حصہ دوم
دفتر چہارم: حکایت: 127
تفسیر آیۃ کریمہ ﴿وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ﴾ (الحجر: 85)
تفسیر آیۃ کریمہ ”ہم نے زمین اور آسمان کو اور اس کو جو کچھ اس میں ہے پیدا نہیں کیا مگر ساتھ حق کے (یعنی انہیں اس غرض کے لیے پیدا نہیں کیا جو تمہاری نظر میں ہے، بلکہ اس معنٰی و حکمت کے لیے جسے تم نہیں دیکھتے)“
1
ہرچہ پیدا کرد بہرِ معنٰی ست
باطنش بنگر بر ایں ظاہر مایست
ترجمہ: جو کچھ خدا نے پیدا کیا ہے اس کی ایک حکمت باطنی ہے۔ اے منکر! ظاہر کے علاوہ باطن پر بھی نگاہ رکھ۔
مطلب: اے ظاہر پرست! مخلوق کے ظاہر اور باطن دونوں پر غور و خوض کیا کر، کیونکہ ہر ایک چیز کے دو رخ ہیں۔ رہنمائی کے لیے دونوں طرف توجہ کر، یکطرفہ نگاہ سلامتی کا راستہ نہیں ہے۔
2
ہیچ نقاشے نگار و زیں نقش
بے امیدِ نفع بہر ِعین نقش
ترجمہ: کوئی بھی مصّور بلا کسی فائدہ کی توقع کے نقش گری نہیں کرتا، اور نہ ہی تصویر برائے تصویر کھینچتا ہے۔
3
بلکہ بہر میہماناں و کہاں
کہ بفرجہ وارہند از اندہاں
ترجمہ: بلکہ وہ (مصور) اپنے عزیزوں اور مہمانوں کی خوشی کے لیے تاکہ غم سے نجات پائیں۔
4
شادئ بچگاں یاد دوستاں
دوستانِ رفتہ را از نقشِ آں
ترجمہ: تاکہ بچے خوش ہوں اور دوستوں کی یاد، اور گزشتہ دوستوں کی یاد تازہ ہو۔
مطلب: تم غور کرو کہ کوئی مصّور بلا کسی فائدہ کی توقع کے یا خود نقش کو مقصود سمجھ کر نقش گری کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس میں یہ مصلحت ملحوظ رکھتا ہے کہ میرے عزیز و اقارب اور معزز مہمان اس سے دل بہلائیں گے اور اسی طرح غم سے نجات پائیں گے۔ بچے خوش و خرم ہوں گے اور گزشتہ احباب کی اس تصویر کو دیکھ کر یاد تازہ ہو گی وغیرہ وغیرہ۔
5
ہیچ کوزہ گر کند کوزہ شتاب
بہر عینِ کوزہ نے از بہرِ آب
ترجمہ: کوئی کوزہ گر محض کوزہ کو مقصود سمجھ کر بدوں فائدہ پانی کے لوٹا نہیں بناتا۔
6
ہیچ کاسہ گر کند کاسہ تمام
بہرِ عینِ کاسہ نے بہرِ طعام
ترجمہ: اسی طرح کیا کوئی کاسہ گر مقصود جان کر بدوں اس خیال کے کہ اس میں کھانا کھایا جائے گا پیالہ ہر گز نہیں بناتا۔
7
ہیچ خطاطے نویسد خط بفن
بہرِ عینِ خط نہ بہرِ خواندن
ترجمہ: نیز لکھنے والا کوئی تحریر صرف اس کو مقصود سمجھ کر اور بدوں اس خیال کے کہ اس کو پڑھا جاوے لکھتا ہے، کبھی نہیں۔
8
نقشِ ظاہر بہر نقش غائب است
واں برائے غائبے دیگر بس است
ترجمہ: ہر ظاہری نقش، نقشِ باطن کے لیے ہے، اور نقشِ باطن میں مقصد پوشیدہ ہیں۔
9
تا سوم چارم دہم بر میشمر
ایں فوائد را بمقدارِ نظر
ترجمہ: تین چار دس اس طرح فوائد کا اپنی قوتِ نظر سے اندازہ کر لو۔
مطلب: نقاش کی نقش گری، کوزہ گر کی کوزہ گری، کاسہ گر کی کاسہ گری، خطاط کی خط نویسی، صنعت برائے صنعت نہیں ہے، بلکہ کئی دوسرے فوائد اور حصولِ مقاصد کے لیے ہے۔ پس جب کہ صورت یہ ہے کہ انسانی صنعت و کاریگری میں بھی صرف ظاہر مقصد نہیں بلکہ ایک مصلحتِ باطنہ مدِنظر ہوتی ہے تو حق سبحانہٗ کو آسمان اور زمین وغیرہ ظواہر سے خود وہی کیونکر مقصود ہوں گے؟ پس ثابت ہوا کہ ہر نقشِ ظاہر کسی پوشیدہ چیز کے لیے مقصود ہے، بلکہ یہ پوشیدہ صورت بھی مقصود نہیں بلکہ اس سے ایک دو فائدے مطلوب ہیں۔ پس تم ان فوائد کو ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ، سات، آٹھ، نو، دس غرضیکہ جہاں تک تمہاری نظر پہنچے گنتے جاؤ، کسی ایک فائدے پر بس نہ کرو۔
10
ہمچو بازیہائے شطرنج اے پسر
فائدہ ہر لعب در بازی نگر
ترجمہ: اے بیٹے اس کو شطرنج کے کھیل کی طرح سمجھو جیسے اس کی ہر چال میں فائدہ ہوتا ہے۔
مطلب: کیونکہ اس کی ایسی مثال ہے جیسے بازیِ شطرنج کی۔ ہر چال دوسری کے لیے مقصود ہوتی ہے اور اس کا فائدہ دوسری چال ہوتی ہے۔
11
ایں نہاد بہرِ آں لعبِ نہاں
واں برائے آں و آں بہرِ فلاں
ترجمہ: دونوں کھلاڑی پوشیدہ چالیں چلتے ہیں، وہ اس کو مات دینے کے لیے اور دوسرا پہلے کو مات کرنے کے لیے۔
12
ہمچنیں مے بیں جہات اندر جہات
در پئے ہم تا رسی در برد مات
ترجمہ: اسی طرح ایک وجہ میں دوسری وجہ دیکھتے چلے جاؤ، یہاں تک کہ تم بازی کو ختم کر دو۔
مطلب: بازی شطرنج میں ایک مہرہ ایک گھر میں دوسری چال کے لیے رکھا جاتا ہے، جو ہنوز مخفی ہوتی ہے اور وہ چال ایک تیسری کے لیے پس تم اسی طرح پر دوسری وجہ دیکھتے چلے جاؤ۔ یہاں تک کہ بازی ختم ہو جاتی ہے، بازی جیت جاؤ یا ہار جاؤ۔
13
اول از بہر دُوَم باشد چناں
کہ شدن بر پایہائے نرد باں
ترجمہ: پہلی (چال) دوسری کے لیے ایسی ہے جیسے سیڑھیاں چھت کے لیے۔
14
آں دُوَم بہرِ سوم میداں دوام
تا رسی تو پایہ پایہ تا ببام
ترجمہ: دوسری (سیڑھی) تیسری کے لیے اسی طرح ہمیشہ کو تدریجاً قدم بقدم چھت پر پہنچ جائے گا۔
مطلب: نیز معنٰی اوّل کے لیے ہونے کی ایسی صورت ہے جیسے بتدریج سیڑھی پر چڑھا جاتا ہے کہ ایک قدمچہ پر چڑھنے کا فائدہ دوسرے قدمچہ پر پاؤں رکھنا ہے، اور دوسرے پر چڑھنے کا فائدہ تیسرے پر، اسی طرح تمام قدمچوں کو قیاس کر لو یہاں تک کہ تم کوٹھے پر پہنچ جاؤ جو کہ تمہارا مقصودِ مطلوب تھا۔ مولانا نے بازیِ شطرنج کی چالوں اور نردبان کے قدمچوں کی مثال اپنے دعوٰی کے استدلال میں پیش کی ہے کہ ہر حرکت ظاہری اپنی دوسری حرکتِ باطنی کے وجود میں لانے اور فائدہ پہنچانے کے لیے ہوتی ہے، جس کا فائدہ اور نفع بنظرِ غائر معلوم کیا جاتا ہے۔
15
شہوتِ خوردن ز بہر آں منی
آں منی از بہرِ نسل اے روشنی
ترجمہ: کھانے کی خواہش ہونا، منی (مادہ تولید) کے لیے ہے اور منی افزایش نسل اور روشنی (چشم) کے لیے ہے۔
مطلب: مولانا رحمۃ اللہ علیہ مکرّر اپنے ثبوتِ دعویٰ کے لیے کھانے کی مثال پیش فرماتے ہیں جیسے کھانے کی خواہش جماع کے لیے مقصود ہے، اور جماع اولاد اور روشنیِ چشم کے لیے جہاں جماع کا مقصد ہے وہاں روشنیِ چشم خواس خمسہ ظاہر و باطنہ اور دوسرے کام بھی مطلوب ہوتے ہیں۔ ان اغراض و مقاصد میں سے ایک پیدائشِ اولاد بھی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ صورت مقصود نہیں ہے، اس سے معنٰی بھی مطلوب ہے۔
16
کند بینش مے نہ بیند غیرِ ایں
عقلِ او بے سیر چوں نبتِ زمیں
ترجمہ: تنگ نظر اس کی حقیقت کو نہ پہنچا اس کی عقل (جم کر رہ گئی) مثل زمین کی گھاس کے۔
مطلب: مگر کور چشم شخص صرف ظاہر کو دیکھتا ہے اس سے آگے نہیں بڑھتا، اور اس کی عقل رواں نہیں ہوتی بلکہ سبزۂ زمین کی طرح ایک جگہ جم کر رہ جاتی ہے۔
17
نبت را چہ خواندہ چہ ناخواندۂ
ہست پائے او بگل در ماندۂ
ترجمہ: گھاس کو کوئی ہلائے یا نہ ہلائے اس کی جڑیں مٹی میں دھنسی ہوئی عاجز ہیں۔
مطلب: جس طرح سبزہ کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اسے ہلایا جائے یا نہ ہلایا جائے، مگر وہ ایک جگہ ہی جما رہتا ہے۔ یوں ہی ظاہر پرست کی نظر ظاہر پر جم کر رہ جاتی ہے۔ خواہ اس کو پکارو یا نہ پکارو۔ ہزاروں اور لاکھوں امثال و نظائر و امثال پیش کرو یا نہ کرو۔ وہ اپنے زعمِ باطل میں ٹس سے مس نہیں ہو گا۔
18
گر سرش جنید ببادِ تیز رو
کہ بسر جنبانیش غرّہ مشو
ترجمہ: اگر (گھاس) کا سر تیز ہوا سے ہلا ہے، تو اس کے سر ہلانے پر غرور مت کرو۔
19
آں سرش گوید سَمِعْنَا یَا صَبَا
پائے او گوید عَصَیْنَا خَلِّنَا
ترجمہ: اس کا سر تو باد صبا کی اطاعت کر رہا ہے اور اس کے پاؤں نافرمانی میں لگے ہوئے ہیں۔
مطلب: اگر سبزہ کا سر ہلتا ہوا تو اس سے دھوکہ نہ کھانا کیونکہ اس کا سر تو بادِ صبا کا فرمانبردار ہے، اور اس کے حکم پر حرکت کرتا ہے مگر اس کے پاؤں بادِ صبا کی اطاعت سے انکار کرتے ہیں، کہ ہم نہ مانیں گے ہمیں حرکت سے معاف رکھو۔ بس یہی نوعیت عقل کی ہے گو وہ ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف حرکت کرتی ہے مگر یہ حرکت کرنا بمنزلہ گھاس کے سر ہلانے کے ہے اور آگے بڑھ کر غور و خوض نہیں کرتی۔ اس لیے وہ صورت پر جم کر رہ گئی ہے۔ چونکہ کوتاہ نظر شخص نفس و آفاق کی طرف نگاہ نہیں رکھتا۔ اس لیے ان کے حکم و مصالح کا ادراک نہیں کر سکتا۔ اپنی اس تنگ نظری اور کوتاہ بینی کے سبب اپنے افعال کے نتائج پر نگاہ نہیں رکھتا اور نہ ہی ان کے مصلحتوں و حکمتوں کو سمجھ سکتا ہے۔ اس لیے وہ فقط عامیانہ کوشش کرتا ہے اور سطحی نتائج پر بس کر لیتا ہے۔
20
چوں نداند سیر میراند چو عام
بر توکل مے نہد چوں کور گام
ترجمہ: حقیقت کو نہ سمجھ کر عامیانہ روش اختیار کرتا ہے، اور اندھوں کی طرح توکل کرتا ہے۔
21
بر توکّل تا چہ آید در نبرد
چوں توکّل کردنِ اصحابِ نرد
ترجمہ: ایسے توکّل کا جنگ میں کیا نتیجہ رہے گا (یہ تو ایسا ہے) جیسے چوسر باز توکّل کرتا ہے۔
مطلب: اپنی عقل و خرد کے نتائج پر بھروسہ کرنے والا مثل اندھے کے ہے جو حقیقت سے آنکھیں بند کر کے وہمِ باطل میں قید ہو چکا ہو، اور سعی و جہد کو بیکار و عبث سمجھتا ہو۔ اس ظن و گمان پر کہ جو کچھ ہونا ہو گا وہ ہو کر رہے گا، حالانکہ یہ اس کی غلطی ہے کیونکہ یہاں پر اس کے اور نفسِ شیطان کے درمیان جنگ اور جنگ میں کوشش کی ضرورت پڑتی ہے۔ محض توکل سے کام نہیں چلے گا یہ تو ایسا ہوا جیسے چوسر باز توکل کرے اور اندھا دھند مہرے چلنے لگے، اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ وہ شکست کھا جائے گا۔
22
واں نظر ہائے کہ آں افسردہ نیست
جز روندہ جز درندہ پردہ نیست
ترجمہ: اور وہ لوگ (اہل اللہ) جن کی نگاہیں (اہل اللہ) جامد نہیں ہیں، وہ باطنی ترقی کرتے ہیں اور حجابات کو چاک کرتے ہیں۔
23
آں چہ در دہ سال خواہد آمدن
ایں زمان بیند بچشمِ خویشتن
ترجمہ: جو کچھ دس برس بعد ہونے والا ہوگا وہ اس وقت اپنے نورِ باطن سے دیکھ لیں گے۔
مطلب: جن لوگوں کی نگاہیں کوتاہ و جامد نہیں ہیں وہ باطنی ترقی کرتے رہے ہیں، اور جسمانی مواقعات کو رفع کر کے تقربِ حق جل مجدہ بڑھاتے ہیں۔ ان کی انجام بینی کی یہ حالت ہوتی ہے کہ دس سال بعد آنے والی بات کو اس وقت اپنے نورِ بصیرت سے دیکھ لیتے ہیں اور اس کا انتظام شروع کر دیتے ہیں۔ پس عاقبت اندیش میں اتنا ہی فرق ہے کہ وہ مآل کار کو دیکھ کر سنبھل جاتا ہے، اور نا عاقبت اندیش اپنی کوتاہ نظری کے باعث بے فکر رہتا ہے۔ مولانا کا مقصد یہ ہے کہ بصارت جو خدا نے ہر ایک فرد کو مرحمت فرمائی یعنی ظاہری آنکھیں، اور بصیرت جو نورِ قلب کا فعل ہے، یہ عشقِ حق اور محبتِ حق اور اتباعِ رسول سے حاصل ہوتا ہے۔ اس مقام پر غیب دانی کا شبہ نہ کیا جائے، کیونکہ ”وَالْغَیْبُ عِنْدَ اللہِ“ اعمالِ حسنہ، تزکیۂ نفس، اور توجہ الی اللہ سے مومن کے لیے مبشرات ہیں، جو اللہ جل مجدہٗ اپنے بندے کے قلب پر القا فرماتا ہے۔
و لنعم ما قیل؎
دل مغز حقیقت ایں برست ببیں
در کسوت درج صورت اوست ببیں
ہر چیز کہ ایں نشانِ ہستی دارد
یا سایۂ نورِ اوست یا اوست ببیں
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
یا رب از عرفان مرا پیمانہ سرشار دہ
چشم بینا جان آگاہ و دلِ بیمار دہ
بر سرے موئے حواس من براہے میرود
ایں پریشان میر را در بزم وحدت بار دہ
24
چونکہ سدِّ پیش و سدّ پس نماند
شد گذارہ چشم و لوحِ غیب خواند
ترجمہ: کیونکہ ان کے آگے پیچھے کوئی دیوار نہیں۔ اس لیے وہ غیب کی تختیاں پڑھتے ہیں۔
مطلب: اس سے قبل آخرت کا ذکر تھا، اب مولانا عالمِ غیب بینی پر کلام فرماتے ہیں کہ علٰی ہٰذا ہر شخص اپنی چشمِ باطن کی قوت کے موافق امورِ غیب یعنی آئندہ واقعاتِ دنیویہ اور اخرویہ کو خواہ وہ اچھے ہوں یا برے دیکھ لیتا ہے، لیکن یہ اس وقت ہوتا ہے جب آدمی تزکیہ و تصفیۂ باطن کر لیتا ہے، اور اس قابل بن جائے کہ امورِ غیب کا عکس اس کے قلب پر پڑنے لگے، اور تعلقاتِ ناسوتیہ جو مانع ہیں پوری طرح مرتفع ہو جائیں، اس وقت آدمی کی نظر ثاقب و نافذ ہو جاتی ہے۔ اس وقت وہ لوحِ غیب کو پڑھنے لگتا ہے، اور امورِ غیب پر حسبِ استعداد مطلع ہوتا ہے۔
25
چوں نظر پس کرد تا بدوِ وجود
آخر و آغاز ہستی رُو نمود
ترجمہ: جب (سالک) نے ابتدا پر نظر ڈالی تو اس پر (کائنات) کی ابتدا اور انتہا کا راز کھل گیا۔
مطلب: اس کی نظر کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب وہ ابتداء ہستی تک نظر دوڑاتا ہے، تو واقعاتِ سابقِ ہستی اس پر روشن ہو جاتے ہیں۔
26
بحث و املاک و زمین با کبریا
در خلیفہ کردن بابائے ما
ترجمہ: خدا سے فرشتوں کا زمین کی وراثت میں اور حضرت آدم علیہ السّلام کو (زمین پر) خلیفہ بنایا جانے پر جھگڑا کرنا۔
مطلب: اور وہ پیدائش آدم علیہ السّلام کے وقت اس گفتگو کو دیکھتا ہے جو حق سبحانہٗ ملائکۂ ارض کے درمیان خلافتِ حضرت آدم علیہ السّلام کے باب میں ہوئی تھی۔ یہ حالت اس کی پس بینی کی تھی۔
27
چوں نظر در پیش افگند و بدید
آنچہ خواہد بود تا محشر پدید
ترجمہ: جب (سالک نے) سامنے نگاہ ڈالی، تو اس پر قیامت تک جو کچھ ہونا چاہتا ہے۔ عیاں ہو۔
28
پس ز پس مے بیند او تا اصلِ اصل
پیش مے بیند عیاں تا روزِ فصل
ترجمہ: جب وہ پیچھے مڑکر دیکھتے ہیں تو ابتدائے آفرینش تک دیکھ پاتے ہیں، جب وہ سامنے کی طرف دیکھتے ہیں تو قیامت تک کی خبر رکھتے ہیں۔
مطلب: سالک کی پیش بینی کا یہ عالم ہے کہ جب وہ مستقبل پر نظر دوڑاتا ہے تو ان واقعات کو دیکھ لیتا ہے جو قیامت تک ظہور پذیر ہونے والے ہیں۔ حاصل کلام کہ پیچھے کی جانب وہ ابتدائے خلقت دیکھ لیتا ہے اور آگے کی جانب قیامت تک دیکھ لیتا ہے۔ یہ شبہ بھی نہ کرنا چاہیے کہ اولیاء اللہ کا علم احاطۂ کل رکھتا ہے، بلکہ مقصد صرف ان کے علم کی وسعت دکھلانا ہے نہ ہر ہر چیز کے علم کا احاطہ کلی و تفصیلی ہے۔ یہ بھی شبہ نہ لایا جائے کہ ان کا کشفِ اختیاری ہے۔ مطلوب یہ ہے خداوندِ قدوس نے ان کو علم کثیر عطا کیا ہے۔
29
ہر کسے ز اندازۂ روشن دلے
غیب را بیند بقدرِ صیقلی
ترجمہ: ہر شخص قلب کی صفائی و روشنی کے اعتبار سے امورِ غیب پر آگاہ ہوتا ہے۔
30
ہر کہ صیقل بیش کرد او بیش دید
بیشتر آمد برو صورت پدید
ترجمہ: جس نے جتنی زیادہ صفائی (قلب) کی اتنا ہی زیادہ اس نے صورت کا مشاہدہ کیا۔
مطلب: غرضیکہ ہر ایک اپنی مقدار، روشنی اور صفائی قلب کے انداز سے امورِ غیبیہ کا مشاہدہ کرتا ہے۔ پس جو صیقل زیادہ کرے گا وہ زیادہ دیکھے گا اور صور و اشکالِ مخفیہ اس پر زیادہ منکشف ہوں گی اور جو کم کرے گا اس کی حالت بر عکس ہو گی، یہ کشف اور غیب بینی عام ہے۔ خواہ الہٰیات سے متعلق ہو یا کونیات سے متعلق ہو۔
صائب ؎
مکش دست طلب از دامن صدق طلب صائب
کہ گمراہ مے شود آنکس کہ از راہبر جدا ماند
قدم سعی تو در دامنِ تن پیچیدہ است
ورنہ افلاک ترا اطلس پا انداز است
31
گر تو گوئی کاں صفا فضلِ خداست
نیز ایں توفیق صیقل زاں عطاست
ترجمہ: اگر تو یہ کہے کہ صفائی (قلب) بھی خدا کی دین ہے۔ اگر وہ (خدا) صفائی کی ہمت عطا فرمائے۔
مطلب: جب تم کو تصفیۂ باطن کی عظمت معلوم ہو گئی تو اب تم کو چاہیے کہ صفائیِ قلب اور اعمالِ حسنہ میں کوشش کرو، اگر اسی پر شبہ کرو کہ حصولِ صفا موقوف ہے حق سبحانہ پر، اور توفیقِ تصفیہ بھی اللہ کی دین ہے یہ درست ہے، لیکن سعی و عمل کا کرنا بھی تمہارا فرض ہے، جب تم جدّ و جہد کرو گے تو خدا کا دریائے رحمت بھی جوش میں آئے گا۔ فَافْہَمْ و تدبرّ۔
32
قدر ہمّت باشد آں جہد و دعا
لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی
ترجمہ: بقدرِ ہمت و سعی ہی (نتیجہ) دعا ہے (فرمانِ خدا ہے) کہ انسان کے لیے جو کچھ ہے اس کی کوشش ہی سے ہے۔
33
واہب ہمت خداوند است و بس
ہمت شاہی ندارد ہیچ خس
ترجمہ: ہمتوں کو بخشنے والا خدا ہے اور بس ورنہ انسان نا چیز (اہم مقصد) کے لیے کیا کر سکتا ہے۔
مطلب: مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہماری کوشش اور دعا سو وہ موقوف ہے رحمتِ خداوندی پر، اور توفیقِ تصفیہ بھی خدا کی دین ہے چونکہ سعی و جہد موقوف ہے ہمت پر اور عزمِ مصمم پر، اور یہ بھی معلوم ہے کہ آدمی کو وہی ملتا ہے جس کے لیے وہ سعی کرتا ہے، اور سعی موقوف ہے ہمت پر اور ہمت و توفیق کا دینے والا خدا ہے۔ ورنہ ناچیز انسان ایسے بڑے مقصد یعنی عرفانِ کائنات کا ارادہ نہیں کر سکتا۔
34
نیست تخصیصِ خدا کس را بہ کار
مانعِ طوع و مراد و اختیار
ترجمہ: حق جل مجدہٗ کا کسی کام کو کسی کے لیے مقدر کر دینا (انسان) کی اطاعت اور آرزوؤں کے لیے مانع نہیں ہے۔
مطلب: مولانا رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں کے وہم دور کر رہے ہیں، جو قدریہ خیالات کے حامل ہیں، جن کا یہ گمان ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، پھر ہم سے یہ مطالبہ کرنا کہ تم صفائی حاصل کرو فضول ہے۔ اس شعر میں ان کا جواب دے رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ خدا تعالٰی ہر چیز پر قادرِ مطلق ہے اور تقدیرِ الہٰی بے شک حق ہے لیکن حق سبحانہٗ کا کسی کام کو کسی کے لیے مخصوص کر دینا اس انسان کی اطاعت و انقیاد اور اختیار کے لیے روک نہیں ہے، بلکہ یہ امور تقدیر کے ساتھ بھی جمع ہو سکتے ہیں لیکن حق سبحانہٗ جب کسی شے کو مقدر کرتے ہیں، تو وہ مقدر دو حالتوں سے خالی نہیں ہوتا، کبھی تو وہ اپنے اختیار کو سببِ قرب بناتے ہیں اور کبھی سببِ بعید ہوتا ہے۔ مثلاً:
35
لیک چوں رنجے دہد بدبخت را
او بگزراند بکفراں رخت را
ترجمہ: جب (خدا) کسی بدبخت کو دکھ دینا چاہتا ہے، تو وہ (بد قسمت) ناشکری کا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔
مطلب: حق جل مجدہٗ کسی بدبخت اور محروم کو تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں تو وہ اپنے اختیار کو یوں کام میں لاتا ہے کہ کفرانِ نعمت کا راستہ اختیار کرتا ہے، اور جل مجدہٗ کے جملہ انعام و اکرام فراموش کر دیتا ہے، اس ناشکری کے باعث وہ حق سبحانہٗ کی رحمت و رافت سے دور جا پڑتا ہے۔
36
نیک بختے را چوں حق رنجے دہد
رخت را نزدیک تر وامے نہد
ترجمہ: کسی نیک کو (خدا) کسی رنج میں مبتلا کرتا ہے تو بذریعہ (شکر و صبر) کے قرب حاصل کرتا ہے۔
مطلب: حق سبحانہٗ جب کسی نیک انسان کو برائے آزمائش و امتحان مبتلائے مصائب کرتے ہیں تو وہ بجائے آہ و بکا اور ناشکری کے صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ جس کے باعث قربتِ حق پاتا ہے تو دیکھو تقدیرِ الہٰی ہر دو کے لیے ایک قسم کی ہے، مگر آثار میں فرق ہے اور یہ فرق کیوں ہے۔ محض اختیار کے سبب پس معلوم ہوا کہ آدمی مختار ہے نہ کہ مجبور، مگر آثار میں فرق ہے اور یہ فرق کیوں ہے۔ محض اختیار کے سبب، پس معلوم ہوا کہ آدمی مختار ہے نہ کہ مجبور۔
کما قیل؎
کہ کس نہ کشود و نکشاید بہ حکمت ایں معمہ را
37
بد دلاں ہم ز بیمِ کارزار
کردہ اسبابِ ہزیمت اختیار
ترجمہ: بزدل میدان جنگ میں جان کے خوف سے (بھاگ کر) شکست کا انتظام کرتے ہیں۔
38
پُر دلاں در جنگ ہم از بیمِ جاں
حملہ کردہ سوئے صفِ دشمناں
ترجمہ: اگرچہ بہادروں کو بھی میدانِ جنگ میں اپنی جان کا خوف ہوتا ہے۔ باوجود اس کے وہ دشمنوں کی صفوں پر حملہ کرتے ہیں۔
مطلب: مولانا فرماتے ہیں کہ ہم اس مدعا کو ایک دوسری مثال سے ثابت کرتے ہیں۔ دیکھو کہ میدان جنگ میں بزدل لوگوں کو بھی جان خوف ہوتا ہے اور بہادروں کو بھی، لیکن دونوں پر اختلافِ اختیار کے سبب نتیجہ مختلف مرتب ہوتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ کمزور دل ہیں وہ جان کے خوف سے جنگ میں شکست اختیار کرتے ہیں، اور بہادر اسی خوف کے سبب صفِ دشمن پر حملہ آور ہوتا ہے تاکہ ان کو نیست و نا بود کر کے اپنی جان کو ان سے بچائے۔
39
رستماں را ترس و غم وا پیش بُرد
ہم ز ترسِ آں بد دل اندر خویش مُرد
ترجمہ: بہادروں کو (اپنی جان کے خوف نے) آگے بڑھایا، اور بزدل خوف ہی کے سبب خود بخود مر گیا۔
مطلب: رستم ہلاکتِ جان کے خوف سے دشمنوں پر حملہ آور ہوا تاکہ ان سے محفوظ رہے، اور بزدل خوفِ جان سے بے مارے ہی مر گیا۔ دیکھو سبب ایک تھا، مگر اختلافِ اختیار کے سبب مختلف نتائج بر آمد ہوئے۔
40
چوں محک آمد بلا و بیمِ جاں
زاں پدید آمد شجاع از ہر جہاں
ترجمہ: جب خوف و خطر جان کی کسوٹی ہوئی (تو اس آزمائش سے) مردانگی اور نا مردانگی عیاں ہو گئی۔
مطلب: لہٰذا سمجھنا چاہیے کہ تکالیف اور دیگر امور تقدیریہ ایک کسوٹی ہیں جو بہادر اور بزدل میں خطِ امتیاز قائم کرتی ہیں، اور ان کو اختیار کے منافی نہ سمجھنا چاہیے اور ہمت سے کام لے کر اپنے کو جانباز و بہادر ثابت کرنا چاہیے۔
41
حاصل آں کز وسوسہ ہر سو گسیخت
از قضا ہم در قضا باید گریخت
ترجمہ: حاصل کلام یہ ہے کہ وساوسِ (شیطانی) سے نکل کر تقدیرِ الہٰی میں پناہ لینی چاہیے۔
مطلب: ہر قسم کے وساوس سے قطع تعلق کر کے تقدیر سے بھاگ کر تقدیرِ الہٰی میں ہی پناہ ہے یعنی اپنے تمام کاموں میں حق سبحانہٗ کو مطمع نظر بنائے اور اسی سے طالب امداد ہونا چاہیے۔ غرضیکہ کہ انسان اپنے آپ کو بالکل مجبور و معطل ہی نہ سمجھے اور نہ ہی مختارِ کل، درمیانی راہ اختیار کرے۔ حقیقتاً نہایت دقیق لطیف مقام ہے۔ زبان و نوکِ قلم کی گرفت سے بالاتر ہے۔
کما قیل ؎
حدیث از مطرب دمے گو دراز و ہر کمتر جو
کہ کس نکشود و نکشاید بحکمت ایں معما را