حصہ دوم
دفترِ چہارم: حکایت: 128
وحی کردنِ حق تعالٰی بموسی علیہ السّلام کہ من ترا دوست میدارم
حق تعالٰی کا حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو وحی بھیجنا کہ میں تجھے دوست رکھتا ہوں
1
گفت موسیٰ را بوحیِ دل خدا
کائے گزیدہ دوست مے دارم ترا
ترجمہ: حق تعالٰی نے وحی کے ذریعے موسیٰ علیہ السلام سے کہا۔ کہ اے برگزیدہ نبی! میں تجھ سے محبت رکھتا ہوں۔
مطلب: حق سبحانہ نے موسیٰ علیہ السّلام سے بذریعہ الہام فرمایا۔ کہ اے ہمارے برگزیدہ نبی! ہم تم سے محبت کرتے ہیں۔
2
گفت چہ خصلت بود اے ذوالکرام
موجبِ آں تا من آں افزوں کنم
ترجمہ: حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے کہا کہ اے کریم! وہ کونسی عادت ہے جو باعثِ لطف و کرم ہوئی تاکہ میں اس کو اور زیادہ کروں۔
مطلب: حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے کہا کہ اے ربِ کریم! مجھے اس محبت کا سبب بتلا دیجئے، تاکہ میں اس میں اور زیادہ کوشش کروں اور اس کے ذریعہ سے آپ کا اور زیادہ محبوب ہوں۔
3
گفت چوں طفلے بہ پیشِ والدہ
وقتِ قہرش دست ہم بر وے زدہ
ترجمہ: حق سبحانہٗ نے فرمایا کہ تمہاری میرے سامنے ایسی حالت ہے جیسے بچے کی ماں کے سامنے جو غصہ کے وقت بھی اسے لپٹا رہتا ہے۔
4
خود نداند کہ جز او دیّار ہست
ہم از او مخمور ہم از اوست مست
ترجمہ: وہ نہیں جانتا کہ گھر میں بھی دوسرے (انسان) ہیں بلکہ وہ اسی سے مخمور و مست ہوتا ہے۔
5
مادرش گر سیلئے بر وے زند
ہم بمادر آید و بر وے تند
ترجمہ: چنانچہ ماں اگر اسے تھپڑ مارتی ہے تو وہ اسی کی طرف چلتا اور لپٹتا ہے۔
6
از کسے یاری نخواہد غیرِ او
اوست جملہ خیر او شرِ او
ترجمہ: اور اس کے سوا کسی سے مدد نہیں چاہتا، اس کے حق میں بری ہے تو وہ بھلی ہے تو وہ ہے غرضیکہ سب کچھ وہی ہے۔
7
خاطرِ تو ہم ز مادر خیر و شر
التفاتش نیست جاہائے دگر
ترجمہ: (اسی طرح تمہاری حالت ہے، ہماری طرف سے) اگر کوئی ناگواری لاحق ہوتی ہے تو بھی تمہاری طبیعت ہم کو چھوڑ کر کسی اور طرف ملتفت نہیں ہوتی، اور اگر خوشی پیش آتی ہے تب بھی ہماری طرف ملتفت ہوتی ہے۔
8
غیرِ من پیشت چو سنگ ست و کلوخ
گر صبی و گر جوان و گر شیوخ
ترجمہ: اور ہمارے سوا جو کچھ بھی ہے، خواہ بچہ ہو یا جوان یا بڈھا سب مثل ڈھیلے اور پتھر کے ہیں۔
9
ہمچناں کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ در حنیں
از بلا از غیر تو لَا نَسْتَعِیْن
ترجمہ: اے موسیٰ (علیہ السّلام) تو غم میں بھی یہی کہتا ہے کہ اے خدا ہم تیری ہی پرستش کرتے ہیں اور بلا میں بھی یہی کہتا ہے کہ ہم تیرے سوا کسی سے مدد نہیں مانگیں گے۔
مطلب: مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دوستو! جس طرح تم کو ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ﴾ کی ہدایت کی گئی ہے، یوں ہی ﴿اِیَّاکَ نَستَعِیْن﴾ بھی بتلایا گیا ہے۔ پس جس طرح تم کہتے ہو کہ ہم گریہ و زاری کی حالت میں صرف تیری ہی کی عبادت کرتے ہیں۔ یوں ہی یہ بھی کہو کہ بلاؤں میں تیرے سوا کسی سے امداد بھی نہیں طلب کرتے، بچہ نے جس طرح خوشی و غمی، راحت و سرور اور دکھ و درد کے عالم میں سوائے ماں کے کسی کو نہ جانا، تم کو بھی خدائے وحدہٗ سے اس قدر محبت اور شفقت رکھنا چاہیے۔
کما قیل:
ہر چہ از دوست مے رسد نیکوست
10
ھست ایں اِیَّاكَ نَعْبُدُ حصر را
در لغت داں از پئے رفعِ ریا
ترجمہ: عربی زبان میں ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ﴾ کا حصر اس لیے ہے تاکہ عبادت میں ریا کا شائبہ بھی نہ ہو۔
11
ہست اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہم بہرِ حصر
حصر کردہ استعانت را و قصر
ترجمہ: ﴿اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ میں بھی حصر اس لیے ہے تاکہ مدد بھی اسی سے طلب کی جائے۔
12
کہ عبادت مرا ترا آریم و بس
طمع یاری ہم از تو داریم و بس
ترجمہ: پس عبادت تیری ہی کرتے ہیں، اے کریم تجھ سے ہی مدد لیتے ہیں۔
مطلب: ”حصر “عربی زبان کے علماء معانی و بیان کی اصطلاح میں کسی چیز کو کسی چیز کو کسی چیز کے ساتھ مخصوص کرنے کو کہتے ہیں۔ مثلاً صفت کو موصوف کے ساتھ یا موصوف کو صفت کے ساتھ اور ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ میں چونکہ ”ایاک “مفعول ہے اس لیے فعل پر مقدم ہو کر حصر کا فائدہ دیتا ہے۔ یعنی ہماری عبادت تیرے ہی لیے مخصوص ہے اور ہماری مدد طلبی بھی تجھی سے مخصوص ہے۔ عبادت اور مدد دونوں کو حق جل مجدہ کے ساتھ مخصوص کرنا چاہیے۔ ایک شبہ کا ازالہ کئے دیتا ہوں کہ استعانت بالغیر باذنِ شرع حصرِ استعانت فی الحق کے منافی ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی امیر سے دس روپے مانگے اور وہ کہے کہ ہمارے خزانہ سے لے لو۔ تو اس حکم کی بنا پر وہ خزانچی سے مانگے تو یہ درحقیقت اس امیر سے ہی مانگنا ہے، نہ کہ خزانچی سے۔ پس اسبابِ مادیہ سے استمداد کے وقت یہ ملحوظ رہے کہ میں باذنِ حق سبحانہ ان سے مدد لے رہا ہوں تو یہ استمداد فی الحقیقت حق سبحانہ سے ہے نہ کہ غیر سے۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ۔