دفتر 5 حکایت 172: حضرت عیاض رحمۃ اللہ علیہ کی کہانی جو ستر مرتبہ جہاد میں گے۔ شہادت کی امید میں اور جب جہاد اصغر سے جہاد اکبر میں مشغول ہو گیے اور خلوت اختیار کی تو انہوں نے غازیوں کے نقارہ کی آواز سنی، نفس ان کو مجبور کرنے لگا تو جہاد کے لیے انہوں نے اپنے نفس کو اس دعوت میں ملزم ٹھہرایا

دفتر پنجم: حکایت: 172


حکایت عیاضی رحمه الله تعالی که هفتاد با بغزو رفته بود و غزا ها کرده به امید شهید شدن چون از جهاد اصغر به جهاد اکبر شتافت و خلوت گزید آواز طبل غازیان شنید نفس او را رنجه داشتی جهت غزا کردن و او نفس را این دعوت متهم مینمود

حضرت عیاض رحمۃ اللہ علیہ کی کہانی جو ستر مرتبہ جہاد میں گے۔ شہادت کی امید میں اور جب جہاد اصغر سے جہاد اکبر میں مشغول ہو گیے اور خلوت اختیار کی تو انہوں نے غازیوں کے نقارہ کی آواز سنی، نفس ان کو مجبور کرنے لگا تو جہاد کے لیے انہوں نے اپنے نفس کو اس دعوت میں ملزم ٹھہرایا۔


1

گفت عیّاضی نَود بار آمدم تن برهنه خویش بر صفها  زدم 

ترجمہ: حضرت عیاض نے کہا میں نوے مرتبہ جنگ میں برہنہ تن سائل ہوا تاکہ مجھے زخم لگے۔ (عنوان میں ستر بار شریک جہاد ہونے کا ذکر ہے، یہاں نوے بار فرمایا: ممکن ہے جنگی مہمات کی تعداد ستر ہو پھر ایک ایک مہم میں کئی مرتبہ وقفہ کے ساتھ شریکِ جنگ ہونے کا اتفاق ہوا اور اس طرح نوے بار شریکِ جنگ ہونا بھی صحیح ہو سکتا ہے)


2

بی زرہ رفتم میانِ تیغ و تیر تا یکی  تیری خورم من جایگیر

ترجمہ: میں تلوار اور تیر (کی بارش) میں بے زرہ رہ گیا تاکہ کوئی موثر تیر کھاؤں۔


3

تیر خوردن بر گلو   یا مقتلی در نیابد جز شهید مُقبلی 

ترجمہ: گلے پر (سر و سینہ وغیرہ) قتل کے مقام پر زخم کھانے کا موقع سوائے شہیدِ مقبول کے کوئی نہیں ملتا۔


4

در تنم یک جایگہ بی زخم نیست این تنم از تیر چون پرویز نیست

ترجمہ: میرے بدن میں ایک جگہ بھی زخم سے نہیں بچی۔ میرا یہ بدن تیر (کے زخم) سے چھلنی کے مانند ہے۔

5

لیک بر مقتل نیامد تیرها کار بخت است این نه جلدیّ و دها

ترجمہ: لیکن (سروسینہ وغیرہ) قتل گاہ پر تیر نہیں لگے، یہ نصیب کا کام ہے نہ کہ بہادری اور ہوشیاری کا-


6

چون شهادت روزیِ جانم نبود رفتم اندر خلوت و در چله زود

ترجمہ: جب شہید ہونا میری جان کی قسمت میں نہ تھا (اس لیے) میں جلدی خلوت اور چلہ میں چلا گیا۔


7

در جهاد اکبر افگندم بدن در ریاضت کردن و لاغر شدن

ترجمہ: میں نے (اپنا) بدن جہاد اکبر میں (یعنی) ریاضت کرنے اور لاغر ہونے میں ڈال دیا۔

8

بانگِ طبلِ غازیاں آمد بگوش که خرامیدند جیشِ غزو کوش

ترجمہ: (ایک دن) غازیوں  کے نقارہ کی آوازکان میں آئی (اور معلوم ہوا) کہ جہاد کی (طرف) سعی کرنے والا لشکر چڑھائی کر رہا ہے۔


9

نفس از باطن مرا آواز داد کہ به بگوشِ حس رسیدم بامداد


10

خیز هنگامِ غزا آمد برو خویش را در غزو کردن کن گرو

ترجمہ: میرے نفس نے مجھے اندر سے آواز دی جو میرے (ظاہری) حس کے کان میں صبح کے وقت پہنچی کہ اُٹھ جہاد کا وقت آ گیا، جا اپنے آپ کو جہاد پر وقف کر دے۔ 

11

گفتم ای نفس  خبیثِ بی وفا از کجا میلِ غزا  تو از کجا

ترجمہ: میں نے کہا اے نفسِ خبیث بے وفا تجھ سے جہاد کی خواہش کہاں (ممکن تھی) کہاں؟


12

راست گو ای نفس کین حیلت گری ست ورنہ نفسِ شهوت از طاعت بریست

ترجمہ: سچ بتا اے نفس کیونکہ یہ (تیری کوئی) حیلہ گری ہے ورنہ نفسِ امارہ تو طاعت سے بیزار (ہوتا) ہے۔ (یعنی جہاد وغیرہ طاعات سے تو نفس بیزار ہوتا ہے، اس ترغیب میں ضرور کوئی فریب مضمر ہے، سچ بتاؤ وہ فریب کیا ہے)

13

گر نگوی راست حمله آرمت در ریاضت سخت تر افشارمت

ترجمہ: اور اگر تو سچ نہیں بتائے گا تو میں تجھ پر حملہ کروں گا (اور) تجھ کو ریاضت میں سخت دباؤں گا۔


14

نفس بانگ آورد  آن دم از درون با فصاحت بی دهان اندر فسون

ترجمہ: اس وقت نفس اندر سے پکارا منہ کے بدون فصاحت کے ساتھ، جادو (بھری تقریر) میں۔


15

که  مرا هر روز اینجا می  کشی جانِ من چون جانِ گبران می کشی

ترجمہ: کہ تو مجھے ہر روز یہاں (چلہ و خلوت میں) کھینچتا ہے، میری جان کو کافروں کی جان کی طرح ہلاک کرتا ہے۔

16

هیچ کس را نیست از حالم خبر که مرا تو می کشی بی خواب و خور

ترجمہ: کسی کو میری حالت سے خبر نہیں کہ تو مجھے سونے اور کھانے سے محروم رکھ کر ہلاک کر رہا ہے۔


17

در غزا بجهم به یک زخم از بدن خلق بیند مردی و ایثارِ من

ترجمہ: میں جہاد میں ایک ہی زخم کے ساتھ بدن سے نکل جاؤں گا اور مخلوق میری مردانگی اور قربانی دیکھے گی۔

مطلب: نفسِ پلید ہمیشہ لذت کا خواہاں ہوتا ہے۔ یہاں جو اس نے دو باتوں کی آرزو کی ہے یعنی ایک تو روز روز کی ریاضت سے نجات پانا، دوسرا اپنی مردمی کو منظرِ عام پر لانا دونوں میں لذت مطلوب ہے۔ پہلی میں لذتِ راحت دوسری میں لذتِ شہرت۔

18

گفتم ای نفسک  چون منافق زیستی  هم منافق می مری، تو چیستی

ترجمہ: میں نے کہا اے کتے! جب تو زندگی بھر منافق رہا، (تو اب) بھی منافق (ہو کر) مرتا ہے۔ تو کیا (بلا) ہے۔ 

مطلب: منافق وہ ہوتا ہے جس کے باطن میں کچھ ہو اور ظاہر کچھ کرے۔ چونکہ نفس کا مقصد اس مشورے سے محض حصولِ لذت تھا اور بظاہر وہ ترغیبِ طاعت کر رہا ہے۔اس لیے اس کو منافق کہا۔ مے مری بکسرہ میم مے میری کا مخفف ہے فعل حال ہے مردن سے۔


19

خوار و خود رو و مُرائی بودہ ای در دو عالم این چنین بیهوده ای

ترجمہ: تو ہمیشہ ذلیل، آوارہ اور ریاکار رہا ہے، دونوں جہانوں میں تو ایسا ہی بے ھودہ ہے۔ 

20

نذر کردم کہ ز خلوت هیچ من سر بروم نارم چو زندہ ست این بدن

ترجمہ: میں نے نذر مان لی کہ جب تک یہ بدن زندہ ہے خلوت سے باہر نہیں نکلوں گا۔


21

زانکه در خلوت هر آنچه تن کند نز برای روی مرد و زن کند

ترجمہ: اس لیے کہ جسم جو کچھ خلوت میں کرتا ہے۔ وہ مرد و زن کے لحاظ (یعنی عوام کو دکھانے) کے لیے نہیں (بلکہ خداوند تعالیٰ کی اطاعت بجا لانے کے لیے) کرتا ہے۔


22

جنبش و آرامش اندر خلوتش جز برای حق نباشد نیتش

ترجمہ: اس کی خلوت کے اندر ہر حرکت و سکون کی نیت سوائے خدا کے اور کسی کے لیے نہیں ہوتی۔


23

این جهادِ اکبر است آن اصغر است هر دو کارِ رُستم ست و حیدر ست

ترجمہ: یہ جہادِ اکبر ہے اور وہ (جہادِ) اصغر ہے۔ دونوں رستم (بن زال) اور حیدر (کرار) رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سے (بہادروں) کے کام ہیں۔ (رستم کا ذکر بہادری و شجاعت کے لحاظ سے آ گیا، نہ کہ دین و مذہب کے لحاظ سے، کیونکہ وہ آتش پرست تھا)


24

کارِ آن کس نیست کاو را عقل و هوش    پَرّد از تن چون کند موشی خروش 

ترجمہ: یہ دھن اور جوش اس شخص کا کام نہیں جو ایک چوہے اور اس کی حرکت سے حواس باختہ ہو گیا۔


25

آنچناں کس را بباید چون زنان دُور بُودن از مصاف و از سناں

ترجمہ: ایسے آدمی کو عورتوں کی طرح جنگ اور نیزے سے دور رہنا چاہیے۔


26

صوفئی آن، صوفئی این اینت حیف آن ز سوزن مردہ، این را طعمه سیف

ترجمہ: ایک صوفی وہ (تھا اور) ایک صوفی یہ (ہے) کتنا اندھیر ہے۔ وہ سوئی سے مر گیا (اور) یہ تلوار کو کھا جائے۔


27

نقشِ صوفی باشد او را   نیست   جان صوفیاں بَدنام هم زین صوفیان

ترجمہ: وہ صوفی کی ایک تصویر ہے جس میں جان نہیں۔ ان (نام کے) صوفیوں سے (اچھے) صوفی بھی بدنام (ہو گئے)


28

بر در و دیوارِ جسم گِل سرشت حق ز غیرت نقشِ صد صوفی نوشت

ترجمہ: (ان نام نہاد صوفیوں کی حقیقت بس اسی قدر ہے کہ) حق تعالیٰ نے غیرت سے اس مٹی کے بنے ہوئے جسم کے در و دیوار پر سینکڑوں صوفیوں کی صورتیں منقش کر دی۔

مطلب: یعنی یہ بدنام صوفی محض صورت کے صوفی ہیں، سیرت کے صوفی نہیں۔ حق تعالیٰ کو غیرت اس بات پر آئی کہ حقیقی اور سچے صوفیوں کی حقانیت کا سکہ لوگوں کے دلوں پر بیٹھ گیا تھا جس سے لوگ خدا کو بھلا کر ان صوفیوں کو معبود سمجھنے لگے تھے اس لیے حق تعالیٰ نے چاہا کہ نام نہاد صوفیوں کے ذریعہ اس ساری جماعت کی وقعت کم کر دی جائے۔ 

چنانچہ:۔

29

تا زِ سحر آن نقشها جنبان شود تا عصای موسوی پنهان شود

ترجمہ: (یہ صورت کے صوفی پیدا کئے گئے) تاکہ وہ صورتیں (بناوٹ اور فریب کے) جادو سے حرکت کریں تو (سچے صوفیوں کا) عصائے موسوی دب جائے (اس مقتضائے غیرت کے پورا ہونے کے بعد آخر حق کی فتح ہونی لازم تھی۔

 لہٰذا


30

نقشها را میخورد صدقِ عصا چشم فرعون است پُر گَرد و حصا

ترجمہ: (انجامِ کار) عصائے (موسیٰ علیہ السلام) کی حقانیت ان صورتوں کو کھا جاتی ہے۔ (اور) فرعون کی آنکھ گرد اور کنکریوں سے پُر ہو جاتی ہے۔