حصہ دوم
دفتر چہارم: حکایت: 124
در بیان آنکہ شناسائے قدرت حق تعالٰی نپرسد کہ بہشت کجاست و دوزخ چہ جاست
عارفِ حق بہشت و دوزخ کو نہیں پوچھتا کہ کہاں ہے؟
1
ظاہرست ایں دوزخ اما بر دلت
ہست پوشیدہ یقیں ز آب و گل ست
ترجمہ: اے لوگو! دوزخ تو ظاہر ہے (مگر کیا کریں) کہ تمہارے دلوں پر آب و گل کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔
مطلب: یہاں سے مولانا مضمون ارشادی بیان کرنا چاہتے ہیں کہ دوستو! دوزخ کا وجود تو بالکل ظاہر ہے، مگر تم پر جسمانیت کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ یعنی خواہشاتِ نفس غالب ہے، اور تم منہمک فی الناسوت ہو اور عالمِ غیب سے تمہیں کچھ بھی واسطہ نہیں۔ اس لیے تمہیں محسوس نہیں ہوتی یہ دوزخ کا اختفا نہیں ہے، بلکہ تمہارا خود اندھا پن ہے کہ لذّتِ نفسانی میں پھنس کر حقیقی لذت اور ابدی حیات کو جھٹلانے لگے ہو، یہ تمہاری خود فریبی اور گمراہی کی دلیل ہے کہ مغیبات کو حیات کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہو، اگر ذرا عقل کے ناخن اتار لو تب دیکھو۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ؎
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ
2
ہر کجا خواہد خدا دوزخ کند
اوج را بر مرغ دام و فخ کند
ترجمہ: اے منکرو! جس جگہ چاہے خدا دوزخ بنا دے، اور چڑیوں کے لیے بلندی کو جال بنا دے۔
مطلب: حق سبحانہٗ جس جگہ چاہیں دوزخ بنا دیں۔ مطلب یہ ہے کہ دوزخ ایک آلۂ تعذیب ہے اور اللہ تعالٰی جہاں چاہیں آلۂ تعذیب پیدا کر سکتے ہیں، اور بلندی کو جو پرندوں کے لیے مقامِ راحت و سرور ہے، اور بہائم کے لیے باغ و راغ جو باغِ مسرت ہے، موجبِ تکلیف بنا سکتے ہیں۔ کیونکہ: ﴿اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر﴾ (البقرۃ: 20) حقیقتِ دوزخ کو سمجھنا چاہیے۔ وہ نفس و روح کی اذیت و تکلیف ہوتی ہے، البتہ روحانی تکلیف سے جسمانی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ؎
دیدۂ روشن گہراں ہر ورقِ گل
از نورِ تجلی یدِ بیضائے کلیم است
3
ہم ز دندانت بر آرد دردہا میں
تا بگوئی دوزخ است و اژدہا
ترجمہ: اگر وہ چاہے تو تیرے دانتوں میں ایسا درد پیدا کرے کہ تو کہے یہ دوزخ و اژدہا ہے۔
مطلب: کہ تجھے ایسی تکلیف میں مبتلا کر دے کہ تو صرف دانتوں کے درد میں بے ساختہ پکار اٹھے کہ یہ دوزخ اور اژدہا ہے: ﴿يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا وَّ يَهْدِيْ بِهٖ كَثِيْرًا﴾ (البقرۃ: 26) اگر انہیں نورِ بصیرت حاصل ہوتا تو سب عقدے حل ہو جاتے۔
کما قیل؎
سیہ بختانِ قسمت را چہ سود از رہبر کامل
کہ خضر از آبِ حیواں تشنہ مے آرد سکندر
4
یا کند آب دہانت عسل
تا بگوئی کہ بہشت است و حُلل
ترجمہ: یا تیرے لعاب دہن کو مثل شہد کے شیریں کر دے، اور تو کہے کہ یہ تو خلد کا حلہ ہے۔
مطلب: مولانا نے دوسری مثال اثباتِ دوزخ و جنت کے لیے دی ہے کہ خداوند قدّوس اتنی قدرت رکھتا ہے کہ جیسے دانتوں کے درد کو دوزخ کا نمونہ بنا دیا، اسی طرح آپ کے دہن کو بھی شہد کی طرح شیریں کر سکتا ہے، تاکہ تم کو حکمِ الٰہی کی قوّت معلوم ہو، اور تم جان لو وہ جو کچھ کہتا ہے کر سکتا ہے، پس تم کو دوزخ کے بارہ میں شبہ نہ ہونا چاہیے۔ اوّل تو صورتِ دوزخ بھی موجود ہے، اگرچہ تم موافعات کی وجہ سے نہ دیکھ سکتے ہو، تمہارا عدمِ ادراک اس کے عدمِ وجود پر دلیل نہیں ہو سکتا۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ؎
نور گیتی فروز چشمہ ہور
زشت باشد بچشم موشک کور
5
از بنِ دنداں برو ناید شکر
تا بدانی قوّتِ حکم و قدر
ترجمہ: اگر وہ دانتوں کی جڑ سے شکر پیدا کرے تب تو سمجھے گا اس کی قوّتِ حکم اور تقدیر کو۔
6
پس بدنداں بے گناہاں را مگز
فکر کن از ضربتِ نا محترز
ترجمہ: اے ظالم! بے گناہوں پر دانت تیز نہ کر، کیونکہ نہ ٹلنے والی چوٹ کا تو بھی فکر کر۔
مطلب: مولانا رحمۃ اللہ علیہ چیرہ دست لوگوں کو متنبہ کر رہے کہ تم کو چاہیے کہ بےگناہوں کو ایذاء نہ پہنچاؤ، اور اس سزا کا خیال رکھو جس سے بچنا ناممکن ہے، اور تم یہ نہ سمجھنا کہ ہمارے مظالم کی حق سبحانہٗ کو خبر نہ ہوگی، کیونکہ اس کی شان یہ ہے کہ: ﴿عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴾ (التغابن: 4)
7
نیل را بر قبطیاں حق خوں کند
سبطیاں را از بلا محصول کند
ترجمہ: خدا نے (دریائے) نیل کو قبطیوں کے لیے خون کیا، اور سبطیوں کو مصائب سے نجات دلادی۔
8
آب بر فرعون در دم خوں شود
بر کلیمےؑ قند نا ممنوں شود
ترجمہ: اگر فرعون (دریائے نیل) کا پانی لے تو خون بن جائے، اور اگر موسیٰ علیہ السّلام لے تو بے منت شَکر ہو۔
مطلب: مولانا رحمۃ اللہ علیہ حق سبحانہٗ کی قدرت و سطوت کا ذکر فرما رہے ہیں، پہلے دو مثالیں امکانی دی تھیں۔ اب ان دونوں شعروں میں واقعہ کا ذکر فرما رہے ہیں کہ اس کی شان یہ ہے کہ نیل کو قبطیوں کے لیے خون کر دیا، اور سبطیوں کو اس بلا اور دیگر بلاؤں سے محفوظ رکھا۔ قبطیوں کو اپنی بدعملی کی سزا ملی، اور سبطیوں کو نیک کرداری کی جزا تھی۔ اسی طرح مکافاتِ عمل کا قانون فرعون اور موسیٰ علیہ السّلام پر جاری ہوا ایک آن میں دریائے نیل کا پانی فرعون کے لیے خون بن گیا، اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور ان کے پیروکاروں کے لیے وہی پانی قند کا شربت ثابت ہوا۔
کما قیل شیخ عطار رحمۃ اللہ علیہ؎
چوں عنایت قادرِ قیوم کرد
در کفِ داؤدؑ آہن موم کرد
نوٹ: مفصّل قصہ موسیٰ علیہ السّلام و فرعون کا دفتر دوم میں ملاحظہ فرمائیں۔ ”خون“ کنایہ ہے موت کا، اور ”قند“ حیات کا۔
9
نیل تمییز از خدا آموختہ است
کہ کشاد آں را و ایں را سخت بست
ترجمہ: دریائے نیل نے یہ امتیاز خدا سے سیکھا کہ سبطیوں کو راستہ دیا، اور قبطیوں کو سخت باندھا۔
مطلب: کہ خدا نیک و بد کی پوری تمیز رکھتا ہے، وہ اتنے پرکھنے والے ہیں کہ نہ پرکھنے والوں کو بھی پرکھنے والا بنا سکتے ہیں۔ ایک جمادات کو اتنی تمیز دی کہ سبطیوں کو امان کے ساتھ راستہ دے دیا اور قبطیوں کہ غرقِ دریا کیا۔ وہ جو جمادات سے اتنا بڑا حیرت انگیز کام لے سکتا ہے وہ خود کیسا علم و خبیر ہوگا؟ خدا کی کرشمہ سازیاں ہیں اگر وہ چاہتا تو ان کے غرق ہونے کے لیے فرشتوں سے یا آدمیوں سے اور جنوں سے بھی کام لے سکتا تھا، مگر خدا نے اپنی قوت کے مظاہرے کے لیے محیّر العقول طریقہ اختیار کیا، تاکہ منکروں پر پوری طرح روشن ہوجائے اور کسی قسم کا حیلہ و بہانہ کا موقع ہی نہ ملے۔
کماقیل ؎
یہ سیہ بختی کی ہے روشن دلیل
آدمی ہو جائے پتھر سے ذلیل
سعدی رحمۃ اللہ علیہ؎
چناں آدمی مرد بہ ننگ را
کہ بر وے فضیلت بود سنگ را
10
لطفِ او عاقل کند مر نیل را
قہرِ او ابلہ کند قابیل را
ترجمہ: اس کی مہربانی سے نیل عقل مند ہوا، اور اس کے غضب سے قابیل احمق بنا۔
مطلب: اب مولانا لطف و قہر کا بیان فرماتے ہیں کہ ذاتِ احد کی یہ شان ہے کہ جب وہ مہربانی کرتا ہے تو اپنی مہربانی سے دریائے نیل کو عقل مند بنا دیتا ہے، اور جب وہ قہر کرتا ہے تو اپنے قہر و غضب سے قابیل کو بے وقوف بنا دیتا ہے۔ دریائے نیل کا قصہ اوپر گزر چکا ہے جس نے ذی شعور مخلوق جیسا فعل کیا، اور قابیل حضرت آدم علیہ السّلام کا بیٹا جس نے اپنے حقیقی بھائی ہابیل کی دنیاوی لالچ اور حسد کی بناء پر ناحق اوّلیں خونریزی کی۔
شیخ عطار رحمۃ اللہ علیہ ؎
اوست سلطاں ہر چہ خواہد آں کند
عالم را در دم ویراں کند
طرفۃ العینے جہاں بر ہم زند
کس نمے آرد کہ آنجا دم زند
11
در جمادات از کرم عقل آفرید
عقل از عاقل بقہرِ خود برید
ترجمہ: اپنے کرم سے پتھروں میں عقل پیدا کی، اور اپنے غضب سے عاقل کی عقل چھین لی۔
مطلب: حق سبحانہٗ کی قدرت کاملہ ہے کہ چاہے تو رائی کو پربت بنا دے، اور پربت کو رائی۔ جاندار کو بے جان، اور بے جان کو جاندار۔ کائنات کا ہر ذرہ مطیع و منقاد ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جمادات میں بھی عقلِ حیات کا مادہ پایا جاتا ہے۔ دریائے نیل کی گرفت، عصائے موسیٰ، قدوم اشجار، حرکتِ سنگ وغیرہ کے معجزات اس امر پر دال ہیں کہ کائنات کا ہر ذرہ جسے ہم بے جان سمجھتے ہیں اللہ تعالٰی کے آگے زندہ ہیں۔ ان میں بھی ادراک اور حسّ ہے اگرچہ ہم کو ان کا مدرک ہونا معلوم نہیں ہوتا، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے محدود اور ناقص علم کی بناء پر چند خاص اوصاف کو آثارِ حیات سمجھ رکھا ہے۔ جن اشیاء میں وہ آثار نظر آتے ہیں ان کو زندہ سمجھتے ہیں اور جن میں نہیں ان کو مردہ تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالٰی کا علمِ قدرت ہماری معلومات سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ بات بعید نہیں کہ جن چیزوں کو ہم بے جان سمجھتے ہیں مثلاً مٹی، لوہا، درخت وغیرہ وہ ایسی زندگی کے ساتھ زندہ ہوں جن کے آثار ہمارے علم و تجربہ سے بالاتر ہوں۔ مگر اللہ تعالٰی کے نزدیک زندہ ہوں اور ان کے لیے خاص آثارِ حیات محقق و ثابت ہوں۔ قرآن و حدیث میں اکثر جمادات کے صفات کی زندگی کا اثبات موجود ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿إِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ﴾ (البقرۃ: 74) ”بے شک پتھروں میں سے ایسے بھی ہے جو خوفِ خدا سے گر پڑتے ہیں۔“ سورہ حشر میں وارد ہے: ﴿لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ﴾ (الحشر:21) ”اگر ہم قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو تم اس کو اللہ تعالٰی کے خوف سے ڈرتا اور پاش پاش ہوتا دیکھتے۔“ اور حدیث میں فرمایا: ”عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَلَعَ لَهُ أُحُدٌ فَقَالَ هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ“ (رواہ البخاری:3367) ”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوہِ احد نمودار ہوا اور فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔“ قرآن و حدیث کے علاوہ اہلِ کشف کے نزدیک بھی جمادات کا زندہ ہونا مسلمہ ہے۔ صرف فلاسفر ہی اس کے منکر ہیں جن کا مدار دلائلِ وہمیہ پر ہے۔ لہٰذا اس کا کیا اعتبار۔
کما قیل اکبر مرحوم رحمۃ اللہ علیہ؎
دلیلیں فلسفہ کو نورِ باطن کر نہیں سکتیں
کواکب کی شعاعیں رات کو دن نہیں کرسکتیں
حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ؎
در کارخانۂ کہ رہِ علم و عقل نیست
وہمِ ضعیف رائے فضولی چرا کند
12
عقل چوں باراں بامر آنجا بریخت
عقل ایں سُو خشمِ حق دید و گریخت
ترجمہ: جس جگہ خدا چاہے عقل بادل کی طرح برستی ہے، اور جہاں اس کا غصہ پاتی ہے بھاگ جاتی ہے۔
مطلب: کہ عقل خدا کے حکم کے تابع ہے جب اس کو حکم ہوتا ہے کہ کسی کو اپنے فیض سے مالا مال کرے تو اس پر مینہ کی طرح برس پڑتی ہے، اور جب کسی پر حق جل مجدہٗ کا قہر دیکھتی تو ڈر کر بھاگ جاتی ہے۔
13
ابر و خورشید مہ و انجم بلند
جملہ بر ترتیب آیند و روند
ترجمہ: چاند سورج تارے اور بادل سب کی آمد و رفت ایک قاعدہ و ترتیب پر ہے۔
14
ہر یکے ناید مگر درجائے خویش
کہ نہ پس ماند بہنگام و نہ پیش
ترجمہ: ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر لوٹ آتے ہیں۔ اپنے مقام سے کوئی پس و پیش نہیں رہتا۔
مطلب: مولانا فرماتے ہیں کہ اب ہم تم کو عقلِ جمادات کی دوسری مثالیں دیتے ہیں، دیکھو ابر خورشید اور ستارے سب کی آمد و رفت ایک خاص قاعدہ اور ترتیب کے اندر ہے۔ ہر ایک اپنے ٹھیک وقت پر آتا ہے، نہ اپنے وقتِ مقررہ سے پیچھے رہتا ہے اور نہ آگے آتا ہے۔ یہ کھلی دلیل ہے۔ ان کے عقل کی ہے۔ صائب ؎
دیدہ ہر کہ نشد باز دریں عبرت گاہ
روزگارش ہمہ در خوابِ پریشاں گذرد
15
چوں نکردی فہم ایں رازِ انبیاء
دانش آوردند در سنگ و عصا
ترجمہ: جب تو انبیاء علیہم السلام کے راز کو نہیں سمجھا۔ تو (خدا نے) پتھر اور لاٹھی میں فہم پیدا کر دیا۔
16
تا جماداتِ دگر را بے لباس
چوں عصا و سنگ داری از قیاس
ترجمہ: تاکہ دوسرے بے لباس پتھروں کو (اس) عصا اور سنگ پر قیاس کرے۔
مطلب: مولانا فرماتے ہیں کہ اے منکر! جب تو تعقلِ جمادات کو انبیاء علیہم السّلام کہ کہنے پر نہ سمجھا تو تیرے سمجھانے کے لیے دوسری تدبیر کی گئی، کہ ممکن ہے تیری عقل میں بیٹھ جائے کہ پتھر اور لاٹھی میں عقل پیدا کی گئی، چنانچہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کنکریوں نے توحید اور نبوت کی شہادت دی، اور داؤد علیہ السّلام کے ساتھ پہاڑ ہمکلام ہوا، اور موسیٰ علیہ السّلام کی لاٹھی اژدہا بنی۔ مقصد یہ تھا کہ ان پر تم باقی جمادات کو قیاس کر لو اور ان کی عقل اور ادراک کا اعتراف کرو۔
17
طاعتِ سنگ و عصا ظاہر شود
وز جماداتِ دگر مخبر شود
ترجمہ: جب پتھر اور لاٹھی سے بندگی عیاں ہو، تو ان کی اطاعت دوسرے جمادات کی مخبر ہو۔
18
کہ ز یزداں آگہیم و طائعیم
ما ہمہ بے اتفاقے ضائعیم
ترجمہ: (وہ سنگ و عصا کہتے ہیں) کہ ہم خدا کے مطیع و فرمانبردار ہیں، اگر اس سے اتفاق نہ رکھیں تو ضائع و بیکار ہو جائیں۔
مطلب: پتھر اور عصا کی اطاعت دوسرے جمادات کی نیاز مندی پر دلالت کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم حق سبحانہٗ سے واقف ہیں اور اس کے مطیع و منقاد ہیں، اور بدوں اس کی موافقت کے ہم محض نا کارہ اور بے پناہ ہیں۔ جمادات کی عقلِ خرد اور اطاعت کے متعلق اس سے قبل سیر حاصل بحث گزر چکی ہے۔
19
ہمچو آبِ نیل واں در وقتِ غرق
کومیانِ ہر دو امت کرد فرق
ترجمہ: آبِ نیل کی طرح جس نے غرق کے وقت دونوں گروہوں میں امتیاز رکھا۔
مطلب: اور تم دیگر جمادات کو بھی آبِ نیل کی طرح سمجھو۔ جس نے غرق کے وقت حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی اتباع کرنے والوں اور فرعون کے پیروکاروں میں فرق کیا تھا۔
20
چوں زمیں کش دانش آمد وقتِ خسف
در حقِ قاروں کہ قہرش کرد نسف
ترجمہ: جس طرح زمین کی دانش نے دھنسانے کے وقت قارون کو جو مقہور تھا ہلاک کیا۔
21
چوں قمر کہ امر بشنید و شگافت
پس در نیمہ گشت بر چرخ و شتافت
ترجمہ: حکم سن کر چاند جیسے شق ہوا تھا وہ دو ٹکڑے فلک پر جا ملا۔
22
چوں ستوں نالید از ہجرِ نبیؐ
باخبر گشتند ازاں شیخ وصبی
ترجمہ: جیسے ستون دربار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجر سے رویا۔ با خبر تھے جس سے سب چھوٹے بڑے۔
23
چوں درخت و سنگ کاندر ہر مقام
مصطفٰیؐ را کرد ظاہر والسّلام
ترجمہ: جس طرح پیڑ اور پتھر لا کلام مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو صاف کرتے تھے سلام۔
مطلب: مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر متعدد معجزات کا ذکر کیا ہے کہ جمادات حق سبحانہ تعالٰی کے مطیع اور منقاد ہیں، اور وہ بھی عقل و خرد رکھتے ہیں، وہ بھی انسان کی طرح مکلّف ہیں۔ ہر ایک مخلوق اپنی نوع کے اعتبار سے مکلّف کی گئی ہے۔ چونکہ وہ خالق اور قادر مطلق ہے۔ کسی چیز کو بے کار اور عبث پیدا نہیں کیا، ہر ایک مخلوق میں ایک حکمت و فائدہ مضمر ہے، اور اس خالق ارض و سما کی فرمانبردار ہے۔ زمین کو دیکھو کہ خسف کے وقت قارون کے ساتھ کیا سلوک کیا اور دوسروں کے ساتھ کیا کیا۔ چاند کو دیکھو کہ خدا کا حکم پاتے ہی دو ٹکڑے ہو گیا۔ کس کو ہر ایک خورد و کلاں اور مومن و کافر نے دیکھا۔ نیز اس خشک لکڑی کو دیکھو جو برسوں سے مسجد میں لگی ہوئی تھی، ہجرِ رسول میں کس قدر روئی۔
معجزہ کی حقیقت: معجزہ ایک ایسا امر ہے جو پیغمبر کے ذریعہ بغیر اسباب علویہ کے صادر ہوتا ہے اور وہ اس کی پیغمبری ثبوت کے لیے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ معجزہ کا اثر عالمِ سفلی و علوی اور اجسامِ عنصری اور اجرامِ سماوی پر یکساں طور پر ہو سکتا ہے۔ نیز اسی کا اثر ایک امرِ واقعی اور پائیدار مغیر ماہیت ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں عصائے موسیٰ علیہ السّلام کے اژدہا بننے پر فرمانا: ﴿فَاِذَا ھِیَ حَیَّۃٌ تَسْعٰی﴾ (طٰهٰ: 20) ”وہ واقعی سانپ بن کر دوڑنے لگا۔“ بعض حقیقت نا شناس لوگوں نے معجزہ و سحر کو ایک وجود دیا، اور دونوں کی بنیاد مکر و فریب پر رکھی۔ ظاہر پرست لوگوں نے معجزہ کو بھی خرقِ عادت ہونے میں اس کے مشابہ ایسا ہی سمجھا۔ چنانچہ ہر پیغمبر جو معجزہ دکھاتا ہے کفار کی طرف سے جادوگر کا خطاب پاتا تھا، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے حق میں فرعون نے کہا: ﴿اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیمٌ﴾ (الاعراف: 109) ”بے شک یہ کوئی بڑا ماہر جادوگر ہے۔“ اور آنحضرت کے بارہ میں منکر کہتے تھے: ﴿ھٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ﴾ (ص: 4) ”یہ جادوگر بڑا جھوٹا ہے“۔ حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ؎
آہ آہ از دست حرافانِ گوہر ناشناس
ہر زماں خسرہ مہر را بادر برابر مے کند
شقِ قمر: کفار نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے نبی ہونے پر دلیل طلب کی کہ اگر آپ واقعی رسول و نبی ہیں تو چاند پر تصرف کا کوئی کرشمہ دکھائیں۔ آپ نے بحکمِ خدا انگشتِ شہادت کا اشارہ کیا جس سے چاند دو ٹکڑے ہو گیا، کفارِ مکہ متحیر رہے۔ پھر بھی انہوں نے ایک شرط لگائی کہ ممکن ہے، ہم پر کوئی جادو یا سحر کیا ہو، ہماری آنکھوں نے فریب کھایا۔ ہم اپنے شام سے آنے والے قافلہ سے دریافت کریں گے، اگر انہوں نے تصدیق کر دی کہ واقعی قمر دو نیم ہوا تھا تب تیری تصدیق ہوگی۔ سو انہوں نے بھی قمر کے شق ہونے کی تصدیق کی، مگر کفارِ مکہ سب کے سب ایمان نہ لائے۔
گریۂ ستون: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد مدینہ کی تعمیر شدہ مسجد مبارک میں ایک ستون کے ساتھ پشت مبارک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے، کچھ دنوں کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے منبر بنا کر مسجد میں رکھا، جب آپ اس منبر پر تشریف فرما ہوئے تو ستون نے بچوں کی طرح رونا چلانا شروع کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر آئے اور از راہِ تشفی اپنا دستِ مبارک ستون پر رکھ دیا، جس طرح ماں اپنے روتے بچے کے سر پر رکھا کرتی ہے، ہاتھ رکھنے سے وہ چپ ہو گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اس سے پوچھا اگر تو سرسبز ہونا چاہے تو دعا کر کے تجھے سر سبزی دلا دوں یا اگر چاہے تو جنت کا درخت بن سکتا ہے، ستون نے جنت کا درخت بننا منظور کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دفن کرا دیا۔ ستون کا نالہ کرنا صحاح میں مکالمہ دارمی میں منقول ہے۔ عراقی رحمۃ اللہ علیہ؎
مردن و خاکے شدن بہتر کہ بے تو زیستن
سوختن خوش ترلبے کز روئے تو گردم جدا
جدائیِ تو ہلاکم باشتیاقِ تو کرد
تو بہ من آں چہ نکردی غمِ فراقِ تو کرد