حصہ دوم
دفتر چہارم: حکایت: 115
مثل در باز پادشاہ و یک پیرِ زن کہ در خانۂ او بود
بادشاہ کے باز اور بڑھیا عورت کی مثال جس کے گھر میں وہ باز تھا
1
بازِ اسپیدے بکم پیرے دہی
او ببرّد ناخنش بہرِ بہی
ترجمہ: تو (گویا) سفید باز (جو بڑا قیمتی ہوتا ہے، تو) ایک بڑھیا کو دے رہا ہے۔ (اور) وہ بہتری کے خیال سے اس کے ناخن کاٹ ڈالتی ہے۔ (یہ مثال دلچسپ پیرایہ میں اور نہایت تفصیل کے ساتھ دفتر دوم کے آغاز میں گزر چکی ہے۔ اس لیے اس کو اجمالاً ذکر کیا ہے، وہ مقام مفتاح العلوم کی پانچویں جلد میں واقع ہوتا ہے۔)
2
ناخنے کہ اصل کارست و شکار
کوژ کم پیرے ببرد کور وار
ترجمہ: وہ ناخن جو (باز کے) کارنامہ اور شکار مارنے کا خاص سامان ہیں، کبڑی بڑھیا اندھے کی طرح کاٹ ڈالتی ہے۔
3
کہ کجا بودست مادر کہ ترا
ناخناں زینساں درازست اے کیا
ترجمہ: مادر کہتی ہے کہ اے بھلے مانس! (تیری) ماں کہاں گئی تھی؟ جو تیرے ناخن یوں لمبے ہو رہے ہیں (اور اس نے تراشے نہیں۔)
4
ناخن و منقار و پرش را برید
وقتِ مہر ایں مے کند زالِ پلید
ترجمہ: (پھر) اس نے اس (باز) کے ناخن، چونچ اور پَر کاٹ ڈالے۔ (اور) پلید بڑھیا محبت کے وقت بھی کیا کرتی ہے۔
5
چونکہ تتماجش دہد او کم خورد
خشم گیرد مہرہا را بردرد
ترجمہ: پھر وہ جب اس کو خمیری کڑھی (کھانے کو) دیتی ہے اور وہ کھاتا نہیں، تو خفا ہوتی ہے اور جنون (کے ورق کو) چاک کر دیتی ہے۔
6
کہ چنیں تتماج پختم بہرِ تو
تو تکبر مے نمائی و عتو
ترجمہ: (اور کہتی ہے) میں نے تو تیرے لیے ایسی (اچھی) کڑھی پکائی اور تو اس کے کھانے سے تکبر اور سرکشی کرتا ہے۔
7
تو سزائی مر ہماں ادبیر را
نعمت و اقبال کے سازد ترا
ترجمہ: تو کسی بدبختی کے لائق ہے (کہ تیرے ناخن لمبے اور چونچ ٹیڑھی ہے۔ یہ) نعمت اور اقبال (یعنی پروں پنجوں کی اصلاح اور کھانے کو کڑھی) تیرے موافق کہاں ہے؟ (”ادبیر“ بیائے مجہول ”ادبار“ کا امالہ ہے۔)
8
آبِ تتماجش دہد کایں را بگیر
گر ہمی خواہی کہ نوشی ایں فطیر
ترجمہ: (پھر) اس کو کڑھی کا پانی دیتی ہے کہ یہ لے، اگر تو چاہتا ہے کہ اس بے خمیر کو نوش کرے۔ (”فطیر“ اس روٹی کو کہتے ہیں جو خمیری نہ ہو۔)
9
آبِ تتماجش نگیرد طبعِ باز
زال تر رنجد شود خشمش دراز
ترجمہ: (تو) باز کی طبیعت اس سے کڑھی کا پانی بھی قبول نہیں کرتی۔ بڑھیا زیادہ ناراض ہوتی ہے، (اور) اس کا غصہ طول پکڑ جاتا ہے۔
10
از غضب آں آبِ سوزاں بر سرش
زن فرو ریزد شود گل مغفرش
ترجمہ: آخر (وہ بوڑھی) عورت غصے سے (بے تاب ہو کر) وہ کھولتا ہوا پانی اس کے سر پر گرا دیتی ہے، اور (اس کی جلن سے) اس (باز) کا سر گنجا ہو جاتا ہے۔ (”مغفر“ خَود کو کہتے ہیں۔ جو ایک لوہے کی ٹوپی ہوتی تھی، جسے جنگ میں پہنتے تھے، یہاں سر مراد ہے۔)
11
اشک ازاں چشمش فرو ریزد ز سوز
یاد آرد لطفِ شاہِ با فروز
ترجمہ: مارے درد کے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ وہ پُر انوار بادشاہ کی مہربانی کو یاد کرتا ہے۔ (جس کے ہاتھ پر بیٹھا کرتا تھا۔)
مطلب: اصل مقصد اس تمثیل سے یہ ہے کہ کافر لوگ خاصانِ حق کے مراتب کو نہیں سمجھتے۔ جس طرح اس کم پیر نے باز کی منزلت اور اس کے پنجہ و منقار کو نہ سمجھا۔ آگے اس کم پیر کا باز کی خاطرداری کرنا، مگر اس کی خاطرداری کا باز کے لیے سازگار و مناسب نہ ہونا جو ذکر کیا ہے تو اس سے مقصد یہ ہے کہ گو کفار عام حالتوں میں خاصانِ خدا کے دشمن ہی ہوتے ہیں، لیکن اگر بالفرض وہ ان کے خیر خواہ بن کر ان کی خاطرداری بھی کرنے لگیں، تو وہ بھی دشمنی کے مترادف ہوگی۔ جس طرح کفارِ مکہ نے باہم مشورہ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کرنی چاہی، اور بقیاسِ خود یہ سمجھے کہ شاید اس شخص کو جاہ و حکومت یا مال و دولت حاصل کرنے کا شوق ہے، اس لیے اپنی ایک خاص جماعت مرتب کر رہا ہے لہٰذا بہتر یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ اس کے ساتھ جنگ و جدال کر کے فتنہ و فساد کو ترقی دی جائے اس کے ساتھ صلح کر لی جائے۔ اس بنا پر ان لوگوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا۔ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) اگر تجھ کو جنون کا مرض ہے تو ہم تیرا علاج کرانے اور اس کے لیے جس قدر روپیہ خرچ ہو کرنے کو تیار ہیں۔ اگر تو کسی حسین عورت سے نکاح کرنے کا شائق ہے، تو شہر بھر کی حسین عورتوں کو تیرے سامنے لاکھڑا کرتے ہیں، جس کو چاہے اپنے لیے انتخاب کر لے۔ اور اگر تجھ کو مال و دولت کا شوق ہے، تو تیرے سامنے چاندی سونے کا ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ اور اگر تجھ کو حکومت و سرداری مرغوب ہے تو آج سے ہم تجھے اپنا سردار مان لیتے ہیں، مگر تو ہمارے بتوں کو باطل اور ہمارے باپ دادا کو کافر نہ کہو۔ ظاہر ہے کہ ان کفار کی یہ خاطر نوازیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بغض و عداوت سے بدتر تھیں، کیونکہ وہ لوگ آپ کے درجے سے بے خبر اور آپ کے مقصد سے نا بلد تھے، اسی طرح یہ کم پیر باز کی قدر نہیں سمجھتی تھی، اور اسی طرح فرعون و ہامان بھی اگر موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ صلح و ساز گاری کرنا چاہتے تو ان کی شرائطِ صلح اعلانِ جنگ سے بدتر ہوتیں۔ آگے پھر یہ فرماتے ہیں کہ خاصانِ حق جب عوام نا قدر شناس کی بے ہودہ خاطرداری سے ہوتے ہیں، تو ان کو آبدیدہ ہونا پڑتا ہے۔
12
زاں دو چشمِ نازنینِ پر دلال
کہ ز چہرہ شاہ دارد صد کمال
ترجمہ: (وہ باز آنسو بہاتا ہے) ان دو نازنین و پر غمزدہ آنکھوں سے، جو بادشاہ کے چہرہ (کے دیدار) سے سینکڑوں کمال رکھتی ہیں۔
13
چشمِ ما زاغش شدہ پر زخمِ زاغ
چشمِ نیک از چشمِ بد با درد و داغ
ترجمہ: اس کی وہ آنکھ جو (بادشاہ کے دیدار سے) ادھر ادھر پھرنے والی نہ تھی (اب) کوے کی ٹھونگوں کے زخموں سے چور تھی، اور فی الواقع اچھی آنکھ بری آنکھ سے درد و داغ سہتی ہے۔
مطلب: پہلے مصرعہ میں آیت: ﴿مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰی﴾ (النجم: 17) یعنی ”(پیغمبرؑ کی) آنکھ نہ تو چکرائی اور نہ حد سے آگے بڑھی۔“ کی طرف تلمیح ہے۔ اور ”زاغ“ کے لفظ کے ساتھ تجنیس پُر لطف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو خاصانِ خدا ہر وقت مشاہدۂ حق میں مستغرق ہیں وہ جہّال و کفار کے طعن و تشنیع سے دل برداشتہ رہتے ہیں، آگے باز کی آنکھ کے ذکر سے اہل اللہ کاملین کی چشمِ نظر کی طرف انتقال فرماتے ہیں:
14
چشمِ دریا بسطتے کز بسطِ او
ہر دو عالم مے نماید تارِ مُو
ترجمہ: وہ سمندر کی وسعت والی آنکھ، جس کی وسعت کے آگے دونوں جہان بال کے تار (کے برابر) نظر آتے ہیں۔
15
گر ہزاراں چرخ در چشمش رود
ہمچو چشمہ پیشِ قلزم گم شود
ترجمہ: اگر ہزاروں آسمان ان کی آنکھ میں داخل کر دیے جائیں، تو چشمہ کی طرح (جو) سمندر کے آگے (مات ہو جاتا ہے) گم ہو جائیں۔
16
چشم بگذشتہ ازیں محسوسہا
یافتہ از غیب بینی بوسہا
ترجمہ: وہ آنکھ جو ان محسوسات سے ترقی کر چکی ہے، اور مشاہدۂ غیب سے لذت گیر ہے۔ (”بوسہا“ جمع بوسہ کنایہ ہے لذت سے۔)
17
خود نمی یابم یکے گوشے کہ من
نکتۂ گویم ازاں چشمِ حسن
ترجمہ: میں خود ایک کان ایسا نہیں پاتا، کہ (جس سے) میں اس اچھی آنکھ کے متعلق ایک نکتہ بھی بیان کروں (اور وہ سن سکے۔)
18
مے چکد آں آب محمودِ جلیل
مے ربودے قطرہ اش را جبرئیل
ترجمہ: غرض، اس آنکھ سے وہ مبارک و شاندار آنسو بہتے، تو ان کے قطرہ کو جبرئیل علیہ السلام اٹھا لیتے۔
19
تا بمالد در پرّ و منقارِ خویش
گر دہد دستوریش آں خوب کیش
ترجمہ: حتّٰی کہ اگر وہ پاک سیرت اجازت دے دیتے، تو جبرئیل علیہ السّلام (اس قطرۂ اشک کو) اپنے پروں اور چہرے پر مل لیتے۔
مطلب: باز و کم پیر کی تمثیل میں خاصانِ خدا اور ان کے مخالفین کا ذکر ہو رہا ہے۔ یعنی کم پیر نے باز کے ساتھ انتہائی بدسلوکی کی تو وہ رونے لگا، اس سے مراد یہ ہے کہ جب جہلا خاصانِ خدا کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں، اور وہ بارگاہِ رب العزت میں اشکبار ہوتے ہیں، تو ان کے یہ آنسو اس قدر گراں قدر ہوتے ہیں کہ روح الامین بھی ان کو اٹھا لینے اور اپنے پروں اور چہرہ پر مل لینے کے متمنی ہیں۔ ”منقار“ کا لفظ پروں کی مناسبت سے بطور مشاکلہ کہہ دیا۔ غرض خاصانِ حق کی گریہ و زاری اس قدر قابلِ احترام ہے کہ کہا گیا ہے۔ ”اِنَّ الْمُحِبِّیْنَ وَ بُکَاءَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ اَحَبُّ اِلَی اللہِ مِنْ تَسْبِیْحِ الْمَلَائِکَۃِ“ یعنی ”عاشقانِ خدا کی آہ و فغان، اور اہلِ استغفار کی گریہ و زاری، اللہ کے نزدیک ملائکہ کی تسبیح سے زیادہ محبوب ہے۔“ آگے پھر انہی بزرگانِ دین کے جاہلوں کے ہاتھوں اذیّت اٹھانے کا ذکر باز و کم پیر کی تمثیل میں ہو رہا ہے:
20
باز گوید خشمِ کم پیر ار فروخت
فرّو نور و صبر و حلمم را نسوخت
ترجمہ: باز کہتا ہے کہ اگر بڑھیا کا غصہ مجھ پر بھڑک اٹھا تو آخر اس نے میرے اقبال، نور، صبر اور حلم کو تو نہیں پھونک ڈالا۔
کما قیل؎
سنگِ خارا اگر آئینہ چینی بشکست
قیمتِ سنگ نیفزاید و ایں کم نشود
پرِّ ہما بباید فرِ ہما نباید
قصاب اگر بہندی بسمل کند ہما را
21
بازِ جانم باز صد صورت تند
زخم بر ناقہ نہ بر صالح زند
ترجمہ: میری روح کا باز پھر سینکڑوں صورتیں بنا لے گا۔ (قتل و جرح کا) زخم ناقد پر لگتا ہے نہ کہ صالح پر۔
مطلب: اگر کفار کسی بزرگ اہل اللہ کو اپنی تیغِ جفا سے قتل بھی کر دیں تو کوئی پروا نہیں۔ وہ شہید ہوں گے اور شہداء زندہ، بلکہ زندوں سے بہتر ہیں، خدا کی بارگاہ میں رزق پاتے اور ہنسی خوشی رہتے ہیں۔ دشمنوں کا وار ان کے جسمِ عنصری پر کارگر ہوتا ہے، روح سلامت رہتی ہے اور اس کو جسمِ مثالی حاصل ہوتا ہے، جو سینکڑوں باتوں میں جسمِ عنصری سے اچھا ہے۔ جسمِ عنصری کو ”ناقہ“ سے، اور روح کو ”صالح“ سے تشبیہ دی ہے۔ یا یہ مطلب ہے جیسے کہ صاحب منہج نے لکھا ہے کہ اگر دشمنوں نے ہمارا جسم مضروب و مجروح کر دیا ہے تو کیا غم ہے؟ ہم صلاح و تقویٰ کی سینکڑوں مثالیں رکھتے ہیں، جن سے ہمارے اعزاز و جلال کی سینکڑوں صورتیں متصور ہوسکتی ہیں۔ یہ اذیت ہمارے جسم تک محدود ہے۔ ہماری روح ان تمام اذیتوں سے محفوظ اور گوناگوں کرامات و تصرفات کی مظہر ہے۔ چنانچہ:
22
صالح ار یک دم کہ آرد با شکوه
صد چناں ناقہ بزاید متنِ کوہ
ترجمہ: صالح (روح) اگر ایک پر شوکت پھونک مار دے، تو پہاڑ کی چٹان سے ایسے سو ناقہ (اجسام) نکل پڑیں (چونکہ سرِ ولایت اور رازِ تکوین کی باتیں ناقابلِ اظہار ہیں، اس لیے اب مولانا متنبہ ہو کر فرماتے ہیں:)
23
دل همی گوید خموش و ہوشدار
ورنہ درانید غیرت پود و تار
ترجمہ: دل کہتا ہے کہ خاموش رہو اور ہوش میں آؤ (ان اسرار پر لب کشائی نہ کرو) ورنہ غیرتِ (الہٰیہ تمہارا) تانا بانا ادھیڑ (کر رکھ دے گی۔)
24
غیرتش را ہست صد حلمِ نہاں
ورنہ سوزیدے بیکدم صد جہاں
ترجمہ: اس کی غیرت کے اندر سینکڑوں حلم مخفی ہیں، ورنہ وہ لمحہ میں سینکڑوں جہانوں کو پھونک ڈالتا۔ (آگے پھر فرعون کے ذکر کا سلسلہ چلتا ہے:)
25
نخوتِ شاہی گرفتش جائے پند
تا دلِ خود را ز پندِ او کرد بند
ترجمہ: نصیحت کے بجائے بادشاہ کے غرور نے اس کو مجبور کر لیا، حتّٰی کہ اس نے اپنے دل کو نصیحت (کی طرف توجہ کرنے) سے روک لیا۔
26
کہ کنم یار اے ہاماں مشورت
کوست پشت ملک و قطبِ مقدرت
ترجمہ: (اور ارادہ کیا) کہ میں ہامان کی رائے سے مشورہ کروں گا، کیونکہ وہ ملک کی پشت و پناہ اور (شاہی) اقتدار کا صدر (اعظم) ہے۔ (آگے مولانا فرماتے ہیں کہ ہر شخص اسی قسم کے انسان کی طرف رجوع کرتا ہے جو سعادت یا شقاوت میں اس کا ہم جنس ہو، لہٰذا وہ آسیہ کی کب ماننے لگا تھا؟ ہامان کی مان کر رہے گا:)
27
مصطفٰیؐ را رائے زن صدیقِ رب
رائے زن بوجہل را شد بو لہب
ترجمہ: (کیوں نہ ہو) مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشیر (حضرت ابو بکر ہیں، جو) پروردگار کے صدیق ہیں۔ اور ابو جہل کا مشیر ابو لہب ہے۔
ع۔ وزیرے چنیں شہر یارے چناں
28
عرقِ جنسیت چنانش جذب کرد
کاں نصیحت ہابہ پیشش گشت سرد
ترجمہ: ہم جنسی کی رگ نے اس کو (ہامان کی طرف) ایسا کھینچا کہ (آسیہ کی) وہ تمام نصیحتیں اس کے آگے ٹھنڈی پڑگئیں۔
29
جنس سوئے جنس صد پرَّہ پرد
بر خیالش بندہا را بردرد
ترجمہ: جنس اپنی جنس کی طرف سینکڑوں پروں کے ساتھ اڑ کر جایا کرتی ہے، (اور) اس کے خیال کے سامنے سے (تمام) رکاوٹوں کو دور کر دیتی ہے۔ (یعنی اپنی جنس کا خیال اس کے دل میں اس قدر جا گزیں ہوتا ہے، کہ کوئی بات اس میں مزاحم نہیں ہو سکتی، اس کی تائید میں ایک قصہ ارشاد ہے:)