حصہ دوم
دفتر چہارم: حکایت: 129
خشم کردنِ پادشاہ بر ندیم، و شفاعت کردنِ شفیع مغضوب علیہ را و از پادشاہ درخواستن و مقبول شد، و رنجیدنِ مغضوب علیہ کہ چرا شفاعت کرد
ایک بادشاہ کا مصاحب پر غصہ کرنا، اور بادشاہ کے آگے کسی سفارشی کا سفارش کی درخواست کرنا اور درخواست کا قبول ہونا، اور مصاحب کا افسوس کرنا کہ کیونکر سفارش کی؟
1
پادشاہے بر ندیمے خشم کرد
خواست تا از وے برآرد دُود و گرد
ترجمہ: ایک بادشاہ اپنے کسی مصاحب پر خفا ہوا اور چاہا کہ اسے ملیامیٹ کر دوں۔
مطلب: مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تمہاری حالت ایسی ہونی چاہیے، جیسے بادشاہ کے اس ملازم کی، جس کی نوعیت یہ تھی کہ ایک دن بادشاہ کو اپنے مصاحب پر کسی غلطی کے باعث خفگی طاری ہوئی اور چاہا کہ اس جرم کی سزا یہ ہے کہ اسے نیست و نابود کر دیا جائے۔ چنانچہ:
2
کرد شہ شمشیر از بیروں غلاف
تا زند بر وے جزائے آں خلاف
ترجمہ: بادشاہ نے تلوار میان سے نکالی، تاکہ اس مخالفت کے عوض اسے سزا دے۔
مطلب: چنانچہ بادشاہ نے اپنی تلوار میان سے نکال لی تاکہ اس مصاحب کو اس جرم کی سزا ملے جس کا وہ مرتکب ہوا تھا۔
3
ہیچ کسِ را زہرہ نے تا دم زند
یا شفیعے بر شفاعت بر تند
ترجمہ: اس وقت کسی کو بھی دم مارنے کی تاب نہ تھی اور نہ ہی کوئی (شخص) اس کی سفارش پر آمادہ تھا۔
مطلب: بادشاہ کے غصہ کے وقت جبکہ وہ آمادۂ قتل ہوا تھا، کسی کی طاقت نہیں تھی کہ بادشاہ کا ہاتھ پکڑ لیتا، اور نہ ہی کوئی معتوب کے حق میں سفارشی کلمات کہہ سکتا تھا۔
4
جز عماد الملک نامی از خواص
در شفاعت مصطفیٰؐ وارانہ خاص
ترجمہ: سوائے عماد الملک کے جو خواصین میں سے تھا۔ مثل مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ بھی سفارش کے لیے خاص تھا۔
مطلب: بجز بادشاہ کے اس آدمی کے جس کا نام عماد الملک تھا اور وہ سفارش ہی کے لیے مقرر تھا جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے روز بارگاہِ ایزدی میں دیگر انبیاء کے سوا آپ ہی شفاعتِ مجرمین کے لیے مخصوص ہیں۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق جل مجدہٗ نے مجھ سے فرمایا کہ تین چیزیں مانگو، جونسی بھی آپ چاہیں میں قبول کروں گا، میں نے دو چیزیں دنیا میں طلب کی تھیں، ایک ایمان لانا، ابو جہل یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تاکہ اسلام کو تقویت پہنچے سو وہ قبول ہوئی۔ ایک دعا اور تھی جو قبول ہوئی۔ تیسری کو میں نے قیامت کے دن کے لیے موقوف کیا ہے۔ وہ شفاعتِ مومنین ہے اور روزِ جزا خدا سے درخواست کروں گا۔ ان شاء اللہ العزیز قبول فرمائے گا۔
5
برجہید و زود در سجدہ فتاد
در زماں شہ تیغ را ز کف نہاد
ترجمہ: جلدی (عماد الملک) اٹھا اور فوراً ہی سجدہ میں گرا اور اس وقت بادشاہ نے تلوار کو ہاتھ سے چھوڑ دیا۔
6
گفت اگر دیوست من بخشیدمش
ور بلیسی کرد من پوشیدمش
ترجمہ: کہا (بادشاہ نے) اگر یہ شیطان کی طرح بھی نا فرمان ہے، تب بھی ہم نے اس کی جان بخشی ہے، اگرچہ اس نے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔
مطلب: عماد الملک اٹھا اور اٹھتے ہی سجدہ میں گر گیا، یہ دیکھ کر بادشاہ نے تلوار زمین پر رکھ دی اور کہا! اگرچہ یہ عاصی و نافرمان ہے پھر بھی ہم اس کو اپنے کرم کی وجہ سے معاف و درگزر کرتے ہیں۔
7
چونکہ آمد پائے تو اندر میاں
راضیم گر کرد مجرم صد زیاں
ترجمہ: چونکہ تم بیچ میں پڑ گئے ہو اگر یہ مجرم سو قصور کرے تب بھی میں رضا مند ہوں۔
8
صد ہزاراں خشم را تانم شکست
کہ ترا آں فضل و آں مقدار ہست
ترجمہ: لاکھوں میرے غصے تجھ پر قربان، یہ سبب اس عزت و وقار کے جو تمہاری میری نظر میں ہے۔
مطلب: بادشاہ نے عماد الملک کی درخواست پر مجرم کے قصور کو معاف کر دیا اور کہا اگر اس کے ہزاروں بھی جرم ہوں تب بھی میں پردہ پوشی کر سکتا ہوں، کیونکہ تمہارے دخل انداز ہونے کے باعث تمہاری میری نظر میں بوجہ فرمانبرداری اور نمک حلالی کے وہ عظمت و جلالت ہے کہ میں سینکڑوں غصوں کواس کے سبب فنا کر سکتا ہوں، لیکن تمہاری خوشامد کو نہیں ٹھکرا سکتا۔
9
لابہ ات را ہیچ نتوانم شکست
زانکہ لابۂ تو یقیں لابۂ من است
ترجمہ: تمہاری سفارش رد نہیں کر سکتا کیونکہ یہ سفارش (میرے نزدیک) تمہاری نہیں بلکہ میری سفارش ہے۔
مطلب: کیونکہ تم اور میں ایک جان و دو قالب ہیں۔ تمہارا کہنا خود میرا کہنا ہے۔
کما قیل ؎
من تو شدم تو من شدی
من تن شدم تو جاں شدی
تا کس نگوید بعد ازیں
من دیگرم تو دیگری
10
گر زمین و آسماں برہم زدے
ز انتقام ایں مرد بیروں نامدے
ترجمہ: اگرچہ زمین و آسمان (سفارش کے لیے) پلٹ جاتے تب بھی میں اس سے انتقام لینے سے باز نہ آتا۔
11
ور شدے ذرہ بذرہ لابہ گر
او نبردے ایں زماں از تیغ سر
ترجمہ: اگر (جملہ) ذراتِ جہاں (مل کر) اس کی سفارش کرتے تب بھی میں اس سے انتقام لینے سے باز نہ آتا۔
12
بر تومی نہ نہیم منّت اے کریم
لیک شرحِ عزت تست اے کریم
ترجمہ: تم پر میں احسان نہیں رکھتا بلکہ تمہاری اس وقعت کو ظاہر کرتا ہوں یعنی جو تمہاری میری نظروں میں ہے۔
13
ایں نکردی تو کہ من کردم یقین
اے صفایت در صفاتِ ما دفین
ترجمہ: یہ (سفارش) تم نے نہیں کی بلکہ خود میں نے کی ہے کیونکہ تمہاری صفات میں دفن ہیں، یعنی تم مجھ میں فنا ہو، اس لیے تمہارے افعال خود میرے افعال ہیں۔
14
تو دریں مستعملی نے عاملی
زانکہ محمولِ منی نے حاملی
ترجمہ: کیونکہ تم اس فعلِ (سفارش کے) میں ایک آلہ ہو، جس سے کہ میں نے کام لیا ہے اور خود اس کے کرنے والے نہیں ہو۔
مطلب: اس لیے یہ بارِ شفاعت میں نے تم پر لادا ہے اور تم نے خود نہیں اٹھایا۔ پس تمہارے اس فعل میں ایسی مثال ہے جیسے حق سبحانہ نے اپنے رسول ﷺ کی نسبت فرمایا ہے:
15
مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ گشتۂ
خویشتن در موج چوں کف ہشتۂ
ترجمہ: اے عماد الملک! تو ﴿مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ﴾ کی نظیر بنا ہے اور تو نے اپنے کو کفِ دریا کی طرح موج کے حوالہ کر دیا ہے۔
مطلب: ﴿وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی﴾ (الانفال: 17)۔ خدا نے فرمایا ہے کہ ”(اے صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے تیر نہیں پھینکا، جب پھینکنے لگے بلکہ خدا نے تیر پھینکا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مخالفین پر غزوۂ بدر میں تیر اندازی کی اور مخالف با وجود کثیر افواج و اسلحہ کے کامیاب نہ ہوئے اور بتائید ایزدی مسلمان باوجود قلیل افواج و اسلحہ کے فتح یاب ہوئے تھے تو اللہ تعالٰی نے اپنے بر گزیدہ بندہ کے فعل کو اپنی طرف منسوب کیا۔ اس لیے حقیقی افعالِ عباد کا خالق اللہ جل مجدہ ہی ہے۔ مجازاً بندے اپنے افعال کے خالق ہیں، کیونکہ خالق اور مؤثر ہونے کے اعتبار سے اسی کی طرف منسوب ہیں، البتہ باعتبارِ صدور کے بندوں کی طرف منسوب کرنا درست ہے۔ اور اس قسم کے نظائر قرآنِ حکیم اور احادیثِ نبویہ میں بکثرت ہیں۔ بفحوائے کلام ﴿فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہٗ﴾ (القیامۃ:18) یعنی اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ”اے پیغمبر! جب ہم آیات قرآن کو پڑھیں تو تم ساتھ ساتھ پڑھو۔“ اللہ تعالٰی نے حضرت جبریل کی قرات کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سالک کو بھی ایسے ایسے مقام سے گزرنا پڑتا ہے جب سالک کی سیر عروج کی طرف ختم، اور اس کا وجود فانی ہو جاتا ہے۔ پھر وہ بشریت کی طرف نزول کرتا ہے، اور اپنی ذات کا جلوہ آئینہ حق پر دیکھتا ہے اور یہ عرفان کا سب سے بلند مقام ہے۔ اب وہ اپنی ذات کو معدوم اور ذاتِ حق کے ساتھ موجود دیکھتا ہے، اور اپنے تمام افعال و صفات کو حق کے ساتھ منسوب پاتا ہے۔
کما قیل ؎
بشو دل ز قوانینِ عقل و دیں جامیؔ
کہ سرِ عشق بدینہا نمے شود مدرک
امیر خسرو ؎
ہستیِ من رفت و ضیائش بماند
اینکہ تو بینی نہ منم بلکہ اوست
16
لا شدی پہلوے اِلّا خانہ گیر
اے عجب کہ ہم اسیری ہم امیر
ترجمہ: تم اپنے کو فنا کر کے (اِلَّا اللہ) کی پناہ میں آ چکے ہو، تعجب ہے کہ تم قیدی بھی ہو اور امیر بھی ہو۔
مطلب: لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ (نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے) انسانی فلاح و نجات اور خدا کی رضا و خوشنودی کا صرف ایک ذریعہ ہے جو ”لا“ کے نفی اور ”اِلَّا“ کے اثبات میں مضمر ہے۔ کائنات میں ہر ایک چیز کا خالق و رب سوائے وحدہٗ لا شریک کے کوئی نہیں ہے۔ یعنی کائنات میں سے کوئی بھی اس کا مستحق نہیں ہے۔ ”اِلَّا اللہ“ سوائے اسی کے، وہی اس جہاں کا خالق و معبود ہے۔ ساری طاقتوں کی نفی اور صرف ایک ہی طاقت کا اثبات کیا جائے۔ انبیائے کرام علیہم السّلام کی تعلیمات کا لُبّ لباب یہی تھا، انہوں نے اپنی ذات کو خدا کی ذات اور صفات میں فنا کر دیا تھا۔ اس فنائیت کے بعد ذاتِ وحدہٗ کے اسیر تھے اور کائنات کے امیر تھے کہ ہر ایک ذرہ کائنات بندہ بے دام تھا۔ بحر و بر، حجر و شجر، درند و پرند اور شمس و قمر سب اس کے فرمانبردار تھے۔
17
آنچہ دادی تو ندادی شاہ داد
اوست بس وَاللہُ اَعْلَمُ بِالرَّشَادْ
ترجمہ: تو نے جو کچھ دیا ہے وہ تو نے نہیں دیا بلکہ بادشاہ نے دیا ہے کیونکہ وہی مقدم ہے خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
مطلب: اے عماد الملک تو نے جو کچھ معتوب علیہ کے ساتھ سلوک کیا، یہ تم نے نہیں کیا بلکہ خود ہم نے کیا ہے کیونکہ اب تم نہیں رہے، بلکہ اب جو کچھ ہے ہم ہیں۔
کما قیل:
داغِ غلامیت کرد پایۂ خسروؔ بلند
میرِ ولایت شود بندہ کہ سلطاں خرید