دفتر 4 حکایت 114: فرعون کا ایمان لانے کے متعلق (اپنی بیوی) آسیہ کے ساتھ مشورہ کرنا

حصہ دوم

دفتر چہارم: حکایت: 114

مشورت کردنِ فرعون با آسیہ در ایمان آوردن

فرعون کا ایمان لانے کے متعلق (اپنی بیوی) آسیہ کے ساتھ مشورہ کرنا

1

باز گفت او ایں سخن با آسیہ

گفت جاں افشاں بر ایں اے دل سیہ

ترجمہ: پھر اس نے یہ بات بی بی آسیہ سے کہی۔ تو انہوں نے کہا، اے سیاہ دل! اس بشارت پر جان قربان کر دے۔ (کہ ایک بات کے بدلے چار انعام ملتے ہیں۔)

2

بس عنایتہاست متنِ ایں مقال

زود دریاب اے شہِ نیکو خصال

ترجمہ: اس گفتگو کا موضوع بڑی عنایات ہیں۔ اے خوش خصال بادشاہ! جلدی (ان کو) حاصل کرو۔ (اوپر فرعون کو سیاہ دل اس کے سابقہ اعمال کی بنا پر کہا، اور اب موسیٰ علیہ السّلام کی باتوں پر غور و مشورہ کرنے کے لحاظ سے خوش خصال کہا۔ فَلَا تَعَارُضَ۔)

3

وقتِ کشت آمد زہے پُر سود کشت

ایں بگفت و گریہ کرد و گرم گشت

ترجمہ: کھیتی کا وقت آ گیا، واہ واہ کتنی پُر نفع کھیتی! اتنا کہا اور رونے لگیں، اور (آتشِ شوق سے) گرم ہوگئیں۔

4

بر جہید از جا و گفتا بَخَّ لَکَ

آفتابے تاج گشتت اے کلک

ترجمہ: (پھر آسیہ فرطِ مسرت کے ساتھ اپنی) جگہ سے اچھل پڑی، اور بولی آہا! لے اے گنجے! سورج تیرے سر کا تاج بن گیا۔ (جس کی پُر نور کرنیں تیرے سر کے عیب کو ڈھک لیں گے۔ یعنی رحمتِ خدا کے سائے میں تیرے معاصی چھپ جائیں گے، فرعون کے سر کے بال اڑے ہوئے ہوں گے۔ جیسے کہ اکثر بڑی عمر میں اڑ جاتے ہیں، بیوی نے بے تکلفی میں اس لحاظ سے گنجا کہہ دیا۔ اور یہاں اس سے معیوب بعیوبِ معاصی مراد ہے۔)

5

عیب کل را خود بپوشاند کلاہ

خاصہ چوں باشد کلہ خورشید و ماہ

ترجمہ: (تماشہ یہ ہے کہ خود) عیب (ہی) گنجے کو تاج پہنا رہا ہے۔ خصوصاً جب (خود) سورج اور چاند تاج ہو (تو اور بھی باعث حیرت ہے۔ یعنی گنہگار جب گناہوں سے توبہ کر کے مستحقِ مغفرت ہو جائے تو گویا اس کے گناہ باعثِ خیر ہو گئے۔)

6

ہمدراں مجلس کہ بشنیدی تو ایں

چوں نگفتی آرے و صد آفریں

ترجمہ: اسی مجلس میں جہاں تو نے یہ بات سنی تھی، ہاں اور صد آفریں کیوں نہ کہہ دی؟ (مشورہ پر اس کو موقوف کیوں رکھا؟)

7

ایں سخن در گوشِ خورشید ار شُدے

سرنگوں بر بوئے ایں زیر آمدے

ترجمہ: یہ بات اگر آفتاب کے کان میں پڑ جاتی، تو وہ اس کے شوق میں سر جھکائے ہوئے نیچے (زمین پر) اتر آتا۔

8

ہیچ مے دانی چہ وعدہ است و چہ داد

مے کند ابلیس را حق افتقاد

ترجمہ: کچھ تجھے معلوم بھی ہے (کہ یہ) کیسا (عجیب) وعدہ ہے، اور کیسا (اعلٰی) انعام ہے۔ (یوں سمجھو کہ فرعون کے ساتھ نہیں، بلکہ) ابلیس کے ساتھ حق تعالٰی مہربانی کر رہا ہے۔ (جو بالکل غیر متوقع اور غنیمت ہے۔)

9

چوں بدیں لطف آں کریمت باز خواند

اے عجب چوں زُہرہ ات بر جائے ماند

ترجمہ: جب اس خداوندِ کریم نے تجھ کو اس مہربانی کے ساتھ دعوت دی۔ تو تعجب ہے، تیرا جگر سلامت رہا (شدتِ اشتیاق یا غلبۂ ذوق سے پھٹ نہ گیا۔)

10

زہرہ ات ندرید تازاں زہرہ ات

مے رسیدے در دو عالم بہرہ ات

ترجمہ: تیرا جگر (شدتِ اشتیاق یا وفارِ ذوق) سے پھٹ نہ گیا۔ تاکہ اس جگہ (کے پھٹنے) سے تجھے (اپنے ذوق و شوق کے ثمرات کا) دونوں جہانوں میں حصہ ملتا۔

11

زہرۂ گر بہرِ حق او بر درد

چوں شہیداں از دو عالم بر خورد

ترجمہ: کوئی جگر اگر خدا کی رضا کے لیے پھٹ جائے تو (صاحبِ جگر) دونوں جہانوں میں شہیدوں کی طرح پھل کھائے۔ (عقبیٰ میں قربِ خدا دنیا میں ذکرِ خیر۔)

12

غافلی ہم حکمت ست و نعمت ست

تا نپرَّد زود سرمایہ ز دست

ترجمہ: (تو نے جو اس دعوتِ الہٰیہ سے غفلت کی تو بے شک کسی حد تک) غفلت بھی (داخلِ) حکمت اور نعمت ہے۔ تاکہ (شدتِ احساسات سے) نظامِ عالم کا سرمایہ جلدی (فنا ہو کر) ہاتھ سے نہ جاتا رہے۔

مطلب: ایک مقولہ مشہور ہے کہ ”لَوْلَا الْحُمَقَاءُ لَخَرَبَتِ الدُّنْیَا“ یعنی ”اگر احمق لوگ نہ ہوتے تو دنیا برباد ہو جاتی“ یعنی اگر تمام طبائع میں احساس و تاثیر کی قابلیت بدرجہ غایت ہوتی، تو تکالیف حال اور تفکراتِ مستقبلِ عامہ بشر کے لیے سوہانِ روح ہو جاتے، اور دنیا کا عشرت کدہ ماتم خانہ ہوتا۔ اس لیے خداوند تعالٰی نے اپنی حکمت سے ایک غفلتِ عالم کا حجاب سب پر ڈال رکھا ہے۔ جس کے نشے میں لوگ ہر قسم کی گرم و سرد حالتوں کو جھیلتے اور سہتے زندگی بسر کر رہے ہیں، اور اس طرح کارخانۂ عالم چل رہا ہے۔ جس حد تک نظام عالم کے قائم کی مصلحت متقاضی ہے اتنی غفلت تو اچھی ہے، لیکن اگر حد سے زیادہ غفلت بڑھ جائے حتّٰی کہ عاقبت کی پروا نہ رہے، پیغمبروں کے ساتھ استہزاء کی سوجھے، اور خدا کے ساتھ کفر و جحود تک نوبت پہنچے، تو ایسی غفلت مہلک اور موجب شقاوت ہے۔ چنانچہ آگے یہی بات فرماتے ہیں:

13

غافلی ہم حکمت ست و ایں عمٰی

تا بماند لیک تا ایں حد چرا

ترجمہ: اے (فرعون! بے شک) غفلت بھی (کسی حد تک) حکمت ہے، اور یہ قلتِ بصارت ابھی مبنی بر مصلحت ہے تاکہ دنیا قائم رہے، لیکن (تیری غفلت) اس حد تک کیوں ہے؟ (کہ تو خدا کی دعوت کو قبول کرنے میں بھی اگر مگر کر رہا ہے۔)

14

لیک نے چندانکہ نا سورے شود

زہرِ جان و عقل رنجورے شود

ترجمہ: لیکن نہ اس قدر (غفلت اچھی ہے) کہ وہ (وجودِ روح کے لیے نا قابلِ علاج) ناسور بن جائے۔ ایک (امراض معاصی کی) مریض روح و عقل کے لیے زہر بن جائے (کہ پہلے تو دو گناہوں سے بیمار تھی، پھر کفر سے ہلاک ہی ہو جائے۔)

15

خود کہ یابد ایں چنیں بازار را

کہ بیک گل مے خری گلزار را

ترجمہ: (بھلا) ایسا (پُر نفع) بازار کس کو نصیب ہو سکتا ہے؟ کہ تو ایک پھول کے عوض باغ (کا باغ) خرید لے۔

16

دانۂ را صد درختاں عوض

حبّۂ را آمدت صد کاں عوض

ترجمہ: ایک دانہ کے عوض سینکڑوں درخت (ہوں۔) ایک دانہ چاندی کے عوض تجھے چاندی سونے کی سینکڑوں کانیں ملیں۔ (آگے اس استعارہ کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں:)

17

کَانَ لِلّٰہِ دادنِ آں حبّہ است

تاکہ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ آید بدست

ترجمہ: اس حبہ کے دینے سے مراد یہ ہے کہ ”اللہ کا ہو جائے۔“ تاکہ یہ (درجہ) ہاتھ آ جائے کہ اللہ اسکا ہو گیا۔

مطلب: ایک حدیث ہے ”مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ“ (لم اجد) یعنی ”جو اللہ کا ہو جائے اللہ اس کا ہو جاتا ہے۔“ یعنی جو شخص اللہ کی رضا کے لیے اپنا وجود نثار کر دے۔ اللہ تعالٰی اس کو اپنی رحمت میں مستغرق کر لیتا ہے، بفحوائے ”مَنْ اَحَبَّنِیْ قَتَلْتُہٗ وَمَنْ قَتَلْتُہٗ فَانَا دِیَّتُہٗ“ (لم اجد) یعنی ”جو شخص میرا عاشق ہو میں اس کو قتل کر دیتا ہوں اور جس کو میں قتل کروں پس میں اس کا خون بہا ہوں۔“ بی بی آسیہ کہتی ہے اے فرعون! تو اپنا وجود جو اپنی حقارت میں بمنزلۂ دانہ ہے حوالہ بخدا کر دے، پھر خدا تجھ پر بڑا مہربان ہو گا۔ آگے اس کی تعلیل فرماتے ہیں:

18

زانکہ ایں ہوئے ضعیفِ بے قرار

ہست شد زاں ہُوئے ربِّ پائیدار

ترجمہ: کیونکہ (تیری) یہ کمزور و ناپائیدار ہستی پروردگار کی پائیدار ہستی کی بدولت (ہی) وجود میں آئی ہے۔

مطلب: اوپر جو کہا تھا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں اپنے آپ کو فنا کر دے، وہ باقی ببقاء اللہ ہو جاتا ہے۔ یہاں اس کی تعلیل فرماتے ہیں۔ یعنی یہ اس لیے ہے کہ بندے کی ہویت ضعیف و غیر ثابت ہے، اور حق تعالٰی کی ہویت کے ساتھ وجود میں آئی ہے جو ہمیشہ باقی ہے۔ پس جب بندہ اپنی ہویت کو فنا کر دے تو صرف حق تعالٰی کی ہویت قائم رہے گی۔ آگے فرماتے ہیں:

19

ہوئے فانی چونکہ خود با او سپرد

گشت باقی دائم و ہرگز نمرد

ترجمہ: جب فانی ہستی نے اپنے آپ کو اس کے حوالہ کر دیا، تو ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گئی اور ہرگز نہ مریگی۔ (آگے اس مضمون کو ایک مثال میں بسط کے ساتھ واضح فرماتے ہیں:)

20

ہمچو قطرہ خائف از باد و ز خاک

کہ فنا گردد بدیں ہر دو ہلاک

ترجمہ: جس طرح ایک قطرہ (جو) ہوا (میں اڑ جانے) اور خاک (میں جذب ہو جانے) سے ڈرتا ہے، کہ ان دونوں سے فنا و ہلاک ہو جائے گا۔

21

چوں باصلِ خود کہ دریا بود جست

از تفِ خورشید و باد و خاک رست

ترجمہ: جب وہ اپنے اصل کے ساتھ جو سمندر تھا جا ملا۔ تو سورج کی گرمی اور ہوا اور مٹی (کی تعدّی) سے بچ گیا۔ (فارسی میں ”دریا“ سمندر کو کہتے ہیں اور دریا کو ”ردد۔“)

22

ظاہرش گم گشت در دریا ولیک

ذاتِ او معصوم و پا بر جاست نیک

ترجمہ: بظاہر وہ سمندر میں نابود ہو گیا، لیکن اس کی شخصیت محفوظ اور بخوبی قائم ہے۔

مطلب: انسان کا وجود موہوم بمنزلہ قطرہ ہے، جب تک یہ قطرہ ہوائے نفسانی اور ترابِ جسمانی میں گرفتار ہے اس کو ہلاک کا اندیشہ ہے، جس طرح قطرہ آب و ہوا و تراب سے فنا ہو جاتا ہے، لیکن جب وہ اپنے اصل کے ساتھ جا ملے جس سے بحرِ حقیقت مراد ہے تو وہ ہوائے نفس اور ترابِ جسم سے نجات پا جاتا ہے، اور قطرہ سے بحر بن جاتا ہے۔ یہی مطلب ہے اس کا کہ ”کُنْتُ بِسَمْعِہٖ وَ بَصَرِہٖ“ شیخ اکبر فرماتے ہیں ”وَ لَا بُدَّ مِنْ اِثْبَاتِ عَیْنِ الْعَبْدِ فِی الْفَنَاءِ فِی اللہِ وَ حِیْنَئِذٍ یَصِحُّ اَن یَّکُوْنَ الْحَقُّ سَمْعَہٗ وَ بَصَرَہٗ وَ لِسَانَہٗ وَ یَدَہٗ فَیَعُمُّ قَوَاہُ وَ جَوَارَحَہٗ بِھَوِیَّتِہٖ عَلَی الْمَعْنَی الَّذِیْ یَلِیْقُ بِہٖ وَ یُلْحِقُ بِطَائِفَۃٍ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ“ یعنی ”فنا فی اللہ میں عبد کی شخصیت کا قائم رہنا ضروری ہے۔ اور اسی صورت میں یہی صحیح ہے کہ حق تعالٰی اس کی شنوائی، بینائی، زبان اور ہاتھ ہو۔ اس معنٰی میں جو اس کے لائق ہے۔ پس وہ اس کے قویٰ و جوارح پر اپنی ہویت کے ساتھ چھا جائے اور عبدانِ خاصانِ خدا کی جماعت میں شامل ہو جائے، جن کو کوئی خوف یا غم نہیں“۔(منہج)

23

ہیں بدہ اے قطرہ خود را بے ندم

تا بیابی در بہائے قطرہ یم

ترجمہ: ہاں اے قطرے! بلا خجلت اپنے آپ کو حوالہ کر دے، تاکہ تو قطرہ کے عوض میں سمندر کو حاصل کرے۔ (یعنی اس خجلت سے اپنے آپ کو حوالہ کرنے سے جھجک، کہ شاید مجھ حقیر کو قبول نہ کرے۔)

24

ہیں بدہ اے قطرہ خود را ایں شرف

در کفِ دریا شو ایمن از تلف

ترجمہ: ہاں اے قطرے! اپنے آپ کو اس فضیلت کا حقدار بنا لے۔ سمندر کے قبضے میں (جا کر ہلاک سے بے خوف ہو جا۔)

25

خود کرا آمد چنیں دولت بدست

قطرہ را بحرے تقاضا گر شدست

ترجمہ: ایسی دولت بھلا کس کو ہاتھ آتی ہے، کہ سمندر کو بلانے لگے۔

26

چوں تقاضا مے کند دریا ترا

پس چہ اِستادی و درماندی ہلا

ترجمہ: ارے! جناب سمندر تجھ کو بلا رہا ہے، تو کیوں کھڑا ہے اور ٹھٹھک رہا ہے؟ (چل دے نا۔)

27

اللہ اللہ زود بفروش و بخر

قطرۂ دہ بحر پُر گوہَر ببر

ترجمہ: اللہ اللہ جلدی (اپنی فقیر ہستی کو) فروخت کر اور (بقائے دوام) خرید لے۔ قطرہ دے ڈال (اور) موتیوں سے بھرا ہوا سمندر لے جا۔ (”اللہ اللہ“ تعجب کے موقع پر بولتے ہیں۔)

28

اللہ اللہ ہیچ تاخیرے مکن

کہ ز بحرِ لطف آمد ایں سخن

ترجمہ: اللہ اللہ کچھ تاخیر نہ کر، کیونکہ لطف (و کرم) کے سمندر سے یہ پیغام آیا ہے۔

29

اللہ اللہ زود بشتاب و بجو

چونکہ بحرِ رحمت ست ایں نیست جو

ترجمہ: اللہ اللہ جلدی دوڑ اور تلاش کر، جب کہ یہ رحمت کا سمندر ہے، نہر نہیں۔

30

اللہ اللہ گوئے شو بیدست و پا

تا شود چوگانِ موسیٰؑ پا ترا

ترجمہ: اللہ اللہ ہاتھ پاؤں کے بغیر گیند (کی طرح تیز رو ہو جا، تاکہ موسیٰ علیہ السّلام کی چوگان (ہدایت) تیرا پاؤں بن جائے۔ (اور تو منزلِ نجات کی طرف چلنے لگے۔)

31

اللہ اللہ تو گمانِ بد مبر

بر چنیں انعامِ عام اے بے خبر

ترجمہ: اللہ اللہ اے بے خبر! تو اس وسیع انعام پر بدگمانی نہ کر۔

32

اللہ اللہ زود در یاب اے فتٰی

تا نگردی در غلط بینی فنا

ترجمہ: اللہ اللہ اے جوان! جلدی (موقع سے) فائدہ اٹھا، تاکہ غلط بینی سے فنا نہ ہو جائے۔

33

اللہ اللہ ترک کن ہستیِ خود

چونکہ خواندستت برو اے معتمد

ترجمہ: اللہ اللہ اپنی ہستی چھوڑ دے۔ جب اس نے تجھ کو بلایا ہے تو اے معتمد! چلا جا۔

34

اللہ اللہ زود تر تعجیل کن

بر فروز ازیں اشارت بے سخن

ترجمہ: اللہ اللہ جلدی عجلت سے کام لے۔ اس اشارہ سے پُر نور بن جا، جو تکلّم سے بےنیاز ہے۔

35

اللہ اللہ تا کنوں کژ باختی

گردن اندر معصیت افراختی

ترجمہ: اللہ اللہ اب تک تو ٹیڑھا کھیل کھیلتا رہا، گناہگاری میں گردن بلند کرتا رہا۔

36

اللہ اللہ چوں عنایت در رسید

بے توقف در وے آمیز اے عنید

ترجمہ: اللہ اللہ جب عنایتِ (الہٰیہ) آن پہنچی، تو اے دشمن! تو بلا توقف اس سے جا مل۔

37

اللہ اللہ چونکہ عصیانہائے تو

در نمی مالد برویت شکر گو

ترجمہ: اللہ اللہ جب تیرے گناہ تیری رسوائی کے باعث نہیں ہوئے، تو شکر کر (”بررُو مالیدن“ کنایہ ہے رسوائی و خواری سے۔)

38

اللہ اللہ چوں ز فضلت راہ داد

سر بخاکِ پائے او باید نہاد

ترجمہ: اللہ اللہ جب اس نے (اپنے) فضل سے تجھ کو راستہ دے دیا، تو اس کی خاکِ پا پر سر رکھنا چاہیے۔

39

اللہ اللہ با چنیں کفرِ دو تو

چوں قبولت مے کند اکرامِ او

ترجمہ: اللہ اللہ ایسے دوہرے کفر کے باوجود، اس کا فضل تجھ کو قبول کیونکر کر رہا ہے؟

40

لطف اندر لطفِ او گم مے شود

کاسفلے بر چرخِ ہفتم مے شود

ترجمہ: (1) (میری) خوشحالی اس کی مہربانی کے ساتھ گھل مل رہی ہے، کہ ایک ادنٰی (بندہ) ساتویں آسمان پر عروج کر رہا ہے۔

(2) اس کی مہربانی کے اندر مہربانی سما رہی ہے، کہ ایک ادنٰی (بندہ) ساتویں آسمان پر عروج کر رہا ہے۔

مطلب: پہلا ترجمہ بایں اعتبار کیا گیا کہ پہلے لطف سے فرعون کا دنیوی دولت و اقبال مراد ہو، اور موسیٰ علیہ السّلام کی دعوت پر لبیک کہنے سے جو دینی عظمت و رفعت اس کو حاصل ہونے والی ہے، وہ دوسرا لطف ہو۔ جس کے ساتھ پہلا لطف اول اسفلیت کا مظہر نہیں ہے، بلکہ وہ ایک شانِ عالی کے معنٰی رکھتا ہے۔ اس مشکل کو ملحوظ رکھ کر دوسرا ترجمہ کیا گیا۔ اگر ذوق اس کو قبول کر سکے۔

41

ہیں کہ یک بازے فتادت بوالعجب

ہیچ طالب ایں نیابد در طلب

ترجمہ: یاد رکھ! ایک عجیب باز تیرے قابو میں آ رہا ہے۔ جس کو کوئی تلاش کرنے والا (بھی) تلاش سے نہ پا سکے۔ (توفیقِ الہٰی دستگیری کر رہی ہے۔ یہ دولت ہر شخص کو نہیں ملتی۔)

42

در پذیر ایں چار خلعت زُود زُود

تا بہ بینی در عوض صد عز و سود

ترجمہ: یہ چار خلعتیں فوراً قبول کر لے، تاکہ تجھ کو سینکڑوں عزتیں اور فوائد عوض میں ملیں۔ (حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعوت جو بمنزلۂ خلعت ہے، اس کو قبول کرنے سے عزت و نفعِ کثیر حاصل ہو گا۔)

43

گفت با ہاماں بگویم اے سنیر

شاہ را لازم بود رائے وزیر

ترجمہ: فرعون بولا! ارے مستورہ بی بی! میں اس کا ذکر ہامان سے کروں گا۔ بادشاہ کو وزیر کی رائے لینی لازم ہے۔

44

گفت با ہامان مگو ایں راز را

کوز کم پیرے چہ داند باز را

ترجمہ: (بی بی آسیہ نے کہا) ہامان سے یہ راز بیان نہ کرنا۔ کبڑی بڑھیا کیا جانے باز کو؟ (آگے مولانا اس قصے کو بیان فرماتے ہیں:)