حصہ دوم
دفترِ چہارم: حکایت: 125
بحث کردنِ سنی و فلسفی و جواب دادنِ دہری کہ منکرِ الوہیت است و عالم را قدیم داند
سنی اور فلسفی کا بحث کرنا، اور دہریہ کا جواب دینا جو منکرِ خدا ہے، اور عالم کو قدیم سمجھتا ہے
1
آں یکے مے گفت عالم حادث است
فانی است ایں چرخ حقش وارث است
ترجمہ: ایک (سنی) کہتا تھا کہ جہاں حادث ہے، اور آسمان بھی فانی ہے اور خدا ہی مالک ہے۔
مطلب: اب مولانا تعقل جمادات پر ایک حکایت بیان کرتے ہیں، جس سے آگ حق و باطل کا پہچاننا ظاہر ہوتا ہے۔ جب یہ معلوم ہوچکا تو اب حلِ سند کہ کل ایک شخص کہہ رہا تھا کہ عالم حادث ہے، اور یہ آسمان اور جو کچھ اس کے اندر ہے سب فنا ہونے کے بعد ایک خدا صرف باقی رہ جائے گا، جس طرح وارث اپنے مورث کی موت کے بعد باقی رہتا ہے۔
2
فلسفی گفت چوں دانی حدوث
حادثئ ابر و چوں داند غیوث
ترجمہ: فلسفی بولا تجھے حادث کا کیا علم ہے؟ اگر ابر حادث ہو تو مینہ کو اس کے حدوث کی کیا خبر؟
مطلب: سنی کے قول کو سن کر ایک فلسفی دہریہ نے کہا کہ اس کا حدوث کیونکر معلوم ہوا؟ یہ تو تجھ سے پہلے سے ہے پھر تو کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ حادث ہے، اور کس وقت میں معدوم تھا بعد کو موجود ہوا ہے۔ بھلا کہیں ابر کے حدوث کو بارشیں بھی جان سکتی ہیں، اور تو اپنے تقلبِ احوال کے سبب کہتا ہے پہلے تو معدوم تھا اب موجود ہے پھر معدوم ہو جائے گا۔ حکماء کے نزدیک عالم قدیم زمانی ہے، جس سے پہلے کوئی عدم خارجی نہیں۔ یعنی یہ بات نہیں کہ عالم کسی وقت خارج میں موجود نہ تھا پھر موجود ہو گیا، ہاں پھر اگر عالم کے لیے حدوث ہے تو حدوث ذاتی ہے، جس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ عالم سے پہلے عدمِ مرتبہ ذاتِ عقل میں ہے نہ خارج اور واقع میں ہے، اور عالم کے ذاتِ واجب کی طرف محتاج اور مؤخر ہونا لحاظ عقل میں ہے، جیسے ہاتھ اور قلم کی حرکت کہ قلم اپنے وجود میں حرکتِ ہاتھ کی محتاج ہے، اور لحاظِ عقل میں اس سے متاخر بھی ہے۔ کیونکہ طیب زمان اس سے متعاون ہے۔ متکلمین کا یہ خیال ہے کہ عالم حادث بحدوث زمانی نہیں، یعنی ایک وقت ایسا تھا کہ عالم موجود نہ تھا پھر پیدا ہوا۔ صوفیہ کہتے ہیں کہ عالم حادث ہے، مگر حدوث زمانی ہے جیسے کہ متکلمین کا خیال ہے، اور نہ ہی حدوث ذاتی ہے جیسے حکماء کا خیال ہے، بلکہ ان دونوں کے ماوراء ایک ایسے حدوث کے ساتھ جو واقعی اور نفس الامری ہے یعنی عالم اپنی ذات کے اعتبار سے خارج میں ہے یہ صرف فیضِ حق اور قابلیتِ اعیان کے ساتھ موجود ہے، جیسے اشکال و صورتیں جو اپنی ذات میں تاریک ہیں اور ان کی نمائش نورِ آفتاب کے فیض اور نورِ چشم کے قبول کے ساتھ ہوتی ہے، اگر ان دونوں میں سے ایک نور مفقود ہو تو وہ اشکال و الوان تیرہ و ناپدید ہو جاتے ہیں کیونکہ افاضۂ حق اور قابلیت و عیانی دائمی ہے۔ پس عالم طیب زمان قدیم ہوا لیکن ذاتِ عالم پر نگاہ کریں تو اشیاء کا وجود عدم کے بعد ہوا، بلکہ اشیاء ہر آن میں حادث ہوتی ہیں۔ واضح ہو کہ اگر عالم مانا جائے تو اس کی صورتِ موجودہ اور ہیئتِ حاضرہ دائمی و ابدی بھی ہو جو قیامت اور حشر کے عقیدہ سے معارض ہے، لہٰذا صوفیہ کے مسلک پر یہ شبہ وارد ہوتا ہے کہ وہ کسی حد تک حکما کے مذہب کے مشابہ ہے جو حشر و نشر کے منکر ہیں۔ چنانچہ اوپر کے بیان سے واضح ہو چکا ہے کہ صوفیہ قدم عالم کے قائل ہیں اور ان کے کلام سے کہیں صراحۃً اور کہیں کنایۃً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ موجودہ عالم کے دوام کے معتقد ہیں۔ مگر یہ خیال بظاہر تعلیماتِ شرع کے ساتھ اجنبیت رکھتا ہے، تاہم لازم ہے کہ ہم صوفیہ کے متعلق کسی بدگمانی کو راہ نہ دیں۔ خصوصاً ہم جب یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ لوگ سوادِ اسلام کی ایک برگزیدہ جماعت ہیں وہ عشق و محبت کے حق کے امین ہیں، اور منزلِ سلوک و عرفان کے نجومِ اہتداء ہیں تو یہ ناممکن ہے کہ وہ حکماء مثالیں کے عقیدے کے موافق عالم کی ازلیت و ابدیت کے قائل ہوں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب وہ عقائد دینیہ کے صحیح مسلک پر قائم رہتے ہوئے اپنے ذوقی و وجدانی مسائل کو دائرۂ بیان میں لاتے ہیں تو وہ مسائل دقیق بعید العقل اور محتاجِ تاویل ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے حدوث و قدوم کا مسئلہ اتنا نازک و پر خطر ہے جو ذکر و بیان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ و نعم کما قیل ؎
اسرارِ ازل را نہ تو دانی و نہ من
ایں حرف معمے نہ تو خرانی و نہ من
ہست از پس پردۂ گفتگوئے من و تو
گر پردہ بر افتد نہ تو مانی و نہ من
3
ذرۂ تو نیستی از انقلاب
تو چہ میدانی حدوثِ آفتاب
ترجمہ: فلسفی نے کہا جو انقلاب کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے مجھے حدوثِ آفتاب کی کیا خبر؟
مطلب: فلسفی نے سنی سے طنزاً کہا کہ تو خود ایک ذرہ کی مثل بھی نہیں۔ پس تو اس عالم کے حدوث کو کیا جان سکتا ہے جس سے تجھ کو اس سے بھی کم نسبت ہے جو ذرہ کو آفتاب سے ہے۔
4
کرمکے کاندر حدث باشد دفین
کے بداند آخر و بدوِ زمین
ترجمہ: جو کیڑا پاخانہ میں رہتا ہو وہ زمین کی ابتداء و انتہاء کو کیا جان سکتا ہے؟
مطلب: کہ تیری مثل نجاست کے کیڑے جیسی ہے جیسے وہ زمین کی پیدائش اور انجام کو نہیں سمجھ سکتا۔ اسی طرح تو بھی اے سنی! تغیر و تبدل اور تحولِ حالاتِ کائنات کو نہیں سمجھ سکتا۔
5
چیست برہان بر حدوثِ ایں بگو
ورنہ خامش کن فزوں گوئی مجو
ترجمہ: حادث ہونے کی تیرے پاس کیا دلیل ہے؟ ورنہ خاموش رہ زیادہ بات مت کر۔
6
ایں بتقلید از پدر بشنیدۂ
از حماقت اندر آں پیچیدۂ
ترجمہ: اے سنی! تو نے تقلیداً باپ سے جو کچھ سنا اپنی بے وقوفی سے اس میں پھنسا رہا ہے۔
مطلب: فلسفی نے کہا ہے کہ اے نادان! تو اندھا مقلد ہے، میں سمجھ گیا کہ تو نے جو کچھ سنا اپنی نادانی اور قلّتِ فہم سے اس کا قائل ہو گیا، اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس عالم کے حدوث کی دلیل قائم کر اگر دلیل قائم نہیں کر سکتا تو چپ رہ اور فضول باتیں نہ کر۔
7
گفت دیدم اندریں بحرِ عمیق
بحث مے کردند از وے دو رفیق
ترجمہ: سنی نے جواب دیا کہ میں نے دو دوستوں کو اس گہرے مسئلہ پر گفتگو کرتے دیکھا۔
مطلب: فلسفی نے سنی سے کہا میں اتنا جانتا ہوں کہ اس گہرے سمندر یعنی مسئلہ حدوث و قدم کے بارے میں دو شخصوں میں بحث ہو رہی تھی جو کہ دونوں اپنے اپنے دلائل کا طومار باندھ رہے تھے، یہاں تک کہ:
8
در جدال و در شکال و در شکوہ
گشتہ ہنگامہ براں در کس گروہ
ترجمہ: اس جھگڑا کا سب سے مشکل پہلو فیصلہ تھا (وہاں) ایک لوگوں کا اکٹھ ہو گیا تھا۔
مطلب: لوگوں کا ایک جمگھٹ تھا کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ ہر دونوں کا فیصلہ ہونا مشکل تھا کہ کس کے دلائل و برہان درست ہیں اور کس کے نا درست اور کون حق پر ہے اور کون باطل پر ہے۔
9
سوئے آں ہنگامہ گشتم من رواں
تا بیابم اطلاع از حالِ شاں
ترجمہ: میں (سنی) بھی اس ہنگامہ کی طرف گیا تاکہ صورتِ حال سے واقف ہوں۔
10
من یکے از جمع ہنگامہ شدم
اطلاعِ از حال ایشاں بستدم
ترجمہ: میں بھی ہنگامہ کا ایک فرد بنا، اور ان کی صورت حال سے آگاہ ہوا۔
11
آں یکے مے گفت گردوں فانی ست
بے گمانے ایں بنا را بانی ست
ترجمہ: ایک نے کہا کہ آسمان فنا ہونے والا ہے، بلاشبہ اس کا کوئی بانی بھی ہے۔
مطلب: جو شخص اس کائنات کے فنا کا قائل تھا وہ کہہ رہا تھا کہ یہ جہاں اور جو کچھ بھی اس میں ہے فنا ہونے والا ہے، اور یہ بنفسہٖ موجود نہیں ہے، بلکہ اس عمارت کا کوئی بنانے والا ہے جس نے اسے بنایا ہے۔
12
واں در گفت او قدیم و بے کیست
نیستش بانی و یابانی ویست
ترجمہ: دوسرے نے (جو فنا کا قائل نہیں تھا) کہا کہ یہ جہاں قدیم ہے، اس کا کوئی بانی نہیں بلکہ یہ خود ہی مقیم ہے۔
مطلب: دہری نے جواب دیا کہ تو غلط کہتا ہے یہ جہاں قدیم ہے۔ اس کی کوئی ابتدا نہیں یا انتہاء نہیں ہے، اور نہ ہی اس کا کوئی بنانے والا ہے، اگر کوئی بانی ہے تو خود ہی ہے۔ حاصل یہ کہ جہاں بنفسہٖ موجود ہے، دوسرے کے سہارے سے موجود نہیں۔
13
گفت منکر گشتۂ خلّاق را
روز و شب آرندہ و رزّاق را
ترجمہ: سنی نے کہا کیونکر تو منکر ہوا اپنے اور روز و شب کے خالق کا اور رازق کا؟
14
گفت بے برہاں نخواہم من شنید
آنچہ گوئی آں بتقلیدے گزید
ترجمہ: فلسفی نے کہا میں بغیر دلیل کے کوئی بات نہیں سننا چاہتا جو کچھ تو نے کہا یہ محض تقلید ہے۔
مطلب: سنی نے کہا کہ یہ کیا غضب کرتا ہے کہ خالقِ عالم اور مصرفِ زماں اور رزاق کے وجود کا دعویٰ رکھتے ہو تو اس کی دلیل بیان کرو۔ کیونکہ میں بدون دلیل کے تمہارا بیان نہ سن سکتا ہوں اور نہ ہی اس کی تصدیق کرسکتا ہوں، اور نہ ہی اس کو تمہاری طرح تقلیداً قبول کر سکتا ہوں۔
15
ہِیں بیا در حجت و برہان کہ من
نشنوم بے حجت ایں را در زمن
ترجمہ: اگر اس کی (وجودِ خالق) کوئی دلیل ہے تو بیان کر، ورنہ بغیر دلیل کے کوئی بات زمانہ میں قابلِ قبول نہیں۔
مطلب: اگر تم کو مجھے اپنا ہم خیال بنانا ہے تو وجودِ باری پر کوئی دلیل پیش کرو، کیونکہ میں تجھے کہہ چکا ہوں کہ بغیر دلیل و برہان کے کسی بات کو میں قبول نہیں کروں گا، اور نہ ہی آپ مجھے قائل کر سکتے ہیں۔
16
گفت حجت در درونِ جانم ست
در درونِ جان نہاں بُرہانم ست
ترجمہ: سنی نے کہا اس کی دلیل میرے دل میں ہے اس جان کے اندر وہ برہان پوشیدہ ہے۔
مطلب: میرے دعویٰ کی دلیل خود میری جان میں ہے، اور اس جان کے اندر وہ برہان مخفی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ میں عالم کے حدوث کو وجدانی اور ذاتی طور پر جانتا ہوں۔
17
تو نمی بینی ہلال از ضعفِ چشم
من ہمی بینم مکن بر من تو خشم
ترجمہ: کہ بھائی! اگر تو آنکھ کی کمزوری سے چاند کو نہ دیکھ سکے تو مجھ پر کیوں خفا ہوتا ہے۔
مطلب: تو نہیں جان سکتا کیونکہ وہ دلیل اتنی لطیف و نازک ہے جیسے پہلی شب کا چاند، اگر تیرے جیسی کمزور آنکھیں اس کو نہ دیکھ سکیں تو نہ ہی چاند کا قصور ہے اور نہ ہی میرا جرم ہے کیونکہ تیری ہی چشمِ باطن کمزور ہے اس لیے تو کائنات حدوث کو نہیں دیکھ سکتا مگر میں دیکھتا ہوں۔
دہری اور فلاسفہ کا فرق: دہریہ مطلقاً صانعِ عالم کے منکر ہیں، اور فلاسفہ صانع مختار کے منکر ہیں۔ چونکہ سنی نے حدوثِ عالم پر اپنی وجدانی دلیل پیش کی تھی اور وہی دلیل صانع کے لیے بھی تھی کہ ”مَنْ عَرَفَ نَفْسَہ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ“ (لم اجد) یعنی ”جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔“ منکرین کا خیال ہے کہ ان تغیرات سے دنیا کا حدوث ثابت نہیں ہوتا، بلکہ یہ جہان ہمیشہ سے ہے یہ جملہ حوادثات خواہی نخواہی پروردگار کی طرف منسوب کرنا حماقت اور کورانہ تقلید ہے، جو بعض لوگوں کو آبائی ورثہ میں ملی ہے۔ تمہارا یہ کہنا، لیل و نہار کا تغیر و تبدل، موسموں کے تغیر سے نباتات پر خزاں و بہار کا آنا، اور نفسِ انسان پر ہر لمحہ و لحظہ تغیرات کا ہونا باری تعالٰی کے وجود اور صنائع پر دلالت نہیں کرتا، بلکہ یہ تو مادہ کی ذاتی خواص میں سے ہے خود مادہ ہی علتِ اولٰی ہے کسی خارجی و موہومی وجود کا ان تغیرات میں کوئی دخل نہیں ہے بلکہ یہ عالم خود بخود اسی طرح چلا آیا ہے اور اسی طرح چلا جائے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ فطرتِ انسانی سے بعید اور سب سے زیادہ شقی اگر ہے تو یہ دہریہ فرقہ ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قُدِّسَ سِرُّہٗ (حجۃ البالغہ صفحہ 54) میں فرماتے ہیں۔ ”اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ فِیْ فِطْرَتِہٖ مَیْلاً اِلٰی بَارِئِہٖ جَلَّ مَجْدُہٗ وَ ذَالِکَ الْمَیْلُ اَمَرٌ دَقِیْقٌ لَایَنْشَجُّ اِلَّا بِخَلِیْقِہٖ وَ مَظَنِّہٖ وَ خَلِیْقَتُہٗ وَ مَظَنَّتُہٗ عَلٰی مَا اَثْبَتَہُ اَلْوِجْدَانُ الصَّحِیْحُ اَلْاِیْمَانُ بِاَنَّ الْعِبَادَۃَ حَقُّ اللہِ تَعَالٰی عَلٰی عِبَادِہٖ لِاَنَّہٗ مُنْعِمٌ لَھُمْ وَ مُجَازِھِمْ عَلٰی اَعْمَالِھِمْ فَمَنْ اَنْکَرَ الْاِرَادَۃَ اَوَ ثُبُوْۃَ حَقِّہٖ عَلَی الْعِبَادِ اَوْ اَنْکَرَ الْمُجَازَاۃَ فَھُوَ الدَّھْرِیُّ اَلْفَاقِدُ سَلَامَۃَ فِطْرَتِہٖ لِاَنَّہٗ اَفْسَدَ عَلٰی نَفْسِہٖ مَظَنَّۃَ الْمَیْلِ الْفَطْرِیِ الْمُوْدَعِ فِیْ جِبِلَّتِہٖ وَ نَائِبِہٖ وَ خَلِیْفَتِہٖ۔“ یعنی ”انسان کی فطرت میں یہ بات پیدا کی گئی ہے کہ وہ اپنے باری تعالٰی کی طرف مائل ہو، اور یہ میلان امرِ دقیق ہے۔ جس کا تصور و تمثل اس کی خلقت اور مظنت ہی میں ہوتا ہے، اس کی خلقت اور مظنت جیسا کہ وجدانِ صحیح سے ثابت ہوئی ہے، یہ ہے کہ اسے یقین کامل ہو جائے کہ عبادت اللہ تعالٰی کا حق ہے، جو اس کے بندوں کے ذمہ ہے کیونکہ وہ ان کے انعام بخشنے والا اور ان کے اعمال کا بدلہ دینے والا ہے، پس جو شخص ارادہ کا منکر ہو یا بندوں کے ذمے اس کا حق ہونے کا انکار کرے یا جزائے اعمال کو تسلیم نہ کرے وہ دہری ہے، جس نے اپنی سلامتیِ فطرت کو کھو دیا، کیونکہ اس نے اپنے نفس کے مظنِ میلِ فطری کو خراب کر لیا، جو اس کی جبلت میں ودیعت کیا گیا تھا اور اس کا نائب و خلیفہ تھا۔“ شاہ صاحب دوسرے مقام پر مزید وضاحت فرماتے ہیں۔ ”فَاَشَدُّ شَقَاوَۃِ ِالْاِنْسَانِ اَن یَّکُوْنَ دَھْرِیًّا وَ حَقِیْقَۃُ الدَّھْرِیِّ اَن یَّکُوْنَ مُنَاقِضاً لِلْعُلُوْمِ الْفِطْرِيَّةِ الْمَخْلُوْقَةِ فِيْهِ، وَ قَدْ بَیَّنَا اَنَّ لَہٗ مَیْلًا فِیْ اَصْلِ فِطْرَتِہٖ اَلٰی بَارِئِہٖ جَلَّ مَجْدُہٗ وَ مَیْلًا اِلٰی تَعْظِیْمِهٖ اَشَدُّ مَا یَجِدُ مِنَ التَّعْظِیْمِ، وَ اِلَیْہِ الْاِشَارَۃُ فِیْ قَوْلِہٖ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ: وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ۔۔۔َاْلآیَۃْ وَ قَوْلِہٖ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی اْلفِطْرَۃِ۔ “ یعنی ”سب سے بڑی بدبختی انسان کے لیے یہ ہے کہ وہ دہریہ ہو، اور دہریہ کی حقیقت یہ ہے کہ وہ ان علومِ فطریہ کے برخلاف چلے چو قدرت نے اس میں ودیعت کر رکھے ہیں، اور ہم بیان کرچکے ہیں کہ اس کے اندر اپنے باری تعالٰی کی طرف ایک قدرتی میلان ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں اور اسی طرف اشارہ ہے کہ آیۃ مثیاق میں ﴿وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ۔۔ الخ﴾ (الاعراف: 172) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ ”ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔“
نظامی رحمۃ اللہ علیہ؎
اے فاطر نقش آفرینش
بردار خلل ز راہ بینش
در راہ تو ہر کرا وجودست
مشغولِ پرستش و سجودست
صائب ؎
بے وجود ز حق ز خود آثارِ ہستی یافتن
ذرۂ ناچیز بے خورشید پیدا کردن است
18
گفتگو بسیار گشت و خلق گیج
در سر و پایانِ ایں چرخِ نسیج
ترجمہ: بات اس قدر (سنی و دہری) کی بڑھ گئی کہ لوگ آسمان کی ابتداء اور انتہا میں حیران تھے۔
مطلب: سنی و دہری کا مکالمہ اتنا طویل ہوا کہ مخلوق آسمان کی ابتداء اور انتہا کے بارے میں کوئی فیصلہ تسلی بخش نہ سن سکی، اور حیران تھی کہ کس کے دلائل کو ترجیح دی جائے۔
19
گفت یارا در درونم حجت ست
بر حدوثِ آسمانم آیت ست
ترجمہ: سنی نے کہا کہ جو دلیل میرے دل میں پوشیدہ ہے، آسمان کے حدوث پر کھلی نشانی ہے۔
20
من یقیں دانم نشانش آں بود
مر یقیں داں را کہ در آتش رود
ترجمہ: میرے اس قول کے صادق ہونے کی یہ نشانی ہے کہ جس کو اپنی بات پر کامل یقین ہو وہ آگ میں گھسے۔
مطلب: سنی نے اپنی بات پر اصرار کرتے ہوئے پھر کہا اگر تو نہیں مانتا تو نہ مان، مگر سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں اس کی دلیل موجود ہے، جو مجھ پر حدوثِ آسمان کو واضح کرتی ہے اور مجھے اس کے حدوث کا پورا پورا یقین ہے اور جو اس کو یقینی طور پر جانتا ہو اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ آگ میں چلا جائے، اگر سچا ہے تو آگ نہ جلائے گی اور جھوٹا ہے تو جل جائے گا۔ مثل مشہور ہے کہ سانچ کو آنچ نہیں۔ سعدی ؎
نورِ گیتی فروز چشمۂ ہور
زشت باشد بچشم موشک کور
21
در زباں مے ناید آں حجت بداں
ہمچوں حال و سرِّ عشقِ عاشقاں
ترجمہ: میں اس کی دلیل کو (زبانی) بیان نہیں کر سکتا، یہ مثل عشق کے عاشقوں میں مخفی ہے۔
مطلب: کائنات کے فنا کی دلیل زبانی نہیں بلکہ ذوقی و وجدانی چیز ہے۔ یہ تو مثل عشق کے ہے اگر تم کسی عاشق سے یہ سوال کرو کہ عشق کو دلائل و برہان سے ثابت کر کے دکھاؤ تو وہ منفی میں جواب دے گا، البتہ اپنے عشق کے ثبوت میں خارجی علامتیں اور نشانی کی طرف اشارہ کرے گا۔
22
نیست پیدا سِرِّ گفتگوئے من
جز کہ زردی و نزاری روئے من
ترجمہ: میری گفتگو کا راز سوئے میرے چہرے کی زردی اور نقاہت کے کچھ نہیں۔
مطلب: عاشق اپنے حسین ترین محبوب کا ثبوت اپنے چہرے کی زردی اور جسم کی کمزوری میں دے گا کہ اس کا زرد پڑنا اور جسم کا کمزور ہونا میرے عشق اور محبوب کا بین ثبوت ہے۔
23
اشکِ خون بر رخ روانہ مے رود
حجتِ حسن و جمالش مے رود
ترجمہ: میرے رخسار پر خونی آنسو کا جاری ہونا میرے محبوب (حق) کے حسن و خوبصورتی کی بین دلیل ہے۔
مطلب: میرے چہرے پر خون کے آنسو جاری ہونا میرے عشق کی دلیل ہے۔ لفظی دلیل میرے پاس نہیں ہے کیونکہ یہ امر دلیلِ لفظ کے احاطہ سے خارج ہے، ہر ایک چیز کو لفظاً و خارجاً نہیں پرکھا جاتا اور نہ ہی ایک چیز کا وجود خارجی ہوتا ہے۔
24
گفت من اینہا ندانم حجتے
کہ بود در پیش عامہ آیتے
ترجمہ: فلسفی نے کہا کہ میں اس دلیل کو تسلیم کروں گا جسے عامی بھی مان لے۔
مطلب: تم نے جو وجدانی اور ذوقی دلیل پیش کی ہے اسے میں قبول نہیں کرسکتا، تم کوئی ایسی دلیل پیش کرو جس کو عام آدمی بھی قبول کرے، اور اس کے ذہن میں آ سکے۔
25
گر بیاری من کنم آں را قبول
ورنہ کوتہ کن سخن با عرض و طول
ترجمہ: اگر تو ایسی حجت لائے تو میں قبول کر سکتا ہوں، ورنہ قصہ کو ختم کر دیجئے۔
مطلب: اس نے کہا جناب میں ایسی باتوں کو نہیں جانتا۔ اگر ایسی کوئی دلیل پیش کرو جس کو سب لوگ مان لیں تب میں تمہارا دعویٰ مان لوں گا، ورنہ ان لمبی و چوڑی باتوں کو ختم کرو ان سے تمہارا دعویٰ ثابت نہیں ہوسکتا۔
26
گفت چوں قُلبے و نقدے دم زنند
کہ تو قلبی من نکویم و ارجمند
ترجمہ: اس نے کہا جب کھرا (سونا) اور کھوٹا آپس میں ٹکرائیں، تو لازماً ایک دوسرے کو کھرا اور کھوٹا کہیں گے۔
مطلب: اس نے کہا سنو! جب کھرا اور کھوٹا سونا آپس میں مباحثہ کریں اور ہر ایک دوسرے سے کہے کہ میں کھرا ہوں اور تو کھوٹا ہے۔
27
ہست آتش امتحانِ آخریں
کاندر آتش درفتند آں دو قریں
ترجمہ: ان دونوں کا آخریں امتحان آگ ہے، اور چاہیے ان دونوں کو آگ میں ڈالا جائے۔
28
عام و خاص از حالِ ایشاں عالم شوند
از گمان و شک سوئے ایقاں روند
ترجمہ: تاکہ ہر کس و نا کس ان کے حال سے آگاہ ہوں۔ شک و گمان چھوڑ کر یقین پیدا کریں۔
مطلب: سنی نے کہا کہ میرے نزدیک ان کا آخری امتحان یہ ہے دونوں کو آگ میں داخل کیا جائے۔ ان سے ان کا کھوٹا اور کھرا ہونا کھل جائے اور عوام و خواص سب ان کی حالت سے واقف ہو جائیں گے اور گمان و شک سے نکل کر یقین تک پہنچ جاویں گے۔ آخر الامر دونوں نے اس پر اتفاق کیا کہ دونوں آگ میں گھس جائیں، دونوں کی قلعی کھل جائے گی۔