حصہ دوم
دفتر چہارم: حکایت: 123
تمامی حدیثِ موسیٰ علیہ السّلام در تفریح و توبیخِ فرعون
حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی بات کا خاتمہ، اور فرعون کو ڈرانا اور جھڑکنا
1
گر ترا عقل ست کردم لطفہا
ور خری آوردہ ام خر را عصا
ترجمہ: اگر تو عقل رکھتا ہے تو میں نے تجھ پر عنایتیں کی ہیں، اگر تو گدھا ہے تو تیرے لیے لاٹھی لایا ہوں۔
مطلب: یہاں سے پھر قصۂ موسیٰ علیہ السّلام اور فرعون کی طرف عود فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا کہ اے فرعون! تو دو حال سے خالی نہیں ہے، یا تو عقلمند ہے یا گدھا۔ بس میں دونوں شقوں پر کلام کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اگر تو عقل رکھتا ہے تو میں نے تجھ پر بڑی مہربانیاں کی ہیں، اور چار وعدے کئے ہیں ان کو تو قبول کر، اگر تو گدھا ہے تو گدھے کے لیے لاٹھی موجود ہے۔
2
آں چناں زیں آخُرت بیروں کنم
کز عصا گوش و سرت پر خوں کنم
ترجمہ: تجھے اس طویلے (دنیا) سے اس طرح باہر نکالوں کہ لکڑی سے تیرے کان اور سر لہو لہان ہوں۔
3
اندریں آخر خراں و مردماں
می نیابند از جفائے تو اماں
ترجمہ: اس طویلے (دنیا) سے آدمی اور گدھے، تیرے ظلم سے امان نہیں پاتے۔
مطلب: ”آخُر“ طویلہ کہ کہتے ہیں، یہاں مراد دنیا ہے۔ مولانا نے ”خراں“ سے مراد اہلِ دنیا لی ہے۔ ”مردماں“ سے اہلِ عقبی۔ اے فرعون! تو دیکھ میں تیرے لیے آخری حجت پیش کرتا ہوں کہ تیرے ظلم سے دنیا دار اور دین دار دونوں تنگ آ چکے ہیں، یا تو سیدھا ہو جا ورنہ تیری سزا مقرر ہو چکی ہے۔
4
نک عصا آوردہ ام بہرِ ادب
ہر خرے را کو نباشد مستجب
ترجمہ: اے فرعون! دیکھ یہ لاٹھی لایا ہوں۔ ہر اس گدھے کے لیے جو سیدھا نہ ہو۔
مطلب: ”نک“ مخفف ہے، نگاہ کن کا۔ ”عصا“ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا مشہور ہے جس سے کئی معجزے سرزد ہوئے، اور خاص کر ساحرانِ فرعون کے تیار کردہ جادوؤں پر حیرت انگیز طریقہ پر غلبہ حاصل کیا، جملہ ساحر اس کو دیکھ کر ایمان لے آئے۔ فرعون نے ان پر سازش کا الزام لگایا کہ تم حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے ساتھ ملی بھگت رکھتے ہو۔ تمہارے لیے میرے قانون میں موت کی سزا ہے، انہوں نے ایمان کو موت پر ترجیح دی۔ مفصل واقعہ گزشتہ ابواب میں ذکر کیا گیا ہے۔
5
اژدہائے مے شود در قہر تو
کاژدہائے گشتۂ در فعلِ خو
ترجمہ: اے فرعون یہ لاٹھی تیرے مغلوب کرنے کے لیے سانپ بنے گی، کیوں کہ تو اپنے افعال میں سانپ ہے۔
6
اژدہائے کوہیِ تو بے اماں
لیک بنگر اژدہائے آسمان
ترجمہ: اے فرعون! بےشک تو ایک پہاڑ کے بے اماں سانپ ہے، لیکن آسمانی سانپ کو بھی ذرا دیکھ۔
مطلب: حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا کہ میں تیرے لیے ایک عصا لایا ہوں، یہ لاٹھی تجھے مغلوب کرنے کے لیے اژدہا بن جائے گی۔ کیونکہ تو افعال و اخلاق میں اژدہا ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ تو فرعون ایک پہاڑی سانپ ہے جس سے خدا کی مخلوق امان نہیں پا سکتی۔ اب تو ذرا آسمانی اژدہا کے جوہر بھی دیکھ کہ وہ کیا گل کھلائے گا۔ انسان کو آمادۂ فعل کرنے والی دو طاقتیں ہیں۔ ایک عقل جو نتائج کو ملحوظ رکھ کر کسی کام کا مشورہ دیتی ہے۔ دوسرا نفس جو اسے غصہ، حسد، کینہ، شہوت وغیرہ ناپاک جذبات کے زیر اثر کسی کام پر آمادہ کرتا ہے، اور اس کام کے نتیجہ سے اسے سروکار نہیں ہوتا۔ فرعون کے افعال و اخلاق کا ظہور نفسِ امّارہ ہی کی کارستانی تھا۔ کیونکہ مخلوقِ خدا پر جبر و تشدد اور نورِ نبوت سے محرومی نفسِ سرکش کی بدولت تھے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
سگے را لقمۂ ہر گز فراموش
نگردد گر زنی صد نوبتش سنگ
دگر عمرے نوازی سفلۂ را
بکم تر چیزے آید یا تو در جنگ
7
ایں عصا از دوزخ آمد چاشنی
بر تو و بر مومن آمد روشنی
ترجمہ: اے فرعون یہ لاٹھی تجھے دوزخ کا مزہ چکھائے گی، اور مومن کے واسطے نور و ضیا ہوگی۔
8
من ترا گویم کہ اے گبرِ دنی
کہ ہلا بگریز اندر روشنی
ترجمہ: میں تجھے کہتا ہوں اے کافر، کمینہ! تو جلدی سے روشنی کی طرف بھاگ۔
9
ورنہ درمانی تو در زندانِ من
مخلصت نبود ز در بندانِ من
ترجمہ: ورنہ تو میری قید میں رہے گا، جس سے کبھی تو چھٹکارا نہیں پائے گا۔
10
باز گرد از کفر سوئے دینِ حق
ورنہ در نارِ ابد یابی قلق
ترجمہ: اے فرعون! کفر کو چھوڑ اور دین حق کی طرف آ، ورنہ تو ہمیشہ عذاب میں رہے گا۔
11
باز گرد اے گمرہِ بدبخت دوں
ورنہ در دوزخ درافتی سرنگوں
ترجمہ: اے بدبخت! کمینے گمراہی سے باز آ۔ ورنہ تو سر کے بل دوزخ میں گرے گا۔
12
ایں عصائے بود ایں دم اژدہاست
تا نگوئی دوزخِ یزداں کجاست
ترجمہ: اے فرعون! یہ لاٹھی اس وقت سانپ ہے (دیکھ) پھر نہ کہنا خدائی دوزخ کہاں پر ہے۔
مطلب: مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مخصوص انداز میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی حجت فرعون پر بیان کی کہ یہ عصا تیرے دوزخ کا نمونہ ہے، اور مسلمانوں کے لیے راحت بخش۔ یہ اژدہا تجھ سے بزبانِ حال کہتا ہے کہ او کافر دیکھ تو ایمان میں پناہ لے، ورنہ تو میرے قید خانہ میں رہے گا اور اے بدبخت، کم نصیب کہنا مان اور کفر سے پھر جا، ورنہ تو سر کے بل دوزخ میں گرے گا۔ تو اپنے خیال باطل میں یہ نہ سمجھنا کہ دوزخ کہاں ہے؟ کیونکہ حق سبحانہٗ کی قدرت وسیع ہے اس لحاظ سے دوزخ کا ہونا بعید نہیں۔ یہ تو ذرا اپنی عقل کے بخیے ادھیڑ کر دیکھ کر یہ پہلے لکڑی تھی اب ایک ہیبت ناک اور دہشت ناک اژدہا ہے، جو اپنی خونخواری اور آتش فشانی کے لحاظ سے دوزخ کا نمونہ ہے، اور یہ انقلاب اور قلبِ ماہیت اسی لیے واقع ہوا کہ تو حق سبحانہٗ کی قدرت پر مطلع ہو اور دوزخ کے نمونہ کو دیکھ لے اور نہ کہے کہ دوزخ کہاں ہے؟ کما قال الصائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
مکن تلاش رہائی ز دستِ صائب
کہ از کمندِ خدائی خلاص ممکن نیست
آج کل کی طرح اس وقت بھی روحانی امراض کی افراط تھی۔ فرعون چونکہ روحانی مرض کا مدقوق تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی کوئی نصیحت و پند اسے راس نہ آئی۔ طبعِ سلیم کا تقاضا یہ تھا کہ عقل کے مقابلہ میں نقل (وحی) کا فیصلہ آخری و قطعی ہو، اگر نقل عقل کے سامنے سرنگوں اور قائل ہو جائے تو فبہا، اگر مزاحم ہو تو سمجھنا چاہیے کہ اس میں وہم کی آمیزش ہے گو ہم محسوس نہ کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منقول کی منبع (وحی) میں غلطی کا احتمال نہیں ہے، اور ہماری عقلوں میں غلطی و خطا کا وقوع شب و روز تجربہ میں آ رہا ہے۔ عقلِ سلیم کا مقتضا یہ ہے کہ جب ثابت ہو جائے کہ یہ خدا اور رسول کا حکم ہے تو فوراً بلا چون و چرا مان لیا جائے، اگر وہ ہوائے نفسانی کا وجہ سے انکار کر دے اور حیل و حجت کرے تو سمجھنا چاہیے کہ اس میں وہم کی آمیزش ہے، ورنہ خود حکم عقل کے خلاف نہیں۔ یہ امر اس قدر بدیہی ہے کہ اس کا منکر یا مجنوں ہو گا یا معاند، اور بہر دو صورت نا قابلِ عفو ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
آنکس کہ بقرآن و خبر زو نہ رہی
آنست جوابش کہ جوابش ندہی
و لنعم ما قیل؎
بکجا رسیدہ باشد ننگ و پوئے عقلِ ناقص
چہ ببام عرش کو اے بعصا رسیدہ باشد