمر کا درخت (سر سبزی و شادابی میں) پائدار ہو جائے۔ بقول صائبؒ:
ہر چہ از عمر گرانی صرفِ غفلت می شودمی تواں یک صبح دم در ملک استغفار یافت
30
جملہ ماضی ہا ازیں نیکو شوندزہر پارینہ ازیں گردد چو قند
ترجمہ: تمام گزشتہ خرابیاں اس سے اچھی ہوجائیں (گناہوں کا) پرانا زہر اس سے قند کی مانند (مفید و شیریں) بن جائے۔
31
سیئاتت را مبدّل کرد حقتا ہمہ طاعت شوند آں ما سبق
ترجمہ:
تمہارے گناہوں کو حق تعالیٰ نے (نیکیوں میں) بدل دیا ہے تاکہ وہ سب سابقہ گناہ (طاعت) بن جائیں۔
مطلب:
اشارہ بآیت فَأُولَـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّـهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ (الفرقان:70) پس یہ وہ لوگ ہیں جن کے گناہوں کو حق تعالیٰ نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ تفسیر مدارک میں لکھا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ارتکابِ معاصی کے بعد ایتانِ محاسن کی توفیق بخش دیتا ہے یا معاصی کو توبہ سے مٹا دیتا ہے اور ان کی جگہ ایمان و طاعت کی نیکیاں ثبت کر دیتا ہے۔ یہ مراد نہیں کہ گناہ بعینہ نیکی بن جاتا ہے۔ (انتہیٰ)۔ مولانا بحرالعلوم فرماتے ہیں کہ سیئہ اس اعتبار سے کہ اسمائے حق میں سے ایک اسم کی مظہر ہے اور مسبح حق ہے؛ حسن ہے اور اس اعتبار سے اس میں کوئی قبح نہیں۔ مگر اس سے حکمِ شرع کی مخالفت کا وجود وقوع ہوتا ہے تو وہ اس لحاظ سے قبیح ہے۔ پس جب اس سے توبہ کی جاتی ہے اور مخالفتِ شرع کو ترک کیا جاتا ہے تو اس سے سیئہ کا قبح زائل ہو جاتا ہے اور وہ اپنے خالص حسن پر قائم رہتی ہے (انتہیٰ) آگے توبہ و استغفار کی تاکید فرماتے ہیں۔ جس سے سیئات مبدل بحسنات ہو جاتی ہیں۔
32
خواجہ بر توبہ نصوحی خوش بتنکوششے کن ہم بجان و ہم بہ تن
ترجمہ:
میاں! تہ دل سے توبہ پر اچھی طرح آمادہ ہو جاؤ (اور ایسی توبہ کرنے کی) کوشش (دل و جان) سے بھی اور (اپنے) جسم سے بھی کرو۔
مطلب:
دل سے کوشش تو یہ ہو کہ آئندہ پھر اس گناہ کا ارتکاب اور توبہ شکنی نہ ہونے پائے اور توبہ پر قائم رہنے کا مصمم قصد ہو۔ جسم سے کوشش یہ کہ تمام اعضائے جسم اس گناہ کے دوبارہ ارتکاب سے محترز رہیں اور سارا وجود خضوع و خشوع کا مظہر ہو۔
33
شرحِ ایں توبہ نَصُوح از من شنوبگرویدستی ولے از نو گرو
ترجمہ:
اس خالص (دل کی) توبہ کی تفصیل مجھ سے سنو (گو) تم (پہلے سے اس کو) تسلیم کر چکے ہو۔ مگر (اب) از سرِ نو (بھی) تسلیم کر لو۔
مطلب: توبہ نصوح کا محاورہ سورۃ تحریم رکوع دوم کی اس آیت سے ماخوذ ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّـهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا (التحریم:8) یعنی اے مسلمانوں! اللہ کی جناب میں خالص دل سے توبہ کرو۔ یہاں آیت میں نصوح بفتح نون بمعنی خالص و راست صیغہ صفت ہے۔ قصہ نگاروں نے افادہ عام کے لیے جب اس آیت کو پیش نظر رکھ کر توبہ و انابت کے عبرتناک قصے وضع کرنے چاہے اور ان قصوں میں وہ توبہ کرنے والا ایک آدمی فرض کرنے لگے تو کلمات آیت کی مناسبت سے اس کا نام نصوح قرار دے لیا اور اس کے توبہ کرنے اور گنہگار سے نیکو کار بننے کے مختلف دلچسپ قصے لکھ ڈالے۔ جیسے اردو میں ایک کتاب بنام توبۃ النَّصُوح مشہور ہے۔ اسی قسم کا ایک قصہ مولاناؒ آگے ارشاد فرمائیں گے عوام الناس جب یہ آیت سنتے ہیں تو ان سنے سنائے قصوں سے ان کو دھوکہ ہوتا ہے کہ اس سورۃ میں وہی قصہ مذکور ہے۔ بلکہ بعض نیم ملا تو جھگڑنے لگتے ہیں کہ اجی آپ کو کیا معلوم ہے، بنے پھرتے ہیں مولوی، سنو! نصوحا ایک آدمی تھا۔ اللہ میاں اسی کا قصہ بیان فرما رہے ہیں۔