دفتر پنجم: حکایت: 182
خندہ گرفتن آن کنیزک را از ضعفِ شهوتِ خلیفہ و قوت شهوتِ آن پهلوان و فهم کردنِ خلیفہ حالِ او را و پرسیدن
اس کنیز کا خلیفہ کی کمی شہوت اور اس پہلوان کی شہوت سے قہقہہ مارنا اور خلیفہ کا اس کو سمجھ جانا اور پوچھنا
1
زن چو دید آن سُستیِ او از شگفتآمد اندر قهقهه خندہ اش گرفت
ترجمہ: عورت نے جب اس کی سستی دیکھی تو تعجب سے قہقہہ مارنے لگی (اور) ہنسی اس پر غالب آ گئی۔
2
یادش آمد مردیِ آن پهلوانکاو بکُشتِ او شیر و اندامش چنان
ترجمہ: اس کو اس پہلوان کی قوتِ باہ یاد آ گئی جس نے اس شیر کو مار ڈالا اور اس کا عضو اسی طرح (قائم) رہا۔
3
غالب آمد خندۀ زن شد درازجهد میکرد و نمیشد لب فراز
ترجمہ: عورت کی ہنسی غالب آئی (اور) طول پکڑ گئ۔ وہ (بہت) کوشش کرتی تھی (کہ خاموش رہے مگر ہنسی نہ تھمتی تھی) اور لب بند نہیں ہوتے تھے۔
4
سخت می خندید همچو بنگیانغالب آمد خندہ بر سود و زیان
ترجمہ: وہ بھنگ پینے والوں کی طرح سخت ہنستی تھی۔ ہنسی (اس کے) نفع و نقصان (کی مصلحت) پر غالب آ گئی۔ (غالب خندہ نے اس مصلحت کو بھی ملحوظ نہ رہنے دیا کہ مبادا بادشاہ کی ناراضگی کوئی نقصان پہنچائے اور فوائدِ زندگی سے محروم کر دے)۔
5
هر چه اندیشید خندہ میفزودهمچو بندِ سیل ناگاهان گشود
ترجمہ: وہ جتنا سوچتی تھی ہنسی زیادہ ہوتی جاتی تھی (ہنسی کیا چھڑ گئی۔) گویا اچانک سیلاب کا بند ٹوٹ گیا۔ (آگے مولانا فرماتے ہیں کہ ہر خندہ و گریہ کا سر رشتہ خدا کے ہاتھ میں ہے)۔
6
گریه و خندہ غم و شادیِ دلهر یکی را معدنی دان مستقل
ترجمہ: رونا و ہنسنا، غم اور دل کی خوشی (ان میں سے) ہر ایک کا مستقل معدن (موجود) سمجھو (جس سے وہ برآمد ہوتے ہیں)۔
7
هر یکی را مخزن و مفتاحِ آنای برادر در کفِ فتّاحِ آن
ترجمہ: اے بھائی! (ان میں سے) ہر ایک کا ایک خزانہ ہے اور اس کی کنجی اس (خزانہ) کو کھولنے والے (قادر مطلق) کے ہاتھ میں (ہے)۔
8
هیچ ساکن می نشد آن خندہ روپس خلیفه تیرہ گشت و تند خو
ترجمہ: (غرض) اس کی وہ ہنسی بالکل تھمنے میں نہ آتی تھی۔ پس خلیفہ ناراض اور غضبناک ہو گیا۔
9
زود شمشیرِ چو آتش بر کشیدگفت سِرِّ خندہ را گو ای پلید
ترجمہ: اس نے فوراً آگ کی سی (سوزاں و درخشاں) تلوار کھینج لی (اور) کہا اے ناپاک عورت اس ہنسی کا راز بیان کر۔
10
در دلم زین خندہ ظنّے اوفتادراستی گو، عشوہ نتوانیم داد
ترجمہ: اس ہنسی سے میرے دل میں ایک شبہ پیدا ہو گیا۔ سچ بتا تو مجھے دھوکا نہیں دے سکتی۔
11
ور خلافِ راستی بفریبیمیا بهانۀ چرب آری تو به دَم
12
من بدانم در دلِ من روشنیستبایدت گفتن هر آنچه گفتنیست
ترجمہ: اور اگر سچ کے خلاف مجھے فریب دینا چاہے گی یا چکنا چپڑا بہانہ کرے گی اور دم (جھانسا دے گی) تو میں (اسے) سمجھ لوں گا۔ (کیونکہ) میرے دل میں روشنی ہے جو کچھ کہنے کی بات ہے (وہی) کہنی چاہیے۔
مطلب: روشنی سے روشنیِ عرفان مراد نہیں۔ کیونکہ اس خلیفہ نے شاہِ موصل پر ظلم کیا۔ اس کی لونڈی کو غصب کیا۔ اور اس کے ساتھ زنا کا ارادہ کیا وہ لونڈی شرعاً اس کی مملوک نہ تھی۔ اور اس کے یہ افعال کسی تاویل سے جائز نہیں ٹھہر سکتے۔ لہٰذا وہ عاصی تھا ’’وَنُورِ اللّٰہِ لَایُعطیٰ لِعَاصِی‘‘ بلکہ یہاں روشنی سے روشنی عقل مراد ہے۔ کہ وہ قرائن سے غیر معلوم باتوں کو سمجھ لیتا ہے۔ (بحر) ماشاء اللہ آپ کی قرائن شناسی بھی اس شان کی ہے کہ چوہے کو سانپ سمجھ بیٹھے۔ مگر خلیفہ کو اپنی اس کوتہ نظری پر ندامت ضرور ہے۔ اس لیے اپنے دعویٰ عقل کے لمبے دامن میں اس دھبے کو یوں چھپاتا ہے:۔
13
در دلِ شاهاں تو ماهی دان سطبرگرچہ گه گه شد ز غفلت زیرِ ابر
ترجمہ: (مجھ سے عاقل) بادشاہوں کے دل میں تم (عقل کا) ایک بڑا چاند (درخشاں) سمجھو۔ اگرچہ وہ کبھی کبھی غفلت کے بادل کے نیچے آ جاتا ہے (جیسے کہ ابھی مجھ کو چوہے سے سانپ کا دھوکا ہو گیا تھا)۔
14
یک چراغی، هست در دل وقتِ گشتوقتِ خشم و حرص اندر زیرِ طشت
ترجمہ: ہمارے دل میں چلتے پھرتے وقت غصہ اور حرص کے موقع پر (عقل کا) ایک چراغ طشت کے نیچے (موجود رہتا) ہے (جب چاہا اس کو باہر نکال کر روشنی میں معلومات حاصل کر لیں)۔
15
آن فراست این زمان یارِ من استگر نگوئی آنچه حقِ گفتن است
16
من بدین شمشیرِ بُرّم گردنتسود می ندهد بهانه کردنت
ترجمہ: وہ شناخت اب میرے ساتھ (موجود) ہے۔ اگر تو نے وہ (سچی) بات نہ بتائی جو بتانے کا حق ہے تو میں اس تلوار سے تیری گردن اڑا دوں گا (پھر) تجھ کو بہانہ بنانا مفید نہ ہوگا۔
17
این زمان بکشم تو را بی هیچ شکتیغ را کرد او حواله گفت نک
ترجمہ: میں بلاشبہ تجھے اسی وقت مار ڈالوں گا (ساتھ ہی) اس نے تلوار اس کے سامنے کر دی (اور) کہا دیکھ (یہ ہے تلوار)۔
18
ور بگوئی راست آزادت کنمحقِ یزدان نکشمت شادت کنم
ترجمہ: اور اگر تو سچ بتا دے تو تجھے آزاد کر دوں گا۔ خدا کی قسم تجھے قتل نہیں کروں گا۔ بلکہ تجھے خوش کروں گا۔ (یعنی اگر ہنسی کی کوئی بھی وجہ ظاہر ہوئی جو میرے غضب کی باعث ہو تو بھی تجھ کو کوئی آزار نہیں پہنچاؤں گا)۔
19
هفت مصحف در زمان برهم نهادخورد سوگند و چنین تقریر داد
ترجمہ: خلیفہ نے سات قرآن مجید اسی وقت اکٹھے رکھ کر قسم کھائی اور پھر یوں (مذکورہ بالا) عہد کیا (اور عہد یہی تھا کہ۔ بگوئی راست آزادت کنم-الخ)
20
زن چو عاجز گشت گفت احوال رامردیِ آن رُستمِ صد زال را
ترجمہ: عورت جب (خلیفہ کی ان دھمکیوں سے) عاجز آ گئی تو اس رستم (پہلوان) کی قوتِ باہ کے احوال کہہ ڈالے جو سو زال کا (نمونہ) تھا۔
21
شرحِ آن گِردک که اندر راہ بودیک به یک او با خلیفه وا نمود
ترجمہ: اس خلوت کا مفصل حال جو راستہ میں (پہلوان کے ساتھ) ہوئی ایک ایک کر کے خلیفہ سے بیان کر دیا۔
22
شیر کشتن سوی خیمه آمدنو آن ذَکر قائم چو شاخِ کرگدن
ترجمہ: (پہلوان کا) شیر کو قتل کرنا (اور پھر) خیمہ کی طرف آنا اور اس کے ذکر کا گینڈے کے سینگ کی طرح قائم رہنا۔
23
او بدان قوّت که از شیرِ شکارهیچ تغییرش نشد، بُد برقرار
ترجمہ: اس کی وہ قوت کہ شکاری شیر (کے مقابلہ) سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی بدستور قائم رہی۔
24
تو بدین سُستی که چون کردی بگوشخَشت خَشتِ موشکی رفتی ز هوش
ترجمہ: آپ کی یہ کمزوری کہ جب چوہیا کی کھٹ کھٹ سنی تو آپ حواس باختہ ہو گئے۔
25
من چو دیدم از تو این و از وی آنزان سبب خندیدم ای شاہِ جهان
ترجمہ: میں نے جب آپ سے یہ (کمزوری) اور اس کی وہ (طاقت) دیکھی تو اے شاہِ جہاں! اس سبب سے مجھے ہنسی آ گئی۔ (آگے مولاناؒ ضمناً یہ ہدایت فرماتے ہیں کہ بُرے اعمال سے بچنا چاہیے۔ بد اعمالیاں خواہ کیسے ہی اخفا و کتمان سے کی جائیں، آخر آشکار ہو جاتی ہیں۔ اور ان کی سزا ملتی ہے۔ اگر وہ اعمال بذاتِ خود ظاہر ہوں تو ان کی جزا و سزا کا اعلانیہ ملنا ان کو واشگاف کر دیتا ہے)۔
26
راز ها را می کند حق آشکارچون بخواهد رست تخم بَد مکار
ترجمہ: حق تعالیٰ (آخر تمام نیک و بداعمال کے) اسرار کو ظاہر کر دیتا ہے جب (اعمال کا بیج) اُگ کر رہے گا۔ تو برا نہ بوؤ۔ ﴿یَومَ تُبلَی السَّرآئِرُ﴾۔
27
این بهارِ نو ز بعدِ برگ ریزهست بُرهان بر وجودِ رستخیز
ترجمہ: (خزاں کی) پت جھڑ کے بعد یہ تازہ بہار (کی آمد) قیامت کے وجود پر دلیل ہے (یعنی دنیا پر فنا کی خزاں آنے کے بعد پھر حشر و نشر کی بہار آئے گی)۔
28
آتش و باد، ابر و آب و آفتابراز ها را می برآرند از تُراب
ترجمہ: آگ اور ہوا بادل اور پانی اور سورج (نباتات کے) راز کو مٹی سے نکال لاتے ہیں۔
29
در بهاران سِرِّ ها پیدا شودهر چه خوردست این زمین رسوا شود
ترجمہ: (بہار کے موسم میں زمین کے اندرونی) راز (نئی نباتات کی شکل میں) ظاہر ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ اس زمین نے (مختلف غذاؤں کی قسم سے) کھایا ہے۔ وہ ظاہر ہو جاتا ہے۔
مطلب: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿فَانظُرْ إِلٰى آثَارِ رَحْمَتِ اللّٰهِ كَيْفَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ ذٰلِكَ لَمُحْيِ الْمَوْتٰى۔۔﴾ "تو رحمت الٰہی کے نتیجہ کی طرف نظر کر کہ خدا اس کو اس کے مرے پیچھے کیونکر جِلا اٹھاتا۔ کچھ شک نہیں کہ یہی (خدا تو قیامت کے دن) مردوں کو بھی جِلانے والا ہے"۔ (الروم آیت 50)۔
30
بر دَمَد آن از دهان و از لبشتا بدید آید ضمیر و مذهبش
ترجمہ: وہ اس کے منہ اور لب سے اُگ پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ اس کا ضمیر اور مذہب ظاہر ہو جاتا ہے۔ (سب استعارات و کنایات ہیں۔ یعنی زمین سے قسم قسم کی نباتات پیدا ہو جاتی ہیں اور معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کا نفع و نقصان کیا ہے۔ ذائقہ کیا ہے اور خواص کیا ہیں)۔
31
سرِّ بیخِ هر درختی و خورَشجملگی پیدا شود آن بر سرش
ترجمہ: ہر درخت کی جڑ اور اس کے ذائقہ کا راز سب کا سب اس (درخت) کے سر پر (پھل کی صورت میں) ظاہر ہو جاتا ہے۔
32
هر غمی کز وی تو دل آزردہ ایاز خمارِ می بَود کان خوردہ ای
ترجمہ: ہر وہ غم جس سے تم آزردہ دل ہو۔ اس (گناہ کی) شراب سے پیش آتا ہے جس کو تم پی چکے ہو۔
33
لیک کی دانی که آن رنجِ خماراز کدامین می برآمد آشکار
ترجمہ: لیکن تم کو یہ کب معلوم ہو سکتا ہے۔ کہ وہ خمار کی تکلیف کونسی شراب سے اعلانیہ ظاہر ہوئی ہے۔
مطلب: انسان جو گناہ کرتا ہے اس کی سزا ضرور ملتی ہے اور بسا اوقات دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔ ﴿وَ مَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُوا عَن كَثِيرٍ﴾ لیکن عام لوگ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ یہ مصیبت جو پیش آئی ہے تو ہمارے فلاں جرم کی پاداش میں ہے۔ جرائم کے ارتکاب کے بعد ان کی تعیین خفا میں پڑ جاتی ہے اور ان کی سزا اعلانیہ ملتی ہے۔ دنیوی عدالتوں میں فرد جرم لگاتے وقت صاف بتا دیا جاتا ہے کہ یہ سزا فلاں جرم کے عوض میں اور فلاں دفعہ کی رو سے دی جاتی ہے۔ لیکن خدائی عدالت سے جب کسی بندے کو اس کے جرم کی سزا ملتی ہے تو اس کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ فلاں جرم کی سزا ہے اور حکمت اس اطلاع میں یہ ہے کہ دنیا بندوں کے لیے دار الامتحان ہے جس میں ہر شخص کی سعادت و شقاوت کا امتحان مقصود ہے۔ چنانچہ شریعت میں سب کو نیکی و بدی کی اطلاع دی جا چکی ہے۔ اب اس کا نیکی کو اختیار کرنا اور بدی سے بچنا سعادت میں داخل ہے۔ اور اس سعادت مندی کا ظہور اسی صورت ممکن ہے کہ اعمال کی جزا و سزا پر وہ خفا میں ہے۔ اگر بالفرض ہر نماز پڑھنے پر فوراً دو چار روپے انعام مل جایا کرتا اور ہر چوری پر خود بخود فی الفور ہاتھ کٹ جایا کرتے تو دنیا میں کوئی شخص ایسا نہ رہتا جو تارکِ نماز ہو یا چوری کرے۔ پھر سعید و شقی میں کوئی فرق نظر نہ آتا۔ لیکن اب جو عموماً جزا و سزا موعود بآخرت ہے۔ اور اگر احیاناً دنیا میں سزا و جزا مل جاتی ہے تو اس اخفا کے ساتھ ملتی جاتی ہے کہ نہ اس کا وقت معلوم ہے نہ یہ معلوم ہے کہ یہ کونسے عمل کا عوض ہے تو اس سے سعید و شقی الگ الگ نظر آ جاتے ہیں۔ چنانچہ جو لوگ اعمالِ صالحہ محض اس لیے بجا لاتے ہیں کہ وہ خداوند تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث ہیں اور شرع میں ان کی بجا آوری کا حکم ہے۔ اگرچہ فوراً ان کا کوئی اجر نہیں ملتا اور اعمالِ سیئہ سے محض اس لیے بچتے ہیں کہ حق تعالیٰ ان سے ناراض ہوتا ہے اور شرع میں وہ حرام و مکروہ ہیں۔ اگرچہ فی الفور ان پر کوئی سزا نہیں دی جاتی تو وہ لوگ سعید ہیں ان کی فطرت میں نیکی کی طرف میلان اور بدی سے نفرت داخل ہے۔ لیکن جس شخص کو نہ فرائضِ شرعیہ کی طرف کوئی رغبت ہے نہ محرمات شرعیہ سے نفرت ہے اور نہ اسے خداوند تعالیٰ کی رضا و عدمِ رضا کی پروا ہے۔ بلکہ اگر وہ اعمالِ صالحہ کا پابند اور افعالِ قبیحہ سے مجتنب ہو سکتا ہے تو باقتضائے نفس کسی نفع عاجل یا نقصان ظاہر کی بنا پر ہو سکتا تھا تو وہ شخص شقی ہے۔ دنیوی عدالتوں کا نظام اس مصلحت پر مبنی نہیں وہ کسی کے سعید و شقی ثابت کرنے کا مستدعی نہیں۔ نہ اس کو کسی نیت پر گرفت کرنے کی دسترس حاصل ہے بلکہ اس کا مقصد محض رفع نزاع و دفعِ فساد ہے۔ اس لیے عدالت ہر مجرم کو اس کے جرم کی سزا دیتے وقت اعلان کر دیتی ہے کہ یہ فلاں جرم کی سزا ہے تاکہ وہ دوبارہ اس جرم کا اعادہ نہ کرے۔ اگرچہ وہ سعید ہو یا شقی اس کی نیت اچھی ہو یا بری وہ آیندہ اس جرم سے پرہیز خواہ اس سے متنفر ہو کر کرے یا بخوف سزا ان عدالتوں کو اس کی پرواہ نہیں۔ غرض عام لوگوں کو کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ فلاں تکلیف جو پیش آئی ہے وہ کونسے جرم و قصور کی سزا ہے۔ اور وہ مصیبت فلاں جرم کا عوض تھی۔ چنانچہ فرماتے ہیں:۔
34
این خمار اشکوفۀ آن دانه استآن شناسد کآگه و فرزانه است
ترجمہ: (اس بات کو کہ) یہ خمار اس دانہ کا شگوفہ ہے وہی سمجھتا ہے جو (بصیرتِ باطن سے) دانائے زیرک ہے۔ (اعمال اور اس کے نتائج کے تعلق کا معلوم نہ ہونا صرف اسی پر مبنی نہیں کہ اس کی اطلاع نہیں دی جاتی۔ بلکہ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اعمال و نتائج میں کوئی ظاہری مشابہت نہیں ہوتی۔ مثلاً)۔
35
شاخِ اشکوفه نماند دانه رانطفه کی ماند تنِ مردانه را
ترجمہ: شگوفہ کی شاخ بیج سے مشابہ نہیں ہوتی۔ نطفہ (اس) مردانہ جسم سے کب مشابہ ہوتا ہے۔ (جو اس نطفہ سے نبتا ہے)۔
36
نیست مانندِ هیولا با اثردانه کی ماننده آمد با شجر
ترجمہ: مادہ اس چیز سے مشابہ نہیں جو اس مادہ سے بنتی ہے۔ دانہ (اس) درخت سے کب مشابہ ہوتا ہے۔ (جو اس دانہ سے پیدا ہوتا ہے)۔
37
نطفه از نان ست کی ماند به نانمردم از نطفه است کی باشد چنان
ترجمہ: (آدمی کی) منی غذا سے (پیدا ہوتی) ہے۔ (مگر) وہ غذا سے کب مشابہ ہے۔ آدمی منی سے (پیدا ہوا) ہے۔ مگر وہ ویسا کب ہوتا ہے۔
38
جِنّی از نار ست کی ماند به ناراز بخار است ابر و نبود چون بخار
ترجمہ: جن آگ سے ہے۔ وہ آگ سے کب مشابہ ہے۔ بادل ابخرات سے ہے وہ ابخرات سے کب مشابہ ہے۔
39
از دمِ جبریل عیسی شد پدیدکی بصورت همچون او شد ناپدید
ترجمہ: حضرت عیسےٰ علیہ السلام جبریل علیہ السلام کے دم سے وجود میں آئے۔ مگر وہ ان کی طرح ظاہری وجود سے غائب کب ہو سکتے تھے۔
40
آدم از خاک ست کی ماند به خاکهیچ انگوری نمی ماند بتاک
ترجمہ: حضرت آدم علیہ السلام خاک سے ہیں وہ خاک سے کب مشابہ ہیں۔ کوئی انگور، انگور کی بیل سے مشابہ نہیں ہوتا۔
41
کی بود طاعت چو خلدِ پایدارکے بُود دُزدی بشکلِ پای دار
ترجمہ: طاعت بہشتِ ابدی کی مانند کہاں ہوتی ہے (اگرچہ دونوں کی حقیقت ایک ہے) چوری، دار کے پایہ کی ہم شکل کہاں ہوتی ہے۔ (اگر وہ اسی کا نتیجہ ہے)۔
42
هیچ اصلی نیست مانندِ اثرپس ندانی اصلِ رنج و دردِ سر
ترجمہ: کوئی اصل (اپنے) اثر کی مانند نہیں۔ پس تم (اپنی) بیماری اور دردِ سر کے اصل کو نہیں جانتے۔ (کہ وہ کس جرم کی سزا میں عرض ہوا ہے)۔
43
لیک بی اصلی نباشد این جزابی گناهی کی بَرنجاند خدا
ترجمہ: لیکن یہ جزا کسی اصل کے بدون نہیں ہوتی۔ خداوند تعالیٰ کسی گناہ کے بغیر کب عذاب دیتا ہے؟
مطلب: یہ حال عوام سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی عوام الناس کے مصائب ان کے گناہوں کے نتائج ہیں۔ انبیا علیہم السلام کی تکالیف و مصائب گناہوں کا ثمرہ نہیں کیونکہ وہ گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔ بلکہ ان کی تکالیف بدل عنصری کے مقتضیات سے ہیں اور وہ ان کی ترقی مراتب کی باعث ہوتی ہیں۔ ہاں اگر اس سے عذابِ آخرت مراد ہو تو اس تفصیل کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ وہاں جو عذاب ہوگا گناہوں کی پاداش میں ہوگا۔ انبیا علیہم السلام نہ گناہوں سے ملوث ہیں نہ ان کو عذاب ہوگا۔ (بحر)۔
44
آنچه اصل است و کشندہ هر شی استگر نمی ماند بَوَی هم از وی است
ترجمہ: جو چیز اصل ہے اور کسی چیز کو (منصہ ظہور پر) لانے والی ہے اگرچہ وہ اس کے ساتھ مشابہ نہ ہو تا ہم اسی سے ہے۔
45
پس بدان رنجت نتیجۀ زلّتیستآفتِ این ضربتت از شهوتی است
ترجمہ: پس تم یاد رکھو کہ تمہاری (یہ) تکلیف لغزش کا نتیجہ ہے۔ تمہاری اس چوٹ کی آفت کسی شہوت (کی وجہ) سے ہے۔
46
گر ندانی این گنه را زِ اعتبارزود زاری کن طلب کن اغتفار
ترجمہ: اگر تم ازروئے عبرت گیری (اپنے) اس گناہ کو معلوم نہ کر سکو (تاہم جب کوئی مصیبت پیش آئے تو اس کو گناہ کا نتیجہ سمجھ کر) فوراً زاری کرو اور مغفرت طلب کرو۔
47
سجدہ کن صد بار می گو ای خدانیست این غم غیر در خوردِ سزا
ترجمہ: سو بار سجدہ کرو (اور اپنی گناہ گاری کا اعتراف کرتے ہوئے) کہو، اے خدا (میں گناہ گار ہوں اور) یہ غم میرے گناہوں کی، پاداش اور سزا کے سوا (اور کچھ) نہیں۔
48
ای تو سبحان پاک از ظلم و ستمکے دهی بی جرم جان را درد و غم
ترجمہ: اے خدا تو پاک ہے ظلم و ستم (کی نسبت) سے منزہ ہے تو کسی جان کو بلا قصور درد و غم کب پہنچاتا ہے۔
49
من معیّن می ندانم جرم را لیک هم جرمی بباید کرم را
ترجمہ: (گو) مجھے معین طور سے جرم معلوم نہیں (جس کی سزا یہ مل رہی ہے) لیکن (اتنا یقین ہے کہ میں مجرم ضرور ہوں اور تیرے) کرم کے (ظہور) کے لیے جرم بھی ہونا چاہیے۔ نظامیؒ ٗ
50
چون بپوشیدی سبب را ز اعتباردائماً آن جرم را پوشیدہ دار
ترجمہ: جب تو نے (سزا کے) سبب کو عبرت دینے سے چھپا رکھا ہے (تو پتھر) اس جرم کو ہمیشہ کے لیے چھپا رہنے دے۔
مطلب: یعنی جب ہم کو سزا ملتی ہے تو لامحالہ کسی نہ کسی جرم پر ملتی ہے اور ہم ضرور مجرم و گناہ گار ہیں۔ مگر یہ بات ہم سے مخفی رکھی جاتی ہے کہ یہ سزا فلاں جرم کی ہے اگر ایسی اطلاع مل جایا کرتی تو اکثر لوگ عبرت پذیر ہو جاتے۔ مگر شاید عبرت دلانے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ تو الٰہی اس جرم کو ہمیشہ کے لیے مخفی رہنے دے اور سزا سے بھی معاف رکھ تاکہ سرے سے کسی جرم کا ذکر تک نہ آئے کہ اس کا ارتکاب ہوا تھا یا نہیں۔
51
کاین جزا اظهارِ جرمِ من بودو از سیاست دُزدیم ظاهر شود
ترجمہ: کیونکہ یہ سزا میرے جرم کا اظہار ہوگا۔ سزا دینے سے میری چوری ظاہر ہو جائے گی۔
52
باز گردم سوی توبه شاہ بازتا شود معلوم اسرارِ نیاز
ترجمہ: (مولانا فرماتے ہیں کہ اب) میں بادشاہ کی توبہ کی طرف واپس جاتا ہوں تاکہ (خدا کی درگاہ میں عاجزی کرنے) کے اسرار معلوم ہو جائیں۔