حصہ دوم
دفتر چہارم: حکایت: 117
در بیانِ حدیث ”جُزْ یَا مُؤْمِنُ فَاِنَّ نُوْرَکَ اَطْفَأَ نَارِیْ“ از زبانِ دوزخ
دوزخ کی زبان سے یہ حدیث کہ ”اے مومن گزر جا کیونکہ تیرے نور نے میری آگ بجھا دی“
1
بگذر اے مومن کہ نورت مے کُشد
آتشم را چونکہ دامن مے کشد
ترجمہ: اے مومن گزر جا، کیونکہ تیرا نور میری آگ کو بجھا دیتا ہے، جب وہ (ناز کے ساتھ) دامن کھینچتا (ہوا آتا) ہے۔ (یہ پل صراط پر چلنے کے وقت کا معاملہ ہے۔)
2
مے رمد آں دوزخی از نور ہم
زانکہ طبعِ دوزخ استش اے صنم
ترجمہ: پیارے! (جس طرح دوزخ مومن کے نور سے متنفر ہے، اسی طرح) وہ دوزخی بھی (ہدایت کے) نور سے بھاگتا ہے، کیونکہ اس کی طبیعت دوزخ کی سی ہے۔
مطلب: یعنی دنیا میں کافر شقی نورِ ایمان سے متنفر ہے۔ اسی لیے فرعون اور ہامان اس نور کی طرف مائل نہ ہو سکے، اور یہ کیفیت دنیا ہی میں ہے۔ آخرت میں غفلت کا حجاب آنکھوں سے اٹھ جائے گا اور نور و نار کا تفاوت عیاں ہو جائے گا، تو وہی اس نور کی آرزو کریں گے چنانچہ۔ اللہ فرماتا ہے: ﴿يَوْمَ يَقُوْلُ الْمُنَافِقُوْنَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِيْنَ آمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِن نُّوْرِكُمْ قِيْلَ ارْجِعُوْا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا﴾ (الحدید: 13) یعنی ”اس دن جب منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے کہ: ذرا ہمارا انتظار کرلو کہ تمہارے نور سے ہم بھی کچھ روشنی حاصل کرلیں۔ ان سے کہا جائے گا کہ: تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ، پھر نور تلاش کرو۔“
3
دوزخ از مومن گریزد آنچناں
کہ گریزد مومن از دوزخ بجاں
ترجمہ: دوزخ مومن سے اس طرح بھاگتی ہے، جس طرح مومن دوزخ سے جان بچا کر بھاگتا ہے۔
4
زانکہ جنسِ نار نبود نورِ او
ضدّ نار آمد حقیقت نور جو
ترجمہ: کیونکہ اس کا نور آگ کی جنس سے نہیں ہوتا۔ طالبِ نور کی حقیقت آگ کی ضد ہے۔
5
در حدیث آمد کہ مومن در دعا
چوں اماں خواہد ز دوزخ از خدا
ترجمہ: حدیث میں آیا ہے کہ مومن جب (اپنی) دعا میں دوزخ سے خدا کی پناہ مانگتا ہے۔(تو)
6
دوزخ از وے ہم اماں خواہد بجاں
کہ خدایا دور دارم از فلاں
ترجمہ: تو دوزخ بھی جان (و دل) کے ساتھ اس سے پناہ چاہتی ہے کہ الٰہی مجھ کو فلاں (آدمی) سے دور رکھ۔
مطلب: مروی ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ: ”مَا اسْتَجَارَ عَبْدٌ منَ النَّارِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، إِلَّا قَالَتِ النَّارُ، يَا رَبِّ: إِنَّ عَبْدَكَ فُلَانًا قَدِ اسْتَجَارَ مِنِّيْ فَأَجِرْهُ۔۔الخ“ (ابو یعلٰی: 6192) یعنی ”جب کوئی بندہ دوزخ سے تین مرتبہ پناہی مانگتا ہے، تو دوزخ کہتی ہے کہ یا رب آپ کا فلاں بندہ نے مجھ سے پناہ مانگی ہے اس کو مجھ سے پناہ دے دیجئے“۔(منہج) آگے مولانا ارشاد ہدایت فرماتے ہیں:
7
جاذبہ جنسیت ست اکنوں بہ بیں
کہ تو جنسِ کیستی از کفر و دیں
ترجمہ: (غرض یہ) جنسیت کی کشش ہے۔ اب تم دیکھو کہ تم کفر و دین میں سے کس جنس سے ہو؟
8
گر بہاماں مائلی ہامانی
ور بموسیٰؑ مائلی سبحانی
ترجمہ: اگر تم ہامان کی طرف مائل ہو تو ہامان کی جنس ہو، اور اگر موسیٰ علیہ السّلام کی طرف مائل ہو۔ تو حق سبحانہٗ سے منسوب ہو۔
9
ور بہر دو مائلی انگیختہ
نفس و عقلی ہر دو آں آمیختہ
ترجمہ: اور اگر تو دونوں کی طرف مائل ہے تو تو نفس و عقل (دونوں) کا اکسایا ہوا ہے۔ (یعنی دونوں تجھے اپنی اپنی طرف راغب کرتے ہیں، اور) وہ دونوں تجھ میں مل جل رہے ہیں۔
10
ہر دو درجنگند ہاں و ہاں بکوش
تا شود بر نفس غالب عقل و ہوش
ترجمہ: دونوں باہم جنگ کر رہے ہیں، ہاں ہاں کوشش کرو تاکہ عقل و ہوش نفس پر غالب آ جائیں۔
11
ساغرِ صدق از کفِ موسیٰؑ بنوش
تا شود غالب معانی بر نقوش
ترجمہ: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے ہاتھ سے صدق کا پیالہ نوش کرو، تاکہ باطن ظاہری آثار پر غالب آ جائے۔ (کمالاتِ باطن کا اس قدر غلبہ ہو جائے کہ احوالِ ظاہر کی پروا نہ رہے۔)
12
در جہانِ جنگ شادی ایں بس ست
کہ بہ بینی بر عدو ہر دم شکست
ترجمہ: عالم مجاہدہ میں یہی مسرت (انگیز کامیابی) کافی ہے، کہ تم ہر وقت (اپنے) دشمن (نفسِ امّارہ) کو شکست یاب دیکھو۔ (کمالاتِ باطن کا حصول، نفس کی شکست کا مترادف ہے۔)
13
جہد کن تا خصمت اشکستہ شود
گرچہ فرعونے دنی ایں نشنود
ترجمہ: کوشش کرو تاکہ تمہارا دشمن شکست یاب ہو، اگرچہ کوئی فرعون (طبع) کمینہ (آدمی) یہ (بات) نہ سنے (مگر تم سن کر اس پر عمل کرو۔)
14
ایں حدیث آمد دراز و ناگزیر
باز گو اضلالِ فرعون و مشیر
ترجمہ: یہ کہانی لمبی ہو گئی اور (ایسا ہونا) ناگزیر تھا، کیونکہ بعض ضروری مباحث چھڑ گئے۔ اب تم فرعون اور اس کے مشیر کا (ایک دوسرے کو) گمراہ کرنا بیان کرو۔ (ہامان کا فرعون کو گمراہ کرنا تو ظاہر ہے۔ فرعون کا ان کو گمراہ کرنا اس لحاظ سے ہے کہ اس نے ہامان کا گمراہ کن مشورہ سنا تو ہامان کو کفر پر اور جرات ہوگئی۔ اگر فرعون ایمان لے آتا اور اس کا مشورہ نہ لیتا، تو شاید شاہی رعب سے وہ بھی ایمان لے آتا۔)