دفتر 5 حکایت 90: اس شخص کے ذکر میں جو ایسی بات کہے کہ اس کا حال اس بات اور دعوے کے مطابق نہ ہو جیسے کافر لوگ ”اور اگر تم ان کافروں سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے بنایا ہے تو ضرور کہیں گے، اللہ نے“ پس پتھر کی مورتی کو پوجنا اور جان اور مال اس کی بھینٹ چڑھانا ایسی جان کے لیے کہاں مناسب ہے جو جانتی ہے کہ آسمانوں اور زمین اور مخلوقات کو پیدا کرنے والا وہ اللہ ہے جو سننے والا اور دیکھنے والا ہر جگہ حاضر نگہبان غالب اور غیرت مند ہے

دفتر پنجم: حکایت: 90


در بیان کسے کہ سخنے گوید کہ حالِ او مناسب آں سخن و آں دعوٰی نباشد چنانچہ کَفَرَہْ وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (لقمان: 25) خدمتِ بُتِ سنگین کردن و جان و زر فدائے او کردن چہ مناسب باشد با جانے کہ داند خالقِ سمٰوات و ارض و خلائق الہٰیت سمیعے و بصیرے حاضرے مراقبے مستولیے غیورے

اس شخص کے ذکر میں جو ایسی بات کہے کہ اس کا حال اس بات اور دعوے کے مطابق نہ ہو جیسے کافر لوگ ”اور اگر تم ان کافروں سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے بنایا ہے تو ضرور کہیں گے، اللہ نے“ پس پتھر کی مورتی کو پوجنا اور جان اور مال اس کی بھینٹ چڑھانا ایسی جان کے لیے کہاں مناسب ہے جو جانتی ہے کہ آسمانوں اور زمین اور مخلوقات کو پیدا کرنے والا وہ اللہ ہے جو سننے والا اور دیکھنے والا ہر جگہ حاضر نگہبان غالب اور غیرت مند ہے۔

1

زاہدے را بُد یکے زن ہمچو حُور رشک ناک اندر حقِ او بس غیور

ترجمہ:

کسی (نمائش اور نام کے) زاہد کی ایک بیوی حور کی سی (خوبصورت) تھی جو اس کے حق میں بڑا رشک کرنے والی (اور) نہایت غیرت مند تھی۔

2

زانکہ بُد زن را کنیزِ مہوشے در دِل زاہد بُد از وے آتشے

ترجمہ:

(رشک اور غیرت کی) وجہ یہ (تھی) کہ عورت کی ایک خوبصورت لونڈی تھی (اور) زاہد کے دل میں اس (لونڈی) کی طرف سے آتشِ (شوق مشتعل) تھی۔

3

زن زِ غیرت پاسِ شوہر داشتے با کنیزک خلوتے نگذاشتے

ترجمہ:

عورت غیرت کی وجہ سے شوہر کی نگرانی رکھتی۔ لونڈی کے ساتھ اس کو تخلیہ کا موقع نہ دیتی۔

4

مدتے شد زن مراقب ہر دو را تاکہ شاں فرصت نیفتد در خلا

ترجمہ:

عورت مدّت تک دونوں کی حفاظت کرتی رہی تاکہ ان کو تنہائی میں (ملنے کا) موقع نہ ملے۔

5

تا در آمد حکمِ تقدیرِ الہٰ عقلِ حارس خیرہ سر گشت و تباہ

ترجمہ:

یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا حکم آیا اور پہرہ دار (عورت) کی عقل ناکارہ اور تباہ ہوگئی۔

6

حکمِ تقدیرش چو آید بے وقوف عقل کہ بود؟ در قمر افتد خسوف

ترجمہ:

جب اُس کی تقدیر کا حکم بلا اطلاع آتا ہے تو عقل کون ہوتی ہے، چاند میں (بھی) گہن آجاتا ہے۔

7

بود در حمام آں زن ناگہاں یادش آمد طشت در خانہ بُداں

ترجمہ:

وہ عورت حمام میں (نہانے گئی) تھی۔ اچانک اس کو طشت یاد آگیا۔ (جس میں پانی ڈال کر نہانا ہوگا کہ) وہ گھر میں (رہ گیا) تھا۔

8

با کنیزک گفت روہاں مرغ وار طشت را از خانہ بر گیرد بیار

ترجمہ:

لونڈی (بھی ساتھ تھی۔ اس) سے کہا۔ جا۔ ہاں پرندے کی طرح (پر لگا کر جا اور) گھر سے طشت لے اور میرے پاس لا۔


9

آں کنیزک زندہ شد چوں ایں شنید کہ بخواجہ ایں زماں خواہد رسید

ترجمہ:

اس لونڈی نے جب یہ (حکم) سنا تو اس میں جان پڑ گئی کہ اب وہ آقا کے پاس جا پہنچے گی۔

10

خواجہ در خانہ است و خلوت ایں زمان پس دواں شد سوئے خانہ شادماں

ترجمہ:

آقا گھر میں ہے اور اب تنہائی (کا موقع میسر) ہے۔ پس وہ خوشی خوشی گھر کی طرف دوڑی۔

11

عشقِ شش سالہ کنیزک را بہ بیں کہ بیابد خواجہ را خلوت چنیں

ترجمہ:

لونڈی کے چھ سال کے عشق کو دیکھ (اور قیاس کر)کے جب وہ یوں آقا کو تنہائی (میں) پائے (تو کب توقف کرنے لگی تھی۔ چنانچہ(

12

گشت پرَّاں جانبِ خانہ شتافت خواجہ را در خانۂ خلوت بیافت

ترجمہ:

وہ گھر کی طرف اڑتی ہوئی گئی۔ آقا کو گھر میں تنہا پایا۔

13

ہر دو عاشق را چناں شہوت ربود کاحتیاط و یادِ در بستن نبود

ترجمہ:

دونوں عاشقوں کو شہوت نے یہاں تک بے خود کر دیا کہ (ان کو) احتیاط (کا خیال) اور دروازہ بند کرنا (یعنی اس میں زنجیر چڑھانا) یاد نہ رہا۔

14

ہر دو دَرہم وا خزیدند از نشاط جاں بجاں پیوست آں دم ز اختلاط

ترجمہ:

دونوں جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ اس وقت وصل سے جان کے ساتھ جان مِل گئی۔

15

یاد آمد در زماں زن را کہ من چوں فرستادم وَرا سوئے وطن

ترجمہ:

(اُدھر) اسی وقت عورت کو (بھی یہ معاملہ) یاد آگیا کہ میں نے اس (لونڈی) کو (ناحق) گھر کی طرف کیوں بھیج دیا۔ (جس سے اس کو آقا کے ساتھ خلوت کا موقع ملے)

16

پنبہ در آتش نہادم من بخویش در فگندم من قُچِ نر را بہ میش

ترجمہ:

میں نے اپنے ہاتھوں سے روئی کو آگ میں رکھا۔ میں نے آپ ہی مینڈھے کو بھیڑ پر ڈالا۔

17

گِل فرو شُست از سر و بیخود دوید از پے او رفت و چادر می کشید

ترجمہ:

(جلدی سے ملتانی) مٹی جو بالوں کو دھونے کے لیے سر میں (مل رکھی تھی) دھو ڈالی۔ اُس (لونڈی) کے پیچھے دوڑی اور (عجلت میں) چادر (زمین) پر کھینچتی جا رہی تھی (دیکھئے تھوڑی دیر پہلے وہ لونڈی بھی دوڑی گئی تھی۔ اب یہ بی بی بھی دوڑی جا رہی تھی۔ مگر دونوں کے دوڑنے میں بڑا فرق ہے چنانچہ)

18

آں ز عشقِ جاں دوید و ایں زِ بیم عشق کو و بیم کو، فرقِ عظیم

ترجمہ:

وہ (لونڈی) تو جان کے عشق سے دوڑی (اور) یہ (بی بی اپنے میاں کی خرابی کے) خوف سے، کہاں عشق اور کہاں خوف، بڑا فرق (ہے)۔

19

سیرِِ عارف ہر دمے تا تخت شاہ سیرِ زاہد ہر مہے یک روزہ راہ

ترجمہ:

(چنانچہ عشق اور خوف کی رفتاروں میں اس قدر فرق ہے کہ) عارف کی رفتار (جو عشق سے دوڑ رہا ہے) ہر لمحہ میں شاہ (حقیقی) کے تخت تک ہے (اور) زاہد کی رفتار (جو عذابِ آخرت کے خوف سے دوڑ رہا ہے) ہر مہینے میں ایک دن کی مسافت کے برابر ہے۔

20

گرچہ زاہد را بود روزے شگرف کے بود یک روزِ او خمسیں الف

ترجمہ:

اگرچہ زاہد (کی رفتار) کا ایک دن غنیمت ہے (مگر) ایک دن پچاس ہزار برس کے برابر کب ہو سکتا ہے۔

21

قدر ہر روزے ز عمرِ مردِ کار باشد از سالِ جہاں پنجہ ہزار

ترجمہ:

(بخلاف اس کے) مردِ کار (یعنی عارفِ کامل) کی عمر کے ایک ایک دن کی مقدار دنیا کے پچاس ہزار سال (کے برابر) ہے۔

مطلب:

زاہد کا دن یہی چار پہر کا دن ہے اور عارف کا وہی دن پچاس ہزار سال کے برابر ہے اور اس لحاظ سے اس کا سیر و سلوک بھی زاہد کے سیر و سلوک سے اسی قدر زیادہ ہے۔ مولانا بحر العلومؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ زمانہ پر قبض و بسط طاری کر دے۔ یعنی وہی ایک زمانہ ایک شخص پر چھوٹا ہو اور دوسرے پر لمبا، بلحاظ خیال و توہم نہیں بلکہ بحسبِ واقع اور اس پر وقائعِ کثیرہ شاہد ہیں۔ چنانچہ ایک عارف کا ذکر ہے کہ وہ طواف کر رہے ہیں۔ آغازِ طواف سے انہوں نے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا اور طواف کے ساتوں چکروں میں ختم کر دیا۔ جس کو ایک گھنٹہ سے زیادہ دیر نہیں گزری ہوگی۔ ایک اور بزرگ ان کی تلاوت کو سنتے رہے، جنہوں نے ان کو باترتیل، لفظ بلفظ، بمد و شد اور بوقف و وصل پڑھتے بخوبی سنا۔ جو کئی ہفتوں کا کام ہے۔ زمانہ کے قبض وبسط کی صورت یہ ہے کہ جن احوال و واقعات کی بالترتیب رفتار کے لیے مہینوں اور برسوں کا گزر جانا خیال میں آتا ہے۔ وہ خارج میں بطریقِ مخصوص تھوڑی دیر میں وقوع پذیر ہو جائیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ روزِ محشر مومنوں کے لیے شروع سے لے کر جنت میں داخل ہونے تک ایک ساعت کے برابر محسوس ہوگا اور گنہگاروں کے لیے دخولِ نار تک پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔ جس میں ان کا حساب ہوتا رہے گا۔ نیز معراج کا زمانہ رسول اللہ ﷺ کے لیے بہت لمبا تھا۔ دوسرے لوگوں کے لیے ساعت سے بھی کم تھا۔ (انتہیٰ مخلصاً)۔ ایک صاحب بصیرت آدمی کو زمانہ کے قبض و بسط کا ثبوت خواب سے بخوبی مل سکتا ہے مثلاً رات کو سوتے سوتے یکبارگی آنکھ کھل گئی تو گھنٹے نے ایک بجایا۔ پھر فوراً آنکھ لگ گئی۔ ایک خواب نظر آیا جو لمبے چوڑے واقعات پر مشتمل تھا۔ کئی دوستوں کی رفاقت، باغوں، جنگلوں، پہاڑوں کی سیر۔ کبھی کبھی میدان میں سرگرمِ رفتار ہیں۔ کبھی ساتھیوں سے مصروفِ بحث و تکرار ہیں۔ یہ سارے کام اسی فراغت و طمانیت سے وقوع پائے ہیں گویا صبح سے شام تک کا عرصہ ان پر صرف ہوا ہے۔ مگر جونہی آنکھ کھل جاتی اور لیمپ کی روشنی میں گھنٹہ پر نظر جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ایک بج کر پانچ منٹ گزرے ہیں۔ مگر عقل و قیاس اس رمز کے سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس لیے فرماتے ہیں:

22

عقلہا زیں سِر بود بیرونِ در زَہرۂ وہم ار بدرّد گو بدر

ترجمہ:

(عام لوگوں کی) عقلیں اس راز کے دروازے سے باہر ہیں۔ وہم کا حوصلہ اگر (اس راز کو سمجھنے سے) پست ہوا جاتا ہے تو ہونا ہی چاہیے (کیونکہ یہ راز اس کی بساط سے بڑھ کر ہے)

23

ترسِ موئے نیست اندر پیشِ عشق جملہ قربانند اندر کیشِ عشق

ترجمہ:

عشق کے آگے (کسی بات کا) خوف ایک بال (برابر) نہیں ہوتا (بلکہ) عشق کے مشرب میں (اہلِ عشق) سب قربان (ہونے کو تیار رہتے) ہیں۔

مطلب:

خوفِ آخرت سے قربِ حق کی کوشش کرنا اور بات ہے اور محض عشقِ حق کی بناء پر طالبِ قرب ہونا دوسرا مقام ہے۔ وہاں کسی مصیبت تکلیف اذیت حتیٰ کہ عذابِ نار تک کی بھی پروا نہیں ہوتی۔ بقولِ جامیؒ

آں گرم رو بعشق سزد کز کمالِ شوق

پروانہ وش بآتشِ سوزاں دروں رود

24

عشق وصفِ ایزدست اما کہ خوف وصفِ بندۂ مبتلائے فرج و جوف

ترجمہ: عشق (تو وہ اعلیٰ چیز ہے کہ اس کو) اللہ تعالیٰ کا وصف (قرار دیا جا سکتا) ہے۔ مگر خوفِ بندہ کا وصف ہے جو شرمگاہ اور شکم (کی ضروریات) کا مقید ہے۔

مطلب:

حق تعالیٰ کو عشق سے موصوف کرنے کے جواز کی دلیل آگے آتی ہے اور اس کے خوف کے ساتھ موصوف نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ خوف کسی ایسے امرِ غیر ملائم کے پیش آنے سے عارض ہوتا ہے جس کے دفع کی قدرت نہ ہو۔ حق تعالیٰ جبار و قہار ہے کوئی امرِ غیر ملائم اس کو پیش نہیں آ سکتا۔ اگر آئے تو وہ اس کے دفع پر قادر ہے۔ لہٰذا اس کو خوف کا عارض ہونا محال ہے۔ بندہ کو جس طرح شکم و فرج کی حقیر ترین خواہشات عارض ہیں‘ خوف بھی عارض ہوتا رہتا ہے، یا اس میں یہ اشارہ مضمر ہے کہ جو ہستی بقائے شخص کے لیے مقتضیاتِ شکم کی مقید اور بقائے نوع کے لیے لذاتِ فرج کی پابند ہے۔ اس کو ایسے غیر ملائم امور سے خوف عارض ہونا لازم ہے جو اس کے شخص ونوع کے لیے موجبِ آفت ہوں۔ عشق کے ساتھ حق تعالیٰ کے موصوف ہونے کی دلیل یہ ہے کہ

25

چوں یُحِبُّونَہ بخواندِی از نبے بَا یُحِبُّھُم قریں در مطلبے

26

پس محبت وصفِ حق داں عشق نیز خوف نبود وصفِ یزداں اے عزیز

ترجمہ:

جب تم قرآن مجید سے یُحِبُّونہَ کو یُحِبَّھُم کے ساتھ ایک مدعائے خاص میں شامل پڑھتے ہو تو محبت کو حق تعالیٰ کا وصف سمجھو (اور) عشق کو بھی۔ اے عزیز خوف حق تعالیٰ کا وصف نہیں ہو سکتا۔

مطلب:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ (المائدۃ:54) ”عنقریب اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جن سے وہ محبت کرتا ہے اور وہ اس سے محبت کرتے ہیں۔“ بندوں کا اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا عشق کے معنی میں ہے۔ جب بندے کی محبت بمعنی عشق ہے تو اللہ تعالیٰ کی محبت بھی جو اس آیت میں مذکور ہے عشق کے معنی سے عاری ہونا ضروری نہیں۔ مولانا جامیؒ نے خوب فرمایا ہے کہ تم یہ خیال نہ کرو کہ تم عاشق ہو اور حق تعالیٰ معشوق، بلکہ عاشقی و معشوقی کی دونوں صفتوں سے موصوف وہی ہے۔

بقول جامیؒ:

الا تا در غلط تافتی کہ گوئی کہ از ما عاشقی وازوے نکوئی توئی آئینہ او آئینہ آرا توئی پوشیدہ و او آشکارا کہ ہمچوں نیکوئی عشقِ ستودہ ازو سر بر زدہ در تو نمودہ چوں نیکو بنگری آئینہ ہم اوست نہ تنہا گنج بل گنجینہ ہم اوست من و تو درمیاں کارے نداریم بجز بے ہودہ پندارے نداریم

27

وصفِ حق کو وصفِ مشتِ خاک کو وصفِ حادثِ کو و وصفِ پاک کو

ترجمہ:

پس حق تعالیٰ کا وصف کہاں اور (انسان) مشتِ خاک کا وصف کہاں۔ حادث کا وصف کہاں اور پاک کا وصف کہاں۔

28

شرحِ عشق ار من بگویم بر دوام صد قیامت بگذرد واں ناتمام

ترجمہ:

عشق (اس قدر کثیرالفضائل ہے کہ میں اس) کی تفصیل اگر ہمیشہ کرتا رہوں تو سینکڑوں قیامتیں گزر جائیں اور (ابھی) وہ غیر مکمل رہے۔

29

زانکہ تاریخِ قیامت را حَدست حد کجا آنجا کہ وصفِ ایزدست

ترجمہ:

کیونکہ قیامت کی تاریخ کی (تو) حد (معین) ہے۔ جہاں خداوند تعالیٰ کا وصف ہے وہاں حد کہاں۔

30

عشق را پانصد پرے و ہر پرے از فرازِ عرش تا تحت الثرے

ترجمہ:

عشق کے پانچ سو پر ہیں اور ہر پر عرش کے اوپر سے زمین کی تہ تک (گیا) ہے۔

مطلب:

عشق کو سُرعتِ سیر میں پانچ سو پر والے فرضی پرندے سے تشبیہ دی ہے اور اس کی بزرگی و ہمہ گیری کے اظہار کے لیے اس کے پروں کی یہ پہنائی دکھائی ہے۔

31

زاہدِ با ترس مے تازد بپا عاشقاں پراں تر از بادِ صبا

ترجمہ:

(عذابِ آخرت سے) ڈرنے والا زاہد تو پاؤں سے دوڑتا ہے (اور) عاشق لوگ بادِ صبا سے بھی زیادہ تیز اُڑتے ہیں۔

32

چہ مجالِ باد یا برق اے پسر چونکہ او در راہِ حق بکشاد پر

ترجمہ:

اے عزیز! جب وہ (عاشقِ حق) راہِ حق میں اڑنے کے لیے پر کھولے تو ہوا اور بجلی کی کیا مجال ہے (جو اس کا مقابلہ کریں)

33

کے رسد ایں خائفاں در گردِ عشق کآسماں را فرش سازد دردِ عشق

ترجمہ:

یہ ڈرنے والے (بھلا) عشق کی گرد کو بھی کب پہنچ سکتے ہیں۔ کیونکہ عشق کا درد تو آسمان کو بھی (نیچے گرا کر) فرش بنا دیتا ہے۔

34

جز مگر کاید عنایتہائے ضَو کز جہان و ایں رَوش آزاد شو

ترجمہ:

مگر سوائے اس کے کہ نورِ حق کی توجہات (اس زاہد کی طرف) مبذول ہوں (اور اسے بشارت دیں) کہ دنیا سے اور (دنیا کی) اس روش سے آزاد ہو (کر اور راہِ عشق میں اپنے آپ کو فنا کر کے واصل بحق ہو) جاؤ۔

35

از قَشِ خود وز دشِ خود باز رہ کہ سوئے شہ یافت آں شہباز رہ

ترجمہ:

اپنے جبر و اختیار سے باز رہو۔ کیونکہ (پیش گاہ) حق کی طرف وہ شہباز راہ پاتا ہے۔ (جو جبر و اختیار کی آلایشوں سے بلند رہ کر اڑتا ہو۔)

مطلب:

قش یعنی لاغری کے بعد فربہ ہونا اپنے اختیار کی بات نہیں۔ طبع و مزاج کے اضطراری تحولات کا نتیجہ ہے اس لیے یہ کنایہ ہے جبر سے اور دش یعنی خود آرائی اپنے اختیار کی بات ہے۔ اس لیے یہ کنایہ ہے اختیار سے فرماتے ہیں کہ تم اپنے آپ کو مجبور محض سمجھ کر طاعات و عبادات سے معطل نہ رکھو اور طاعات کے ذریعے قرب حاصل کرنے پر اپنے آپ کو مختار بھی نہ سمجھو۔ بلکہ ان دونوں غلط راستوں سے الگ رہ کر جباریِ حق سے مجبور اور اختیارِ حق کے ساتھ مختار رہ کر قرب حاصل کرو۔ آگے خود اس مجمل کی تفسیر یوں فرماتے ہیں۔

36

ایں قش و دش ہست جبر و اختیار از ورائے ایں دو آمد جذبِ یار

ترجمہ:

یہ قش اور دس جبر و اختیار ہے۔ ان دونوں سے ماورا محبوب (حقیقی) کی کشش ہے۔ (آگے پھر قصّہ چلتا ہے):