حصہ دوم
دفتر چہارم: حکایت: 113
معنٰیِ حدیث ”مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ الصَّفَرِ بَشَّرْتُہٗ بِالْجَنَّۃِ“ (قال الملا علي القاري: لا أصل له ، الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة بتحقیق محمد الصباغ ، ص:337، :473)
اس حدیث کے معنٰی ”کہ جو شخص مجھ کو ماہ صفر کے ختم ہونے کی بشارت دے میں اس کو جنت کی بشارت دوں گا“
1
احمدِؐ آخر زمان را انتقال
در ربیع الاوّل آمد بے جدال
ترجمہ: آخری زمانے کے (نبی حضرت) احمد (مجتبٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کا انتقال بلاشبہ (ماہ) ربیع الاول میں ہوا ہے۔
مطلب: ”بے جدال“ سے یہ مقصود ہے کہ علمائے اہلِ سنت میں اس کے متعلق اختلاف نہیں ہے، ہاں شیعہ لوگ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ماہِ صفر میں بتاتے ہیں تو وہ صحیح نہیں، کیونکہ ربیع الاوّل کی تاریخ تو تواتر اور متفق علیہ روایات سے ثابت ہے۔ اسکے متعلق اہلِ تحقیق میں کوئی اختلاف و جدال نہیں، اگر کوئی غیر محقق فرقہ اس کا منکر ہو تو اس کا اعتبار نہیں۔
2
چونکہ واقف شد دلش از وقتِ نقل
عاشقِ آں وقت گردید او بعقل
ترجمہ: جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قلبِ مبارک انتقال کے وقت سے واقف ہوا تو آپ بتقاضائے عقل اس وقت کے مشتاق ہو گئے۔
3
چوں صفر آمد شود شاد از صفر
کہ پس ایں ماہ مے سازم سفر
ترجمہ: جب ماہ صفر آیا، تو آپ اس سے بہت خوش ہوئے، کہ اس ماہ کے بعد میں (رفیقِ اعلٰی کی طرف) سفر کروں گا۔
4
ہر شبے تا روز زیں شوقِ ھدے
او رفیقِ راہِ اعلٰی می زدے
ترجمہ: آپ اس راہِ راست کے شوق سے (ایامِ مرض کی) ہر رات کو دن تک یہ کہتے رہتے کہ ”اے اعلٰی راستہ کے رفیق!“
مطلب: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم قربِ وفات میں اکثر کہا کرتے: ”اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَ اَلْحِقْنِیْ بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی“ (بخاری: 4440) یعنی ”الٰہی مجھ کو بخش دے، اور مجھ پر رحم کر، اور مجھ کو رفیق اعلٰی کے ساتھ ملا دے۔“ ابن مالک اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ بعض کے نزدیک رفیقِ اعلٰی سے مراد اللہ تعالٰی ہے، چنانچہ کہتے ہیں: ”اَللہُ رَفِیْقٌ بِعِبَادِہٖ“ یعنی ”اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔“ پس یہ کلمہ بروزنِ فعیل ”رفیق“ سے مشتق بمعنٰی فاعل ہے، بعض کہتے ہیں اس سے جماعتِ انبیاء علیہم السّلام و صدیقین و شہداء مراد ہیں، لیکن مولانا کی مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ رفاقت سے مشتق ہے۔(منہج)
5
گفت ہر کس کہ مرا مژدہ دہد
چوں صفر پا از جہاں بیروں نہد
ترجمہ: آپ نے فرمایا کہ جب ماہ صفر دنیا سے رخصت ہو تو جو شخص مجھے یہ بشارت دے۔
6
کہ صفر بگذشت و شد ماہِ ربیع
مژدہ در باشم مر او را و شفیع
ترجمہ: کہ صفر گزر گیا، اور ماہ ربیع الاول (شروع) ہو گیا۔ تو میں بھی اس کو (نجات کی) خوشخبری دینے والا اور (اس کی) شفاعت کرنے والا ہوں گا۔
7
چوں صفر بر بست بارد ماہِ نو
گشت پیدا بر فلک باتاب و ضو
ترجمہ: جب ماہ صفر نے کوچ کیا، اور نیا چاند آب و تاب کے ساتھ آسمان پر ظاہر ہوا۔
8
گفت عکاشہ صفر بگذشت و رفت
گفت کہ جنت ترا اے شیر زفت
ترجمہ: (تو) عکاشہ رضی اللہ عنہ نے (جا کر) عرض کیا کہ ماہِ صفر گزر گیا اور ختم ہوا۔ آپ نے فرمایا اے بہادر شیر! بہشت تمہاری (قیام گاہ) ہے۔
9
دیگرے آمد کہ بگذشت ایں صفر
گفت عکاشہ ببرد از مژدہ بر
ترجمہ: پھر دوسرا آیا (اور اس نے عرض کیا) کہ یہ (ماہ) صفر گزر گیا۔ آپ نے فرمایا کہ خوشخبری کا پھل تو عکاشہ لے گیا (کیونکہ خوشخبری پہلی خبر کو کہتے ہیں۔ اس کے بعد وہی خبر پھر آئے تو اسے خوشخبری نہیں کہتے۔)
10
پس رجال از نقلِ عالم شادماں
وز بقایش شادماں ایں کودکاں
ترجمہ: پس مردانِ (حق) دنیا سے کوچ کر جانے سے خوش ہوتے ہیں۔ اور اس کے قیام پر یہ طفل (طبع) لوگ خوش ہیں۔ (کیونکہ وہ اگلا عالم انہوں نے دیکھا نہیں۔ مثلاً:)
11
چونکہ آبِ خوش ندید آں مِرغ کور
پیشِ او کوثر نماید آبِ شور
ترجمہ: چونکہ اس اندھے پرندے نے شیریں پانی نہیں دیکھا۔ (اس لیے) کھاری پانی اس کو کوثر کا پانی دکھائی دیتا ہے۔
12
ہمچنیں موسیٰؑ کرامت مے شمرد
ہم بدیں ساں بے قدم رہ مے سپرد
ترجمہ: (غرض) موسیٰ علیہ السّلام اسی طرح انعام شمار کر رہے تھے، اسی طرح بلا قدم (تقریر) کا راستہ طے کر رہے تھے۔ (”بے قدم“ یہ اشارہ ہے کہ راستہ قدموں سے طے نہیں ہوتا، بلکہ قوتِ بیانیہ سے طے ہوتا ہے۔)
13
کہ نہ گردد صاف اقبالِ تو درد
ہم نگردد اطلسِ بختِ تو برد
ترجمہ: کہ تیرے اقبال کی صاف شراب گدلی نہ ہوگی۔ تیرے نصیب کی اطلس بھی دھاریدار کپڑا نہیں بنے گی۔
14
ہر چہ خواہی یابی از بختِ جواں
شادماں مانی نگردی ناتواں
ترجمہ: تو جو کچھ چاہے گا، اپنے زبردست نصیبہ سے پائے گا، تو خوش رہے گا، کمزور نہ ہوگا۔
15
گفت اَحْسَنْتَ نکو گفتی و لیک
تا کنم من مشورت با یارِ نیک
ترجمہ: (فرعون! بولا بہت خوب، تم نے اچھی بات کہی ہے، لیکن اس وقت تک (میں کچھ عرض نہیں کر سکتا) کہ (اپنے) ایک اچھے رفیق سے مشورہ کر لوں۔