دفتر 5 حکایت 176: حاکمِ موصل کا خلیفہ کے لیے اس کنیز سے دست بردار ہونا تاکہ مسلمانوں کی زیادہ خونریزی نہ ہو

دفتر پنجم: حکایت: 176


ایثار کردنِ صاحبِ موصل آن کنیزک را بخلیفہ تا خونریزیِ مسلماناں زیادہ نہ شود

حاکمِ موصل کا خلیفہ کے لیے اس کنیز سے دست بردار ہونا تاکہ مسلمانوں کی زیادہ خونریزی نہ ہو۔


1

چون رسول آمد به پیشِ پهلوان گفت پیغامِ ملک اندر زمان

ترجمہ: جب شاہِ موصل کا قاصد جرنیل کے پاس آیا تو فوراً بادشاہ کا پیغام دیا۔


2

گفت من نہ مُلک میخواهم نہ مال لیک میخواهم یکی صاحب جمال

ترجمہ: (اس کے جواب میں) جرنیل نے کہا میں نہ مُلک چاہتا ہوں نہ مال، بلکہ مجھے ایک حسینہ مطلوب ہے۔


3

داد کاغذ کاندرو نقش و نشاں گفت پیشش بر بگو او را عیان

ترجمہ: (ساتھ ہی اس قاصد کو ایک) کاغذ دیا جس میں (اس حسینہ کنیز کی) تصویر اور نام (درج) تھا۔ (اور) کہا اس کے سامنے یہ صاف طور پر کہہ دینا کہ:۔


4

کاندرین کاغذ نگر چه صورت ست زد بفرستش کہ ملک و جانت است

ترجمہ: کہ اس کاغذ میں دیکھو کس کی تصویر ہے۔ اس کو جلدی بھیج دو تاکہ تمہاری بادشاہی اور جان بچ جائے۔


5

این کنیزک خواهم او را طالبم هیں بدہ ورنہ من اکنون غالبم

ترجمہ: میں یہ کنیز (یعنی) چاہتا ہوں۔ اس کا میں طالب ہوں۔ خبردار! اس کو جلد حوالہ کر دو، ورنہ میں ابھی (تم پر) غالب ہو جاؤں گا۔


6

چون رسولش باش گشت و گفت حال داد کاغذ را و بنمود آن مثال

ترجمہ: جب اس کا قاصد واپس گیا اور حال بیان کیا۔ (ساتھ ہی وہ) کاغذ دیا اور (کنیز کی) وہ تصویر دکھائی۔


7

گشت معلومش چه گفت آن شاه نر صورتی کم گیر و زود او  را ببر

ترجمہ: تو اسے (سب حال) معلوم ہو گیا (اس کے جواب میں) اس جوانمرد بادشاہ نے کیا (اچھا فقرہ) کہا (کہ) ایک (دلرُبا) صورت (ہمارے محلّات میں نہیں تو نہ سہی)جلدی اس کو لے جاؤ۔

عبرت: شاہِ مصر کا عہدہ دار شاہِ موصل کو قتل و غارت کی دھمکی دے کر مجبور کر رہا ہے کہ اپنی کنیز اس کے حوالے کر دے اور وہ کہتا ہے چلو! لے جاؤ۔ متکبر، نفس پرست لوگوں کی نظر میں یہ کمال کمزوری و بزدلی ہے۔ کہ جنگ کی دھمکی سے ڈر کر اپنے حَرَم کی ایک کنیز کو حَریف کے حوالے کر دیا جائے۔ خصوصاً جب حریف بھی ہمرتبہ بادشاہ نہیں، بلکہ بادشاہ کا ایک ملازم ہو۔ مگر مولانا اس کو شاہِ نر کا خطاب دیتے ہیں۔ یہ اختلاف نقطۂ نظر کے اختلاف پر مبنی ہے۔ متکبر لوگوں کے نزدیک اپنے نفس کی سرنگونی کمالِ ذلت ہے۔ اس لیے اس کو سربلند رکھنا اور اس کی سربلندی کے لیے جان تک دے دینا مردمی سمجھتے ہیں۔ بخلاف اس کے مولانا کے نزدیک نفس کو پست و ضعیف اور ذلیل وخوار ہونے دینا ہر چند سخت ناگوار اور شاق و تلخ اور ناقابلِ عمل ہے، مگر اس کو برداشت کرنا ہی کمال مردی ہے اور یہ وہ روحانی قوت ہے جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ شاہِ موصل سے اس قوت کا ظہور ہوا۔ اس لیے مولانا نے اس کو "نَر" کا خطاب بخشا ہے۔ احادیث بھی مولانا کی اس تعلیم کی مُؤیّد ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:  ’’اَلاَ اُخبِرُکُم بِاَھلِ الجَنَّۃِ کُلُّ ضَعِیْفٍ مُّضَعَّفٍ لََوْ اَقسَمَ عَلیَ اللہ لَاَبرَّہُ‘‘ یعنی کیا میں تم کو اہلِ جنت کا پتہ نہ بتاؤں۔ ہر کمزور آدمی جس کو لوگ کمزور سمجھیں۔ اگر وہ اللہ پر قسم کھائے تو وہ اسے ضرور پورا کرے۔ (مشکوٰۃ) اور فرمایا: ’’بِئْسَ العَبدُ عَبدٌ تَخَیَّلَ وَ اختَالَ وَ نَسِیَ الکَبِیرَ المُتعَالِ، بِئْسَ العَبدُ عَبْدٌ تَجَبَّرَ وَ اعْتَدٰی وَ نَسِیَ الْجَبَّارَ الْاَعْلیٰ، بِئْسَ الْعَبدُ عَبدٌ سَھَا وَ لَھَا وَ نَسِیَ اَلمُقَابِرَ وَ الْبَلیٰ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ عَتَا و طَغٰی وَ نَسِیَ اَلمُبتَداءَ و المُنتَھٰی۔‘‘ 

برا بندہ وہ ہے جس نے (خود پسندانہ) خیال کیا اور تکبر کیا۔ اور خداوندجی  بزرگ و بلند قدر کو بھول گیا۔ بُرا بندہ وہ ہے جس نے گردن کشی اور زیادتی کی۔ اور خداوند زبردست و اعلیٰ کو بھول گیا۔ بُرا بندہ وہ ہے جو (دین کے کام کو) بھول گیا اور (دنیا کے کاموں میں) مگن رہا اور قبروں (میں داخل ہونے) اور بوسیدہ ہو جانے کو بھلا بیٹھا۔ بُرا بندہ وہ ہے جس نے فساد برپا کیا اور وہ حد سے بڑھ گیا۔ اور اپنے آغاز پیدائش اور انجامِ (زندگی) کو بھول گیا۔" (مشکوٰۃ) الغرض شاہِ موصل کہتا ہے:۔


8

من نیم در عهدِ ایشان  بُت پرست بُت  بر آنِ بت پرست اولیٰ تر است

ترجمہ: میں ایمان کے اقرار میں بت پرست (ہونا) نہیں (چاہتا اس) بت کو اس بت پرست کے پاس (جانا ہی بہتر ہے)۔


9

با تَبَرُّک داد دختر را و بُرد سُوی لشکر گاہ و در ساعت سپرد

ترجمہ: تحفہ کے ساتھ لڑکی (قاصد کو) دی اور وہ (اسے) لشکر گاہ کی طرف لے گیا۔ اور اسی وقت (سپہ سالار کے) حوالہ کی۔

10

روی دختر چون بدید آن پهلوان گشت عاشق برجمالش در زمان

ترجمہ: پہلوان نے جب اس لڑکی کا چہرہ دیکھا تو فوراً اس کے حسن پر عاشق ہو گیا۔ (آگے مولانا عشق کی ہمہ گیری کا ذکر فرماتے ہیں):۔


11

عشق بحری آسمان بر وی کفی چون زلیخا در هوای  یوسفی

ترجمہ: عِشق ایک (وسیع) سمندر ہے (اور) آسمان اس پر جھاگ (کی مانند) ہے (جو) زُلیخا کی طرح کسی یوسف علیہ السلام کے عشق میں (سرگردان ہے)۔


12

دورِ گردون ہا ز موجِ عشق دان چون نبود عشق بفسردی  جهان

ترجمہ: آسمانوں کی گردش عشق (کی وجہ) سے سمجھو۔ اگر عشق نہ ہوتا تو جہان ٹھنڈا پڑ جاتا۔


13

کی جمادی  محو گشتی در نبات کی فدای روح گشتی نامیات

ترجمہ: (پھر) کوئی جماد نباتات میں کب محو ہوتا۔ نشوونما پانے والی اشیا روح پر کب فدا ہوتیں۔

مطلب: زمین سے ارضی اجزاء جو جمادات کی قسم سے ہیں نباتات کی غذا بنتے ہیں۔ اور حیوانات اور نباتات جو نشوونما پانے والی مخلوق ہیں۔ اپنے اندر روحِ حیوانی و روحِ نباتی کو اخذ کرتی ہیں۔ پس یہ تجاذُب عشق ہی کا نتیجہ ہے۔ 


14

روح کی گشتی فدای آدمی کز نسیمش حامله شد مریمی

ترجمہ: (پھر) روح حضرت آدم علیہ السلام پر کب فدا ہوتی۔ (جوان کے پُتلے میں داخل ہو گئی اور) جس کی پاکیزہ ہوا سے حضرت مریم علیہ السلام حاملہ ہوئیں۔ (آدم علیہ السلام کے وجود میں روح پڑنے اور مریم علیہ السلام کے حاملہ ہونے کے لیے قرآن مجید میں ’’نَفَخَ‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ یعنی پھونکنا۔ لہٰذا یہاں روح کے لیے نسیم کا کلمہ استعمال ہوا)۔


15

هر یکی برجا فسردی همچو یخ کی بُدی پرّان و جویان چو ملخ

ترجمہ: (پھر تو) ہر ایک چیز (اپنی اپنی) جگہ پر یخ کی طرح ٹھنڈی پڑی رہتی۔ وہ کب ٹڈی کی طرح اڑنے اور (روح یا قالب کو) تلاش کرنے والی ہوتی۔

16

ذرّہ ذرّہ عاشقانِ آن جمال می شتابد در عُلو همچون نهال

ترجمہ: اس جمالِ احدیت کے عاشقوں کا ایک ایک ذرہ بلندی کی طرف متوجہ ہے۔ جس طرح بوٹا (رو در آسمان ہوتا ہے)۔


17

سَبَّحَ لِلہِ هست اشتا باتشان تنقیه تن میکنند از بهرِ جان

ترجمہ: ان (ذروں) کی تیز روئی (گویا) اللہ تعالیٰ کی تسبیح ہے۔ جو روح کے لیے بدن کو صاف کر (کے اس کے لائق بناتی) ہے۔

مطلب: اشارہ بآیت: ﴿سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ(سورة الحشر:١) ’’جتنی چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جس قدر زمین میں ہیں سب اللہ کی تسبیح پڑھتی ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘ اس آیت سے ثابت ہے کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اللہ کی تسبیح پڑھتا ہے اور تسبیح وغیرہ اذکار کا جسم کو مَہْبَطِ انوار و برکات بنانا بھی مُسَلّم ہے، جس سے جسم کو روح کے ساتھ مناسبت حاصل ہو جاتی ہے۔ آگے پھر قصّہ چلتا ہے۔


18

پهلوان چَہ را چو رَہ پنداشته شورہ اش خوش آمدہ حب کاشتہ

ترجمہ: پہلوان نے (کنیز پر فریفتہ ہو کر غلبۂ نفس سے معصیت کے) کنوئیں کو (سیدھے) راستے کی مانند سمجھ لیا (خیانت کی)  زمین اسے پسند آ گئی (اس میں) بیچ بونے لگا۔

19

چون خیالی دید آن خفته بخواب جفت شد با او و از وی رفت آب

ترجمہ: (اس کی وہی مثال تھی) جیسے کسی سونے والے نے خواب میں ایک خیالی شکل دیکھی اس کے ساتھ جماع کیا اور اس کی منی بہہ نکلی۔

انتباہ: یہاں تک قصّہ کا اتنا حصّہ مقصود تھا ختم ہو چکا یعنی جسمانی پہلوان کے نفس کے آگے ضعیف ہونے کی نظیر۔ آگے مولانا جو کچھ بیان فرمائیں گے وہ اس قصّے کی تکمیل و تتمیم ہے۔


20

چون بجَست از خواب و شد بیدار زود دید کان لعبت به بیداری نبود

ترجمہ: جب خواب سے اٹھا اور جلدی بیدار ہوا تو دیکھا کہ وہ (خیالی) پُتلی بیداری میں (موجود) نہ تھی۔

21

گفت بر هیچ آبِ خود بُردم دریغ عشوهٔ آن عشوہ دِہ خوردم دریغ

ترجمہ: تو کہنے لگا: افسوس! میں نے ایک ناچیز پر اپنا مادہ منی ضائع کیا۔ افسوس! اس فریب دینے والی (خیالی صورت) سے فریب کھایا۔

مطلب: پہلوان پر یہ مثال اس طرح صادق آتی ہے کہ جس طرح احتلام والا ایک خیالی صورت کو اپنی محبوبہ سمجھنے میں غلطی کرتا ہے اور ناپاکیٔ بدن، نجاستِ جامہ، زحمتِ غسل اور بسا اوقات تاخیرِ نماز کا فضول نقصان اٹھاتا ہے۔ اسی طرح اس پہلوان نے بادشاہ کی محبوبہ کو اپنی محبوبہ سمجھنے اور زینتِ آغوش بنانے میں سخت غلطی کی اور اپنے لیے عتابِ شاہی کی تباہ کُن بَلا کا سامان کر لیا۔ در حقیقت وہ پہلوان جسمانی بازو کا پہلوان تھا۔ اور روحانی طاقت میں اپنے نفس کے آگے ایک مَوْرِ ضعیف سے زیادہ طاقت نہیں رکھتا تھا۔ اور یہی مقصد مولانا کا اس بیان سے ہے چنانچہ فرماتے ہیں:۔


22

پهلوانِ تن بُد او مردی نداشت تخم مردی در زمینِ ریگ کاشت

ترجمہ: وہ جسمانی (طاقت میں) پہلوان تھا۔ (روحانی) مردانگی نہیں رکھتا۔ اس نے مردانگی کا بیج ریتلی زمین میں بو دیا۔

23

مَرْکَبِ عشقش دریده صد لگام نعرہ میزد لَآ اُبَالِی کالحِمَامِ

ترجمہ: اس کے عشق کے گھوڑے نے (تُندی و سرکشی سے) سو لگام توڑ ڈالے۔ وہ نعرہ مارتا تھا کہ مجھے موت کی پرواہ نہیں۔


24

اَیشَ اُبَالِی بِاالخَلیَفۃ فِی الھَوٰی فَاستَویٰ عِندی وُجُودِی وَالتَّوٰی

ترجمہ: میں عشق (کے معاملہ) میں خلیفہ کی کیا پروا کرتا ہوں۔ پس میرے نزدیک میرا وجود اور موت برابر ہے۔ (آگے مولانا فرماتے ہیں)۔


25

اینچنین سوزان  و گرم آخر مکار مشورت کُن با یکی  دانسته کار

ترجمہ: (ارے پہلوان!) آخر اس طرح شعلہ انگیزی و سرگرمی سے (یہ بیج) نہ بو۔ کسی ایک تجربہ کار سے مشورہ (بھی) کر لے (اب مولانا خود ہی جواب دیتے ہیں)۔


26

مشورت کو؟ عقل کو؟ سیلابِ آز در خرابی کرد ناخنها دراز

ترجمہ: (اجی جناب!) کہاں کا مشورہ؟ (اور) کس کی عقل؟ (یہاں تو) ہِوس کے سیلاب نے (آبادی کو) ڈھانے (اور بہانے) میں ناخن دراز کر رکھے ہیں۔

مطلب: پہلوان پر شہوت غالب ہے جو اس کی تباہی پر تُلی ہوئی ہے۔ اب وہ کسی عقل و ہوش کا مشورہ سننے والا نہیں۔ اس شعر میں استعارہ در استعارہ استعمال ہوا ہے۔ پہلوان کی شہوت کو پہلے سیلاب سے تشبیہ دی جو اس کی عمارت کو تہہ و بالا کر رہا ہے اور پھر سیلاب کو ایک درندے سے تشبیہ دی جس نے پہلوان کی عافیت و امن کو جھنجھوڑنے کے لیے پنجے کھول رکھے ہیں۔ واضح رہے کہ ان اشعار میں پہلوان کی عافیت و سلامتی کا خطرہ میں پڑنا بر بنائے قیاس مذکور ہے۔ یعنی قیاس یہی چاہتا ہے کہ پہلوان کا یہ فعل اس کی تباہی کا باعث ہو۔ اس نے کام ہی ایسا کیا ہے۔ جس کا انجام سوائے بربادی کے اور کچھ نہیں۔ لیکن آگے چل کر صورتِ واقعہ یہ آئے گی کہ شاہِ مصر نے اس کو معاف کر دیا۔


27

بَینَ اَیدِی سَدّ و سوی خلف سَد پیش و پس کی بیند آن مفتون خدّ

ترجمہ: اس کے سامنے (ہوس کی) دیوار ہے اور پیچھے کی طرف دیوار ہے۔ اب وہ (کنیز کے) رُخسار کا فریفتہ آگے پیچھے کب دیکھتا ہے۔ (اقتباس از آیت:)۔ ﴿وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا(سورة یٰس:٩)۔ 


28

آمدہ در قصدِ جان سیلِ سیاہ تا که رُوبه افگند شیری بچاہ

ترجمہ: اس کی جان (لینے) کے قصد میں (بلا کا) سیاہ سیلاب آ گیا۔ تاکہ ایک لومڑی شیر کو کنوئیں میں گرا دے۔

مطلب: یہاں بَلا کی ہیبت اور روباہ کی حقارت میں کوئی تعارض نہیں۔ بلکہ لومڑی سبب ہے اور بلا مُسَبّب اس لیے دونوں کے وجود بجائے خود الگ الگ محقق ہیں۔ لومڑی حقیر ہے اور جو بَلا اس کے مکر سے نازل ہونے والی ہے وہ مُہِیب ہے۔ پہلوان ایک شیر تھا۔ کنیز کے وصال کی ہوس ایک لومڑی تھی۔ جو اس شیر کو عتابِ شاہی کے کنوئیں میں گرانا چاہتی ہے اور وہ عتاب و عذاب ایک بلائے مہیب ہے اور اس میں تلمیح ہے شیر و خرگوش کے قصّے کی طرف جو مثنوی کے دفترِ اوّل میں گذر چکا ہے کہ ایک مکّار خرگوش نے شیر کو کہا کہ کنوئیں میں ایک شیر آ گیا جو آپ کا حریف ہے۔ اس کے کہنے پر شیر نے کنویں میں جھانکا تو اسے اپنا عکس دکھائی دیا۔ سمجھا واقعی کوئی شیر آ گیا۔ جو جنگل کی بادشاہی میں میرا حریف بننا چاہتا ہے۔ شیر نے اس کو للکارا تو کنوئیں کے اندر سے بھی للکارنے کی آواز آئی۔ اب شیر سے ضبط نہ ہو سکا۔ حملہ آور ہونے کے لیے دھڑام سے کنوئیں میں کود گیا اور ہلاک ہو گیا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:۔


29

از چہی بنمود معدومی خیال در چه اندازد اُسُوداً کَالجِبَالِ

ترجمہ: ایک کنوئیں سے کسی غیر موجود چیز کا خیال ظاہر ہوتا ہے جو پہاڑ کے سے (مضبوط و ثابت قدم) شیروں کو کنویں میں گرا دیتا ہے۔

انتباہ: یہاں تک کس قدر خرابیاں اس واقعہ میں رونما ہوئیں؟ (1) شاہِ مصر کا تصویرِ کنیز دیکھ کر بیٹھے بٹھائے مبتلائے عشق ہونا (2) اہلِ موصل کی ناکردہ گناہ خونریزی (3) شاہ موصل کا اپنے حرم سے ایک کنیز کو غنیم کے حوالے کر دینے پر مجبور ہونا (4) پہلوان کا پہلوانِ ہوس کے آگے چاروں شانے چت گرنا (5) اس کے اپنے بادشاہ کی محبوبہ پر دستِ خیانت دراز کرنے کی جرات کرنا (6) اپنے لیے شدید بلاؤں کے اسباب قائم کرنا۔ ان خرابیوں میں ایک ایک خرابی سخت تاسف خیز اور عبرت ناک ہے اور یہ تمام خرابیاں صرف ایک اخلاقی فر و گذاشت سے پیدا ہوئیں۔ یعنی عورت ذات کی بےپردگی سے، نہ شاہ موصل اپنے حرم کی کنیز کی تصویر اغیار کے ہاتھ میں دیتا نہ موصل کی سرزمین بے گناہوں کے خون سے لالہ زار ہوتی۔ نہ شاہِ مصر پہلوان کو اپنی محبوبہ کے برافگندہ نقاب لانے پر مامور کرتا نہ کنیز کے ناموس اور پہلوان کی عافیت کا یہ حشر ہوتا۔ اس لیے اب مولانا فرماتے ہیں:۔

30

هیچ کس را با زنان محرم مدار کہ مثالِ این دو پنبہ است و شرار

ترجمہ: کسی شخص کو (اپنی) عورتوں کا محرم نہ بناؤ (جیسے کہ شاہِ مصر نے غلطی سے پہلوان کو کنیز کا محرم بنا دیا) کیونکہ اس کی مثال روئی اور آگ کی سی ہے۔ سعدیؒ 

چو مستور باشد زنِ خوبروی بدیدار او در بهشت است شوی

چو زن راہِ بازار گیرد بزن و گرنه تو خانه بنشین چو زن

چو در روی بی گانہ خندید زن دگر مرد گو لافِ مردی مزن

بپو شانش از مرد بی گانہ روی و گر نشنود چہ زن آنگه چه شوی


نظامیؒ

زن آن بہ کہ در پردہ پنهان بود کہ آهنگ بی  پردہ افغان بود

چہ خوش گفت جمشید بارای زن کہ یا پردہ یا گور بہ جای زن

مشو ایمن از زن کہ زن پارسا ست که خر بستہ بہ گرچہ دزد آشنا ست

زنی کو نماید بہ بیگانہ روی ندارد شکوہِ خود و شرم شوی


31

آتشی باید نشسته ز آبِ حق همچون یوسف معتصم اندر رهق

ترجمہ: (ہاں اگر مجبوراً کسی اجنبی مرد کو عورتوں کے پاس آنا جانا ہی پڑے تو مرد کی شہوت کی) آگ (خوفِ) حق کے پانی سے بجھی ہونی چاہیے۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام (جو زلیخا کے) قرب میں (بھی) پاکدامن (رہے)۔


32

کز زُلیخای لطیفِ سرو قد همچو شیران خویشتن را واکند

ترجمہ: جو زُلیخا (کی سی) پاکیزہ (اور) سر و قد (عورت کے قرب) سے اپنے آپ کو شیروں کی طرح الگ کر لیتے ہیں (آگے اتباعِ مرشد کی ہدایت فرماتے ہیں)۔


33

نفس خود را کی توان کردن زبون جز به امدادِ عُقُولِ ذو فنون

ترجمہ: اپنے نفس کو اہلِ کمالات بزرگوں کی عقول کی امداد کے بغیر کب مغلوب کر سکتے ہیں۔ (نفس کے مغلوب کرنے کی بہترین تدبیر صحبتِ شیخ ہے)۔


34

جانبِ اتمامِ قصہ باز ران کاین سخن پایان ندارد پهلوان

ترجمہ: اے پہلوان! قصّہ کو ختم کرنے کی طرف توجہ کرو۔ کیونکہ اس بحث کا خاتمہ نہیں (الحاقی شعر معلوم ہوتا ہے)۔