دفتر 4 حکایت 116: اس عورت کا قصہ جس کا بچہ پرنالے کے اوپر بیٹھا تھا اور اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تدبیر پوچھی

حصہ دوم

دفتر چہارم: حکایت: 116

قصۂ آں زن کہ طفلِ او بر سرِ ناو داں مے غژید و از علی رضی اللہ عنہ چارہ جست

اس عورت کا قصہ جس کا بچہ پرنالے کے اوپر بیٹھا تھا اور اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تدبیر پوچھی

1

یک زنے آمد بہ پیشِ مرتضٰیؓ

گفت شد بر ناوداں طفلے مرا

ترجمہ: ایک عورت علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ کے پاس آئی اور کہا، میرا ایک بچہ پرنالے پر جا چڑھا ہے۔

2

گرش میخوانم نمی آید بدست

ور ہلم ترسم کہ او افتد بہ پست

ترجمہ: اگر میں اس کو بلاتی ہوں تو ہاتھ نہیں آتا، اگر چھوڑتی ہوں تو ڈرتی ہوں کہ وہ نیچے گر پڑے گا۔

3

نیست عاقل تاکہ دریابد چو ما

گر بگویم کز خطر سوئے من آ

ترجمہ: اگر میں اس کو کہتی ہوں کہ (بچہ) خطرے (کے مقام) سے (نکل کر) میری طرف آ جا، تو وہ با شعور نہیں کہ ہماری طرح سمجھ جائے۔

4

ہم اشارت را نمی داند بدست

ور بداند نشنود ایں ہم بدست

ترجمہ: وہ ہاتھ کے اشارے کو بھی نہیں سمجھتا، اور اگر سمجھتا ہے تو سنتا نہیں۔ یہ بھی بری بات ہے۔

5

پس نمودم شیر و پستاں را بدو

او همی گرداند از من چشم و رو

ترجمہ: میں نے اس کو بہتیرا دودھ اور پستان دکھایا، مگر وہ مجھ سے آنکھیں اور منہ پھیر لیتا ہے۔

6

از برائے حق شمائید اے مہاں

دستگیرِ ایں جہاں و آں جہاں

ترجمہ: خدا کے لیے یا حضرت! آپ اس جہان اور اگلے جہان (میں ہم سب کے) دستگیر ہیں۔

7

زود درمان کن کہ مے لرزد دلم

کہ بدرد از میوۂ دل بگسلم

ترجمہ: جلدی کوئی تدبیر کیجئے، کیونکہ میرا دل لرز رہا ہے، کہ کہیں دردمندی کے ساتھ مجھے اپنے میوۂ دل سے ہاتھ نہ دھونے پڑیں۔

8

گفت طفلے را برآور ہم ببام

تا بہ بیند جنسِ خود را آں غلام

ترجمہ: (حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ) نے فرمایا کہ ایک اور بچے کو بھی کوٹھے پر چڑھا دے، تاکہ وہ لڑکا اپنی جنس کو دیکھے۔

9

سوئے جنس آید سبک زاں ناوداں

جنس بر جنس ست عاشق جاوداں

ترجمہ: وہ فوراً اس پرنالے پر سے اپنی جنس کی طرف آ جائے گا۔ کیونکہ جنسی اپنی جنس پر ہمیشہ عاشق ہے۔

10

زن چناں کرد و چو دید آں طفلِ او

جنسِ خود خوش خوش بدو آورد رو

ترجمہ: عورت نے ایسا ہی کیا اور جب اس کے بچے نے اپنی جنس دیکھی تو خوشی خوشی اس کی طرف متوجہ ہوا۔

11

سوئے بام آمد ز متنِ ناوداں

جاذبِ ہر جنس را ہم جنس داں

ترجمہ: پرنالے کی پیٹھ سے (اٹھ کر) کوٹھے کی طرف آیا۔ ہر جنس کے کشش کرنے والے کو ہم جنس سمجھو۔

12

غژ غژاں آمد بسوئے طفل طفل

وارہید از اوفتادن سوئے سِفل

ترجمہ: بچہ گھٹنوں کے بل چلتا ہوا بچے کی طرف آ گیا (اور) نیچے گرنے سے بچ گیا۔

13

زاں شدستند از بشر پیغمبراں

تا بجنسیِّت رہند از ناوداں

ترجمہ: اسی لیے تو پیغمبر انسانوں (کی جنس) سے (مبعوث) ہوئے ہیں، تاکہ لوگ (ان کے) ہم جنس ہونے کی وجہ سے (دوزخ کے) ناودان سے نجات پائیں۔ (یعنی لوگ پیغمبروں کو ہم جنس دیکھ کر ان کا اتباع کریں، جس طرح بچہ بچے کو دیکھ کر اس کی طرف آ گیا۔)

14

پس بَشَر فرمود خود را مثْلُکُمْ

تا بجنس آیَند و کم گردند گُم

ترجمہ: جبھی تو انہوں نے اپنے بارے میں فرمایا کہ میں تم ہی کا سا آدمی ہوں۔ تاکہ لوگ (اپنی) جنس کی طرف رجوع کریں اور گم نہ ہوں۔

مطلب: اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحٰى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلٰهُكُمْ إِلٰهٌ وَّاحِدٌ﴾ (الکھف: 110) ”کہہ دو کہ: میں تو تمہی جیسا ایک انسان ہوں (البتہ) مجھ پر یہ وحی آتی ہے کہ تم سب کا خدا بس ایک خدا ہے۔“ یعنی پیغمبر اپنی بشریت کا اظہار اس لیے کرتے ہیں کہ لوگوں کو جنسیت کی کشش مائل باتباع کر دے، اور یہی ان کی بعثت سے مقصود ہے۔

15

زانکہ جنسیت عجائب جاذبے ست

جاذبِ جنس ست ہرجا طالبے ست

ترجمہ: کیونکہ ہم جنس ہونا عجیب کشش کرنے والا ہے، جہاں طالب ہے وہ اپنی جنس کو کشش کرنے والا ہے۔

16

عیسیٰؑ و ادریسؑ بر گردوں شدند

با ملائک چونکہ ہم جنس آمدند

ترجمہ: حضرت عیسیٰؑ اور حضرت ادریس علیہما السّلام چونکہ ملائکہ کے ہم جنس تھے، اس لیے آسمان پر چڑھ گئے (جو ملائکہ کا مقام ہے۔)

مطلب: اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ دونوں پیغمبر ملائکہ میں سے تھے نہیں، انسان ہی تھے مگر ملائکہ کے ساتھ ان کو خاص مناسبت تھی، کیونکہ جنسیت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ذاتی دوسرے عارضی۔ جنسیت ذاتی، جیسے ایک انسان کی دوسرے انسان کے ساتھ، یا ایک فرشتے کی دوسرے فرشتے کے ساتھ۔ اور جنسیت عارضی ایک جنس کے کسی فرد پر دوسری جنس کے بعض اوصاف غالب ہوں تو کہا جائے گا کہ اس میں دوسری قسم کی جنسیت ہے۔ ان دونوں پیغمبروں کی جنسیت ملائکہ سے دوسری قسم کی جنسیت مراد ہے، کیونکہ ان کی کثافت پر نورانیت غالب تھی۔ چنانچہ منقول ہے کہ حضرت ادریس علیہ السّلام نے سولہ سال تک کھانے پینے میں ریاضت کی۔ جس سے ان کو ارواحِ مقدسہ کی جنسیت حاصل ہو گئی۔ اسی جنسیت کی بدولت ان کو ﴿وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا﴾ (مریم: 57) کا درجہ حاصل ہوا، اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نفخۂ جبرائیل علیہ السّلام سے پیدا ہوئے ہیں، اس لیے بڑی حد تک کثافتِ بشریت سے محفوظ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں حضرات چوتھے آسمان پر اٹھا لیے گئے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج میں چوتھے آسمان پر ان سے ملاقات فرمائی۔

سوال: اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ حضرت عیسٰی اور حضرت ادریس علیہما السّلام تمام پیغمبروں سے افضل ہوں کیونکہ ان پر ملکیت غالب ہے؟ باقی تمام پیغمبروں پر بشریت کا غلبہ ہے، حالانکہ تمام پیغمبروں سے افضل اور سب کے سردار حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور حضرت ادریس علیہ السلام کا شمار تو اولو العزم پیغمبروں میں بھی نہیں، بلکہ وہ رسول بھی نہیں نبی ہیں۔ فکیف الجواب؟

جواب: کسی پیغمبر کی ذات میں بشریت کے بجائے ملکیت کا غالب ہونا اس کے مطلقاً افضل ہونے کے سبب نہیں ہو سکتا۔ مطلقاً افضل ہونا تب لازم آئے کہ ملائکہ مطلقاً بشر سے افضل ہوں، وَلَیْسَ کَذَالِکْ۔ بلکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ”رُسُلُ الْبَشَرْ اَفْضَلُ مِنْ رُسُلِ الْمَلَائِکَۃِ وَ عَامَۃُ الْبَشَرْ اَفْضَلُ مِنْ عَامَۃِ الْمَلَائِکَۃِ“ یعنی ”انسان کے پیغمبر ملائکہ کے پیغمبروں سے افضل ہیں اور عام انسان عام ملائکہ سے افضل ہیں۔“ (عقائد نسفی) انسان کے ملائکہ پر افضل ہونے کی قوی دلیل یہ ہے کہ حق تعالٰی نے خلافتِ ارضی کے لیے انسان کا انتخاب فرمایا، اور ملائکہ کو اس کی درخواست کرنے کے باوجود اس منصب کے اہل نہیں سمجھا، بلکہ بروئے امتحان انسان کو اس اہلیت میں فرشتوں پر فائق ثابت کردیا۔ یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ فرشتے نورانی مخلوق ہونے کی وجہ سے افضل ہیں، اور انسان خاکی مخلوق ہونے کی وجہ سے ان سے کم مرتبہ ہے کیونکہ خلقتِ انسان میں خاک ہی وہ جزو ہے جس کی بدولت اس کو تمام کائنات پر شرف حاصل ہوا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ انسان کی افضلیت کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔

ایں دولت انسان را بواسطہ جزوِ ارضی میسر شدہ است، و قلب کہ عرش اللہ گشتہ است، بدولتِ عنصرِ خاک است کہ جامع کل ست، مرکز دائرہ امکان بلے زمین از پستی و بے سری ایں ہمہ علو و رفعت پیدا کردہ است، و فروتنی او را سر بلند ساختہ ”مَنَ تَوَاضَعَ لِلہِ رَفَعَہُ اللہُ تَعَالٰی“ (مکتوبات شریفہ, دفتر دوم, مکتوب: 12)

”انسان کو یہ دولت اس کے جزوِ خاکی کی بدولت حاصل ہوئی ہے، از قلب جو اللہ تعالٰی کا عرش بن گیا ہے۔ عنصرِ خاک کی بدولت ہے جو جامع کل ہے، اور دائرہ امکان کا مرکز ہے، کیوں نہ ہو زمین نے یہ تمام بلندی و بزرگی پستی و بے سری سے حاصل کی ہے، اور فروتنی نے اس کو سربلند کیا ہے۔ ”جو شخص اللہ کے لیے توضع کرے اللہ اس کو بلند کرتا ہے۔“

ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ شائبہ ظلّیت کے بغیر جو تجلی ہوتی ہے وہ عرش کے بعد خاص کامل انسانوں کا حصہ ہے، اور دوسروں کے لیے ظلیت دامنگیر ہے۔ پھر آگے چل کر ارشاد ہے: بالجملہ ہمہ مدارِ ایں معاملہ جزوِ ارضی ست امورِ دیگر در رنگِ تحسیناتِ زائدہ است (مکتوب 11)

”غرض اس معاملہ کا بڑا مدار جزوِ ارضی پر ہے، دوسرے امور زائد آرائیشات کے رنگ میں ہیں“۔ اس سے ظاہر ہے کہ انسان تجلی کی ایک ایسی دولت سے بہرہ مند ہے جس میں عرش کے سوا اور کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں، اور اس دولت کا مدار سب سے زیادہ اس کے جزوِ ارضی پر ہے، بلکہ ایک طرح سے یہ جزوِ ارضی انسان کو عرش پر بھی فوقیت دلا رہا ہے: در انسان دو چیز اندکہ عرش ندارد، و عالم کبیر را ازاں نصیب نیست، در انسان جزوِ ارضی ست کہ در عرش نیست و ہیئتِ وحدانی کہ در عالم کبیر نیست۔ یعنی ”انسان میں دو چیزیں ہیں جو عرش نہیں رکھتا، اور عالمِ کبیر کو ان سے حصہ نہیں ملا۔ انسان میں جزوِ ارضی ہے کہ جو عرش میں نہیں، اور ہیئتِ وحدانی ہے جو عالم کبیر میں نہیں۔“

17

باز آں ہاروت و ماروت از بلند

جنسِ تن بودند ازاں زیر آمدند

ترجمہ: پھر وہ ہاروت و ماروت (چونکہ) اجسام کے (ہم) جنس تھے، اس لیے (آسمانوں کی) بلندی سے (زمین پر) اتر آئے۔ (ہاروت و ماروت کے قصے کی تنقید، اور مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے اس کو ذکر کرنے کی توجیہ مفصلاً اس شرح کے پہلے حصے میں گزر چکی ہے۔)

18

صد ہزاراں خوئے بد آموختہ

دیدہ ہائے عقل و دل بر دوختہ

ترجمہ: انہوں نے (شیطانوں سے) لاکھوں بری عادتیں سیکھ لیں، عقل اور دل کی آنکھیں بند کر لیں۔

19

کمتریں خوشاں بُدستے ایں حسد

آں حسد کہ گردنِ ابلیس زد

ترجمہ: ان کی کم سے کم بری خصلت حسد ہے۔ وہ حسد جس نے ابلیس کو (روحانی موت سے) ہلاک کیا۔ (ابلیس نے حضرت آدم علیہ السّلام پر حسد کیا، اس لیے وہ ملعون ہو کر روحانی موت سے ہلاک ہو گیا، اگرچہ اپنے عنصری وجود کے لحاظ سے زندہ ہے۔)

20

زاں سگاں آموختہ حِقد و حسد

کہ نخواہد خلق را ملکِ ابد

ترجمہ: (کافروں نے) ان کتوں (یعنی شیطانوں) سے کینہ اور حسد سیکھ لیا، جو مخلوق کے لیے (قربِ حق کی) ابدی بادشاہی گوارا نہیں کرتے۔ (شیطان کو انسان کے خلیفۃ اللہ اور مقربِ حق ہونے پر حسد ہے۔ اس لیے وہ اس کی دشمنی پر تلا رہتا ہے۔ یہی حال کافروں کا ہے، وہ بھی مقربان حق کے حاسد ہیں۔)

21

ہر کرا دید او کمال از چپ و راست

از حسد قولنجش آمد درد خواست

ترجمہ: وہ (شیطان) جو دائیں بائیں کسی کو باکمال دیکھتا ہے، تو حسد کا قولنج اس کے پیٹ میں درج پیدا کر دیتا ہے۔ (”قولنج“ کے مرض میں آنتوں کے اندر رکاوٹ پڑ جانے سے سخت درد ہوتا ہے۔)

22

زانکہ ہر بدبخت خرمن سوختہ

می نخواہد شمع کس افروختہ

ترجمہ: کیونکہ جس بدبخت کا خرمن (اعمال) جل چکا، وہ کسی کی شمع (کمال) روشن (ہوتی دیکھنا) نہیں چاہتا۔ (آگے نصیحت فرماتے ہیں:)

23

بیں کمالے دست آدر تا تو ہم

از کمالِ دیگراں نُفتی بغم

ترجمہ: ہاں ہاں! کوئی کمال حاصل کرو، تاکہ تم بھی دوسروں کے کمال سے غم میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔

کما قیل ؎

کسب کمال کن کہ عزیزِ جہاں شوی

کس بے کمال ہیچ نیرزد عزیزِ من

24

از خدا مے خواہ دفعِ ایں حسد

تا خدایت وارہاند زیں حسد

ترجمہ: اس (ناپاک عادت یعنی) حسد کے دفع کے لیے خدا سے دعا مانگو، تاکہ خدا تم کو اس سے نجات دلا سکے۔

25

مر ترا مشغولیے باشد دروں

کہ نہ پردازی ازاں سوئے بروں

ترجمہ: تم کو (خدا کے فضل سے) باطن کی مشغولی (حاصل) رہے، تاکہ تم ادھر باہر کے جھگڑوں میں مشغول نہ ہو۔

26

جرعۂ مے را خدا آں مے دہد

کہ بداں مست از دو عالم مے رہد

ترجمہ: شراب کی ایک گھونٹ کو خداوند تعالٰی وہ (خاصیت) بخشتا ہے کہ اس کا مست دونوں جہانوں سے چھوٹ جاتا ہے۔ (اسی طرح باطن کا مست دنیا کے جھگڑوں بکھیڑوں سے الگ تھلگ رہتا ہے۔)

27

خاصیت بنہادہ در کفِ حشیش

کو زمانے مے رہاند از خودیش

ترجمہ: ایک مٹھی بھر بھنگ میں وہ خاصیت رکھی ہے، کہ وہ تھوڑی دیر میں اس کو ہستی سے باہر کر دیتی ہے۔

28

خواب را یزداں بدانساں مے کند

کز دو عالم فکر را برمیکند

ترجمہ: خواب کو حق تعالٰی نے ایسا بنایا، جو دونوں جہانوں کے فکر کو نکال ڈالتا ہے۔

29

کرد مجنوں را ز عشق پوستے

کو نہ بشناسد عدو از دوستے

ترجمہ: مجنوں کو لیلٰی کی (گوری چٹی) کھال کے عشق میں ایسا (مست) بنا دیا، کہ وہ (غلبۂ مستی) میں دوست دشمن میں تمیز نہیں کر سکتا۔ (کھال کے عشق سے یہ مراد ہے کہ وہ صورتِ ظاہر کا عاشق تھا، اور یہ عشق مجازی کہلاتا ہے۔)

30

صد ہزاراں ایں چنیں مے دارد او

کہ بر ادراکاتِ تو بگمارد اُو

ترجمہ: اسی طرح وہ لاکھوں (استغراق و بے خودی کے احوال، اپنے قبضۂ قدرت میں) رکھتا ہے، جن کو تیرے ہوش و حواس پر طاری کر دیتا ہے۔ (اور وہ بے خودی کے احوال اچھے برے ہر طرح کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ:)

31

ہست مَیہائے شقاوت نفس را

کہ ز راہ بیروں برد آں نحس را

ترجمہ: (بدبختی کے نشے نفس کے لیے ہیں، جو اس منحوس کو گمراہ کر دیتے ہیں۔)

32

ہست مَیہائے سعادت عقل را

کہ بیابد منزلِ بے نقل را

ترجمہ: خوش نصیبی کے نشے عقل سے مخصوص ہیں، جو (سعادتِ ابدی کی) غیر متغیر منزل کو پہنچ جاتی ہے۔

33

خیمۂ گردوں ز سرمستیِ خویش

برکند زاں سو بگیرد راہِ پیش

ترجمہ: وہ اپنی سرمستی سے آسمان کے خیمے کو اکھیڑ ڈالتی ہے، اور اس کے پار آگے نکل جاتی ہے۔ (ذکر و مراقبہ کی کثرت سے جب لطائف ترقی و عروج کرتے ہیں۔ تو اپنے اصول یعنی عرش تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر سالک اس سے آگے بھی ترقی کرتا ہے۔ اِلَّا مَاشَاءَ اللہ)

34

ہیں بہرِ مستی دلا غرّہ مشو

ہست عیسیٰؑ مستِ حق خرمست جو

ترجمہ: اے دل ہر قسم کی مستی سے دھوکہ نہ کھا، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام حق تعالٰی کے (مشاہدہ سے) مست ہیں، اور گدھا جو (کی دھن) کا مست ہے۔

35

ایں چنیں مَے را بخور زیں خُنبہا

مستیش نبود ز کوتہ دنبہا

ترجمہ: ایسی شراب (جس میں عشقِ الہٰی کی مستی ہو) انہی مٹکوں سے نوش کرو۔ اس کی مستی گدھوں کا حصہ نہیں۔ (بزرگانِ دین کی صحبت سے یہ مستی حاصل ہوتی ہے، نا اہل اس سے مستفید نہیں ہوتے، یا ”کوتاہ دم“ سے شیخ ناقصین مراد ہیں یعنی یہ مستی ان کی صحبت سے حاصل نہیں ہوتی۔)

36

زاں کہ ہر معشوق چوں خنب است پُر

آں یکے دُرد دگر صافی ز دُر

ترجمہ: کیونکہ ہر معشوق خم کی طرح (مستی افزاء کیفیت سے) پُر ہے (مگر سب کی خاصیت یکساں نہیں ہوتی۔ چنانچہ) وہ ایک گدلی شراب ہے، اور دوسری موتی کی سی صاف۔ (مشائخ کی صحبت میں کیفیات عموماً یکساں ہوتی ہیں، مگر یہ سب کے کامل ہونے کا معیار نہیں۔ بعض ملاحدہ کے اندر بھی تصرفات کی طاقت ہوتی ہے۔ اس لئے:)

37

مے شناسا ہیں بچش با احتیاط

تا مَے یابی منزہ ز اختلاط

ترجمہ: اس شراب کو شناخت کرنے والے خبردار! احتیاط کے ساتھ نوش کر، تاکہ تو (مطلوبہ) شراب کو (ضلالت کی) آمیزش سے پاک پائے۔

38

مے شناسا ہیں بچش اے رُو ترش

آں مے صافی کزاں گردی خمش

ترجمہ: اس شراب کو شناخت کرنے والے! اے ترش رو! وہ صاف شراب نوش کر، جس سے تو خاموش ہو جائے (کَمَا قِیْلَ۔ ع۔ آں را کہ خبر شد خبرش باز نیامد)

39

ہر دو مستی مے دہندت لیک ایں

مستیت آرد کشاں تا ربّ دیں

ترجمہ: دونوں (قسم کی شرابیں یعنی صاف اور گندلی جس سے ہدایت بخش اور ضلالت آموز صحبتیں مراد ہیں) تجھے مستی بخشتی ہیں، لیکن یہ (ہدایت بخش شراب کی) مستی تجھے کھینچ کر پروردگار دین کی طرف لاتی ہے۔

40

تا رہی از فکر و وسواس و حیل

بے عقال عقل در رقص الجمل

ترجمہ: تاکہ تو (دنیا کے فضول) تفکرات اور وسواس اور (ان) حیلوں سے چھوٹ جائے (جو تو دنیا کی) بکر کود میں عقل کی قید سے آزاد (ہو کر کر رہا) ہے۔

انتباہ: پیچھے یہ ذکر تھا کہ ہر چیز اپنی جنس کی طرف مائل ہوتی ہے۔ پھر کفار کے ہم جنس شیطان ہونے کے ذکر سے یہ بات چل پڑی کہ وہ ان سے حسد سیکھتے ہیں۔ پھر حسد کے علاج میں محبت الٰہی کی شراب کا ذکر شروع ہو گیا تھا، اب مولانا پھر اسی جنسیت کے مضمون کی طرف عود فرماتے ہیں:

41

انبیاءؑ چوں جنس روح اند و ملک

مر ملک را جذب کردند از فلک

ترجمہ: انبیاء علیہم السلام چونکہ ارواح اور ملائکہ کے ہم جنس ہیں (اس لیے) انہوں نے ملائکہ کو آسمان سے کھینچ بلایا۔ (جو ان پر وحی و الہام لاتے ہیں۔)

42

باد جنسِ آتش ست و یارِ او

کہ بود آہنگِ ہر دو بر علُو

ترجمہ: ہوا آگ کی ہم جنس اور اس کی رفیق ہے، کیونکہ دونوں کا میلان اوپر کو ہے۔

43

چوں بہ بندی تو سَرِ کوزہ تہی

درمیانِ حوض یا جوئے نہی

ترجمہ: (چنانچہ جب تم ایک خالی کوزہ کا منہ بند کر دو (اور) اس کو حوض یا نہر میں رکھ دو۔

44

تا قیامت او فرو ناید بہ پست

کہ دلش خالیست در وے باد ہست

ترجمہ: تو وہ قیامت تک نہیں ڈوبے گا، کیونکہ وہ اندر سے خالی ہے (اور) اس میں ہوا ہے۔

45

میلِ بادش سوئے بالا بود

ظرفِ خود را ہم سوئے بالا کشد

ترجمہ: چونکہ اس کی ہوا کا میلان اوپر کو ہے (اس لیے) وہ اپنے ظرف کو بھی اوپر کو کھینچتی ہے۔

46

باز آں جانہا کہ جنسِ انبیاست

سوے ایشاں کش کشاں چوں سایہاست

ترجمہ: پھر وہ جانیں جو (اپنی سعادت کے لحاظ سے) انبیاء علیہم السّلام کی ہم جنس ہیں، وہ (بھی) سایہ کی طرح انہی کی طرف کھینچی (چلی آتی) ہیں۔

47

زانکہ عقلش غالب ست او بے ز شک

عقلِ جنس آمد بخلقت با ملک

ترجمہ: کیونکہ اس کی عقل غالب ہے اور بلاشبہ عقل پیدائش میں فرشتوں کی ہم جنس ہے۔

48

واں ہوائے نفس غالب بر عدو

نفس حبسِ اسفل آمد شُہ بدو

ترجمہ: اور (بخلاف اس کے) وہ خواہش نفسانی (دین کے) دشمن (یعنی کافر) پر غالب ہے، کیونکہ نفس ادنٰی (خواہشوں) کا پابند ہے، اس پر تھو!!!

49

بود قبطی جنسِ فرعونِ ذمیم

بود سبطی جنس موسائے کلیم

ترجمہ: قبطی فرعون قابلِ مذمت کی جنس سے تھا۔ اسرائیلی حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السّلام کی جنس سے تھا (”سبط“ کے معنٰی فرزند، اس سے اکثر سبطِ یعقوب مراد ہوتے ہیں۔ یعنی بنی اسرائیل، اب جنسیت کے بیان کا اصل مقصد آتا ہے۔

50

بود ہاماں جنس مر فرعون را

برگزیدش بُرد تا صدرِ سرا

ترجمہ: ہامان (چونکہ) فرعون کا ہم جنس تھا (ظاہراً قبطی ہونے کے لحاظ سے بھی، اور باطناً اہل شقاوت ہونے کے اعتبار سے بھی، اس لیے) اس کو مشورہ کے لیے پسند کیا، اور گھر کے بالا نشین تک لے گیا۔

51

لاجرم از صدر در قعرش کشید

کہ ز جنسِ دوزخ اند آں دو پلید

ترجمہ: اس لیے (ہامان) اس کو تخت سے قعرِ (جہنم) میں کھینچ لے گیا، کیونکہ دونوں ناپاک (آدمی) دوزخ کی جنس سے ہیں۔

52

ہر دو سو زندہ چو دوزخ ضدِّ نور

ہر دو چوں دوزخ ز نورِ دل نفور

ترجمہ: دونوں جلتے ہوئے دوزخ کی مانند نور کی ضد ہیں۔ دونوں دوزخ کی طرح باطنی نور سے متنفر۔ (آگے دوزخ کے نور سے متنفر ہونے کی وجہ بیان فرماتے ہیں:)

53

زانکہ دوزخ گوید اے مومن تو زُود

برگذر کہ نورت آتش را ربود

ترجمہ: کیونکہ دوزخ کہے گی اے مومن! مجھ پر سے جلدی گزر جا کیونکہ تیرے نور نے (میری) آگ بجھا دی۔ (یہ اس حدیث کا مضمون ہے، جو آگے آتی ہے۔)