دفتر پنجم: حکایت: 173
حکایتِ مجاهدی دیگر و جان بازیِ او در غزا
ایک اور مجاہد (صوفی) کی کہانی اور جہاد میں اس کی جانبازی۔
1
صوفئی دیگر میانِ صفِّ حرباندر آمد بیست بار از بهرِ ضرب
ترجمہ: ایک اور صوفی صفِ جنگ میں کئی بار وار کرنے کے لیے آیا۔
2
زخم خورد وبَست زخمی را که خوردبارِ دیگر حملہ آورد و نبرد
ترجمہ: اس نے زخم کھایا اور جو زخم کھایا اس کو باندھ لیا (پھر) دوبارہ حملہ آور ہو کر جنگ کرنے لگا۔ (بعض نسخوں میں پہلا مصرعہ یوں درج ہے) "بیست زخم از دستِ کافر چونکہ خورد" اس نسخہ میں کئی نقص ہیں زخم بستن کی جو مصلحت آگے مذکور ہو گی یہ اس کے ذکر سے خالی ہے۔ بیست، بیس زخم لگاتار کھا کر پھر حملے کی سوجھنا کس قدر بے ہودہ بات ہے حالانکہ ہر وار کے جواب میں وار کرنا دستورِ شجاعت ہے۔
3
تا نمیرد تن به یک زخم از گزافبا خورد او بیست زخم اندر مصاف
ترجمہ: (وہ ہر زخم کو اس لیے باندھ لیتا تھا) تاکہ جسم لڑائی میں ایک ہی زخم سے ناحق نہ مارا جائے، حتی کہ اس نے میدان جنگ میں بیس زخم کھائے۔
4
با مسلمانان بکافر وقتِ کرّوا نگشت او با مسلماناں بفرّ
ترجمہ: وہ کافروں پر حملہ کرتے وقت مسلمانوں کے ساتھ (شامل ہوتا تھا اور) پسپا ہونے میں مسلمانوں کے ساتھ واپس نہ آتا تھا (بلکہ دشمن کی صف کے اندر مرنے مارنے میں ہی مصروف رہتا)
5
حیفش آمد کاو بزخمی جان دهدجان زدستِ صدق او آسان رهد
ترجمہ: اس کو دریغ آیا کہ ایک ہی زخم سے جان دیدے (اور) جان اس کے صدق کے ہاتھ سے بآسانی چھوٹ جائے۔
مطلب: اس صوفی کے زخم باندھنے سے یہ مقصود نہ تھا کہ وہ زخم کے درد سے تنگ آ کر اس کی شفا چاہتا تھا یا اسے موت کے خوف سے اپنی زندگی کو محفوظ رکھنا مدِنظر تھا بلکہ جس جان کی سلامتی سے جہاد کی اصلیت اور راہِ خدا میں برداشت اذیت کا سلسلہ طویل پاتا ہے اس کا جلدی نکل جانا اسے منظور نہ تھا اور ساتھ ہی وہ نفس کو جلدی نجات دلانا بھی پسند نہیں کرتا تھا، بلکہ چاہتا تھا کہ وہ اچھی طرح دیر میں تڑپ تڑپ کر نکلے۔
اس تائید میں ایک اور حکایت ارشاد ہے:۔