دفتر 4 حکایت 119: ہامان بے ایمان علیہ اللعنۃ کی باتوں کی تردید

حصہ دوم

دفتر چہارم: حکایت: 119

تزئیفِ سخنِ ہامان بے ایمان علیہ اللّعنۃ

ہامان بے ایمان علیہ اللعنۃ کی باتوں کی تردید

1

دوست از دشمن ہمی نشناخت او

نرد را کورانہ کژ مے باخت او

ترجمہ: وہ (کم بخت ہامان) دوست دشمن میں تمیز نہیں کر سکتا تھا۔ اندھوں کی طرح الٹی بازی کھیلتا تھا۔

2

دشمنِ تو جز تو نبود اے لعین

بے گناہاں را مگو دشمن بکیں

ترجمہ: اے ملعون! تیرا دشمن خود تیرے سوا اور کوئی نہیں۔ بغض کے ساتھ بے گناہوں کو دشمن نہ کہہ۔

3

پیشِ تو ایں حالتِ بد دولت ست

کہ دَوَا دَوْ اوّل و آخر لت ست

ترجمہ: تیرے نزدیک یہ بری حالت دولت ہے۔ جس کے پہلے دَوَا دَو (بھاگ دوڑ) اور آخر میں لت (ضرب پانے پر) ہے۔

4

اولش دَو دَو در آخر لت بخور

جز دریں ویرانہ نبود مرگِ خَر

ترجمہ: یعنی پہلے بھاگو دوڑو اور آخرت میں لات کھاؤ۔ اس ویرانہ کے سوا گدھے کی موت اور کہیں نہیں۔ (حریص کی تباہی، طلبِ دولت میں ہے، جو گدھے کی طرح سیر نہیں ہوتا۔)

5

گر ازیں دولت نتازی خز خزاں

ایں بہارت را ہمی آید خزاں

ترجمہ: اگر تو اس (تباہ کن) دولت سے آہستہ آہستہ (عقبٰی کی طرف نہیں بھاگے گا، تو تیری اس بہار (اقبال) پر خزاں آجائے گی۔

6

مشرق و مغرب چو تو بس دیدہ اند

کہ سرِ ایشاں ز تن ببریدہ اند

ترجمہ: مشرق و مغرب نے تجھ جیسے (متکبر) بہتیرے دیکھے ہیں، جن کے سر دھڑوں سے الگ کر دیے گئے۔

7

مشرق و مغرب چو نبود برقرار

چوں کنند آخر کسے را پائیدار

ترجمہ: مشرق و مغرب جب (خود) پائیدار نہیں، تو وہ کسی (دوسرے) کو پائیدار کیونکر بنا دیں؟

8

تو بداں فخر آوری کز ترس و بند

چاپلوست گشت مردم روز چند

ترجمہ: کیا تو اس بات پر فخر کرتا ہے کہ لوگ چند روز کے لیے خوف اور مجبوری سے تیرے خوشامدی بن گئے۔

9

ہر کرا مردم سجودے مے کنند

زہر اندر جانِ آدمی آگنند

ترجمہ: جس شخص کو لوگ سجدہ کرتے ہیں اس جان میں (کبر و غرور کا) زہر بھرتے ہیں۔

10

چونکہ بر گردد ازو آں ساجدش

داند او کاں زہر بودہ موبدش

ترجمہ: پھر جب وہ اسی (سردار) کا سجدہ کرنے والا (ہدایت پا کر یا مرتے وقت اس سے) پھرتا ہے، تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا وہ سردار (اپنی پرستش کرانے کی وجہ سے سراپا) زہر (بن چکا) تھا۔

مطلب: ہدایت پا کر حقیقت کے نظر آ جانے یا موت کے وقت حجابِ غفلت کے اٹھ جانے سے معلوم ہوجاتا ہے، کہ جو لوگ فرعون سیرت امراء کی پوجا کرتے ہیں، وہ در حقیقت ان امرا کو زہر پلا رہے ہیں۔ حتّٰی کہ ان کو مبتلائے غرور و تکبر کر کے روحانی موت کے ساتھ ہلاک کر دیتے ہیں، اور آخر جب خود ہدایت یافتہ ہوتے ہیں تو ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری پرستشس کا کیا اثر ہوا، اور وہ مغرور سردار کس حالت کو پہنچا۔

11

اے خنک آں را کہ ذَلَّتْ نَفْسُہٗ

واے آں کز سرکشی شد چوں کہ او

ترجمہ: ارے بشارت ہے اس کو جس کا نفس خاکسار ہو جائے، اور حیف ہے اس پر جو پہاڑ کی طرح سرکشی کرے۔

12

ایں تکبر زہر قاتل داں کہ ہست

از مے پر زہر شد او گیج و مست

ترجمہ: اس تکبر زہر کو قاتل سمجھو، جو زہریلی شراب (کی قسم) سے ہے (جو اس کو پیتا ہے) وہ پراگندہ حال اور بدمست ہو جاتا ہے۔

13

چوں مے پر زہر نو شد مُدبرے

از طرب یک دم بجنباند سرے

ترجمہ: جب کوئی بدبخت زہریلی شراب پی جاتا ہے، تو تھوڑی دیر کے لیے سرور سے سر ہلانے لگتا ہے۔

14

بعد یک دم زہر بر جانش فتد

زہر بر جانش کند داد و ستد

ترجمہ: تھوڑی دیر کے بعد زہر اس کی جان پر اثر کرتی ہے۔ زہر اس کی جان کے ساتھ لینا دینا (شروع) کر دیتی ہے۔ (یعنی اس کی طاقتیں سلب کرتی اور اس پر مردنی طاری کر دیتی ہے۔ یہی حال تکبر کا ہے کہ اس کا نشہ شروع میں پُر لطف معلوم ہوتا ہے، مگر آخر کار سخت اذیت رساں ثابت ہوتا ہے۔)

15

گر نداری زہریش را اعتقاد

گرچہ زہر آمد نگر در قومِ عاد

ترجمہ: اگر تم اس کے زہریلا ہونے پر یقین نہیں کرتے، اگرچہ وہ فی الحقیقت زہریلا ہے، تو قومِ عاد پر نظر کر (کہ تکبر کے زہریلے نشے نے ان کو کس طرح ہلاک کر کے چھوڑا؟ ایک اور مثال سنو:)

16

چونکہ شاہے دست یابد بر شہے

بکشدش یا باز دارد در چہے

ترجمہ: جب ایک بادشاہ کسی دوسرے بادشاہ پر غلبہ پاتا ہے، تو اس کو مار ڈالتا ہے یا کنویں میں مقید رکھتا ہے۔ (اگلے زمانے میں بڑے بڑے قیدیوں کو کنویں میں رکھتے تھے۔)

17

ور بیابد خستہ افتادہ را

مرہمش سازد شہ و بدہد عطا

ترجمہ: اور اگر کسی گرے ہوئے زخمی کو پائے، تو بادشاہ اس کی مرہم پٹی کرتا اور اسے انعام دیتا ہے۔ (دارا جب تک غرورِ شاہی کے ساتھ نبرد آزما رہا، سکندر نے اس کا جواب تلوار سے دیا، جب وہ زخمی ہو کر فرشِ خاک پر گر گیا، اور اس کے تکبر و غرور کا نشہ اتر گیا تو سکندر نے اس کا سر زانو پر رکھ لیا۔)

18

گر نہ زہرست ایں تکبر پس چرا

گشت شہ را بے گناہ و بے خطا

ترجمہ: اگر یہ تکبر زہر نہیں ہے تو پھر بادشاہ کو کسی (ظاہری) سبب اور قصور کے بغیر کیوں قتل کیا؟

19

ویں دگر را بے ز خدمت چوں نواخت

زیں دو جنبش زہر را باید شناخت

ترجمہ: اور اس دوسرے کی کسی خدمت (کی بجا آوری) کے بغیر کیوں عزت افزائی کی؟ ان دونوں (مختلف طرز کے) عملوں سے زہر کو پہچاننا چاہیے۔

20

راہزن ہرگز گدائے را نزد

گرگ گرگِ مردہ را هرگز گزد

ترجمہ: ڈاکو ہرگز کسی فقیر کو نہیں مارتا۔ بھیڑیا مردہ بھیڑیے کو بھلا کہیں کاٹتا ہے؟ (ہمارے علاقے میں ”جیونا موڑ“ نامی ایک بڑا سفاک و خونریز ڈاکو گزرا ہے، جس کی تاخت و تاراج نے تمام علاقے کو لرزہ براندام کر رکھا تھا وہ صرف امیروں، سرمایہ داروں اور سود خوروں کا لہو پیتا تھا، کسی غریب مسافر، برہمن، ملّا، حافظ کو کہیں پاتا تو کچھ نہ کہتا بلکہ کچھ نہ کچھ انعام دے جاتا۔)

21

خضر کشتی را برائے آں شکست

تا تواند کشتی از فجّار برست

ترجمہ: حضرت خضر نے (حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے سامنے) کشتی کو اس لیے توڑ ڈالا، تاکہ (وہ) کشتی (ظالموں) بدکاروں کے ہاتھ سے محفوظ رہے۔ (یہ قصہ پیچھے کئی مرتبہ گزر چکا ہے۔)

22

چوں شکستہ مے رہد اشکستہ شو

امن در فقرست اندر فقر رَو

ترجمہ: جب شکستہ کو نجات ملتی ہے، تو تم شکستہ بن جاؤ۔ فقر میں امن ہے، فقر میں داخل ہو جاؤ۔

23

آں کُہے کہ داشت از کاں نقد چند

گشت پارہ پارہ از زخمِ کلند

ترجمہ: وہ پہاڑ جس کے پاس کئی نقد کانیں (زر و جواہرات کی) تھیں، وہ کدال کے زخم سے پارہ پارہ ہوگیا۔ (اسی طرح مال دار و امیر موردِ آفات ہوتے ہیں)۔ کما قیل ؎

ہر چند کہ ہست نعمت و دولت و بخت

بارے ست گراں چو شد بروں از حد سخت

بسیاریِ جاہ و مالِ مرد آفتِ اوست

انبوہیِ میوہ بشکند شاخ درخت

و ہٰکذا ؎

ترسد از جورِ فلک ہر کہ تونگر گردید

قطرہ را بیم ز سنگ ست چو گوہر دید

24

تیغ بہرِ اوست کو را گردنیست

سایہ کافگندست بَر وَے زخم نیست

ترجمہ: تیغ (کا وار) اسکے لیے ہے جس کی گردن (تکبر سے بلند) ہے۔ سایہ (کی طرح) جو (شخص خاکساری سے) افتادہ ہے اس پر (تلوار کا) زخم نہیں (لگتا۔)

25

مہتری نفط ست و آتش اے غوی

اے برادر چوں بر آذر مے روی

ترجمہ: اے گمراہ! سرداری تو مٹی کا تیل اور آگ ہے۔ بھائی! تو آگ میں کیوں جاتا ہے؟ (یعنی سرداری حاصل کرنے کی کوشش کیوں کرتا ہے؟ ہلاک ہو جائے گا۔)

26

هر چه آں ہموار باشد با زمیں

تیرہا را کے ہدف گردد ببیں

ترجمہ: دیکھو جو چیز زمین کے ساتھ ہموار ہو، وہ تیروں کا نشانہ کب ہوتی ہے۔

27

سر بر آرد از زمیں آنگاہ او

چوں ہدفہا زخم یابد بے رفو

ترجمہ: (لیکن جب) وہ زمین سے اٹھاتی ہے، تو اس وقت نشانہ کی طرح زخم کھاتی ہے جو مندمل نہ ہوں۔

28

نردبانِ خلق ایں ما و منی ست

عاقبت زیں نردباں افتادہ ست

ترجمہ: یہ خودی و نفسانیت لوگوں کے لیے (فخر و غرور کی) سیڑھی ہے۔ آخر اس سیڑھی سے گرنا (پڑتا) ہے۔ (اونچے بول کا سر نیچا۔)

سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

تکبر مکن زینہار اے پسر

کہ روزے ز دستش در آئی بسر

29

ہر کہ بالاتر رود ابلہ ترست

کاستخوان او بتر خواہد شکست

ترجمہ: جو شخص زیادہ اونچا چڑھ جائے وہ زیادہ بے وقوف ہے، کیونکہ اس کی ہڈیاں (بھی) بری طرح ٹوٹیں گی۔ (جتنی زیادہ بلندی سے گرے گا، اس کی ہڈیوں کی شکستگی اسی قدر زیادہ خطرناک ہوگی، جس کی درستگی نہ ہو سکے گی۔)

30

ایں فروع ست و اصولش آں بود

کہ ترفع شرکتِ یزداں بود

ترجمہ: یہ (تو تکبر کی برائی کے متعلق) فروعی باتیں ہیں۔ اس کا اصول یہ ہے کہ تکبر حق تعالٰی کے ساتھ شرکت ہے۔

مطلب: تکبر خاص حق تعالٰی کا حق ہے۔ کما قال: ﴿هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّر (الحشر: 23) پس جو شخص تکبر کرے وہ گویا حق تعالٰی کے ایک وصف میں حصہ دار بننے کا مدعی ہے، جو کسی طرح قابلِ در گزر نہیں ہو سکتا۔ حدیث قدسی میں آیا ہے کہ حق تعالٰی فرماتا ہے: اَلْکِبْرِیَاءُ رِدَائِیْ وَ الْعَظْمَۃُ اِزَارِیْ فَمَنْ نَازَعَنِیْ شَیْئًا مِّنْھُمَا اَلْقَیْتُہٗ فِیْ جَہَنَّمَ (ابوداؤد: 4090) یعنی ”بزرگی میری چادر اور عظمت میرا ازار ہے، پس جو شخص ان کے لیے مجھ سے تنازع کرے میں اس کو اپنی دوزخ میں ڈال دوں گا۔ مولانا کا مدعا یہ ہے کہ نہ صرف تکبر و ترفع ہی شرکت کا ادعاد ہے، بلکہ اپنی ہستی کا احساس بھی ایک طرح شرک ہے، لہٰذا اپنی ہستی کو مٹانا اور حق تعالٰی کو موجودِ واحد سمجھنا ہی اس مرض کا علاج ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:

31

چوں نہ مردی و نہ گشتی زندہ زو

باغیے باشی بشرکت ملک جو

ترجمہ: جب تو فنا نہ ہو اور اس (کی بقا) سے زندہ نہ ہو تو ایک باغی ہے، جو شرکت کے ساتھ کی بنا پر طالبِ مُلک ہے۔

مطلب: جب تک تم اپنی رضا کو خدا کی رضا کے تابع نہ کرو، اس وقت تک تم ایک قسم کے باغی اور نا فرمان ہو گے کیونکہ مومن ہر وقت خدا کی مرضی کے تابع رہتا ہے، خواہ اس کی عقل و دانش میں کوئی چیز آئے یا نہ آئے۔ مرنے سے مراد اپنی انا کو ختم کر دینا۔ موت و حیات اور نقل و حرکت سب کچھ اس پر چھوڑ دینا ہے۔

32

چوں بدو زندہ شدی آن خود ویست

وحدت محض ست آن شرکت کے ست

ترجمہ: اس سے جو زندہ ہوا ہے وہ خود ہی ہے۔ وحدت مطلق ہے، دوئی (شرکت) نہیں ہے؟

مطلب: یہ تصوف و فلسفہ کے ان مکتب فکر لوگوں کی ترجمانی فرما رہے ہیں، جو کہ وحدت الوجود کے قائل ہیں کہ گویا تم اس کی حیات سے زندہ ہو تم کچھ نہ ہو گے بلکہ وہی خود ہوگا، کیونکہ حیات ابدی اور حقیقی اس کے لیے ہے۔ تم کو ایک عارضی حیات بخشی گئی تھی سو وہ لے لی گئی۔

33

شرح ایں در آئینۂ اعمال جُو

کہ نیابی فہم او از گفتگو

ترجمہ: اس کی شرح اعمال کے آئینے میں تلاش کر، کیونکہ یہ قیل و قال سے فہم میں نہیں آ سکتا۔

مطلب: اگر تم کو اس کی شرح کی ضرورت ہو تو اچھے عمل کرو، اور اپنے آپ کو اس قابل بناؤ کہ حق سبحانہ بذریعہ کشف کے اس مسئلہ کی حقیقت تم پر کھول دے، اور بغیر تحصیلِ ذوق کے اس بحث میں نہ پڑنا، ورنہ گمراہی کا اندیشہ ہے۔ سعدی ؎

ایں سعادت بزورِ بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

34

گر بگویم آنچہ دارم در دروں

بس جگرہا گردد اندر حال خوں

ترجمہ: جو کچھ میرے دل میں ہے اگر میں بیان کروں تو یقیناً کلیجے خون ہو جائیں گے۔

مطلب: کشف کے ذریعہ سے مجھ پر جو منکشف ہوا ہے اگر میں عوام کے سامنے کھول کر رکھ دوں، تو بہت سے جگر خون ہو جائیں گے اور کلیجے پھٹ جائیں گے۔

35

بس کنم خود زیرکاں را ایں بس ست

بانگ دو کردم اگر در دِہ کس ست

ترجمہ: داناؤں کے لیے میرا یہ اشارہ بس کرتا ہے، صرف دو صدائیں گاؤں بھر کے لیے کافی ہیں۔

مطلب: بانگ دو اس آواز کو کہتے ہیں جو بستی والوں کو اس وقت دی جاتی ہے جب کہ دشمن ان پر حملہ آور ہو۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ میں بھی دو آوازوں پر اکتفا کرتا ہوں۔ عاقلوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مخفی دشمن یعنی شیطانی وساوس سے متنبہ رہیں، اور نیکی کا راستہ اختیار کریں۔

36

حاصل آں ہاماں بداں گفتارِ بد

ایں چنیں راہے براں فرعون زد

ترجمہ: الغرض ہامان کی یہ بری گفتگو تھی۔ اس گمراہی کے راستہ پر اس کو فرعون لعین نے لگایا تھا۔

مطلب: غرضیکہ ہامان شریر نے اس بے ہودہ فکر و خیال کو ورغلایا کہ اس پر رحمت کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو گئے۔

37

لقمۂ دولت رسیدہ تا دہاں

از گلوئے او بریدہ ناگہاں

ترجمہ: جو لقمۂ دولتِ (ایمان) اس کے منہ تک پہنچ گیا تھا۔ اچانک اس نے حلق سے نکال لیا۔

مطلب: فرعون راہ راست پر آرہا تھا وزیر کے مشورے نے بہکا دیا، جس سے اپنی ساری زندگی عذاب کے لیے وقف کر دی۔

38

خرمنِ فرعون را داد او بباد

ہیچ شاہ را ایں چنیں صاحبِ مباد

ترجمہ: فرعون کے خرمن کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ پناہ بخدا، ایسا کسی کا مشیر نہ ہو۔

39

از چنیں ہمراہ بد دوری گزیں

زینہار اَللہُ اَعْلَمُ بِالْیَقِیْن

ترجمہ: ایسے دوست سے دوری اختیار کر۔ خبردار، یقینی بات خدا ہی جانتا ہے۔

مطلب: مولانا فرماتے ہیں کہ تم کو اس قصہ سے عبرت پکڑنی چاہیے اور برے ساتھی سے دور رہنا چاہیے، میری نصیحت پر پوری طرح کان دھرنا، فرعون کا واقعہ جس طرح ہم کو پہنچا ہے بیان کر دیا ہے۔ خدا ہی زیادہ جانتا ہے کہ واقعہ کیونکر ہوا؟

؎صحبتِ صالح ترا صالح کند

صحبتِ طالع ترا طالع کند