دفتر 4 حکایت 126: سنی و فلسفی کا آگ میں گھسنا اور فلسفی کا آگ میں جلنا 

حصہ دوم

دفتر چہارم: حکایت: 126

در آتش رفتن ہر دو و سوختنِ فلسفی

سنی و فلسفی کا آگ میں گھسنا اور فلسفی کا آگ میں جلنا

1

آب و آتش آمد اے جاں امتحاں

نقد و قُلبے را کہ آں باشد نہاں

ترجمہ: اے بھائی! آگ اور پانی امتحان کے لیے ہیں، کھوٹے اور کھرے پن کو جو ان میں پوشیدہ ہے، ظاہر کر دیتے ہیں۔

2

تا من و تو ہر در آتش رویم

حجّتِ باقیِ حیراناں شویم

ترجمہ: سنی نے کہا میں اور تو دونوں آگ میں گھسیں، تاکہ (میرا اور تمہارا انجام) زمانہ پر حجت رہے۔

مطلب:کہ میں اور تو دونوں آگ میں گھسیں اور جو لوگ میرے اور تمہارے گرد جمع ہیں ان پر عقدہ کھل جائے اور ہم دونوں ان کے لیے دلیلِ راہ بنیں۔

3

تا من و تو ہر دو در بحر اوفتیم

چوں درِ دعویٰ من و تو کوفتیم

ترجمہ: یا دونوں سمندر میں کود پڑیں کیونکہ ہم دونوں مدعی ہیں۔

مطلب: اگر تجھے آگ منظور نہیں تو سمندر میں دونوں کود پڑیں کیونکہ ہم میں سے ایک صداقت کا مدعی ہے کہ تم کہتے ہو کہ میں اپنے قول میں سچا ہوں اور میں کہتا ہوں کہ میں سچا ہوں۔

4

ہمچناں کردند و در آتش شدند

ہر دو خود را بر تفِ آتش زدند

ترجمہ: الغرض دونوں آگ میں آ گئے اور دونوں ہی نے اپنے کو آگ کے شعلوں کے حوالے کر دیا۔

مطلب: دونوں کا آگ میں داخل ہونا طے پایا، اور دونوں نے اپنے کو سوزشِ آتش کے حوالے کر دیا۔

5

فلسفی را سوخت خاکسترم شد او

متقی را ساخت تازہ تر شد او

ترجمہ: فلسفی جل کر خاکستر ہوا، اور متقی محفوظ و ترو تازہ رہا۔

6

آں خدا گویندہ مردِ مدّعی

رست و سوزید اندر آتش آں دعی

ترجمہ: خدا کا ماننے والا مدعی بچ گیا، اور اس کا انکار کرنے والا جل گیا۔

مطلب: نتیجہ یہ ہوا کہ دہری یعنی خدا کا انکار کرنے والے کو آگ نے جلا کر خاکستر کا ڈھیر کر دیا، اور خدا کے اقرار کرنے والے کو وہ آگ ایسی راس آئی کہ پہلے سے بھی زیادہ خوش و خرم رہا، پس وہ خدا کے قائل اور دنیا و مافیہا کے ماننے والا بچ نکلا، اور خدا کو نہ ماننے والا اور جہاں کو قدیم اور غیر فانی تسلیم کرنے والا موت کے گھاٹ اترا۔ قدرتی نتیجہ اس قسم کا بر آمد ہوا کہ حدوث کے ماننے والوں کو بھی تحیر میں ڈال دیا کہ جو شخص فنا کا قائل تھا وہ بچ نکلا، اور جو دوام کا قائل تھا بری طرح ہلاک ہوا۔ مدعی حدوثِ عالم کا نام بھی موت سے نہیں ٹلتا، اور ہزاروں جانیں اس کی دلدادہ اور مطیع ہوگئیں اور وہ صحرائے تحیر میں لاکھوں مخلوق کا سردار بن کر ان کو اس جنگل سے نکال کر لے گیا، اور لاکھوں بے عصاؤں کے لیے موجب عافیت بن گیا، اور اس طرح اس معرکہ میں اس کو نمایاں فتح حاصل ہوئی، اور دوام و بقا کے قائل کا نام صفحۂ ہستی سے نقش بر آب کی طرح مٹ گیا، حق سبحانہ تعالٰی حق و باطل کے معرکہ آراؤں کی بے شمار مثال اپنے کلام پاک میں بیان فرمائیں، اور ان کے کھوٹ اور زیغ کی پردہ دری فرمائی ہے جب کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی شرط کی ہے تو حق ہی غالب آیا، اس طرح کے آپ کے معجزات دائم رہے، اور مخالفین کی کاروائیاں فنا ہوگئیں۔

سعدی رحمۃ اللہ علیہ؎

خلافِ پیمبر کسے رہ گزید

کہ ہرگز بمنزل نخواہد رسید

7

از مؤذن بشنو ایں اعلام را

کو بری افزون روانِ خام را

ترجمہ: منادی کرنے والے کے اعلان کو سنو کہ (خدا) بروں کو ہلاک کرے۔

8

کہ نہ سوزید است ایں نام از اجل

کش مسمّٰی صدر بودہ است اجل

ترجمہ: کہ (متقی) کے نام کو موت بھی نہ مٹا سکی، کیونکہ نام والا کتنا ہی بزرگ تھا۔

9

صد ہزاراں زیں رہاں اندر قرآں

بر دریدہ پردہ ہائے منکراں

ترجمہ: لاکھوں حق و باطل کے فیصلہ کی شرطیں، قرآن میں ہیں، جس پر منکروں کا پردہ چاک ہوا۔

10

صد ہزاراں روح شد دلدادۂ

در رہِ او سر بسر افتادہ

ترجمہ: لاکھوں روحیں اس پر فدا ہوئیں، اور ہر ایک کا سر ان کے آگے جھک گیا۔

11

صد ہزاراں خلق اندر بادیہ

سر چو گو بے عصا و راویہ

ترجمہ: لاکھوں انسان (رسول صلی اللہ علیہ وسلم) سے مکہ میں جھگڑے، مگر سب (کفار) بے دست و پا ہو کر رہ گئے۔

12

چوں گرد بستند غالب شد صواب

در دوامِ معجزات و در جواب

ترجمہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) کوئی شرط باندھی تو حق ہی غالب رہا کہ معجزات دائم رہے، اور مخالفین کی کاروائیاں فنا ہوگئیں۔

13

فہم کردم کانکہ دم زد از سبق

در حدوثِ چرخ پیروزست و حق

ترجمہ: پس اب میں سمجھا کہ جس نے (اس قصہ سے عبرت حاصل کی) یقین کیا کہ آسمان حادث ہے، وہی حق پر ہے۔

مطلب: مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس نے پیشتر یہ کہا تھا، آسمان اور جو کچھ اس میں ہے جملہ فانی ہے، وہ غالب اور حق تھا۔ اب مولانا فرماتے ہیں کہ فلسفی مغلوب ہو گیا اور اس کی دلیل و حجت رسوا اور بے کار ثابت ہوئی، حق ہمیشہ غالب و بلند ہوتا ہے۔

14

حجتِ منکر ہمارہ زرد رو

یک نشاں بر صدقِ ایں انکار کو

ترجمہ: منکرِ (حق) کی دلیل بے کار ہوگئی (بھلا زمانہ) میں کب اس قول کی تصدیق ہوئی تھی۔

15

یک منارہ در ثنائے منکراں

کو دریں عالم کہ تا باشد عیاں

ترجمہ: منکران (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی تعریف میں اگر کوئی منارہ دنیا میں ہو تو دکھاؤ۔

مطلب: منکرِ حق کی دلیل ہمیشہ مغلوب ہی ہوتی ہے، کیونکہ اس کے انکار کے سچے ہونے کی کوئی بھی دلیل نہیں ہے، جو سرسبز و شاداب ہو منکروں کی دنیا میں کوئی بھی ایک یادگار نہیں ہے۔ دیکھو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین ابوجہل و ابولہب وغیرہ کا ایک بھی نام لیوا باقی نہیں ہے۔

16

سکۂ شاہاں ہمی گردد دگر

سکہ احمدؐ ببیں تا مستقر

ترجمہ: دیکھ منکر! شاہی سکہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ احمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سکہ قائم و دائم ہے۔

مطلب: دنیا میں مملکتوں اور حکومتوں کے سکے ادلتے بدلتے رہتے ہیں، چند روز کسی کے نام کا سکہ جاری ہوا اور کچھ عرصہ بعد دوسرے کا رائج ہو رہا ہے۔ غرضیکہ کسی ایک کے سکہ کو قرارِ دنیا نصیب نہیں ہوا۔ بخلاف احمد مرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا سکہ آج تک جاری ہے، اور قیامت تک رہے گا۔ دنیا کا کوئی خطہ اور کونہ خواہ خشکی ہو یا تری کا، ایسا نہیں ہے جہاں کم از کم پانچ وقتوں میں آپ کے نام کی منادی نہ ہوتی ہو۔

17

منبرے کو کہ در آنجا مخبرے

یاد آرد روزگارے منکرے

ترجمہ: کسی جگہ ایسا منبر ہے؟ جہاں پر منکرِ (حق تعالٰی و رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کی یاد تازہ کی جاتی ہو۔

مطلب: کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح کوئی منبر ہے جس طرح آپ کو یاد کیا جاتا ہے، ان کو بھی یاد کیا جائے۔ بخلاف اس کے آپ کے منکروں کو ہر منبر و مجلس میں برائی سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔

18

روئے دینار و درم از نامِ شاں

تا قیامت مے دہد از حق نشاں

ترجمہ: ان کے نام کا دینار و درم قیامت تک ان کی صداقت کی گواہی دے گا۔

مطلب: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے متبعین کے نام اور کارنامے قیامت تک زندہ و پائندہ رہیں گے، اور ان کے حق و صداقت کی شہادت ملتی رہے گی۔

کما قیل ؎

ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق

ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما

دینار و درہم سے غلبہ و فوقیت مراد ہے کہ معجزات کا دوام و بقاء انبیاء علیہم السّلام کے صدق و راستی کو ثابت کرتے ہیں۔ انبیاء علیہم السّلام کے علومِ وہبی اور فلاسفہ کے علومِ کسبی میں بعد المشرقین ہے۔ حکیم ناصر خسرو نے اپنی کتاب مکنون میں بڑی سیر حاصل بحث کی ہے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے جو علوم انبیاء علیہم السّلام کو عطا کئے جاتے ہیں وہ دو حال سے خالی نہیں، یا عقول اور حواس کے توسط سے حاصل ہوتے ہیں یا بلا واسطہ عقول و حواس۔ دوسری قسم کے علوم کو غیر معقول اور غیر محسوس کہتے ہیں، اور یہ وہ احکام ہیں جو فقط ذاتِ الہٰی سے متعلق ہیں پہلی قسم کے علوم کا حصول یا تو محض عقول بلا حواس کے توسط سے ہو یا عقول و حواس کے ہر دو کے توسط سے، پہلے علم کو جس کا تعلق مجرد سے ہے معقولات کہتے ہیں، اور دوسرے کا نام جس کا تعلق احوالِ جسمانیت سے ہے علمِ محسوسات کہتے ہیں، اور دلیل و برہان جو حواس کے اختراعات سے ہے خود محسوسات میں بھی ہمیشہ اثبات و مدعا میں عہدہ بر آ نہیں ہوتی، تو معقولات اور لا معقولات اور لا محسوسات میں اس کی کیا پیش جا سکتی ہے؟ پس انبیاء علیہم السّلام کا علم جو ذات الہٰی سے براہ راست تعلق رکھتا ہے لا محالہ تعلیمِ الہٰی پر موقوف ہے، جس کو لا معقول اور لا محسوس کہتے ہیں، کیونکہ عقل اپنے اس مبداء کی حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتی جو اس کی ذات پر مؤثر ہے، کیونکہ یہ مسلمہ امر ہے کہ اثر اپنے مؤثر کو جس کا اس سے سابق ہونا لازم ہے ادراک نہیں کر سکتا۔ پس عقول جب اپنے مبداء کے ادراک سے عاجز ہیں تو ذاتِ الہٰی کی کنہ کا کیونکر ادراک کر سکتے ہیں؟ اس سے ثابت ہوا کہ علوم انبیاء علیہم السّلام کا لا معقول اور لا محسوس ہوتے ہیں اور علم عقل یازدہم میں ہی ودیعت کئے جاتے ہیں، جس سے انبیاء علیہم السّلام کی عقل مراد ہے اور معجزات اس کے نتائج ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ خدا اور اس کی صفات کے ادراک کا طریقہ عقل و خرد سے برتر ہے وہ وحی کی تعلیمات پر منحصر ہے، اور وجدان و ذوق سے اس کے حقائق منکشف ہو سکتے ہیں۔

کما قیل ؎

ہست بر ذرات یکساں چو تو خورشید فیض

لیک باید جوہرے قابل کہ گر در لعلِ ناب

تربیت را چہ اثر گر نبود استعداد

آب صاف چو آئینہ نگردد ز غبار

دیدۂ یعقوب مے باید برائے امتحان

کار بوئے پیرہن ہر چند بینا کردن است

19

بر رُخِ نقرہ یا روئے زرے

ور نما بر سکۂ نامِ منکرے

ترجمہ: اے منکر! بھلا تو کسی چاندی یا سونے کے سکہ پر کسی منکر کا نام تو دکھا۔

مطلب: سیم و زر کے سکوں پر کسی منکر کا نام کندہ نہیں ہے۔ بخلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کا نام دنیا کے چپہ چپہ پر کندہ ہے، بلکہ لوگوں کے دلوں پر ثبت ہے۔

20

خود بگیر ایں معجزہ چوں آفتاب

صد زباں و نامِ او ام الکتاب

ترجمہ: (اچھا اگر اس بیان سے تشفی نہ ہوئی ہو تو) یہ آفتاب کی طرح روشن اور بصد زبان اپنے اعجاز کو ظاہر کرنے والا معجزہ جس کا نام قرآن ہے اسی کو لے لو۔

مطلب: اوپر مولانا نے انبیاء علیہم السّلام کے صدق پر ان کے ذکرِ حق کی بقا اور قیامت تک جاری رہنے اور منکروں کا نام و نشان مٹ جانے سے احتجاج کیا ہے۔ اس پر شبہ ہوتا ہے کہ کفار بھی اپنے پیشواؤں کی اسی طرح تعریف کرتے ہوں گے کہ جس طرح مسلمان اپنے انبیاء علیہم السّلام کی اور جس طرح اور بادشاہوں کا سکہ پر نام نہیں رہتا۔ یوں ہی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام باقی نہیں رہا۔ پس اس میں فرق کیا ہے اور استدلال کیونکر صحیح ہے؟ اس سے مقصد مولانا کا صرف اتنا ہے کہ جن لوگوں نے انبیاء علیہم السّلام سے مقابلہ اور معارضہ کیا، بحیثیت مقابل و معارض کفار کا کوئی پیروکار نہیں ہیں۔ مثلاً یہود و نصاریٰ کفار ہیں مگر ابو جہل، ابو لہب اور قارون وغیرہ کے پیروکار نہیں ہیں۔ ان کا ذکر نہیں کرتے بلکہ انبیاء علیہم السّلام کا ذکر کرتے ہیں، خواہ ذکر صحیح ہو یا غلط۔ رہا ہنود کا اپنے رہنماؤں کا ذکر کرنا ان کے پیشواؤں کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انبیاء علیہم السّلام کے مقابل و معارض تھے، ممکن ہے کہ وہ اہلِ حق ہوں اور موجودہ خرابیاں جو ان میں اعتقاداً و عملاً پائی جاتی ہیں بعد کے لوگوں کی تحریفیں ہوں۔ رہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے بقا کا سوال تو مسلمانوں کے نام کا سکہ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا سکہ ہے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ پھر اپنے دعویٰ کی تائید کے لیے دوسری چیز پیش کرتے ہیں کہ اگر کسی کی تشفی نہ ہوئی ہو تو یہ آفتاب کی طرح روشن اور بصد زبان اپنے اعجاز کو ظاہر کرنے والا قرآن ہے جس کو ام الکتاب (کتابوں کی ماں) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس کی حقانیت اور صداقت، اسلوبِ بیان، طرزِ تحریر و انشاء رشد و ہدایت اور حفاظت کا کونسا پہلو ایسا ہے جس پر تم کو اعتراض ہو۔ بفحوائے کلام: ﴿لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِؕٓ مَا كَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰى وَ لٰكِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ تَفْصِیْلَ كُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ (یوسف: 111) ”یقینا ان کے واقعات میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے بڑا عبرت کا سامان ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو جھوٹ موٹ گھڑ لی گئی ہو، بلکہ اس سے پہلے جو کتابیں آچکی ہیں ان کی تصدیق ہے، اور ہر بات کی وضاحت اور جو لوگ ایمان لائیں ان کے لیے ہدایت اور رحمت کا سامان۔“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ“ (صحیح بخاری: 5027) یعنی ”تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید کو پڑھے اور پڑھائے۔“

قرآن مجید اللہ تعالٰی کی صفتِ حقیقیہ ہے، بلا واسطہ گویا وہ عبد اور معبود کے مابین تعلق کی رسی ہے، جس کا ایک سرا خدا کے پاس ہے اور دوسرا ہمارے پاس۔ قیامت تک لوگوں کے لیے رشد و ہدایت کا چراغ ہے۔

کما قیل ؎

آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم

حکمتِ او لا یزال است و قدیم

نسخۂ اسرار تکوینِ حیات

بے ثبات از قوتش گیرد ثبات

21

زہرہ نے کس را کہ یک حرفے ازاں

یا بدُزدد یا فزاید درمیاں

ترجمہ: کس کی طاقت ہے کہ (قرآن) کا ایک حرف گھٹا دے یا بڑھا دے۔

مطلب: سوچو کتنی بڑی بات ہے کہ قرآن مجید کا ایک حرف کوئی اڑا لے یا اس میں سے کم کر دے یا اضافہ کر دے، چنانچہ شیعوں نے اسلام میں ہزاروں طرح سے رخنہ اندازیاں کیں اور ہزارہا حدیثیں گھڑ کر، سُنی بن کر محدثین کی کتابوں میں درج کرائیں، جب دوسرے محدثین کو ان کی جعل سازی کا پتہ لگا انہوں نے بتلا دیا کہ فلاں راوی کذّاب اور فلاں حدیث موضوع ہے، جس سے حق و باطل نکھر گیا، اگرچہ وہ احادیث ان کتابوں سے ان مصنفین کے انتقال کے باعث اور اطراف و اکنافِ عالم میں پھیل جانے کی وجہ سے خارج نہیں کی گئیں۔ پھر بھی طالبِ حق کے لیے شبہ نہیں رہا مگر انہوں نے کام کر دیا اسی طرح انہوں نے قرآن کو بھی محرف بنا کر عوام کو بدظن کرنا چاہا، اس قرآن کے علاوہ ایک اور قرآن بھی مانا اور کہا کہ وہ اصل اور آسمانی قرآن صرف آئمہ کے پاس ہے، اور اس قرآن میں رد و بدل کرنی چاہی، مگر ان کی سعی نا کام رہی۔ الحمد للہ یہ قرآن اسی طرح محفوظ ہے، جس طرح قرونِ اولٰی میں تھا اور تا ابد رہے گا۔

22

یارِ غالب شو کہ تو غالب شوی

یارِ مغلوباں مشو تو اے غوی

ترجمہ: غالب (حق سبحانہٗ) کو دوست رکھ تاکہ تو بھی غالب رہے۔ مغلوب (منکر کی دوستی) چھوڑ کہیں تو بھی مغلوب نہ ہو جائے۔

مطلب: جب تم کو معلوم ہو گیا کہ اہلِ حق غالب ہیں اور منکر مغلوب، تو تم کو غالب کا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ مغلوبین کا، ورنہ ان کے ساتھ تم بھی تباہ ہو گے۔

23

حجت منکر ہمیں آمد کہ من

غیر ایں ظاہر نمی بینم و ظن

ترجمہ: منکر (حق) کی بجز اس کے کوئی (دوسری) دلیل نہیں کہ میں صرف ظاہر ہی کو دیکھتا ہوں۔

مطالبہ: مخالف جن کے پاس اس انکار کی کوئی دلیل نہیں بجز اس کے کہ میں فقط ظاہر کو دیکھتا ہوں جو چیز خارج میں موجود نہیں وہ باطن میں بھی نہیں ہے۔

24

ہیچ نندیشد کہ ہرجا ظاہریست

آں حکمتہائے پنہاں مخبریست

ترجمہ: اس نے غور نہیں کیا جہاں کہیں بھی کوئی ظاہر ہے، وہ مخفی اور باطن حکمتوں کا پتا دیتا ہے۔

مطلب: لیکن وہ اتنا نہیں سوچتا کہ مخفیات کا قطعی انکار کرنا درست نہیں، کیونکہ ظاہر کا وجود خود خفی کے وجود کی دلیل ہے، اور ہر ظاہر میں ایک فائدہ ہوتا ہے، اور وہ فائدہ مخفی اور ظاہر میں اس طرح پوشیدہ ہوتا ہے، جس طرح دوا کا نفع اس میں چھپا ہوا ہوتا ہے۔

25

فائدہ ہر ظاہرے خود باطن ست

ہمچو نفع اندر دواہا کامن ست

ترجمہ: ہر ایک ظاہر کا باطن میں فائدہ ہے جیسے صحت دوا میں پوشیدہ ہے۔

26

ایں تفاوتِ حق نہاد اندر زماں

تا بدانند اہلِ عرفان در جہاں

ترجمہ: یہ تفریق (ظاہر و پوشیدہ) کی زمانہ میں اس لیے ہے تاکہ عارف لوگ پہچان سکیں۔

مطلب: یہ بات کہ اس اختلاف میں کیا حکمت ہے کہ بعض امور عیاں ہیں اور بعض مخفی کر دیے گئے۔ یہ اس لیے کہ خدا کے بندوں کے لیے سعی و عمل کا امتحان رکھا ہے، کہ کون شخص ہے جو معرفتِ رب کے لیے تگ و دود کرتا ہے اور کس کو معرفت حاصل ہوتی ہے: ﴿لَيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعٰی (النجم: 39) یعنی ”انسان کے لیے بغیر سعی و جہد کے کچھ نہیں۔“ ﴿أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن يُّتْرَكَ سُدًى﴾ (القیامۃ: 36) ”کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ مجھے بغیر آزمایش چھوڑ دیا جائے گا؟“ خدا کی رضا اور خوشنودی کے لیے انسان بہت سے امتحان گاہوں اور آزمائشوں سے گزرتا ہے، تب جا کر کہیں اس کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ انبیائے کرام علیہم السّلام اور صلحائے عظام کی زندگیاں اس پر شاہد ہیں۔

کما قیل ؎

جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے

27

عمر کرگس صد ہزار و پانصد است

مر کبوتر را چہ باشد زاں بدست

ترجمہ: گدھ کی عمر ایک لاکھ پانسو برس ہے لیکن (سوچو) کبوتر کو کیا نصیب ہوا۔

مطلب: کرگس سے مراد آسمان ہے، مشہور ہے کہ گدھ کی عمر ساڑھے تین ہزار برس کی ہوتی ہے، لیکن غور کرو کہ کبوتر کے لیے اس عمر کا کون سا حصہ حاصل ہے جس کی نسبت بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ کچھ بھی نہیں۔

28

مے بمیرند از کبوتر صد ہزار

مرگ کرگس را نہ بیند آشکار

ترجمہ: اگر لاکھوں کبوتر کیوں نہ مریں پھر بھی گدھ کی موت نہیں دیکھ سکتے۔

29

جملہ پندارند کرگس باقیست

نے غلط کردند یک کس باقیست

ترجمہ: سب (فلاسفہ) سمجھتے ہیں کہ کرگس کا وجود باقی ہے۔ نہیں، بلکہ صرف خدا ہی باقی و دائم ہے۔

مطلب: دہری سمجھتے ہیں کہ لمبی عمر کی وجہ سے گدھ باقی اور غیر فانی ہے، اور انہوں نے چرخ کو بھی اس پر قیاس کر لیا کیونکہ ان کی عمریں چرخ کی عمر سے کوئی نسبت نہیں رکھتیں۔ اس لیے وہ آسمان کو بھی باقی سمجھتے ہیں۔ یہ ان کی فحش غلطی ہے کہ طوالت عمر کو دیکھ کر دوام و بقا کا یقین کر لیا۔

30

چونکہ ظاہر بیں شدند از جہدِ خویش

مے نہ بینند از عمٰی نہ پس نہ پیش

ترجمہ: اپنی کوشش سے یہ ظاہر پرست بنے ہیں۔ پس اندھے پن کی وجہ سے یہ (لوگ) آگے اور پیچھے کچھ نہیں دیکھ پاتے۔

31

مے نماند در جہاں یک تارِ مو

کُلُّ شَیْءِ ھَالِکٌ اِلَّا وَجھَہٗ

ترجمہ: اس جہاں میں ایک بال کو بھی بقا نصیب نہیں، ہر چیز نے فنا ہونا ہے۔ سوائے ذاتِ باری تعالٰی کے۔

مطلب: چونکہ یہ فلاسفہ اور مادہ پرست لوگ اپنی جہالت کے باعث صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں، اس لیے وہ اپنے اندھے پن سے نہ آسمان کی ابتدائی حالت پرتوجہ کرتے ہیں اور نہ ہی انتہائی حالت پر غور کرتے ہیں، کیونکہ اس کے احوال و کوائف مخفی ہیں، اور مضمرات کا ان کو احساس ہے یا نہیں۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ عالم میں ایک باقی رہنے والا نہیں۔ بجز ذاتِ احد کے ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ ہاں اس سے قبل ہم بیان کر چکے ہیں کہ جس چیز کو حق سبحانہٗ نے ظاہر فرمایا ہے اس کو ایک حکمتِ مخفی کے لیے عیاں کیا۔ پس تم کو ظاہر ہی تک نہ رہنا چاہیے اور اس کے حکموں اور مصلحتوں میں بھی غور و خوض کرنا تمہارا فرض ہے۔ تاکہ تم کو حق جل مجدہٗ کی معرفت حاصل ہو رہا۔ یہ سوال کہ غور و خوض کا حکم امورِ تکوینیہ سے ہے یا تشریعہ سے یا ہر دو سے متعلق ہے۔ حقیقتاً دونوں سے متعلق ہے مگر تحصیلِ معرفت کے لیے اس لیے نہیں کہ اپنی عقل کو معیار بنا کر امورِ شرعیہ پر تنقید کی جائے۔ جس امر کی حکمت ان کے ذہن میں آ جائے مان لیا جائے اور جس کی عِلّت سمجھ میں نہ آئے رد کر دیا جائے، جیسے کے بعض فرقے کرتے ہیں۔