دفتر 5 حکایت 179: ایک شخص کا کسی بزرگ سے وہ فرق پوچھنا جو حق و باطل میں ہے

دفتر پنجم: حکایت: 179


پُرسیدنِ شخصے از بزرگے فرق میانِ حق و باطل را

ایک شخص کا کسی بزرگ سے وہ فرق پوچھنا جو حق و باطل میں ہے


1

کَرد مردے از سخندانے سوال حق و باطل چیست اے نیکو مقال

ترجمہ: ایک شخص نے کسی سُخُنْدَان سے پوچھا۔ اے خوش تقریر (بزرگ) حق اور باطل کیا ہیں؟


2

گوش را بگرفت و گفت این باطل است چشم حق است و یقینش حاصل است

ترجمہ: (اس بزرگ نے) کان پکڑ کر کہا یہ باطل ہے۔ آنکھ حق ہے اور اس کو یقین حاصل ہے۔


3

آن به نسبت باطل آمد پیش این نسبتِ اغلب سخنها اے امین!

ترجمہ: اے امین! وہ (کان) اس (آنکھ) کے سامنے نسبتاً باطل ہے (یعنی) اکثر باتوں کی نسبت سے (ورنہ بعض صورتوں میں سنی ہوئی بات بھی صحیح اور مفیدِ علم ہوتی ہے)۔

مطلب: آنکھ سے مشاہدہ ہوتا ہے اور مشاہدہ عین الیقین کے حصول کا باعث ہے۔ اس مقابلہ میں تو بیشک کان کی سماعت کم رتبہ ہے۔ لیکن سماعت کلیۃً بےکار نہیں۔ بلکہ وہ بھی بجائے خود مفید و نافع ہے۔ کلام اللہ اور کلامِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استماع ہی سے اکثر لوگ ہدایت پاتے ہیں اور ان کو علم الیقین حاصل ہوتا ہے۔ آگے ایک مثال سے ثابت کرتے ہیں کہ عَدَمِ مُشاہَدہ بھی مفیدِ علم ہو جاتا ہے۔


4

ز آفتاب ار کرد خفاش احتجاب نیست محبوب از خیالِ آفتاب

ترجمہ: چمگادڑ نے اگر آفتاب سے منہ چھپا لیا تو وہ آفتاب کے خیال سے منہ نہیں چھپا سکتی۔

مطلب: ہر چند چمگادڑ نے آفتاب کو نہیں دیکھا، مگر اس کے باوجود اس کو آفتاب کا علم ہے۔ اسی لیے اس سے بچتی ہے۔

5

خوف او خود خیالے میدہد و آن خیالش سوئے ظلمت میبرد

ترجمہ: (آفتاب کی روشنی کا) خوف خود اس کو (آفتاب کا) خیال دلا رہا ہے اور وہ خیال اس کو تاریکی کی طرف لے جا رہا ہے۔


6

آن خیالِ نور مے ترساندش بر شبِ ظلمات مے چفساندش

ترجمہ: وہ روشنی کا خیال اس کو ڈراتا ہے۔ تاریکی کی رات میں اسے اُلجھا دیتا ہے۔


7

از خیالِ دشمن و تصویرِ اوست کہ تو بر چفسیدہ ای بر یار و دوست

ترجمہ: (یہ) دشمن کے خیال اور تصویر ہی سے تو ہے کہ تو (اس کے شَر سے بچنے کے لیے) یار و دوست (سے امداد لے لینے) پر آمادہ ہے۔ (آگے خیال کی تاثیرِ عظیم کی ایک اور دلیل دیتے ہیں)۔


8

موسیا کشفِ لمع بر کہ فراشت آں مخیل تابِ تحقیقت نداشت

ترجمہ: اے موسیٰ! تجلی (الہیٰ) کا کشف کوہ (طور) پر درخشاں ہوا (تو وہ اسی سے پاش پاش ہو گیا) وہ خیال کرنے والا (پہاڑ) آپ کی (اس) تحقیق کی تاب نہیں رکھتا تھا۔

مطلب: کوہِ طور اور (حضرت) موسیٰ علیہ السلام دونوں پر ایک ہی تجلّی ہوئی۔ مگر موسیٰ علیہ السلام کو اس تجلّی کی تحقیق حاصل تھی۔ پہاڑ کو تحقیق حاصل نہ تھی، صرف خیال تھا۔ اس خیال نے بھی اس کو پاش پاش کر دیا۔ اگر موسیٰ علیہ السلام کی سی تحقیق اس کو حاصل ہوتی ہے تو خدا جانے اس سے بھی زیادہ اس کا کیا حشر ہوتا۔ اس سے ظاہر ہے کہ خیالِ بے رویت بھی کس قدر اثر انداز ہوتا ہے۔ صاحبِ منہج لکھتے ہیں کہ تَخَیُّل سے عوام خیال پرست لوگ مراد ہیں جو اہلِ ظاہر ہیں اور موسیٰ علیہ السلام سے وہ بزرگ اہلِ کشف و شہود مقصود ہے جو ہر زمانے میں موجود رہتا ہے۔ اور اس کا مسلک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قدم پر ہوتا ہے۔ (انتہیٰ)۔ 

آگے یہ ارشاد ہے کہ خیال ہر چند ایک مُؤثِّرِ عظیم ہے اور کبھی مُصَوِّرِ حقیقت بھی ہوجاتا ہے مگر تم اپنے ہر قسم کے خیالات کو سچے اور مفید نہ سمجھنے لگنا کیونکہ بہت سے خیالات باطل اور لغو بھی ہوتے ہیں۔

9

ہیں مشو غرّہ بداں کہ قابلی مرخیالش رہ دراں رَہ واصلی

ترجمہ: خبردار! تم اس بات سے مغرور نہ ہو کہ تم اس (محبوبِ حقیقی) کے خیال کے قابل ہو۔ اور (اپنے) اس (خیال کی) راہ سے واصِل (بمحبوب) ہو جاؤ گے۔


10

از خیالِ حرب نه هراسید کس لَا شُجَاعَۃَ قَبْلَ حَرْبٍ ایجان بس

ترجمہ: (دیکھو) کوئی شخص جنگ (کے خیال ہی) سے خائف نہیں ہوتا (بلکہ جب فی الحقیقت کوئی جنگ پیش آ جائے تو پھر خوف کا موقع ہو سکتا ہے۔ اسی طرح) اے جان! جنگ سے پہلے بہادری (کا ظہور ممکن) نہیں اور واپس (یعنی جب نہ کوئی دشمن ہو نہ جنگ کا امکان ہو۔ صرف مفہوم جنگ کا خیال باعثِ خوف نہیں ہو سکتا، نہ بلا جنگ صرف مفہومِ شَجَاعَتْ سے کوئی شُجَاع ہو سکتا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ بہت سے خیال فضول، مہمل بھی ہوتے ہیں)۔


11

بَر خیالِ حرب حیز اندر فکر مے کند چوں رستماں صد کَرّوَفَرْ

ترجمہ: (اگر ایسے تَخَیُّلات کچھ حقیقت رکھتے) تو (ایک) ہیجڑا (بھی اپنے) تفکّرات میں جنگ کے خیال پر رُستم جیسے پہلوانوں کی طرح سینکڑوں کرّو فر (کا اظہار) کرتا ہے (حالانکہ ظاہر ہے کہ ہیجڑا نہ شُجاع و بہادر ہوتا ہے نہ رستم کا نمونہ پس اس کا یہ خیال باطل ہے)۔


12

نقشِ رستم که او بحمّامے بود قِرنِ حملہ فِکر ہر خامے بود

ترجمہ: (اگر ہیجڑا اسی بَل بوتے پر بہادر ہے تو پھر) رُستم کی تصویر جو کسی حمّام پر (مُنَقَّش) ہو (ہیجڑے کے سے) ہر ناقص (آدمی) کے فرضی حملہ کی حریف (میدان ہونی کافی) ہے۔

مطلب: یہاں تک وہمی و فرضی خیال اور باطل و بےبنیاد خطرے کا ذکر تھا۔ آگے فرماتے ہیں کہ جب خیال حقیقت کا آئینہ ہو تو پھر وہ بے شک ایک مؤثر چیز ہے۔ پس ایسے خیال کی صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کرو۔


13

ایں خیالِ سمع چوں مُبَصَّر شود حیز چہ بود رُستمے مضطر شود

ترجمہ: (ہاں) جب کانوں (سے سنی ہوئی بات) کا خیال (مثل مُجَسَّمَات) نظر آنے لگے تو پھر ہیجڑے کا تو کیا ذکر ایک رستم بھی مجبور ہو جاتا ہے۔


14

جُهْد کن کز گوش در حشمت رود آنچه باطل می نمودن حق شود

ترجمہ: (پس) تم کوشش کرو کہ کان کے ذریعہ سنی ہوئی بات اگر حق ہو تو تمہاری آنکھ میں (مُجَسَّم) ہو کر (نظر) آ جائے (تاکہ) جو (حق) بات باطل معلوم ہوئی تھی وہ حق (ثابت) ہو جائے (اور جس باطل کے حق ہونے کا شبہ ہوتا تھا وہ باطل ہو جائے)۔


15

زان سِپس گوشت شود ہم طبعِ چشم گوہرے گَرْدَدْ دو گوشِ همچو یشم

ترجمہ: اس کے بعد تمہارے کانوں کی طبیعت آنکھوں کی سی ہو جائے گی۔ تمہارے دونوں کان جو (سنگِ) یَشَمْ کی طرح (معمولی پتھر) تھے موتی بن جائیں گے۔

مطلب: جب تم میں یہ صلاحیت پیدا ہو جائے کہ جو بات کانوں سے سنو اس کو اپنی نظرِ کشف کے سامنے لا کر اس کے حق یا باطل ہونے کا فیصلہ کر سکو تو پھر تمہارے کان بمنزلہ چشم بن جائیں گے۔ یعنی ان کا سننا ایسا ہوگا جیسے کسی چیز کو آنکھوں سے دیکھ لیا۔ ’’یشم‘‘ جو ’’یشب‘‘ کا مُعَرَّبْ ہے ایک پتھر کا نام ہے جو دواؤں میں پڑتا ہے اور دِرَم و مثقال کے وزن سے فروخت ہوتا ہے۔ مگر چنداں زیادہ قیمتی نہیں ہوتا۔ بعض نسخوں میں پشم بباے فارسی بمعنی صوف درج ہے مبالغہ کے لیے کم قیمت ہونے میں یہ مناسب ہے۔ مگر گوہر کے ساتھ جو مناسبت سنگِ یشم کو ہے پشم کو نہیں۔


16

بلکہ جملہ تن چو آئینہ شود جملہ چشم و گوہرِ سینہ شود

ترجمہ: بلکہ تمام جسم آئینے کی مانند ہو جائے۔ سراپا آنکھ اور دل بن جائے (گوہر سینہ سے قلب کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ بچند وجہ (1) قلب کا ذکر مناسب مقام ہے (2) قلب اپنی اہمیت میں بمنزلہ گوہر ہے (3) سینہ اس گوہر کے لیے بمنزلہ صدف ہے)۔

17

گوش انگیزد خیال، و آن خیال ہست دلّالہ وصالِ آن جمال

ترجمہ: کان ایک (بات سن کر اس کے) خیال تحریک کر دیتا ہے جو اس (محبوبِ حقیقی کے) جمال سے واصل ہونے کا ذریعہ ہے۔


18

جُہد کُن تا آن خیال افزون شود تا کہ دلَّالہ رہبرِ مجنوُن شود

ترجمہ: کوشش کرو کہ وہ خیال ترقی کرے تاکہ (وہ خیال) وسیلہ (بن کر معشوق کی طرف جانے کے لیے) عاشق کا رہبر بن جائے (ورنہ ہوس پرستانہ خیالات بےسود ہیں۔ جیسے شاہِ مصر ہوس پرستی کے خیال میں سَرْمَست ہو گیا)۔


19

آں خلیفہ گول ہم یک چند نیز ریش گاوی کرد خوش با آں کنیز

ترجمہ: اس بےوقوف خلیفہ نے بھی کچھ زمانہ خوشی خوشی میں کنیز کے ساتھ (واصل ہونے کی) حماقت (آمیز حرص) کی (اور اس کی یہ ساری سرمستی غرورِ سلطنت سے تھی۔ حالانکہ):۔


20

مُلک را تو مُلکِ شرق و غرب گیر چوں نمی ماند تو آں را برق گیر

ترجمہ: سلطنت کو تم فرض کرو کہ مشرق و مغرب تک کی سلطنت ہو۔ جب وہ قائم نہیں رہتی تو اس کو بجلی (کی چمک) سمجھو (جو بس آئی اور گئی)۔


21

مُلکتے کاں می نماند جاوداں ای دلت خفتہ تو آں را خواب داں

ترجمہ: جو سلطنت ہمیشہ نہیں رہتی اے (مخاطب) جس کا دل سو رہا ہے تم اس کو خواب سمجھو۔


22

تاچہ خواہی کرد آں بادِ بروت کہ بگیرد ہمچو جلاد آں گلوت

ترجمہ: تم اس (سامانِ) غرور کو کیا کرو گے۔ جو جلاد کی طرح تمہارا ٹینٹوا (گلا/حلقوم) دبائے گا۔