حصہ دوم
دفترِ چہارم: حکایت: 122
سیل آمدن و چوب انداختن امراء جہتِ رفع سیل و غالب شدنِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم بر امیراں
سیلاب کا آنا اور امراء کا سیلاب کو روکنے کے لیے لکڑیاں ڈالنا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کا امراء پر فتح پانا
1
در زماں ابرے بر آمد ز امرِ مُر
سیل آمد گشت آں اطراف پُر
ترجمہ: خدا کے حکم سے ان دنوں ایک ابر اٹھا (اس سے) ایک طوفان آیا، کہ چاروں طرف جل تھل ہو گیا۔
2
رو بشہر آورد سیلے بس مہیب
اہلِ شہر افغاں کناں جملہ رعیب
ترجمہ: خطرناک طوفان نے شہر کا رخ کیا جسکے خوف سے شہر والے چلّا اٹھے۔
مطلب: مشرکوں کے نزاع کے بعد فوراً ایک آسمان پر ابر نمودار ہوا اور برسنے لگا، جس سے ایک ایسی رو آئی کہ آس پاس کے سارے مقامات میں پھیل گئی، اور اس نہایت خوفناک اور دہشت انگیز رو نے شہر کی طرف رخ کیا، اس کو بڑھتا ہوا دیکھ کر تمام اہلِ شہر ڈر گئے، اور آہ و زاری شروع کر دی۔
3
گفت پیغمبرؐ کہ وقتِ امتحاں
آمد اکنوں تا نہاں گردد عیاں
ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب امتحان کا وقت آ پہنچا ہے، سب پوشیدہ (راز) ظاہر ہوں گے۔
مطلب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب امتحان کا وقت آ گیا ہے بس اب اپنی اپنی حکومت کے جوہر دکھلانے چاہیں، تاکہ حقیقتِ خفیہ کا ظہور ہو کہ کون کتنے پانی میں ہے؟
4
ہر امیرے نیزۂ خود را فگند
تا شود در امتحاں در سیل بند
ترجمہ: سب امیروں نے اپنے اپنے نیزے اس رو میں ڈال دیے، تاکہ اس معرکۂ امتحان میں ان کو کامیابی ہو۔
مطلب: انہوں نے اپنی اپنی کامیابی کے لیے یہ داؤ لگایا کہ ہر سردار نے نیزے بڑھتی ہوئی سیل کے دھانے میں ڈال دیے، کہ ان کے اکٹھے ہونے سے سیلاب رک جائے گا۔
5
نیزہا را ہمچو خاشاکے ربود
آب تیزِ سیل پرجوشِ عنود
ترجمہ: پرجوش سیلاب کا پانی اتنا تیز تھا کہ نیزوں کو تنکوں کی طرح بہا لے گیا۔
مطلب: ان کی یہ تدبیر کارگر نہ ہوئی، ان کے نیزوں کو تند و تیز سیلاب خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا، وہ ششدر و حیران کھڑے دیکھتے رہے۔
6
پس قضیب انداخت در وے مصطفیٰؐ
آں قضیبِ معجز فرماں روا
ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ایک شاخ رو میں ڈالی، وہ شاخ سیلاب کو عاجز کرنے والی اور حاکم تھی۔
مطلب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک معجزہ تھا۔ جب وہ نیزے ڈال کر مایوس ہو چکے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور کی شاخ بڑھتے ہوئے سیلاب کے دھانے میں ڈالی، جو سیلاب کو عاجز کر دینے والی تھی۔ کما قیل ؎
ہر کہ جملہ ترسید از حق و تقویٰ گزید
ترسد از وے جن و انسان ہرکہ دید
7
نیزہاگم گشت جملہ و آں قضیب
بر سرِ آب ایستادہ چوں رقیب
ترجمہ: نیزے سب گم ہو گئے (البتہ) چھڑی پانی پر محافظ کی طرح کھڑی رہی۔
8
ز اہتمامِ آں قضیب آں سیل رفت
رو بگردانید سوئے بحر رفت
ترجمہ: اس چھڑی کے اہتمام سے سیلاب نے اپنا رخ سمندر کی طرف موڑ لیا۔
مطلب: چھڑی کی کارکردگی نے عظیم الشان سیلاب کو سمندر کی طرف موڑ دیا، جبکہ مشرکوں کے بے شمار نیزے تنکوں کی طرح نذرِ سیل ہو چکے تھے۔
9
چوں بدیدند از وے آں امرِ عظیم
پس مقر گشتند آں میراں ز بیم
ترجمہ: جب (رؤسا) نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کارِ عظیم دیکھا، پس خوف و دہشت سے سردار ایمان لے آئے۔
10
جز سہ کس کہ حقدِ ایشاں چیرہ بود
ساحرش گفتند کاہن را جحود
ترجمہ: تین شخصوں کے سوا جو حاسد تھے، اور اس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر، کاہن کہتے تھے۔
11
بود بوجہل لعین و بولہب
واں سوم ہم بود بوسفیان حرب
ترجمہ: ایک تھا ابوجہل اور (دوسرا) ابولہب، اور تیسرا ابوسفیان بن حرب تھا۔
مطلب: جب کہ ان لوگوں نے اتنا بڑاکام دیکھا تو ڈر کے مارے سب کے سب ایمان لے آئے، آپ کو نبی و رسول تسلیم کر لیا۔ بجز تین شخص کے جن پر کینہ غالب تھا ان لوگوں نے انکار کیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن و ساحر کہا۔ ان تین میں ایک ابو جہل تھا، دوسرا ابو لہب یہ دو تو تا دمِ مرگ ایمان نہیں لائے۔ کافر ہی مرے، اور تیسرا ابو سفیان بن حرب جو ابتدائے اسلام میں سخت مخالف رہے فتح مکہ میں آپ مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے، پھر آخری عمر تک جانثارِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رہے اور اکابر صحابہ میں سے گزرے اور اسلام کی صدقِ دل سے خدمات انجام دیں، مگر افسوس کہ ابوجہل کو وہ نور نظر نہ آیا، جو ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو دکھائی دیا تھا، کیونکر نظر آئے۔ سعدی ؎
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ
12
ملک بر بستہ چنان باشد ضعیف
ملک بر رستہ چناں باشد شریف
ترجمہ: پابند لوگوں کا ملک کتنا کمزور ہے، اور آزاد لوگوں کا کتنا قوی ہے۔
مطلب: کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کتنی طاقتور مضبوط رہی تھی کہ ایک چھڑی نے اتنا کام دیا کہ بڑے بڑے لشکر جرار اور ساز و سامان بھی نہ دے سکے، اور جو لوگ حرص و طمع کے شکار تھے صرف دنیاوی لالچ و طمع کے شکار تھے، ان کی ہر تدبیر تارِ عنکبوت کی طرح کمزور اور بے کار رہی۔ مولانا اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ ؎
کیا جو کبر تو شیطان کے ہاتھ کیا آیا
وہی عزیز ہے عزت جسے خدا نے دی
13
نیزہا را گر ندیدی با قضیب
نامِ شان بیں نامِ او بیں اے طبیب
ترجمہ: اے شریف اگر تو نے نیزے اور چھڑی نہیں دیکھی، تو دونوں کے ناموں پر غور کر۔
مطلب: اگر کسی کو شبہ ہو کہ نہ ہم نے نیزے دیکھے اور نہ شاخ، پھر ہم کو کیونکر اعتبار ہو؟ پس ہم ان سے کہیں گے کہ اگر تم نے نیزے اور کھجور کی شاخ نہیں دیکھی تو نہ سہی، ہم تمہارے لیے دوسرا معیار قائم کرتے ہیں۔ اچھا ان کا نام بھی دیکھو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی خود موازنہ کرو۔
14
نامِ شان را سیلِ تیزِ مرگ برد
نامِ او و دولت تیزش نمرد
ترجمہ: ان کا نام موت کا سیلاب لے گیا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور دولت باقی ہے۔
15
پنج نوبت مے زنندش بر دوام
ہم چنیں ہر روز تا روزِ قیام
ترجمہ: ہر روز پنج نوبتیں ان کے نام بجتی ہیں، اور اسی طرح قیامت تک بجتی رہیں گی۔
مطلب: مولانا نے معجزہ کے منکرین کا جواب دیا ہے کہ آپ اگر اس پر بضد ہیں کہ ہم نے کوئی چیز بھی نہ دیکھی کیسے اعتبار کریں؟ آپ نے ایک ایسی حسّی امر کی طرف اشارہ کیا کہ منکرینِ نبوت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دولت فنا نہیں ہوئی، پانچ وقت مؤذن نوبت بجاتا ہے، اور آپ کا نام لیتا ہے ایک جگہ نہیں بلکہ روئے زمین کی ہر مسجد میں پنج وقتی نوبت بجتی ہے اور قیامت تک بجتی رہے گی، بخلاف اس کے کہ ابوجہل اور ابولہب کا ایک بھی نام لیوا نہیں ہے۔
فائدہ: بعض لوگ ایسے مسائل میں الجھ گئے ہیں انہوں نے اہل اللہ کے لیے حکومتِ عامہ اس طرح ثابت کی ہے کہ یہ لوگ تمام عالم میں با اختیار اور خود متصرف ہیں، اس طرح ان لوگوں نے اہل اللہ کی متبوع اور حق سبحانہ کو ان کا تابع کر دیا ہے، مگر یہ ان کی غلطی ہے اور حقیقت ان کی حکومتِ عامہ کی یہ ہے فنا فی الحق اور اس کے تابع ہیں۔ اپنی خواہش کو حق جل مجدہٗ کی خواہش میں، اور اپنے اختیار اس کے اختیار میں فنا کر چکے ہیں۔ لہٰذا حق سبحانہٗ کے لیے جو حقیقۃً حاصل ہے وہی حکومت ان کے لیے مجازاً منسوب ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کے لیے ایسی حکومت حاصل ہو کہ وہ جو کچھ اور جیسا کچھ چاہیں با اختیارِ خود کر لیں۔