دفتر 4 حکایت 121: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم سے سرداران عرب کا جھگڑا کرنا کہ ملک کو تقسیم کیا جائے تاکہ جھگڑا نہ رہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا جواب دینا

حصہ دوم

دفتر چہارم: حکایت: 121

منازعت کردنِ امیرانِ عرب با رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلّم کہ ملک را مقاسمہ کن تا نزاعے نباشد و جوابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم ایشاں را

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم سے سرداران عرب کا جھگڑا کرنا کہ ملک کو تقسیم کیا جائے تاکہ جھگڑا نہ رہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا جواب دینا

1

آں امیرانِ عرب گرد آمدند

نزدِ پیغمبر منازع مے شدند

ترجمہ: امرائے عرب (آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی) خدمت میں آئے اور جھگڑا شروع کیا۔

2

کہ تو میری ہر یک از ما ہم امیر

بخش کن ایں ملک و بخشِ خود بگیر

ترجمہ: کہ آپ بھی سردارِ عرب ہیں اور ہم بھی عرب کے سردار ہیں، اپنا حصہ لو ہمارا حصہ ہم کو دو۔

3

ہر یکے در بخشِ خود انصاف جو

تو ز بخشِ ما دو دست خود بشو

ترجمہ: ہر ایک اپنے حصہ میں انصاف کا طالب ہے، اور تم ہمارے حصہ سے دست بردار ہو جاؤ۔

مطلب: امراء اور روسائے عرب آنحضرت کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور یوں جھگڑنا شروع کیا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلّم) آپ بھی ایک عرب کے سردار ہیں اور ہم بھی سردارانِ عرب میں سے ہیں، لہٰذا ملک کو تقسیم کر لیا جائے تاکہ ہر روز کا جھگڑا نہ رہے، آپ اپنا حصہ لے لیں اور ہم میں سے ہر ایک اپنے حصہ کا انصاف چاہتا ہے۔ کوئی شخص کسی کے حصہ کو خرد برد نہ کرے۔ آں حضرت نے جواب دیا کہ تمہارا دعوٰی غلط ہے۔

4

گفت میری مر مرا حق دادہ است

سروری و امرِ مطلق دادہ است

ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ میری افسری خدا نے دی ہے، اور یہ سرداری اور حکومت اسی کی عطا کی ہوئی ہے۔

5

کایں قرانِ احمدؐست و دورِ او

ہیں بگیرید امرِ حق را اِتَّقُوْا

ترجمہ: یہ احمد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وسلّم) کا زمانہ ہے۔ اسی کا حکم مانو اور خدا سے ڈرو۔

مطلب: حق سبحانہٗ کی جانب سے مجھے افسری و سرداری اور حکومتِ مطلقہ عطا ہوئی ہے، یہ پیغمبرانہ دور حکومت ہے اس زمانہ میں بجز ان کے کسی کی حکومت نہیں ہو سکتی۔ پس تم اس حکم کو قبول کرو اور اس کی مخالفت سے بچو۔ ورنہ کہیں خدا کے عذاب میں نہ پکڑے جاؤ۔

6

قوم گفتندش کہ ما ہم از قضا

حاکمیم و داد میری ما خدا

ترجمہ: یہ قوم (روسائے عرب) بولے کہ یہ بھی خدا کا حکم ہے، کہ ہم خدا نے افسری و سرداری دی ہے۔

مطلب: کہ آپ بھی خدا کی طرف سے عطا کردہ حکومت کے دعویدار ہیں، اور ہم کو بھی خدا نے سرداری دی ہوئی ہے، پھر آپ کیونکر ہماری حکومت کا انکار کر سکتے ہیں؟ لہٰذا ملک کی تقسیم کا دعوٰی کرنا حق بجانب ہے۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے جواب دیا:)

7

گفت لیکن مر مرا حق ملک داد

مر شما را عاریۃ از بہر زاد

ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا مجھ کو حق نے خاص حکومت دی، اور تم کو صرف کھانے پینے کے لیے حکومت دی۔

8

میرییِ من تا قیامت باقی ست

میرییِ عاریتے خواہد شکست

ترجمہ: اے قوم! میری سرداری قیامت تک باقی ہے۔ عارضی (تمہاری افسری) جلد ٹوٹنے والی ہے۔

مطلب: آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ میری تمہاری حکمرانی میں ایک فرق ہے کہ میری حکومت پائیدار اور ایسی ہے جیسے کسی کو کوئی شے ہبہ کر دے، اور تمہاری حکومت عارضی و وقتی ہے کہ چند روز اس سے نفع اٹھا لو۔ میری حکومت تا قیامت باقی رہے گی۔ تم جسموں پر حکومت کرتے ہو، میں جسموں کے ساتھ دلوں کا بھی بادشاہ ہوں۔ ناداں قوم نے بے کار حجت کرتے ہوئے جواب دیا۔

9

قوم گفتند اے امیر افزوں مجو

چیست حجت برفزوں جوئی تو

ترجمہ: سرداروں نے کہا، اے محمدؐ! زیادہ مت مانگو آخر ہم پر برتری کی کوئی دلیل لاؤ۔

مطلب: بے وقوف قوم نے دنیاوی قدر و منزلت کو نا حاصل کر کے اس قسم کا اعتراض کر دیا، کہ ہم بھی عربی النسل اور تم بھی عربی النسل۔ حصہ کی زیادتی کیا معنٰی؟ اگر وہ نورِ نبوت سے مستفید ہوتے اور ایمانی حلاوت چکھ لیتے تو ایسا اعتراض ہر گز نہ کرتے، یہ ان کی جہالت اور کور چشمی پر دال ہے۔ دوسرا عرب میں ان کا وقار دیکھ کر مثل مشہور ہے، جب سارا جاتا دیکھئے آدھا دیجئے بانٹ۔ تقسیم کا سوال پیدا کیا گیا کہیں کل کو اس سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ کما قیل ؎

مہ نور مے فشاند و سگ بانگ مے زنند

سگ را بپرس خشم کو بر مہتاب چیست