دفتر 4 حکایت 120: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا فرعون کے ایمان لانے سے نا امید ہونا، اور ہامان کی بات کا فرعون کے دل میں قرار پکڑنا

حصہ دوم

دفتر چہارم: حکایت: 120

نومیدن شدن موسیٰ علیہ السّلام از ایمانِ فرعون و جا یافتن سخنِ ہامان در دلِ فرعون

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا فرعون کے ایمان لانے سے نا امید ہونا، اور ہامان کی بات کا فرعون کے دل میں قرار پکڑنا

1

گفت موسیٰؑ لطف بنمودیم وجود

خود خداوندیت را روزی نبود

ترجمہ: موسیٰ علیہ السّلام نے کہا کہ ہم نے تجھ پر بہت عنایت کی، مگر تیری قسمت ہی میں نہ تھی۔

مطلب: جب فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور فرعون ہامان کے بہکانے میں آ گیا، تو حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے کہا کہ ہم نے تو تیری فلاح و بہبود کے لیے بہت کوشش کی کہ تیری دنیا و آخرت سنور جائے، تاکہ تو عذابِ ابدی سے چھٹکارا پا سکے، مگر میں کیا کروں تیری قسمت ہی کی صلاح نہیں تھی، دیکھ میں پھر کہتا ہوں۔

2

آں خداوندی کہ نبود راستیں

مر ورا نے دست داں نے آستیں

ترجمہ: جو حکومت جھوٹی ہو۔ وہ لولی لنگڑی حکومت ہے۔

3

آں خداوندی کہ دزدیدہ بود

بے دل و بے جان و بے دیدہ بود

ترجمہ: چرائی ہوئی حکومت اندھی، اور مردہ اور بے مغز شے ہے۔

مطلب: کہ جھوٹی حکومت بالکل بے تکی ہے، اور عارضی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے چرائی ہوئی چیز کہ مالک اس کو چور سے واپس لے لیتا ہے، اور وہ خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔ ایسی حکومت پر مغرور نہ ہونا چاہیے، جب تک کہ مالکِ حقیقی اس کو عطا نہ فرمائے۔

4

آں خداوندی کہ دادندت عوام

باز بستانند از تو ہمچو دام

ترجمہ: (اے فرعون) جو حکومت کہ تجھ کو بندوں نے دے رکھی ہے، جب وہ چاہیں گے تجھ سے مثل قرض کے واپس لیں گے۔

مطلب: یہ چند روزہ حکومت پر تو غرور مت کر کیونکہ یہ عوام کی سونپی ہوئی سرداری ہے۔ تیری زندگی میں بھی وہ تجھ سے چھین سکتے ہیں اور مرنے کے بعد۔

کماقیل؎

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا، جب لاد چلے گا بنجارا

5

آں خداوندی تو از بندگی

کمترست ار باز دانی اندکی

ترجمہ: تیری یہ حکومت بندگی کے مقابلہ میں بہت ہی ہیچ ہے، اگر تو تھوڑا سا بھی غور کرے۔

6

دہ خداوندی عاریت بحق

کہ خداوندیت بخشد متفق

ترجمہ: اپنی (اس عارضی) حکومت کو خدا کے سپرد کر، تاکہ وہ تجھے متفق علیہ حکومت عطا کرے۔

مطلب: مولانا فرماتے ہیں کہ اے فرعون! اگر تو ذرا بھی سمجھے تو معلوم ہوگا کہ تیری حکومت اس غلامی سے بھی کم ہے جس سے عار کرتا ہے، کیونکہ اس کا نتیجہ معزولی ہے۔ اس کا نتیجہ شاہی نہیں لہٰذا تو غلامی اختیار کر اور اس عارضی اور پائیدار حکومت کو چھوڑ، اپنی خواہشات کو خدا کی مرضی پر چھوڑ دے۔ پھر سبحانہ تعالٰی تجھ کو ایسی حکومت و سرداری عطا فرمائے گا کہ کسی کو اس سے سرتابی و روگردانی کی گنجائش نہ ہو۔ فرعون کو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی پیغمبرانہ نصیحت اور مربیانہ شفقت راس نہیں آئی۔ اس نے اپنے وزیر بے تدبیر ہامان کی باتوں پر اعتبار کیا اور آیاتِ الٰہیہ سے غافل ہوا، اور مقصدِ حیات دنیا کی سیادت اور سربلندی سمجھا۔ خود گمراہ ہوا اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا بنا، اور اپنے علم کو گمراہ سازی کا آلہ بنایا۔ کماقیل ؎

شعر

کمینہ قدر چو یابد ز راستی گذرد

پیادہ پیشہ کند کجروی چوں فرزیں شد

جامی رحمۃ اللہ علیہ؎

سفلۂ دوں را چوں گردد معدہ سیر

بر ہزاراں شور و شر گردد دلیر