دفتر پنجم: حکایت: 180
در بیانِ ضُعفِ عقلِ منکرانِ بعث
مر کر دوبارہ جی اُٹھنے کے منکروں کی کم عقلی
1
ہم درین عالم بدان کہ مامنے ستاز منافق کم شنو کہ گفت نیست
ترجمہ: تم اسی عَالَم (دنیا) میں سمجھ لو کہ ایک (اور) جائے امن ہے (جو عَالَمِ آخرت ہے) منافق کی نہ سنو جو کہتا ہے کہ (ایسا عَالَم کوئی) نہیں۔
مطلب: ’’بدان‘‘ کا لفظ جس علم کے حصول پر دال ہے اس سے علمِ ایمان مقصود ہے۔ اور ممکن ہے کہ علمِ شہودی مراد ہو۔ لیکن مصرعہ ثانی اور منکر کی حجت پہلے معنی کی مُسْتَدْعِیْ ہے (بحر) ’’ہمدریں عالم کی ظرفیت بدان‘‘ سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی تم اسی عَالَم میں اس عقیدہ کو دل میں جما لو۔
2
حجتش اینست گوید هر دمےگر بُدے چیزے دگر من دیدمے
ترجمہ: اس کی حجت یہ ہے کہ وہ لمحہ پیش کرتا ہے کہ اگر اس عَالَم کے سِوا کوئی اور چیز ہوتی تو مجھے نظر آتی۔
3
گر نہ بیند کودکے احوالِ عقلعاقلے ہر گز کند از عقل نقل؟
ترجمہ: (اس کا جواب یہ ہے کہ) اگر ایک بچہ عقل کے احوال کو نہ دیکھے تو (اس کے نہ دیکھنے سے) بھلا کوئی عاقل عقل کو ترک کر سکتا ہے؟ (اسی طرح اگر تم نے آخرت کو نہیں دیکھا تو کیا۔ اس سے آخرت کی حقیقت معدوم ہو سکتی ہے؟)
4
ورنہ بیند عاقلے احوالِ عشقکم نگردد ماہِ نیکو فالِ عشق
ترجمہ: اور اگر کوئی عاقل عشق کے احوال نہ دیکھے۔ تو اس سے عشق کے ماہِ نیک فال (کے انوار) میں کمی نہیں آتی۔
5
حسنِ یوسفؑ دیدہ اخواں ندیداز دلِ یعقوبؑ کے شد تا پدید
ترجمہ: حضرت یوسف علیہ السلام کے حُسن کو (ان کے) بھائیوں نے نہیں دیکھا (مگر) وہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے دل سے کب روپوش ہوا؟
6
مر عصا را چشمِ موسےٰؑ چوب دیدچشمِ غیبی افعیٰ و آشوب دید
ترجمہ: حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آنکھ نے عصا کو لکڑی دیکھا (مگر) غیب کی آنکھ نے اس کو سانپ اور بلا دیکھا۔
مطلب: اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرمایا: ﴿وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَىٰ...﴾ ’’اے موسیٰ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘ تو کہا: ﴿هِيَ عَصَايَ...﴾ ’’یہ میری لاٹھی ہے‘‘۔ پھر کہا میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اپنی بکریوں کے لیے اس سے پتے جھاڑتا ہوں اور اس سے اور کئی کام لیتا ہوں۔ مگر علمِ غیب میں اس لاٹھی کی کوئی اور صورت بھی تھی چنانچہ حکم ہوا: ﴿قَالَ أَلْقِهَا يَا مُوسیٰ...﴾ ’’اس لاٹھی کو ڈال دو‘‘۔ جب انہوں نے اسے ڈال دیا ﴿فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعیٰ﴾ ’’تو اچانک وہ لاٹھی سانپ تھی جو دوڑنے لگا‘‘۔ (سورہ طٰہٰ)۔
7
چشمِ سِر با چشمِ سَر در جنگ بودغالب آمد چشمِ سِر، حجت نمود
ترجمہ: باطن کی آنکھ سر کی (ظاہری) آنکھ سے بحث کر رہی ہے۔ (آخر) باطن ہی کی آنکھ غالب آئی اس نے اپنی حقّانیت کا ثبوت پیش کر دیا (چشمِ باطن جو کچھ دیکھتی ہے چشمِ ظاہر نہیں دیکھتی اور وہ اپنی عَدَمِ رُؤْیَتْ کی وجہ سے اس کا انکار کرتی ہے حالانکہ اس کا انکار جہالت ہے۔
8
چشمِ موسےٰؑ دستِ خود را دست دیدپیشِ چشمِ غیب نورے شد پدید
ترجمہ: حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آنکھ نے اپنے ہاتھ کو (عام آدمیوں کا سا) ہاتھ سمجھا (مگر) غیب کی آنکھ کے آگے (اس سے) ایک نور ظاہر ہوا۔
9
ایں سُخن پایاں ندارد در کمالپیشِ ہر مَحْرُوْم باشد ایں خیال
ترجمہ: اس بحث کی تکمیل کا خاتمہ نہیں (اور) ہر محروم (و مَحْجُوْب) کے آگے یہ (بات محض) خیال ہے۔
10
چوں حقیقت پیشِ او فرج و گلوستکم بیاں کُن پیشِ او اسرارِ دوست
ترجمہ: جب اس کے نزدیک فرج و گلو (کی لذّتیں) ہی حقیقت (کی باتیں) ہیں۔ (اور کچھ نہیں تو) اس کے سامنے محبوبِ (حقیقی) کے اَسْرَار بیان نہ کرو۔ (لذّاتِ نفسانیہ کے دلدادہ کو اَسْرَارِ سُلُوک سے دلچسپی نہیں ہوتی)۔
11
پیشِ ما فرج و گلو باشد خیاللا جرم ہر دم نماید جاں جمال
ترجمہ: (بخلاف اس کے) ہمارے آگے فرج و گلو (کی لذتیں) خیالی باتیں ہیں۔ اس لیے (ہم کو) ہر وقت وہ جانِ جہاں (یعنی محبوبِ حقیقی اپنا) جمال دکھاتا ہے۔
12
هرکه را فرج و گلو آیین و خوستآں لَکُم دِیْن وَلِیَ دِین بہرِ اوست
ترجمہ: جس شخص کی آئین و خصلت فرج و گلو (کی لذت) ہے۔ وہ (ارشاد کہ) تمہارے لیے (تمہارا) دین اور میرے لیے (میرا) دین ہے۔ اسی کے بارے میں ہے۔
مطلب: یہ اشارہ ہے سورۃ الکافرون کے مضمون کی طرف جس میں کفار کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے: ﴿لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ﴾ ’’تم کو تمہارا دین مجھ کو میرا دین‘‘۔
13
با چناں انکار کوته کن سخناحمدا کم گوئے با گبرِ کہن
ترجمہ: (منکر کے) ایسے انکار کی صورت میں (اس سے) گفتگو بند کر دو۔ اے احمد! پُرانے کافر کو کچھ نہ کہو۔
مطلب: گویا حق تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد ہے کہ ناقابلِ ہدایت اور سنگدل کافروں کو کچھ نہ کہو۔ وہ ہدایت پانے والے نہیں۔ چنانچہ فرمایا: ﴿وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ﴾ ’’یعنی تم قبر والوں کو کچھ نہیں سنا سکتے‘‘۔ (سورۃ الفاطر) صاحبِ منہج فرماتے ہیں: اس میں مولانا کا خطاب احمدی المشرب لوگوں کی طرف ہے کہ تم ایسے لوگوں کو اَسْرَارِ طریقت نہ سناؤ جن سے استفادہ کی امید نہیں۔