دفتر پنجم: حکایت: 177
مراجعت نمودن پہلوان از موصل و صحبت او با کنیزک
پہلوان کا موصل سے واپس آنا اور کنیز کے ساتھ اس کا صحبت کرنا۔
1
باز گشت از موصل و می شد به راہتا فرود آمد به بیشه و مرج گاہ
ترجمہ: (غرض پہلوان اپنی فوج سمیت) موصل سے واپس چلا اور راستہ طے کرنے لگا۔ یہاں تک کہ ایک جنگل اور چراگاہ میں ڈیرا ڈال دیا۔
2
آتشِ عشقش فروزان آنچنانکه ندانست او زمین از آسمان
ترجمہ: اس کے عشق کی آگ اس طرح بھڑک رہی تھی، کہ وہ زمین و آسمان میں تمیز نہیں کر سکتا تھا۔
3
قصد آن مه کرد اندر خیمہ اوعقل کو، و از خلیفه خوف کو؟
ترجمہ: اس نے خیمہ کے اندر اس ماہ (پارہ) کا قصد کیا (اس وقت) عقل کہاں؟ اور خلیفہ کا خوف کہاں؟
4
چوں زند شہوت در این وادی شرارعقل را سوزد در آن شعله چو خار
ترجمہ: جب شہوت اس وادی میں نقارہ بجاتی ہے تو ان شعلوں میں عقل کو کانٹوں کی طرح جلا ڈالتی ہے۔
5
صد خلیفه گشته کمتر از مگسپیش چشمِ آتشینش آن نفس
ترجمہ: اس وقت اس کی آنکھوں کے سامنے جو (غلبہ شہوت سے) لال انگارا تھیں، سو خلیفے مکھی سے بھی حقیر ترین رہے تھے۔
6
چون برون انداخت شلوار و نشستدر میانِ پای زن آن زن پرست
ترجمہ: جب پاجامہ اتار ڈالا اور وہ زن پرست (اس) عورت کے پاؤں کے درمیان بیٹھا۔
7
چون ذَکر سوئے مَقَر میرفت راسترستخیز و غلغل از لشکر بخاست
ترجمہ: جب ذکر اپنے مقام کی طرف سیدھا جانے لگا۔ تو لشکر (میں ایک ناگہانی آفت) سے (شورِ) قیامت اور غل غپاڑہ بلند ہو گیا۔
8
برجهید او کون برهنه سُوی صفذوالفقار همچو آتش او بکف
ترجمہ: (پہلوان یہ شور سُن کر) ننگا دھڑنگا فوج کی طرف اُٹھ دوڑا۔ ایک تلوار (جو چمکنے یا تباہی برپا کرنے میں) آگ کی مانند (تھی) اس کے ہاتھ میں تھی۔ (اب پہلوان سے اس بہادری کا وقوع ہوتا ہے جو اس کا خاص جوہر تھا۔ اور ایسی بہادری کے باوجود روباہ نفس کے آگے اس کا مغلوب ہو جانا افسوسناک سمجھا گیا)۔
9
دید شیرِ نر سیه از نیستاںبر زدہ بر قلبِ لشکر ناگهان
ترجمہ: اس نے ایک سیاہ شیرِ نر دیکھا (جو) سرکنڈے کے جنگل سے (نکل کر) اچانک فوج کے وسطی حصے پر حملہ آور ہوا (شیر عموماً نیستاں یعنی سرکنڈے کے جنگل میں رہتا ہے)۔
10
تازیان چون دیو در جوش آمدههر طویله و خیمه را برهم زدہ
ترجمہ: عربی گھوڑے (اس شیر کی ہیبت سے) دیو کی طرح جوش میں آ گئے۔ اور سینکڑوں رسّیوں اور خیموں کو توڑ مروڑ ڈالا۔
11
شیرِ نَر گنبد همی کرد از لَغَزدر هوا چون موجِ دریا بیست گز
ترجمہ: شیرِ نر شدتِ غضب سے پستی سے (اُٹھ کر) موج دریا کی طرح ہوا میں (بیس) بیس گز (اونچا) اچھلتا تھا۔
12
پهلوان مردانه بود و بی حذرپیشِ شیر آمد چو شیرِ مستِ نَر
ترجمہ: (مگر) پہلوان (بھی) جوانمردوں کا سا (دل گردہ رکھتا) تھا اور بے باک (تھا) وہ شیر کے سامنے ایک مست شیرِ نر کی طرح آیا۔
13
زد بشمشیر و سرش را بر شگافتزود سوی خیمه مه رو شتافت
ترجمہ: تلوار کا وار کیا اور اس کے سر کو دو ٹکڑے کر دیے۔ پھر جلدی ماہِ رُو (معشوقہ) کے خیمے کی طرف دوڑا (جلد دوڑنے کی وجہ ظاہر ہے کہ ادھر کی لو لگ رہی تھی۔ یا یہ کہ ننگے دھڑنگے افسر فوج کا مجمع میں کھڑے رہنا خلافِ تہذیب تھا۔ ورنہ قرینِ قیاس تو یہ تھا کہ گھنٹوں سر پر کھڑا رہتا اور اہلِ فوج سے دادِ شجاعت لیتا۔
14
چونکه او خود را بداں حُورا نمودمردی او همچنان بر پای بود
ترجمہ: جب اس نے اپنے آپ کواس حور کے سامنے پیش کیا۔ تو اس کے آلہ تناسل کی خیزش اسی طرح قائم تھی۔
15
با چنان شیری بحالش گشته جفتمردیِ او ماند برپا و نخفت
ترجمہ: ایسے (ہیبت ناک) شیر کے مقابلہ میں مشغول رہ کر (بھی) اس کی شہوت قائم رہی اور زائل نہ ہوئی۔
16
آن بتِ شیرین لقای ماه رودر تعجب ماند از مردیِّ اُو
ترجمہ: وہ معشوقہ شیریں دیدار والی چاند کے مکھڑے والی۔ اس کی مردانگی سے حیران رہ گئی۔
17
جفت شد با او بشهوت آن زمانمتحد گشتند حالی آن دو جان
ترجمہ: (اس لیے) وہ اس وقت (پوری) خواہش کے ساتھ اس سے لپٹ گئی۔ فوراً نفس اور روح ایک ہو گئے۔
مطلب: کنیز کے دل میں پہلوان کی اس بے نظیر مردانگی کے مشاہدہ سے اس کی طرف میلان پیدا ہو گیا۔ اس لیے بطیبِ خاطر اس سے ملاقی ہوئی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جفت شد کا فاعل پہلوان ہو۔ یعنی وہ اسی وقت کنیز کے ساتھ ہم صحبت ہو گیا۔ مگر اس تقدیر میں کوئی نُدْرَت اور حسنِ ربط نہیں۔ نفس و جان کی تشبیہ اس مناسبت سے دی گئی ہے کہ عربی میں نفس مؤنث اور روح مذکّر ہے۔ پس نفس سے کنیز کو اور جان بمعنی روح سے پہلوان کو تشبیہ دی ہے۔ آگے مولانا اس خصوصی واقعہ سے عمومی احوال کی طرف انتقال کرتے ہوئے عام مرد و عورت کے ملاپ سے بچہ پیدا ہونے کا ذکر فرماتے ہیں۔ اور پھر اس سے اس مضمون کی طرف انتقال کریں گے کہ اسی طرح دنیا میں مختلف اعمال میں مشغول و مباشر رہنے سے گوناگوں نتائج و ثمرات پیدا ہوتے ہیں۔ جو اگلے جہاں میں اہلِ اعمال کے منتظر ہیں۔
18
ز اتصال این دو جان بایک دگرمیرسد از غیب شاں جانی دگر
ترجمہ: ان (کی طرح) دو جانوں کے باہم ملاپ سے غیب سے ایک اور جان ان کے پاس آ جاتی ہے۔
19
رو نماید از طریقِ زادنیگر نباشد از علوقش رهزنی
ترجمہ: جو تَوَلُّد کے طریق سے ظاہر ہوتی ہے، بشرطیکہ اس کے حمل سے کوئی (مرض وغیرہ) مانع نہ ہو۔
20
هر کجا دو کس به مهری یا به کینجمع آید ثالثی زاید یقین
ترجمہ: (اسی طرح) جہاں دو وجود محبت یا عداوت کے ساتھ اکھٹے ہوتے ہیں تو یقیناً ان سے تیسرا (وجود) پیدا ہوتا ہے۔
مطلب: اوپر اجتماعِ اشخاص سے تولّدِ اشخاص کا ذکر تھا۔ یہاں اس بیان سے عام اشیاء کے اجتماع سے ثمرات و نتائج کے تولّد کی طرف انتقال ہے۔ محبت کے ساتھ جمع ہونے کی مثال جیسے زانی زنا کے ساتھ، سارق سرقہ کے ساتھ، میخوار میخواری کے ساتھ رغبت سے مجتمع ہوتا ہے، تو عذابِ آخرت کا نتیجہ پیدا ہوتا ہے۔ عداوت کی مثال جیسے کسی کو ایسے فعل پر مجبور کیا جائے جو اسے ناگوار ہو۔ یا اس کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کیا جائے جو اس پر شاقّ ہو۔ پہلی مثال کسی کو جبراً شریکِ جہاد کرنا، زبردستی زکوٰۃ وصول کرنا، مار کر، باندھ کر نماز پڑھانا ان امور سے بھی عمل کی نوعیت کے مطابق اچھے یا بُرے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ دوسری مثال سارِق کے ہاتھ کاٹنا، زانی کو سنگسار کرنا، میخوار کے دُرّے مارنا وغیرہ اُن کے ساتھ ان حدودِ شرعیہ کے مجتمع ہونے سے بھی مختلف نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ’’دو کس‘‘ سے دو شخص مراد ہوں، تو مِہر کی صورت میں جیسے دو دوست یا دو شریکِ کار جمع ہوتے ہیں اور کین کی صورت میں جیسے دو دشمن متقابل ہوتے ہیں۔ تو ان ساری صورتوں میں ان کے افعال سے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔
21
لیک اندر غیب زاید آن صَورچون روی آن سو ببینی از نظر
22
آن نتائج کز قراناتِ تو زادهین مگرد از هر قرینی زود شاد
ترکیب: تیسرے مصرعہ کا کلمہ آں نتائج مفعول بہ ہے بہ بینی کا جو دوسرے مصرعہ میں ہے۔ پس دوسرا اور تیسرا مصرعہ ایک جملہ ہے اور پہلا اور چوتھا مصرعہ الگ الگ جملے ہیں۔
ترجمہ: لیکن (وہ نتائج ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آ سکتے بلکہ) وہ صورتیں عالَمِ غیب میں پیدا ہوتی ہیں۔ جب تم وہاں جاؤ گے تو (اپنی) نظر سے ان نتائج کو دیکھ لوگے۔ جو مختلف افعال و اعمال کے ساتھ تمہاری ملاقاتوں سے پیدا ہوئے ہیں۔ خبردار! ہر ملاقاتی سے جلدی خوش نہ ہو جایا کرو۔
مطلب: انسان نفس و شیطان کے اغوا سے معاصی و منہیات کا ارتکاب کرتا ہے جس کے نتائج اس کو نظر نہیں آتے۔ حالانکہ وہ نتائج بھیانک صورتوں اور ڈراؤنی شکلوں میں عالمِ غیب کے اندر پیدا ہو کر موجود رہتے ہیں۔ کوئی انسان خطاکار اس دھوکے میں نہ رہے کہ میں جو کچھ گناہ کرتا ہوں وہ اپنی لذّت دے کر غائب و فنا ہو جاتا ہے، بلکہ ہر گناہ کا مُجَسَّم نتیجہ وہاں پیدا ہو جاتا ہے۔ ’’حُجَّۃُ اللہِ الْبَالِغَۃُ‘‘ میں یہ بحث ایک مستقل فصل میں لکھی گئی ہے کہ کس طرح انسان کے اعمال کے نتائج مُجَسَّمَات کی شکل میں پیدا ہو جاتے ہیں اور اس کے نظائر احادیث سے پیش کئے ہیں۔ انسان کو لذّت بخش گناہوں سے خوش نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ ان کے نتائج سے ڈرنا چاہیے۔
23
منتظر می باش آن میقات راصِدق دان الحاقِ ذُرِّیّات را
ترجمہ: تم اس وعدہ گاہ کے منتظر رہو۔ (جہاں ان نتائج کی صورتوں کو دیکھوگے اور) اولاد کے لاحق کئے جانے (کے ارشادِ الہیٰ) کو سچ سمجھو۔
مطلب: اس میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمانٍ أَلْحَقْنا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَما أَلَتْناهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْء۔۔۔﴾’’اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کرتی رہی، ان کی اولاد کو ان کے ساتھ لے جا کر شامل کریں گے اور جنتیوں کے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کریں گے۔‘‘ (الطور: آیت نمبر21)۔
24
کز عمل زاینده اند و از عللهر یکی را صورتِ نطُق و کلل
ترجمہ: (وہ نتائج) وہ (نیک) عمل اور (بُرے اعمال کی) عِلَّتوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ ہر ایک کو گویائی و بستگی زبان کی صورت (حاصل) ہے۔
مطلب: بے زبان و غیر ناطق چیز کو گونگی نہیں کہا جاتا۔ بلکہ گونگا اسی کو کہا جاتا ہے جس میں فطرتاً گویائی کی صلاحیت ہو مگر کسی عارضے سے وہ بستہ زبان رہ جائے۔ فرماتے ہیں کہ اعمال کے نتائج نہ صرف مجسم ہوں گے۔ بلکہ بولنے والے بھی ہونگے اور نہ بولنے کی صورت میں بَسَتَہ زبانی سے موصوف ہوں گے۔ جو ان کے فطرتاً گویا و مُتَکَلّم ہونے کی دلیل ہے۔ جیسے حدیث میں آیا ہے کہ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کا مال قیامت کے روز ایک گنجے سانپ کی شکل میں اس کے گلے کا ہار ہوگا اور اس کے منہ کو کاٹ کاٹ کر کہے گا: ’’اَنَا مَالُکَ، اَنَا کَنزُکَ‘‘ یعنی میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔
25
بانگِ شاں در میرسد ز آن خوش خِصالکای زما غافل! هلا زُوتر تَعَال
ترجمہ: (غیب کی) ان عجیب (و غریب) ڈولیوں سے ان (ثمراتِ اعمال) کی آواز آ رہی ہے کہ اے ہم سے غافل رہنے والے! ہاں ہاں! جلدی چلا آ۔
26
منتظر در غیب جانِ مرد و زنمُول مُولت چیست روتر گام زن
ترجمہ: غیب میں مرد و زن کی روحیں تیری منتظر ہیں۔ تو تَوَقُّف کیوں کر رہا ہے؟ جلدی قدم اٹھا (آگے پھر قصہ چلتا ہے)۔
27
راہ گُم کرد او از آن صبحِ دروغچون مگس افتاد اندر دیگِ دوغ
ترجمہ: (اس پہلوان) نے اس صبحِ کاذب (کے دھوکے) سے راستہ گم کر لیا۔ مکھی کی طرح (دودھ کے دھوکے میں) لسّی کی دیگ میں گِر پڑا۔
مطلب: کوئی مسافر صبحِ کاذب کو صبحِ صادق سمجھ کر چل پڑتا ہے تو اس کے بعد جب دوبارہ تاریکی چھا جاتی ہے جو اس صبح کے ساتھ لازم ہے تو وہ راستہ بھول جاتا ہے۔ اسی طرح یہ پہلوان نفس کی ترغیب سے کنیز کی قربت کا شائق ہو گیا۔ حالانکہ فعلِ زنا ایک شدید معصیت تھی۔ جس کے بعد دنیا میں ظلمتِ قلب اور آخرت میں عذاب و عتاب لازم ہے۔ گھڑی بھر کی لذّت کا نتیجہ لاکھوں برس کا دکھ ہے۔ کسی بزرگ نے سچ فرمایا ہے
فَلَا تَقرَبِ الْأَمْرَ الحَرَامَ أَنَّحُلَاوَتَہ تَفنیٰ وَیَبقٰی مَرِیرُھَا
یعنی ’’حرام کام کے پاس نہ پَھٹکو، کیونکہ اس کی شیرینی ختم ہو جاتی ہے اور تلخی ہمیشہ کے لیے رہ جاتی ہے‘‘۔