حصہ دوم
دفتر چہارم حکایت: 130
رنجیدنِ مغضوب علیہ و یاری بریدن از شفیع
معتوب کا غصے ہو کر سفارشی سے دوستی قطع کرنا
1
واں ندیم رستہ از خوفِ بلا
زیں شفیع آور بگردید از وِلا
ترجمہ: جب مصاحب خوف و غم (ہلاکت) سے چھوٹ گیا، تو اس نے محسن سے دوستی قطع کر لی۔
مطلب: عماد الملک نے تو اس ندیم سے یہ سلوک کیا، اور وہ مصاحب جو اس کی سفارش سے بچا تھا، اس کی یہ حالت ہوئی اس سے ناخوش ہو کر ترکِ تعلق کر دیا۔
2
دوستی ببرید زاں مخلص تمام
رو بحائط کرد تا نارد سلام
ترجمہ: اس مخلص کامل سے دوستی کا تعلق منقطع کر دیا، اور دیوار کی طرف منہ کر لیا تاکہ وہ سلام نہ کر سکے۔
3
زاں شفیعِ خویشتن بیگانہ شد
زیں تعجب خلق در افسانہ شد
ترجمہ: وہ اپنے سفارش گر سے بالکل اجنبی ہو گیا۔ اس حیرت انگیز واقعہ کو دیکھ کر لوگوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔
4
گر نہ مجنون ست یاری چوں برید
از کسے کہ جان او خرید
ترجمہ: (لوگ کہنے لگے کہ ندیم دیوانہ ہو گیا کیونکہ) اگر دیوانہ نہیں ہوا تو کیا وجہ ہے کہ ایسے شخص سے اس نے بگاڑ لی؟ جس نے اس کی جان بچائی تھی۔
5
آں خریدش آں دم از گردن زدن
خاک نعلِ پاش بایستے شدن
ترجمہ: اس نے تو اسے گردن زنی سے بچایا تھا، اس لیے اس کو لازم تھا کہ اس کی جوتیوں کی خاک ہو جاتا۔
6
باز گونہ رفت و بیزاری گرفت
با چنیں دلدار کیں داری گرفت
ترجمہ: نہ کہ الٹی چال چلا، اور اس سے بگاڑ لی اور ایسے دوست کا دشمن ہو گیا، یعنی جس نے اس کو ہلاکت سے بچایا تھا۔
7
پس ملامت کرد او را ناصحے
کایں جفا چوں مے کنی با مصلحے
ترجمہ: ایک خیر خواہ نے خود اس کو یہی ملامت کی اور کہا کہ تم ایک مصلح پر یہ زیادتی کیوں کرتے ہو؟
8
جانِ تو بخرید آں دلدارِ خاص
آں دم از گردن زدن کردت خلاص
ترجمہ: اس محبّ خاص نے تو تمہاری جان بچائی ہے اور اس نازک وقت میں تمہیں گردن زدنی سے بچایا ہے۔
9
گر جفا کردے نبایستے رمید
خاصہ نیکی کرد آں یارِ حمید
ترجمہ: (ایسی حالت میں) اگر وہ تجھ پر زیادتی بھی کر لیتا تو تم کو اس سے بھاگنا نہیں چاہیے تھا، جبکہ اس نے بھلائی ہی کی ہے کوئی برائی نہیں کی۔ (ایسی حالت میں گریز کرنا زیبا نہیں دیتا۔)
10
گفت بہرِ شاہ مبذولست و جاں
او چرا آید شفیع اندر میاں
ترجمہ: اس نے کہا میں تو بادشاہ کے لیے جان دے رہا تھا۔ وہ کون ہوتا تھا کہ سفارش بن کر بیچ میں کود پڑا۔
11
لِیْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ بود آندم مرا
لَایَسَعْ فِیْہِ نَبِیٌ مُجْتَبٰی
ترجمہ: میں اس وقت خدا کے ساتھ تھا۔ جہاں نبی کو بھی گنجائش کی جگہ نہ تھی۔
مطلب: اس شعر میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی ہے۔ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: ”لِیْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ لَایَسَعُنِیْ فِیْہِ مَلَکٌ مُقَرَّبٌ وَلَا نَبِیٌّ مُرْسَلٌ“ (کشف الخفاء: 2157) یعنی ”مجھ پر قرب الہٰی میں ایسا وقت آتا ہے کہ نہ اس میں کسی مقرب فرشتے کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ کسی نبی مرسل کی۔“ ایک دوسرے مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: ”مَنْ تَقَرَّبَ مِنِّیْ شِبْراً تَقَرَّبْتُ مِنْہُ ذِرَاعاً“ (صحیح مسلم) یعنی ”جو میری طرف بالشت بھر قریب ہوتا ہے، میں اس کی طرف گز بھر قریب ہو جاتا ہوں۔“ اس قسم کی معرفت اور وصول الی اللہ انبیائے کرام علیہم السلام کو ہی نصیب ہوتی ہے، جنہوں نے اپنی ہستی کو خدا کی ذات و صفات میں فنا کر دیا ہو، یہ مقام وہبی ہے کسبی نہیں۔
سعدی رحمۃ اللہ علیہ؎
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
ازالۂ شبہ: علامہ بحر العلوم نے اس شعر کو سوئے ادب قرار دیا ہے اور تاویل کی ہے۔ حالانکہ شبہ کی گنجائش نہیں تھی۔ ”لِیْ مَعَ اللہِ وَقْت بود آمد مرا“ اس توجیہ کو نہایت واضح طور پر رد کرتا ہے، حالانکہ اس شعر میں ایک ہیئتِ ترکیبیہ سے تشبیہ دینا مقصود ہے، اب کچھ سوئے ادب نہ رہا۔ واللہ علم
12
من نخواہم رحمتے جز رحمِ شاہ
من نخواہم غیرِ آں شہ را پناہ
ترجمہ: میں سوائے بادشاہ کے رحم کے کسی کا رحم نہیں چاہتا، اور میں بجز بادشاہ کی پناہ کے کسی کی پناہ نہیں چاہتا۔
مطلب: کہ میں نے احسان فراموشی نہیں کی کیونکہ میں بادشاہ کی شفقت اور رحم کا طالب ہوں، اور اسی بادشاہ کا پناہ گیر ہوں، غیر سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے۔
13
غیر شہ را بہر آں لا کردہ ام
کہ بسوئے شہ تولَّا کردہ ام
ترجمہ: کیونکہ میں بادشاہ سے محبت کرتا ہوں اس لیے اس کے سوا تمام کو ہیچ سمجھتا ہوں۔ (پس اس نے مجھ پر کیوں رحم کیا اور مجھے کیوں پناہ دی۔)
14
گر ببرد او بقہرِ خود سرم
شاہ بخشد شصت جانِ دیگرم
ترجمہ: بادشاہ اگر مجھے مار بھی ڈالے گا (ایسا کرنے سے) گویا کہ بہت سی جانیں عطا کرے گا۔
کما قیل؎
قطع کیجئے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی
گو دشمنی سے دیکھتے ہیں دیکھتے تو ہیں
میں شاد ہوں کہ ہوں تو کسی کی نگاہ میں
15
کارِ من سر بخشی و بیخویشی است
کارِ شاہنشاہِ ما سر بخشی است
ترجمہ: میرا کام تو سر دے دینا (اور اپنے کو رضائے شاہ کے) تابع کر دینا ہے۔ (اور) بادشاہ کا کام (لطفِ محض یا لطفِ قہر سے) جان بخش دینا ہے۔ (میں دونوں صورتوں میں خوش ہوں، قتل کرے خواہ معاف کرے۔)
16
فخر آں سر کہ کفِ شاہش برد
ننگ آں سر کہ بغیرے سر برد
ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ جو سر بادشاہ کے ہاتھ سے کٹ جائے موجبِ فخر ہے، اور جو سر (دوسروں کے آگے جھک جائے تاکہ بادشاہ کے قہر سے بچ جائے) اس کے لیے ایسا کرنا موجب ننگ ہے۔
17
شب کہ شاہ از قہر قبرش کشید
ننگ دارد از ہزاراں روزِ عید
ترجمہ: جس رات وہ سر بادشاہ کے قہر سے قبر میں پہنچ جائے۔ وہ رات ہزاروں عیدوں سے بڑھ کر ہے۔ (اور ان کی ہمسری سے ننگ و عار رکھتی ہے۔)
مطلب: کہ میں تو شاہ ہی کا بندہ ہوں اس سے جو کچھ بھی پہنچے میرے لیے باعث فرحت و مسرت ہے، بلکہ اس کے عذاب و عتاب کو بھی میں راحت و سرور اور خوش بختی تصور کروں گا۔
18
خود طوافِ آنکہ او شہ بیں بود
فوقِ قہر و لطف و کفر و دیں بود
ترجمہ: جس کو بادشاہ (حقیقی) کا قرب حاصل ہو وہ لطف، قہر اور کفر و دیں کے رسمیات سے بالاتر ہے۔
مطلب: مولانا رحمۃ اللہ علیہ معتوب علیہ کے بیان سے انتقال فرماتے ہیں اور بادشاہ حقیقی کے سرفرشوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ جو لوگ ذاتِ حق جل مجدہٗ کا مشاہدہ کریں ان کا قرب من ذات جس کو ہم نے طواف سے تعبیر کیا ہے جو اس کی ذاتِ وحدہٗ لاشریک کے لیے مخصوص ہے، لطف، قہر، کفر، دین رسومات سے بالاتر ہے کیونکہ ان کو ایمانِ حقیقی حاصل ہے۔ اور وہ بفحوائے ؎ ہرچہ ازدست و دست رسد نکوست، لطف تو لطف رہا وہ قہر کو بھی لطف سمجھتے ہیں۔ دینی منافع یعنی انوارِ باطنی اور مدارجِ عقبٰی سے ان کو کون مانع ہے؟ یہ سب سے زیادہ ان کا حق ہے۔ رہا دنیاوی سود و زیاں، اتلافِ جاں اور تکالیفِ جسم وغیرہ اس کی ان کو پرواہ نہیں اور نہ اس ضرر کو ضرر سمجھتے ہیں، بلکہ خدا کی راہ میں ہر تکلیف ان کے لیے راحت ہے۔
نظامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
تا سر دارم سر تو دارم
جاں پیشکشِ درِ تو دارم
19
زاں نیامد یک عبادت در جہاں
بس نہانست و نہانست و نہاں
ترجمہ: ان کی حالت کی کوئی عبادت تعبیر نہیں کر سکتی۔ اس لیے کہ نہایت ہی مخفی ہے۔
20
زانکہ ایں اسماء الفاظِ حمید
از گلابۂ آدمی آمد پدید
ترجمہ: اور جس قدر ستودہ الفاظ اسماء میں ہیں، تو یہ آدمی کے نکالے ہوئے ہیں۔
مطلب: حق جل مجدہٗ کی حقیقت و کنہ تک پہنچنا انسان کے احاطۂ قدرت سے باہر ہے اور اسماء و الفاظ جو جو انسان نے وضع کئے ہیں اس کی تعبیر سے قاصر ہیں یا اسماء سے مراد اسماءِ اشیاءِ جہان لے لو۔ اس سے شاید کسی کو شبہ ہو کہ جسمِ انسانی سے کیونکر نکالے ہیں؟ ان کا منشاء تو خود سبحانہ ہیں۔
21
عَلَّمَ الْاَسَمَآءَ بد آدمؑ را امام
لیک نے اندر لباس عین و لام
ترجمہ: بے شک علمُ الاسماء کا امام آدم علیہ السّلام تھا، لیکن وہ تعلیم و حروف کے لباس میں نہیں تھی۔
مطلب: ارشاد باری تعالٰی ﴿وَ عَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا﴾ الخ (البقرۃ: 31) یعنی خدا نے آدم علیہ السّلام کو تمام چیزوں کے نام سکھا دیے کیونکہ انہوں نے حضرت کو سکھائے ہیں اور وہی ان کے واضع ہیں اس لیے ہم کہتے ہیں کہ آدم علیہ السّلام کو اسماء کی تعلیم ضرور کی گئی لیکن وہ تعلیم حروف کے لباس میں نہ تھی۔
22
چوں نہاد آں آب و گل بر سر کلاہ
گشت از اسمائے جانی رو سیاہ
ترجمہ: لیکن ان اسماء نے آب و گل کی ٹوپی اوڑھی، تو ان اسماء میں نورانیت کے بجائے ظلمانیت آ گئی۔
مطلب: ان اسماء نے جب ناسوتیت کا لباس پہنا تو اب وہ اسماء جو اب تک روحانی تھے ان کی صورت بدل گئی، ان میں ظلمانیت آ گئی اور وہ نورانیت نہ رہی جس سے اشیاء کو ان کی اصلی و واقعی روپ میں دیکھ سکتے تھے۔
23
کہ نقابِ حرف و دم در خود کشید
تا شود بر آب و گِل معنٰی پدید
ترجمہ: کیونکہ ان اسماء نے حرف و صوت کا نقاب اوڑھ لیا ہے، تاکہ مٹی کی پتلوں پر معنٰی کھل جائے۔
مطلب: کیونکہ اب انہوں نے اس غرض سے حرف و صوت کا نقاب اوڑھ لیا تاکہ مغلوب الناسوتیت اشخاص پر معنٰی واضح ہوجائیں، جو کہ بدوں اس صورت کے واضح نہ ہو سکتے تھے، پس جب وہ اس نقاب میں چھپ گئے تو تاریکی اور اخفائے نورانیت ہونا تھا۔
24
گرچہ خصمِ شہم کرد او خلاص
لیک ہم شہ شد مرا حقّا مناص
ترجمہ: (ندیم نے کہا) اگرچہ اس نے مجھے بادشاہ کے غصہ سے نجات دلائی۔ (میں اس کا ممنون نہیں ہو سکتا) کیونکہ میری گزرگاہ و جائے پناہ تو بادشاہ ہے۔
مطلب: پھر سلسلۂ کلام اس معتوب مصاحب کی طرف ہے۔ ندیم نے کہا اگرچہ اس نے مجھے بادشاہ کے غیظ و غضب اور انتقال سے نجات دلائی، لیکن میں اس کا مرہونِ احسان نہیں ہوں کیونکہ میرے بھاگنے اور پناہ لینے کا مقام بھی تو بادشاہ تھا۔
25
گرچہ از یک وجہ منطق کاشف است
لیک از دہ وجہ پر دوہ مُنکِف است
ترجمہ: اگرچہ ایک سبب میرے بیان سے ظاہر ہوتا ہے، لیکن دس اور اسباب اس میں پوشیدہ ہیں۔
مطلب: ندیم نے کہا اے ناصح میں اپنا اصلی مقصد الفاظ سے ظاہر نہیں کرسکتا کیونکہ گفتگو اگر ایک طرح سے حقیقت کو ظاہر کرتی ہے تو دس وجوہ سے اس کو مخفی رکھتی ہے۔ اس کے کشف سے ستر اور حجب زائد ہیں۔ اس لیے کہ عام اظہار کی صورت میں مخاطب کو فقط علم نہیں ہوتا وہ اس سے لاعلم رہتا ہے، جو کہ ایک قسم کا جہلِ بسیط ہے اور بیان کی صورت میں بوجہ قصورِ عبادت کے مخاطب کچھ کا کچھ سمجھ جاتا ہے۔ یہ ایک قسم کا جہل مرکب ہوا۔ تو لہٰذا ”کَلِّمُوْا النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ“ یعنی ”ان کی عقلوں کے مطابق کلام کرو۔“
کما قیل:
ہر گوشہ ہر نکتہ مقام دارد