دفتر پنجم: حکایت: 174
حکایت آن که از همیان سیم هر روز یک درهم در خندق افگنی به تفاریق از بهر ستیزه با نفس حرص ورزد و سرزنش نفس که چون اندازی یک با انداز تا از این ماجرا خلاصی یابم که ﴿اَلْیَاْسُ اِحْدَی الرَّاحَتَیْنِ﴾ وجواب او
اس مجاہد (صوفی) کی کہانی جو ہمیانی (تھیلی) سے ہر روز ایک درہم خندق میں گرا آتا تھا آہستہ آہستہ حرص کو ترقی دینے والے نفس کی مخالفت سے اور اس کو نفس کا ملامت کرنا کہ جب تو گراتا ہے تو یکباری گرا دے تاکہ اس جھگڑے سے میں چھوٹ جاؤں، کیونکہ "ناامیدی دو راحتوں میں سے ایک ہے" اور اس کا (عملی) جواب۔
مطلب: اَلیَاسُ۔۔۔ الخ یہ ایک مشہور مقولہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مرادمندی دل کے لیے راحت ہے تو اس سے ناامید ہو جانا دوسری راحت ہے۔ جو امید میں پڑے پڑے ایڑیاں رگڑنے سے نجات دلاتی ہے۔
1
آن یکی بودش بکف در چل درمهر شب افگندی یکی در آبِ یم
ترجمہ: ایک (صوفی) کے ہاتھ میں چالیس درم تھے وہ ہر شب ایک درم دریا کے پانی میں گرا دیتا تھا۔
2
تا که گردد سخت بر نفسِ مجازدر تأنی دردِ جان کندن دراز
ترجمہ: تاکہ جھوٹے نفس پر جان کنی کی تکلیف آہستگی کی وجہ سے سخت ہو جائے۔
3
نفس او فریاد کردی هر شبیدر فتادی راز در تاب و تبی
ترجمہ: ہر شب اس کا نفس فریاد کرتا (اور صوفی کے اس فعل سے) بُری طرح تکلیف و اذیت میں پڑ جاتا۔
4
که چرامی نفگنی یکبارگیکشتی ام در غصه و بیچارگی
ترجمہ: کہ ارے (صوفی) ایک ہی مرتبہ کیوں نہیں گرا دیتا، تو نے مجھے غصہ و بیچارگی سے مار ہی ڈالا۔
5
بهرِ حق یکبارگی بگذار دَیننفس را کالیأسُ اِحدی الرَّاحَتَین
ترجمہ: خدا کے لیے نفس کا قرض یکبارگی اتار دے، کیونکہ ناامیدی دو راحتوں میں سے ایک ہے۔
6
او نگشتے ملتفت مر نفس راهمچنین کشتی مر او را در عنا
ترجمہ: وہ نفس کی (ان باتوں کی) طرف التفات نہ کرتا اور اسے اسی طرح تکلیف میں مارتا۔
7
همچنین آن صوفی اندر وقتِ جنگبهرِ حق بگرفته بُد بر نفس تنگ
ترجمہ: اسی طرح وہ صوفی جنگ کے وقت حق تعالیٰ (کی رضا) کے لیے نفس کو تنگ کرتا تھا۔
8
با مسلماناں بکر در پیش رفتوقت فرّا دو انگشت از خصم تفت
ترجمہ: وہ حملے میں مسلمانوں کے ساتھ جاتا تھا (اور مسلمانوں کی) پسپائی کے وقت وہ دشمن سے پیچھے نہیں ہٹا۔
9
زخمِ دیگر خورد آن را هم بہ بستبیست کرت تیغ و رمح از وی شکست
ترجمہ: دوسرا زخم کھایا اور اس کو بھی باندھ لیا۔ بیس مرتبہ تلواریں اور نیزے اس سے ٹوٹ گئے۔
10
بعد از آن قوت نماند افتاد پیشمقعدِ صدق اوز صدقِ عشقِ خویش
ترجمہ: اس کے بعد اس کی طاقت نہ رہی (اور) وہ اپنے عشق کی سچائی سے سچائی کی فرودگاہ کے سامنے گر پڑا۔
مطلب: یعنی جب وہ مجاہد بے تاب ہو کر گرا اور شہید ہوا تو وہ مقعدِ صدق میں تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِيكٍ مُّقْتَدِرٍ﴾ "سچی (عزت کی) جگہ میں بادشاہ (دو جہان) قادر (مطلق) کے مقرب ہوں گے"۔(سورۃ القمر، آیت نمبر 3)
11
صدق جان دادن بود هیں سَابِقُوااز نبی بر خوان رِجَال صَدَقُوا
ترجمہ: راہِ خدا میں جان دینا صدق ہے۔ ہاں! آگے بڑھو (اور جان دے دو) قرآن مجید سے رِجَال صَدَقُوا (کی آیت) پڑھو۔
مطلب: یہ اس آیت کی طرف اشارہ ہے: ﴿مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا﴾ "(انہی) مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ خدا کے ساتھ انہوں نے جو (جانثاری کا) عہد کیا تھا اس میں سچے اترے۔ (سو بعض تو) ان میں سے ایسے تھے جو اپنی منت پوری کر گئے (یعنی شہید ہو گئے) اور بعض ان میں سے ایسے ہیں جو (شہادت کے) منتظر ہیں اور انہوں نے (اپنی بات کو) ذرا سا بھی رد و بدل نہیں کیا" (سورۃ الاحزاب، آیت نمبر 3) آگے فرماتے ہیں کہ جہادِ اکبر اور جہادِ اصغر میں تکالیف سہنا اور قتل ہونا نفس کو فنا کرنے کے لیے ہے نہ کہ جسم کو، اگر اس سے فنائے نفس مقصود نہیں تو ہر قسم کے مجاہدات و جہاد بےسود ہیں۔
12
این همه مُردن ز مرگِ صورت ستاین بدن مر روح را چون آلت ست
ترجمہ: یہ (جنگ و جہاد کی) تمام موتیں کوئی جسم ہی کی ہلاکت نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ جسم تو روح کے لیے بمنزلہ آلہ (اور زائد چیز) ہے۔ (اس کے ہلاک سے کیا حاصل۔ بلکہ نفس کو ہلاک کرنا مقصود ہے)
13
ای بسا خامی که ظاهر خویش ریختلیک نفسِ زندہ آنجانب گریخت
ترجمہ: ارے بہتیرے ناقص لوگ ہیں۔ جنہوں نے اپنا ظاہری (وجود خاک ہلاک پر) گرا دیا۔ لیکن (ان کا) نفس زندہ ادھر (دوسرے عالم میں) بھاگ گیا۔ (ان کو اپنے جہاد سے کوئی مفید ثمرہ نہ ملا)
14
آلتش بشکست و رهزن زندہ ماندنفس زندہ است ارچه مرکب خون فشاند
ترجمہ: رہزن کا ہتھیار ٹوٹ گیا اور وہ خود زندہ رہ گیا (یعنی) نفس زندہ ہے اگرچہ اس کا گھوڑا مر گیا (اس طرح جہاد کرنے اور مارے جانے سے کیا فائدہ)
15
اسپ کُشت و راہِ او رفتہ نشدجُز کہ خام و زشت و آشفتہ نشد
ترجمہ: (اپنا) گھوڑا ہلاک کر لیا۔ اور (ابھی) اس کا راستہ طے نہیں ہوا (ایسی صورت میں) وہ سوائے ناقص و بدحال و پریشان کے اور کچھ نہیں۔
مطلب: خلوص و ارادت کے ساتھ اعمالِ حسنہ بجا لانے کا جو فرض اس کے پیشِ نظر تھا وہ ابھی ادا نہیں ہوا اور نہ جہاد میں رضاءِ حق مقصود تھی بلکہ محض شہرت حاصل کرنا اور مالِ غنیمت سے متمتع ہونا ملحوظ تھا،(ایسی حالت میں اس کا میدان میں کام آنا ناکام رہنا ہے)
16
گر بهرِ خونریزی گشتے شهیدکافرِ کُشتہ بُدی هم بُو سعید
ترجمہ: اگر (ہر شخص) ہر (قسم کی مخلصانہ و خودغرضانہ) خونریزی سے شہید ہو سکتا تو کافر مقتول بھی ابو سعید (کا ہم رتبہ) ہوتا (یا اہلِ سعادت ہوتا)
مطلب: مقتولِ شہید اور مقتولِ بدر میں یہی تو فرق ہے کہ وہاں رضائے الہٰی مقصود ہے اور یہاں غرضِ نفسانی وہاں خلوص ہے اور یہاں غرضمندی، ورنہ صرف مقتول ہونا ہر کافر کو بھی سعادت دلا سکتا۔ ابو سعید میں ابو یا تو زائد ہے۔ جیسے مولانا نے مسیلمہ کے لیے کئی جگہ مسیلم کا اطلاق کیا ہے۔ یا اس سے حضرت ابو سعید ابو الخیر رحمہ اللہ مراد ہیں جو اکابر اولیا سے تھے۔ اسی لیے ہم نے ابو سعید کا ترجمہ دو طرح دکھایا ہے۔
مولانا کی مراد یہ ہے کہ شہادت کا درجہ عالیہ صرف فنائے جسم سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس کے لیے فنائے نفس ضروری ہے۔ خواہ میدانِ جنگ میں ہو یا مصلائے عبادت پر میدانِ جنگ میں مرنے اور شہید نہ ہونے کی مثال کافر مقتول کی شکل میں پیش کی جائے گی اب میدانِ جنگ سے سلامت واپس آنے اور پھر شہادت کے درجہ پر فائز ہونے کی مثال ارشاد فرماتے ہیں:۔
17
اے بسا نفسِ شهیدِ معتمدمردہ، در دُنیا چو زندہ می رود
ترجمہ: ارے بہتیرے نفس شہید قابلِ اعتماد ہیں جو مر چکے ہیں (اور) دنیا میں زندہ کی طرح چل (پھر) رہے ہیں (در دنیا میرود سے متعلق ہے نہ کہ مردہ سے)
مطلب: یہ مضمون اس حدیث سے ماخوذ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ﴿مَن اَرَادَ اَن یَّنظُرَ اِلٰی مَیّت یَّمشِی عَلیٰ وَجہ اِلاَرضَ فَلیَنظُر اِلیٰ اِبنِ اَبِی قَحَافۃً﴾ "یعنی جو شخص چاہے کہ ایسے مردہ کو دیکھے جو روئے زمین پر چل پھر رہا ہے تو چاہیے کہ ابن ابو قحافہ (یعنی ابوبکر) رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے" (حاشیہ نسخہ قلمی) چنانچہ ان کی کیا حالت ہے؟
18
نفسِ رهزن مُرد و تن کہ تیغِ اوستهست باقی در کفِ آن غزو جوست
ترجمہ: ڈاکو نفس مر چکا اور جسم جو اس کی تلوار ہے، جو جویائے جہاد کے ہاتھ میں باقی ہے۔
19
تیغِ آن تیغ است، مرداں مرد نیستلیک آن صورت ترا حیران کنی ست
ترجمہ: تلوار تو (بےشک) وہی تلوار ہے مگر وہ (سابق) مرد نہیں لیکن اس کی وہ صورت تو تم کو حیران کرتی ہے (جسم وہی ہے مگر نفس وہ نہیں جو پہلے حال سے بدل چکا ہے۔ مگر تم کو اس کی ظاہری حالت دھوکا دے رہی ہے تم کہتے ہو یہ تو وہی ہے)
20
نفس چون مُبَدل شود این تیغ تنباشد اندر دستِ صنعِ ذوالمنن
ترجمہ: نفس جب بدل جاتا ہے تو یہ جسم کی تلوار (خداوند) صاحبِ احسانات کے دستِ قدرت میں ہوتی ہے (وہ اس سے جو چاہتا ہے کام لیتا ہے۔ نفس اس سے کوئی کام نہیں لے سکتا۔ یعنی اس کا ہر فعل بوجہ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے۔ نفس کے لیے نہیں ہوتا)
21
آن یکے مردی ست قُوتش جملہ درداین دگر مردی میان تی همچو گرد
ترجمہ: ایک تو وہ مرد (حق) ہے جس کی غذا سراپا درد ہے (اور ایک) یہ دوسرا مرد (نفس) ہے جس کی کمر (سچی ہمت کے کمربند سے) غبار کی طرح خالی ہے۔
مطلب: مردانِ حق اگرچہ بظاہر ضعیف و نحیف اور غریب و بے چارہ نظر آتے ہیں۔ مگر ان کی ہمت ساتوں آسمانوں کو طے کر جانے کا دم رکھتی ہے۔ صائبؒ ٗ
گرچه در ظاهر بزیر دست و پا افتادہ اندبگذرند از نہ فلک چون رخش همت زین کنند
بخلاف اس کے مردانِ نفس پرست اگرچہ بظاہر کتنے ہی تیغ زن اور بہادر ہوں مگر نفس کے آگے ہر وقت مغلوب ہیں۔ گرد و غبار جب اٹھتا ہے تو اس کی سربلندی سبقت لے جاتی ہے مگر اس کی کمرِ ہمت مضبوط نہیں۔ یہی مثال ان مردان نفس کی ہے۔
اوپر بیان کیا تھا کہ جو زندہ نفس مقتول ہو وہ شہید نہیں بخلاف اس کے نفس کش شہید ہو گئے اگرچہ وہ زندہ ہوں۔ یہاں اسی کو مرد حق کہا ہے نفس اس پر ہر گز غالب نہیں آ سکتا اس کا وجود خدا کے ہاتھ میں ہے۔
بعض نسخوں میں دوسرا مصرعہ یوں درج ہے۔ "واں دگر مردے تہی جاں ہمچو گرد" نسخہ صاف ہے۔ مگر مندرجہ نسخہ کی نقل زیادہ معتبر ہے۔ آگے اسی مناسبت سے ایک پہلوان کا قصہ مذکور ہے جو اگرچہ شجاعت میں تمام پہلوانوں سے یکتا تھا چنانچہ اس کی شجاعت کا ایک واقعہ ایسا بیان ہوگا جس کی نظیر عنقا ہے مگر وہ نفسِ امارہ کے آگے ایک لمحہ میں مغلوب ہو گیا۔