دفتر 4 حکایت 118: فرعون کا اپنے وزیر ہامان کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر ایمان لانے کے بارے میں مشورہ کرنا

حصہ دوم

دفتر چہارم: حکایت: 118

مشورت کردنِ فرعون با وزیرش ہامان در ایمان آرودن بموسیٰ علیہ الصّلوٰۃ والسّلام

فرعون کا اپنے وزیر ہامان کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر ایمان لانے کے بارے میں مشورہ کرنا

1

آں ستیزہ رو بسختی عاقبت

گفت با ہاماں برائے مشورت

ترجمہ: آخر اس سختی کے ساتھ جھگڑنے والے (فرعون) نے، مشورہ کرنے کی غرض سے ہامان سے کہا۔

2

وعدہائے آں کلیم اللہ را

گفت و محرم ساخت آں گمراہ را

ترجمہ: حضرت کلیم اللہ علیہ السّلام کے وعدوں کو (ہامان سے) بیان (بھی) کر دیا، اور اس گمراہ کو (اپنا) بھیدی (بھی) بنا لیا۔

3

گفت با ہاماں چو تنہایش بدید

جَست ہاماں و گربیان بردرید

ترجمہ: جب اس نے ہامان کو تنہا دیکھا تو (سارا معاملہ) اس کو کہہ سنایا۔ (سنتے ہی فرطِ جوش سے) اچھلا اور اس نے (اپنا) گریبان پھاڑ ڈالا۔ (اب اس شقی کی جادو آمیز حرکات، اور سحر آفریں باتیں سنو۔ جنہوں نے فرعون کا ستیا ناس کیا:)

4

بانگہا زد گریہا کرد آں لعین

کوفت دستار و کلہ را بر زمین

ترجمہ: اس ملعون نے نعرے مارے، اور رونا شروع کیا۔ دستار اور ٹوپی کو زمین پر دے مارا۔

5

کہ چگونہ گفت اندر روئے شاہ

ایں چنیں گستاخ آں حرفِ تباہ

ترجمہ: کہ ایسے گستاخ (شخص) نے وہ بری بات حضور کے سامنے کہی کیونکر؟

6

جملہ عالم را مسخر کردہ تو

کار را با بخت چوں زر کردہ تو

ترجمہ: حضور نے سارے جہان کو مسخر کر لیا ہے (اپنے) اقبال سے (سلطنت کے) کاروبار کو سونے کی طرح (درخشاں) کر لیا ہے۔

7

از مشارق وز مغارب بے لجاج

سوئے تو آرند سلطاناں خراج

ترجمہ: مشرقی ملکوں اور مغربی ملکوں سے سلاطین بلا عذر آپ کی طرف خراج لاتے ہیں۔

8

پادشاہاں لب ہمی مالند شاد

بر ستانۂ خاکِ تو اے کیقباد

ترجمہ: اے شاہ عالم جاہ! (تمام) بادشاہ آپ کی خاک آستانہ پر خوشی کے ساتھ لب ملتے ہیں۔

9

اسپ باغی چوں بہ بیند اسپِ ما

رو بگرداند گریزد بے عصا

ترجمہ: (دشمن) باغی کا گھوڑا جب ہمارے گھوڑے کو دیکھتا ہے، تو منہ پھیر لیتا ہے اور چابک کے بغیر بھاگ جاتا ہے۔

مطلب: دشمن کے سپاہیوں پر تو ہماری ہیبت طاری ہے ہی۔ ان سپاہیوں کے گھوڑے تک بھی ہمارے گھوڑوں سے ڈرتے ہیں، اور ان کو دیکھ کر ایسے نوک دم بھاگتے ہیں کہ چابک کی ضرورت نہیں۔ پھر تعجب ہے کہ آپ موسیٰ علیہ السّلام کی باتوں سے مرعوب ہو گئے۔

10

تا کنوں معبود و مسجودِ جہاں

بودۂ گردی کمینہ بندگان

ترجمہ: اب تک حضور تمام جہان کے معبود اور سجدہ گاہ رہے ہیں (معاذ اللہ!) کیا آپ حقیر ترین بندہ بن جائیے گا۔

11

در ہزار آتش شدن زیں خوشترست

کہ خداوندے شود بندہ پرست

ترجمہ: ہزار دوزخ میں پڑنا اس (ایمان) سے اچھا ہے کہ ایک آقا (اپنے) غلام کی پوجا کرنے لگے۔ (یہ کمبخت فرعون کو آقا اور موسیٰ علیہ السّلام کو بندہ ٹھہراتا ہے۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر ایمان لانے کو بندہ پرستی سے تعبیر کرتا ہے۔ اسی قسم کی تحقیر کے کلمات پہلے فرعون نے بھی کہے تھے۔ کما قال اللہ تعالٰی: ﴿وَ نَادٰى فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِهٖ قَالَ یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْكُ مِصْرَ وَ هٰذِهِ الْاَنْهٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْۚ - اَفَلَا تُبْصِرُوْنَؕ ۔ اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ هٰذَا الَّذِیْ هُوَ مَهِیْنٌ وَّ لَا یَكَادُ یُبِیْنُ ۔ فَلَوْ لَاۤ اُلْقِیَ عَلَیْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَآءَ مَعَهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ مُقْتَرِنِیْنَ﴾ (الزخرف: 51-53) ”اور فرعون نے اپنی قوم کے درمیان پکار کر کہا کہ: اے میری قوم! کیا مصر کی سلطنت میرے قبضے میں نہیں ہے؟ اور (دیکھو) یہ دریا میرے نیچے بہہ رہے ہیں۔ کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا؟ یا پھر مانو کہ میں اس شخص سے کہیں بہتر ہوں جو بڑا حقیر قسم کا ہے، اور اپنی بات کھل کر کہنا بھی اس کے لیے مشکل ہے۔ بھلا (اگر یہ پیغبر ہے تو) اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے؟ یا پھر اس کے ساتھ فرشتے پَر باندھے ہوئے کیوں نہ آئے؟“

12

نے بُکش اوّل مرا اے شاہ ہیں

تا نہ بیند چشمِ من بر شاہ ایں

ترجمہ: نہیں نہیں! اے بادشاہ! خبردار پہلے مجھے قتل کر ڈالو، تاکہ میری آنکھ بادشاہ کی یہ حالت نہ دیکھے۔

13

خسروا اوّل مرا گردن بزن

تا نہ بیند ایں مذلّت چشمِ من

ترجمہ: اے بادشاہ! پہلے میری گردن اڑا دے، تاکہ میری آنکھ یہ خواری نہ دیکھے۔

14

خود نبودست و مبادا ایں چنیں

کہ زمیں گردوں شود گردُوں زمیں

ترجمہ: ایسا کبھی ہوا ہی نہیں اور نہ ہونا چاہیے کہ زمین آسمان ہوجائے، اور آسمان زمین (یعنی آقا غلام بن جائے اور غلام آقا۔ قبطی قوم بنی اسرائیل سے غلامانہ خدمات لیتی تھی۔)

15

بندگانِ ماں خواجہ تاشِ ما شوند

بیدلانِ ماں دلخراشِ ما شوند

ترجمہ: ہمارے غلام ہمارے برابر کے (حریف) بن جائیں۔ ہم سے ڈرنے والے (الٹا) ہمارے دل کو چھیلنے لگیں۔

16

چشم روشن دشمناں با دوست کور

گشت ما را پس گلستان قعرِ گور

ترجمہ: دشمنوں کی آنکھ روشن ہو اور دوست کی (آنکھ) اندھی (پھر تو) باغ ہمارے لیے (گویا) قبر کی گہرائی ہے۔ (آگے مولانا ہامان کی باتوں کا جواب دیتے ہیں اور خوب دیتے ہیں، جس کے لفظ لفظ میں جلال و جبروت کی بجلیاں کوند رہی ہیں:)